زلزلے کیوں آتے ہیں؟ سائنس کی نظر میں

    مرتب کنندہ:  سید آصف جلال      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     ماخذ: روزنامہ دنیا ڈات کام
    زلزلہ فطرت کے سب سے خوفناک مظاہر میں سے ایک ہے۔ جس زمین کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چٹان کی طرح سخت اور مکمل طور پر مستحکم ہے اچانک زلزلے سے لرزنے لگتی ہے
    اوراکثر اس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ہمارے سارے تصورات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سائنس دان زلزلوں کے بارے میں صرف قیاس آرائی ہی کر سکتے تھے کہ ان کی وجوہات کیا ہیں، حتیٰ کہ آج بھی اس میں کچھ اسرار پائے جاتے ہیں لیکن اب سائنس دان قدرت کے اس خوفناک مظہر کی ماہیت
    کے بارے میں گہری سمجھ حاصل کر چکے ہیں۔گزشتہ صدی میں اس حوالے سے کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ سائنس دان ان قوتوں کو شناخت کرچکے ہیں جو زلزلوں کا باعث بنتی ہیں اور ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جا چکی ہے جس سے زلزلے کی شدت ، نوعیت اور اصل کا پتہ چلایا جا سکتا ہے اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جا ئے جس سے زلزلے کے بارے میں پیشگی علم ہوسکے تاکہ اچانک اور چپکے سے پڑنے والی اس افتاد کے بارے میں لوگوں کو بروقت آگاہ کیا جا سکے۔ زلزلے کی وجہ کوئی بھی رہی ہو یہ ایک ایسی تھرتھراہٹ ہے جو زمین کی تہہ کے ساتھ چلتی ہے۔ تیکنیکی اعتبار سے اگر ایک بھاری بھرکم ٹرک آپ کی گلی سے گزرے تو اس سے پیدا ہونے والی معمولی تھرتھراہٹ، جس کے اثرات گھر کے درودیوار پر بھی محسوس ہوتے ہیں، زلزلہ ہی کہلائے گی لیکن معنوی اعتبار سے ہم اس تھرتھراہٹ کو زلزلہ کہتے ہیں جو ایک وسیع رقبے پر اثر انداز ہوتی ہے۔آتش فشاں پھٹنے، آسمان سے گرنے والے کسی بڑے شہابیے کے زمین سے ٹکرانے، زیر زمین دھماکے، مثلاً نیوکلیئر ٹیسٹ وغیرہ اور کسی بڑے تعمیراتی ڈھانچے جیسے کانوں وغیرہ کے انہدام سے زلزلہ پیدا ہو سکتا ہے لیکن فطری طور پر وقوع پذیر ہونے والے زلزلوں کی اکثریت کا سبب زمین کی پلیٹوں کی موومنٹ ہے۔ خبروں میں ہمیں کسی کسی زلزلے کا ذکر سننے کو ملتا ہے لیکن اصل میں ہمارے اس کرہ ارض پر روزانہ زلزلے آتے ہیں۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے‘‘ کے مطابق زمین پر ہر سال لگ بھگ تیس لاکھ زلزلے آتے ہیں، یعنی ہر روز تقریباً آٹھ ہزار، اور ہر گیارہ سیکنڈ کے بعد ایک زلزلہ آتا ہے۔ان تیس لاکھ زلزلوں میں سے اکثر بالکل کمزور ہوتے ہیں، تاہم خطرناک زلزلوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے لیکن ان میں سے بھی اکثر زلزلے غیر آباد حصوں میں آتے ہیں جہاں انہیں محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ گنجان آبادیوں میں آنے والے زلزلے ہی دراصل ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں کسی طور پر بھی فطرت کی انتقامی کاروائی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ برس ہا برس سے زلزلوں کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوتا آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سو سال میں پندرہ لاکھ سے بھی زیادہ زلزلے ایسے تھے جنہوں نے انسانی بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اورانسانی زندگیوں کا خراج حاصل کیا ۔
    اصل میں زمین کے کپکپانے سے انسانی جانوں کو خطرہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی کپکپاہٹ سے شروع ہونے والی دیگر قدرتی آفات، جیسے سونامیز، لینڈ سلائیڈز وغیرہ اور انسان کی اپنی ہی بنائی ہوئی عمارتوں کے منہدم ہونے سے انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے۔ زلزلوں کے مطالعے یا سائزمولوجی (Seismology) کی تاریخ میں سب سے اہم سائنسی پیش رفت بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی جب پلیٹ ٹیکٹونکس (Plate Tectonics) کی تھیوری سامنے آئی۔ سائنس دانوں نے زمین پر پائے جانے والے کئی غیر معمولی قدرتی مظاہر، جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ براعظموں کی موومنٹ، زمین کے بعض حصوں میں پائے جانے والے آتش فشانوں اورسمندروں کی تہہ میں موجود بڑی بڑی سلوٹوں، کی وضاحت کے لئے پلیٹ ٹیکٹونکس کا تصور ہی تجویز کیا۔ بنیادی طور پر اس تھیوری کے مطابق زمین کی بالائی سطح جسے لتھوسفیئر (Lithosphere) کہتے ہیں، کئی پلیٹس پر مشتمل ہے جو ایک چکنی تہہ کے اوپرتیر رہی ہیں جسے ایتھنوسفیئر (Athenosphere) کہتے ہیں۔


    ان بڑی پلیٹوں کی بائونڈریز کے مابین مٹی اور چٹانوں کے ساتھ تین مختلف طرح کے کام ہوتے ہیں۔ -1 پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہٹتی ہیں: اگر دو پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہوں تو لتھوسفیئر کے نیچے مینٹل کی تہوں سے گرم اور پگھلا ہوا چٹانی مادہ میگما (Magma) باہر نکل آتاہے، اور یہ اکثر سمندروں کی تہہ میں دیکھنے کو ملتا ہے اسے عرف عام میں لاوا (Lava) کہتے ہیں۔ جب لاوا ٹھنڈا ہوتا ہے تو اس سے ایک نیا لتھوسفیئر میٹریل وجود میں آتا ہے جو پلیٹوں کے مابین دراڑوں کو بھر دیتا ہے۔ اسے Divergent Plate Boundary کہتے ہیں۔ -2 پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں: اگر دو پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب بڑھ رہی ہوں تو روایتی طور پر ایک پلیٹ دوسری کو نیچے کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ نیچے بیٹھنے والی (subducting) پلیٹ مینٹل کی نچلی تہوں میں ڈوب جاتی ہے جہاں یہ پگھل جاتی ہے۔ بعض بائونڈریوں پر جہاں دو پلیٹیں ملتی ہیں کوئی بھی پلیٹ دوسرے کے نیچے نہیں گھستی لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے پر قوت صرف کرتی رہتی ہیں جس سے پہاڑ وجود میں آتے ہیں۔ وہ لائنیں جہاں پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں Convergent Plate Boundaries کہلاتی ہیں۔ -3 پلیٹیں ایک دوسرے کے ساتھ سلائیڈ ہوتی ہیں: کئی دیگر بائونڈریوں پر پلیٹیں محض ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں متحرک ہوجاتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک پلیٹ کی موومنٹ شمال کی جانب ہے تو دوسری کی جنوب کی طرف ہوجاتی ہے۔ ان Transform Boundaries پر اگر پلیٹیں ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر مخالف سمتوں میں نہ جائیں تو سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ بھنچ جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں بائونڈری پر سخت تنائو پیدا ہوجاتا ہے۔ جہاں یہ پلیٹیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں وہاں آپ کو فالٹ (Faults) ملیں گے۔ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں زمین کی بالائی تہہ ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے اور ان جگہوں پر چٹانوں کے بلاک ایک دوسرے کی مخالف سمت میں متحرک ہوتے ہیں۔ ان فالٹ لائنوں کے اوپر زلزلے آنا معمول کی بات ہے اور کرہ ارض پر کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت ایسی جگہوں پر زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ 





    سائنس دان چار مختلف قسموں کے فالٹس کا پتہ چلا چکے ہیں۔ یہ تقسیم فالٹ کی سطح، زمین کے تودوں میں دراڑ پڑنے اور دو بلاکس کے متحرک ہونے کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ -1 نارمل فالٹ: اس قسم کی فالٹ میں فالٹ کی ہمواری تقریباً عمودی ہوتی ہے۔ ٹوٹے ہوئے چٹان کا وہ حصہ جو سطح سے بلند ہوتا ہے ’’ہینگنگ وال‘‘کہلاتا ہے، ہینگنگ وال چٹان کے نچلے حصے یعنی ’’فٹ وال‘‘کو نیچے کی طرف دھکیلتی ہے۔ فٹ وال بھی اسی طرح ہینگنگ وال کو اوپر کی جانب دھکیلتی ہے اور یہ ڈائیورجنٹ پلیٹ بائونڈری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ -2 ریورس (Reverse) فالٹ: اس قسم کی فالٹ میں بھی ہموار سطح تقریباً عمودی ہوتی ہے لیکن نارمل فالٹ کے برعکس اس میں ہینگنگ وال اوپر کی جانب جبکہ فٹ وال نیچے کی جانب دھکیل رہی ہوتی ہے۔ اس قسم کی فالٹ وہاں پر بنتی ہے جہاں پلیٹ کمپریس ہو رہی ہو۔ -3تھرسٹ (Thrust) فالٹ: یہ بھی ریورس فالٹ کی طرح موو کرتی ہے لیکن فالٹ لائن تقریباً افقی ہوتی ہے۔ ان فالٹس میں، جو کہ کمپریشن کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہیں، ہینگنگ وال کی چٹان دراصل فٹ وال کے اوپر چڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کی فالٹس کنورجنگ پلیٹ بائونڈری میں پائی جاتی ہیں۔ -4 سٹرائیک سلپ (Strike-slip) فالٹ: اس قسم کی فالٹ میں چٹان کے دونوں حصے افقی انداز میں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ٹرانسفارم پلیٹ بائونڈری میں ہوتا ہے اس طرح کی فالٹس اس وقت بنتی ہیں جب بالائی تہہ کے دو حصے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سلائیڈ کرتے ہیں۔ ان تمام قسموں کی فالٹس میں قشر ارض کے مختلف بلاک بڑی سختی سے ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ ان کی حرکت سے زبردست مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ اگر تو مزاحمت کا درجہ بہت زیادہ بلند ہو تو دو بلاک ایک دوسرے کے ساتھ لاک ہوجاتے ہیں۔ دونوں کی مزاحمت انہیں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھسکنے نہیں دیتی۔ ایسی صورت میں پلیٹوں کی طاقت چٹان کو مسلسل دبائے جاتی ہے اور فالٹ پر پڑنے والے دبائو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر دبائو کا لیول بہت زیادہ بڑھ جائے تو یہ مزاحمت کی قوت پر حاوی ہوجاتا ہے اور بلاک اچانک آگے کی سمت چٹخ جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ جب ٹیکٹونک فورسز ایک دوسرے کے ساتھ لاک ہوجانے والے بلاکس کو دباتی ہے تو زبردست توانائی پیدا ہوتی ہے۔ جب بالآخر پلیٹیں حرکت کرنے لگتی ہیں تو ان کے اندر جمع ہونے والی توانائی حرکی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ بعض فالٹس کی وجہ سے زمین کی دکھائی دینے والی سطح پر بھی نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں جبکہ دیگر صورتوں میں تبدیلی زمین کے اندر پیدا ہوتی ہے اور باہری طور پر ٹوٹ پھوٹ کے کوئی نشانات دکھائی نہیں دیتے۔ ابتدائی ٹوٹ پھوٹ جس سے فالٹ بنتی ہے، کے ساتھ پہلے سے بنی فالٹس میں اچانک زبردست قسم کی تبدیلی زلزلوں کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ زیادہ تر زلزلے پلیٹس کی حدود کے قریب پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پلیٹوں کی موومنٹ سے پیدا ہونے والا دبائو زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی فالٹس سے ایک فالٹ زون وجود میں آتا ہے۔ ایک فالٹ زون میں جب ایک فالٹ سے حرکی توانائی کا اخراج ہوتا ہے تو اس سے قریبی فالٹ پر دبائو بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک اور زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی علاقے میں مختصر وقت کے اندر ایک کے بعد دوسرا زلزلہ آنے لگتا ہے۔ کبھی کبھار پلیٹوں کے وسط میں بھی زلزلے آتے ہیں۔ امریکہ میں ریکارڈ کی جانے والی زلزلوں کی ایک زبردست سیریز شمالی امریکہ کی براعظمی پلیٹ کے وسط میں پیدا ہوئی۔ 1811-12 ء میں جن زلزلوں نے امریکہ کی کئی ریاستوں کو ہلا کر رکھ دیا ان کا مرکز میزوری تھا۔ 1970ء کے عشرے میں سائنس دانوں کو اس زلزلے کی اصل وجہ کا علم ہوا، ساٹھ کروڑ سال پرانی فالٹ زون چٹانوں کی کئی تہوں کے نیچے دفن تھی۔اس سیریز کے زلزلوں میں سے ایک اتنا شدید تھا کہ اس کی تھرتھراہٹ سے بوسٹن کے چرچ کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ جب زمین کی بالائی سطح میں اچانک ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تو سائزمک (Seismic) لہروں کی صورت میں اس سے توانائی پیدا ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ساکن پانی کے تالاب میں کوئی چیز پھینکنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں جو بتدریج تالاب کے کناروں کی جانب بڑھتی ہیں۔ ہر زلزلے میں کئی مختلف طرح کی سائزمک ویوز ہوتی ہیں۔ باڈی ویوز (Body Waves) زمین کے اندرونی حصے میں جبکہ سرفیس ویوز (Surface Waves) زمین کی سطح پر موو کرتی ہیں۔ سرفیس ویوز کو بعض اوقات لانگ ویوز (Long Waves) بھی کہا جاتا ہے اور یہی دراصل زلزلوں سے جڑے نقصان کی ذمہ دار ہیں کیوں کہ ان کی وجہ سے شدید قسم کا ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ سطح پر پیدا ہونے والی یہ لہریں بھی باڈی ویوز ہی سے بنتی ہیں جو کہ زمین کی سطح تک پہنچ جاتی ہیں۔ باڈی ویوز کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ -1 پرائمری ویوز : انہیں P ویوز یا کمپریشنل ویوز بھی کہا جاتا ہے اور یہ 1 سے 5 میل یا 1.6 کلومیٹر سے 8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔ رفتار کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ لہریں کس طرح کے میٹریل سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ یہ رفتار دوسری لہروں کی رفتار سے زیادہ ہے لہٰذا سطح زمین کے کسی بھی حصے میں یہ لہریں سب سے پہلے آتی ہیں۔ یہ لہریں ٹھوس، مائع اور گیس میں سفر کر سکتی ہیں اور اسی طرح زمین کے کسی بھی حصے میں سفر جاری رکھ سکتی ہیں۔ جب یہ چٹانوں میں سے گزرتی ہیں تو چھوٹے چھوٹے چٹانی پارٹیکلز کو آگے پیچھے جھلاتی ہیں یعنی یہ لہر کے سفر کرنے کی سمت میں پہلے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور پھر واپس جڑ جاتے ہیں۔ -2 سیکنڈری ویوز: انہیں S ویوز یا Shear ویوز بھی کہا جاتا ہے اور یہ پرائمری لہروں سے تھوڑا پیچھے رہتی ہیں۔ گزرتے وقت یہ چٹانی پارٹیکلز کو اپنی جگہ سے ہٹا کر باہر کی جانب دھکیلتی ہیں اور یہ لہروں کے راستے کے ساتھ نوے درجے کے زاویے پر دبتے ہیں ۔ پرائمری لہروں کے برعکس سیکنڈری لہریں زمین میں سیدھی نہیں چلتیں۔ یہ صرف ٹھوس میڑیل سے گزر سکتی ہیں اور زمین کی سیال تہہ میں آنے کے بعد رک جاتی ہیں۔ سرفیس ویوز بعض اوقات پانی کی سطح پر پیدا ہونے والی لہروں کی طرح عمل کرتی ہیں۔ یہ زمین کی سطح کو اوپر نیچے جھلاتی ہیں۔ اس طرح کی لہریں عام طور پر بڑی تباہی کا سبب بنتی ہیں کیوں کہ لہروں کی حرکت سے انسان کے بنائے ہوئے ڈھانچوں کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور وہ منہدم ہوجاتی ہیں۔ یہ لہریں تمام دیگر لہروں سے سست رفتار ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکے عام طور پر اختتامی عرصے میں آتے ہیں۔
    رِکٹر سکیل سے کیا مراد ہے؟ زلزلے کی شدت کی اکائی کے لئے 1935ء میں امریکن سائزمولوجسٹ چارلس رِکٹر (Charles Richter) نے ایک پیمانہ تیار کیا جسے آج ہم انہی کے نام کی مناسبت سے رِکٹر سکیل کے نام سے پکارتے ہیں۔ رِکٹر کو کیلیفورنیا میں زلزلوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسا پیمانہ ہونا چاہیے جس سے زلزلے کی پیمائش کی جا سکے کیوں کہ تمام زلزلے ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے۔ کچھ کی شدت کم اور کچھ کی زیادہ ہوتی ہے ۔ آج رِکٹر سکیل زلزلوں کی پیمائش کے لئے معیاری پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوگرتھمک سکیل (Logarithmic Scale) ہے یعنی سکیل میں دئیے گئے نمبروں کی پیمائش 10 کے فیکٹر سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک زلزلہ جس کی شدت رِکٹر سکیل پر 4.0 ہوگی وہ اسی سکیل پر 3.0 کی پیمائش والے زلزلے سے دس گنا بڑا ہوگا۔ رِکٹر سکیل پر 2.0 سے کم کی شدت والے زلزلوں کو انسان محسوس نہیں کرتا اور انہیں مائیکروکوئیک (Microquake) کہتے ہیں۔ 6.0 سے نیچے کی شدت کے زلزلے درمیانے درجے میں شمار ہوتے ہیں جبکہ اس سے اوپر کی شدت کے زلزلے کافی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ آج تک زلزلے کی زیادہ سے زیادہ شدت 8.9 تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ رِکٹر نے اپنے سکیل کے لئے اس سکیل کو بنیاد بنایا جسے فلکیات دان ستاروں کی روشنی کی پیمائش کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ایک ستارے کی چمک کی بنیاد اس کی چمک کے دوربینی مشاہدات پر استوار ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ چمک کا فرق 10 کے کئی فیکٹرز سے بھی زیادہ ہوتا ہے، جیسے یہ کہنا کہ الفا سینٹوری سے پچاس ہزار گنا زیادہ روشن، اس لئے فلکیات دان ستاروں کی روشنی کی شدت کو کیلکولیٹ کرنے کے لئے لوگرتھم استعمال کرتے ہیں کیوں کہ سنگل ڈیجٹ کے نمبر کو یاد رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ رِکٹر نے زمین کی تھرتھراہٹ کی مقدار ماپنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جو کہ روشن اجرام فلکی کی چمک کو ماپنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ غور کریں تو دونوں ہی صورتوں میں قوت کو محسوس کرنا ایک تجریدی عمل ہے۔ ستاروں کی صورت میں بھی ان کے طبعی حجم کی پیمائش نہیں کی جاتی بلکہ ان سے خارج ہونے والی روشنی کی شدت کی پیمائش ہوتی ہے۔ اسی طرح زلزلے کی شدت سے بھی فالٹ کے طبعی سائز کی پیمائش نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے اس کی شدت ناپی جاتی ہے۔ رِکٹر سکیل کے رائج ہونے میں اس کی کئی اہم خصوصیات کا دخل ہے۔ مثلاً اس میں شدت کی پیمائش سنگل ڈیجٹ کے ساتھ کی جاتی ہے جسے یاد رکھنا آسان ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بھی بیان کر چکے ہیں کہ 2 سے کم شدت کے زلزلے محسوس نہیں ہوتے، 6 کی شدت کے زلزلے اوسط درجے میں شمار ہوتے ہیں جب کہ 9 کی شدت سے آنے والے زلزلے بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ زلزلے کی شدت کی پیمائش سائزمومیٹر کے ساتھ بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے فالٹ کے قریب ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ آج کے جدید سائزمومیٹر ایک ہی جگہ رہتے ہوئے دنیا میں کسی بھی جگہ 5 یا اس سے زیادہ شدت سے آنے والے زلزلے کو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ سائزمک ویوز کی تین قسمیں ہیں اور یہ مختلف رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ پی اور ایس لہروں کی درست ترین رفتار کا انحصار اس میٹریل کی کمپوزیشن پر ہوتا ہے جس کے اندر یہ سفر کرتی ہیں، تاہم کسی بھی طرح کے زلزلے میں ان دونوں طرح کی لہروں کے درمیان فرق کی شرح یکساں رہتی ہے۔ پی لہریں عام طور پر ایس لہروں کی نسبت 1.7 گنا زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں۔ اسی تناسب کو استعمال کرتے ہوئے سائنس دان زمین کی سطح کے کسی حصے سے زلزلے کے فوکس کا تعین کرتے ہیں۔ فوکس سے مراد وہ بریکنگ پوائنٹ ہے جہاں سے ارتعاش شروع ہوتا ہے۔ یہ کام سائزمو گراف (Seismograph) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ سائزموگراف ایک ایسی مشین ہے جو مختلف لہروں کو ریکارڈ کرتی ہے۔ سائزموگراف اور فوکس کا درمیانی فاصلہ ماپنے کے لئے سائنس دانوں کو تھرتھراہٹ آنے کا وقت بھی معلوم ہونا چاہیے۔ اس انفارمیشن کے ساتھ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ دونوں لہروں کی آمد کو کتنا وقت گزرا ہے اور پھر ایک خصوصی چارٹ سے مدد لیتے ہیں جو انہیں وہ فاصلہ بتاتا ہے جو اس التوا کی بنیاد پر لہروں نے طے کیا ہوتا ہے۔ اگر تین یا زیادہ جگہوں سے یہ معلومات اکٹھی کی جائیں تو ریاضی کے ایک عمل جسے ٹرائی لیٹریشن (Trilateration) کہتے ہیں، کی مدد سے فوکس کی درست ترین نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ زلزلوں سے بچائو کیسے ممکن ہے؟ آج ہم زلزلوں کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات رکھتے ہیں جتنی آج سے پچاس برس پہلے رکھتے تھے لیکن ہم آج بھی ان کے سامنے بری طرح بے بس ہیں۔ یہ ایک بنیادی اور طاقت ور ارضیاتی عمل کا نتیجہ ہیں جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ ابھی تک ان کے بارے میں درست ترین پیشین گوئی کرنے کی اہلیت بھی حاصل نہیں ہوسکی اس لئے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک یہ بتانا کہ کوئی زلزلہ کس وقت اور کتنی شدت سے (1) آئے گا، ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔سائزمک لہروں کے اولین شواہد سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کس قدر طاقت ور لہریں ہماری طرف بڑھ رہی ہیں لیکن یہ بھی زلزلے سے صرف چند منٹ پہلے معلوم ہوتا ہے ۔ سائنس دان زمین میں پلیٹس کی موومنٹ اور فالٹس زونز کی لوکیشنز کی بنیاد پر یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ کن علاقوں میں بڑے زلزلے آسکتے ہیں۔ یہ کب تک (کتنے برسوں میں) وقوع پذیر ہوں گے؟ کسی علاقے میں آنے والے زلزلوں کی تاریخ اور فالٹ لائنوں پر پڑنے والے دبائو کا کھوج لگا کر اس کا ایک عمومی سا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے لیکن اس طرح کی معلومات قابل انحصار نہیں ہوتیں۔ تاہم کئی عشروں کے مطالعہ سے سائنس دان کامیابی کے ساتھ آفٹر شاکس، یعنی ابتدائی زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکوں کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔ اور یہ پیشین گوئیاں بھی آفٹر شاکس کے پیٹرنز پر گہری تحقیق کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ماہرین ارضیات اب بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک فالٹ سے پیدا ہونے والا زلزلہ ملحقہ فالٹس میں اضافی زلزلوں کا سبب کیسے بنتا ہے۔ ایک اور پہلو جس کا مطالعہ کیا جا رہا ہے وہ چٹانی مواد اور زلزلوں میں پائے جانے والے مقناطیسی اور برقی بار کے مابین تعلق کی بنیاد پر استوار ہے۔ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے ان برقی مقناطیسی میدانوں میں مخصوص تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ زلزلہ دان زمین سے گیس کے رسنے اور سطح میں تبدیلی کا بھی مطالعہ زلزلوں کی انتباہی علامتوں کے طور پر کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی پوری صحت کے ساتھ زلزلے کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر زلزلوں سے بچائو کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟ گزشتہ پچاس برس کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے پاس زلزلوں کے خوفناک اثرات سے بچنے کے لئے مقدور بھر پیشگی تیاری ہی واحد راستہ ہے، خاص طور پر تعمیراتی انجینئرنگ کے ذریعے۔ 1973ء میں تعمیرات کے عالمی معیار، یونیفارم بلڈنگ کوڈ، میں سائزمک لہروں کی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے عمارتوں کو مضبوط بنانے کے متعلق تصریحات شامل کی گئیں۔ اس میں سپورٹ میٹریل کو مضبوط بنانا اور عمارتوں کی ڈیزائننگ شامل ہے تاکہ عمارتوں کو اتنا لچکدار بنایا جا سکے کہ وہ زلزلے کی تھرتھراہٹ کو اپنے اندر جذب کرسکیں۔ زلزلوں کے خلاف تیاری کا ایک دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے بارے میں آگہی دی جائے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس جیوگرافیکل سروے (USGS) اور کئی دیگر امریکی اداروں نے ایسے کئی بروشر تیار کئے ہیں جن سے زلزلوں کے عمل کی وضاحت ہوتی ہے اور ان میں عمارتوں کی تعمیرکے بارے میں ہدایات کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زلزلہ آنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ www.usgs.gov ویب ایڈریس کے ذریعے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
    ماخذ:
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment