ایک ۱۴ اگست اور گزر گیا‘

 ایک ۱۴ اگست اور گزر گیا
بس گزر گیا ’’یوم آزادی‘‘۔۔۔۔۔۔ اب بھول جاؤ کل (۱۴اگست )کے وعدوں کو اور لگو اپنے اپنے کام میں۔۔۔ جو کہ ہمارے معاشرے کا خاصہ ہیں سیاست دان۔۔۔ کرپشن میں،سرمایہ دار۔۔۔ غریب کے استحصال میں،تاجر۔۔۔ بے ایمانی سے نفع حاصل کرنے میں،بیوروکریٹ ۔۔۔ پس پردہ سازشوں میں اورعوا م جھوٹ ، دھوکہ دہی، نفسا نفسی، ایک دوسرے کے حقوق کو غضب کرنے، بھائی بھائی کو قتل کرنے میں ، دولت کی اندھی حوس کی تکمیل میں،اور اوراپنے کل کے کئے گئے وعدوں کو ایک کان سے ڈال کر نکال کے دوسرے کان سے لکالنے میں۔کیونکہ ہم تو ’’ایک آزاد قوم ‘‘ ہے۔ اور ایک آزاد زہن بلا کس کا غلام ہو سکتا ہے۔ ہم نفسانی خواہشات کے لئے سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس چیز کا حق ہے کہ کہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیں کیونکہ ہم آزاد ہے اور ایک آزاد فرد کے لیے کوئی قیود نہیں ہوتے۔۔ اپنے ذاتی افادیت کے لئے وہ چاہے تو فریب کرے جھوٹ بولے، بدعنوان ہو اس سے کسی کو کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟


لیکن ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہم کس قدر ذلیل قوم ہے۔۔ کیا کھبی سوچا ہے ہمارا اور آنے والی نسلوں کامستقبل کیاہے۔ کیا ہم ضمیر کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں؟کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم معاشرتی قدروں سے کس حد تک دور نکل گئے ہیں؟ کیاکبھی اس بات کا خیال دماغ میں آیا ہے ہم پاکستان کے شہری ہے؟ کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے حصول کا مقصد ایک معاشرے ، ایک ایسی قوم کا قیام تھا جو دنیا بھر میں اسلامی اقدار کی محافظ ہو؟ کب تک جھوٹ و فریب کے اس غلیظ دھندے میں اپنے آپ کو بے وقوف بناتے رہنگے۔ کب تک ہم غربت و افلاس کی چکی میں پستے رہنگے۔کل کے وعدے سب بھول گئے۔ کیا جذبات تھے وہ۔۔۔ ہم زندہ قوم ہے۔۔۔وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔۔یہ وطن ہمارا ہے، ہم کے پاسباں اس کے۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور کئی جذبات جن کا اظہار ہم کل چکے ہیں،
اکبر آلہ آبادیؔ ہی کے سن لیتے ۔۔ کیا فرماتے ہو وہ:
مسلمانوں تمھیں کیا ہو گیا اس کی خبر کچھ ہے
تمھارے کیا مدارج رہ گئے اس پر نظر کچھ ہے
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کر نا ہوگا قصووار ہم خود ہیں ۔۔۔ خطا اپنی ہی ہے۔۔۔ اس امر کو تسلیم کرنا ہو گا ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔۔۔؟؟
آئیے کیوں نہ ہم عہد وفا کا دامن تھامیں ، اور اپنی گزشتہ زندگی جو ہم نے وطن سے بے وفائی میں گزاری پر اللہ کے حضور معافی مانگیں، اور اپنے ملکِ پاکستان کی بقا اور اس روشن مستقبل کے لیئے اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہ ملک ہمارا گھر ہے، اور اس ملک کے باسی ہمارا خاندان ،ہمارا کنبہ، ہمارا رشتہ دار اور ہماری برادری ہے، کیاآپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر ایک کے گھرکے افراد ذاتی مفادات کے لئے باہم دست و گریباں ہو جائے تو کیا حال ہو گا ایسے کنبے ، خاندان کا۔۔۔ یقیناًذانی حوس اے تباہ و برباد کر دے گی۔چلیں مان لیا کہ سیاست دان کرپٹ ہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا ہم بھی بدعنوان ہے۔ اپنے معاشرے میں اردگرد نظر دھڑائے آپ کو ہر جگہ سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں کا عکس عوام کے ایک طبقے میں نظر آئیگا۔۔سیاست دانوں اور قومی لیڈرون کو گالیاں نہ دوں ، گالیاں دینی ہے تو اپنی ذات کو دوں۔ برا بھلا کہنا ہے توآئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو کہوں۔کیوں کہ خرابی ہمارے اندر ہے۔ اگر یہ معجزہ رونما ہو جائے اور ہمیں امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا، تو خوشخبری سن لوں کہ ہم ایک خودمختار ، خوشحال پاکستان کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں۔علامہ محمد اقبال ؔ کے ان اشعار کے ساتھ تحریر کو سمیٹونگا،
منفعت ایک ہے اس قوم کی ‘نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ہے، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی قرآن بھی اللہ بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں بنپنے کی یہی باتیں ہیں۔



گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ