تخلیق انسان کے مراحل اور قرآن

    تخلیق انسان کے مراحل اور قرآن                مرتب : سید آصف جلالؔ
    قران حکیم میں ایمان کی دعوت دیتے ہوئے بہت سے متنوع مو ضوعات کاذکر کیا گیا ہے۔کبھی آسمانوں ،کبھی جانوروں تو کبھی پودوں کے ذکر سے ا للہ نے انسان کو ثبوت فراہم کئے۔ بہت سی قرآنی سو رتوں میں لوگوں کو اپنی تخلیق کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ انہیںاکثر یہ یاددلاگیا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی پیدائش کیسے ہوئی وہ کن مراحل سے گزرااور اس کااصل جوہر کیا ہے:


    نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ ﴿﴾ اَفَرَئَ یْتُمْ مَا تُمْنُوْنَ ﴿﴾ ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ ﴿﴾
    ترجمہ:ہم نے تمہیں پیداکیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے ؟ کبھی تم نے غورکیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو،اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں ؟(سورۃالواقعہ:۵۷۔۵۹)

    فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿﴾ خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ ﴿﴾ یَّخْرُجُ مِنْم بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ ﴿﴾ اِنَّہٗ عَلٰی رَجْعِہٖ لَقَادِرٌ﴿﴾
    ترجمہ: اب دیکھ لے آدمی کہ کاہے سے بنا ہے، بنا ہے ایک اُچھلتے ہوئے پانی سے ،جو نکلتا ہے پیٹھ کے بیچ سے، اور چھاتی کے بیچ سے،بیشک وہ اُس کو پھیر لاسکتا ہے۔
    فائدہ: کہتے ہیں کہ مرد کی منی کا انصباب پیٹھ سے ہوتا ہے اور عورت کا سینے سے۔ علماء نے فرمایا کہ پیٹھ اور سینا تمام بدن سے کنایہ ہے، یعنی منی مرد کی ہو یا عورت کی تمام بدن میں پیدا ہوکر پھر جدا ہوتی ہے اور اُس کنایہ میں تخصیص صلب و ترائب کی شاید اس لئے ہو کہ حصولِ مادئہ منویہ میں اعضاء رئیسہ (قلب، دماغ، کبد)کو خاص دخل ہے، جن میں سے قلب و کبد کا تعلق و تلبس ترائب سے اور دماغ کا تعلق بواسطۂ نخاع (حرام مغز)کے صلب سے ظاہر ہے۔ واللہ اعلم

    یعنی اللہ پھیر لائے گا مرنے کے بعد ۔ حاصل یہ کہ نطفہ سے انسان بنادینا بنسبت دوبارہ بنانے کے زیادہ عجیب ہے، جب یہ امرِ عجیب اس کی قدرت سے واقع ہورہا ہے تو جائز نہیں کہ اُس سے کم عجیب چیز کے وقوع کا خواہ مخواہ انکار کیا جائے۔
    (تفسیر عثمانی، الطارق:۵۔۸، فائدہ:۳،۴۔ صفحہ:۷۸۷)


    تخلیق آدم اور اس کے معجزانہ پہلو کو بہت سی قرآنی سورتوں میں منکشف کیا گیا ۔ان سورتوں میں شامل معلومات کے کچھ ٹکڑے اس قدر مفصل ہیں کہ ساتویں صدی میں رہنے والے کسی انسان کے لئے انہیں جاننا ناممکن تھا۔ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
    ۱۔ انسان کو مکمل مادہ منویہ سے تخلیق نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ایک چھو ٹے حصے سے بیضہ کو گھرے ہوئے کرم منوی۔



    ۲۔ نو زائیدہ بچے کی جنس کا فیصلہ نر سے کیا جاتا ہے۔
    ۳۔ انسانی جنین رحم مادر میں جو نک کی مانند چمٹ جاتا ہے۔
    ۴۔ انسان رحم مادر کے اندر تین تا ریک حصوں میں نشو ونما پاتاہے۔
    وہ لو گ جو اس عہد میں زندہ تھے جب قرآن نازل ہوا ،یقینا وہ یہ جانتے تھے کہ تو لید کے لئے بنیادی مادہ نر کے مادہ منو یہ سے متعلق تھا جو جنسی اختلاط یا مباشرت کے وقت خا رج ہو تا ہے ۔ اوریہ حقیقت کہ بچہ نو ماہ کے عرصے کے بعد پیدا ہوتا ہے ایک ایسا واقعہ تھا جس میں مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہ تھی ۔مگر محو لہ با لامعلوت کے جو حصے تحر یر میں لاگئے اس عہد کے انسانو ں کی علمی سطح سے بالا تر تھے ۔ان کی دریافت۲۰ویںصدی کی جدید سائنس کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ آیئے اب ان کا ایک ایک کر کے جا ئزہ لیتے ہیں۔
    ما دہ منو یہ کا قطرہ
    مبا شرت کے دوران ایک نر بیک وقت ۲۵۰ ملین کرم منو ی خارج کر تا ہے۔ یہ تو لید ی ما دہ پانچ منٹ کا مشکل سفر ماںکے جسم میں طے کر کے بیضہ تک پہنچتاہے۔ ۲۵۰ملین میں سے صرف ایک ہزار کرم منو ی بیضے تک پہنچنے میں کامیا ب ہو تے ہیں۔اس بیضے کا سا ئز نضف نمک کے دانے کے برابر ہو تا ہے جس میں صرف ایک کرم منوی کو اندر آنے دیا جاتا ہے ۔گو یا انسان کا جو ہر پورا مادہ منویہ نہیں ہوتابلکہ اس کاصرف ایک چھوٹاسا حصہ جو ہر بنتاہے۔ قرآن حکیم میںاللہ رب العالمین نے اس کاذکراس طرح فرمایا:۔
    اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکُ سُدیً ﴿﴾ اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیِّ یُّمْنٰی ﴿﴾
    ترجمہ: کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یو نہی مہمل چھو ڑ دیا جائے گا ؟کیا وہ ایک حقیر پا نی کا نطفہ نہ تھا جو(رحم مادرمیں) ٹپکا یاجاتا ہے‘‘۔(سورۃالقیمۃ :۳۶،۳۷)
    جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ قرآن ہمیں بتا تاہے کہ انسان مکمل مادہ منو یہ سے نہیں بنایا جاتا بلکہ وہ تو اس کے ایک چھو ٹے حصے سے بنتا ہے ۔اس بیان میں جس حقیقت کا بطورخاص اعلان کیا گیا اسے جدید سا ئنس نے بہت دیر بعد دریا فت کیا ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بیا ن الٰہیاتی بیان ہے۔
    ما دہ منو یہ میں ایک آمیزہ
    وہ سیال مادہ جو مادہ منو یہ کہلا تا ہے اس میں صرف کرم تو لیدی ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے بر عکس یہ مختلف سیا ل مادوں کا آ میزہ ہوتا ہے ۔ان سیال مادوں کے اپنے اپنے کا م ہو تے ہیں مثلاًکرم تو لید ی کو توا نائی پہنچانے کے لئے ضرروی مقدار میں شکر کی مو جود گی ،رحم ما در کے مقام دخول پر تر شو ں کی تعدیل(Neutralising)اور کرم منو ی کی حر کت کو آسان بنا نے کے لئے پھسلن والا ماحول بنانا۔
    یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ مادہ منو یہ کا ذ کر جب قرآن میں کیا گیا تو جدید سا ئنس نے جو دریافت کی ہے اس کا بھی ذکر مو جود ہے ما دہ منو یہ کی تشریح ایک سیال آمیزہ کے طو ر پر بھی کی گئی ہے ۔۔:
    اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ﴿﴾ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿﴾
    ترجمہ: پڑھو(اے نبیؐ)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوے خون کے ایک لو تھڑے سے انسا ن کی تخلیق کی‘‘۔(العلق:۱،۲)
    ایک اور آیت میں مادہ منو یہ کو ایک بار پھر آمیزہ کہا گیا ہے اور اس بات پر زوردیا گیاہے کہ انسان اس آمیز ے کے ’ ’جوہر ‘‘سے تخلیق کیا گیا ہے:
    اَلَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْ ئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ﴿﴾ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ ﴿﴾
    ترجمہ: جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی ۔اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء گارے سے کی ،پھر اس کی نسل ایک ایسے ست(جوہر)سے چلائی جوحقیر پانی کی طرح کاہے۔
    (سورۃالسجدہ:۷،۸)
    عر بی زبان میں ’’سُلٰلَۃً ‘‘ کا ترجمہ ست یا جو ہر سے کیا گیا ہے ،جس کا مطلب ہے کسی شئے کا نہایت ضروری اور بہترین حصہ ۔ اس کا جو بھی مفہوم لیا جائے اس کے معنی ہیں ’’کسی کُل کا ایک جزو‘‘ ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قرآن اس ہستی کا کلام ہے جو انسان کی تخلیق سے متعلق باریک ترین تفصیلات اور جزئیات تک سے آگاہ ہے، یہی خالقِ بنی آدم ہے۔
    بچے کی جنس کا تعین
    ماضی قریب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچے کی جنس کا تعین نر اور مادہ دونوں کے جین سے ہوتا ہے ، لیکن بیسویں صدی میں جب جینیات اور خورد حیاتیات کے علوم نے ترقی کی تو یہ ثابت ہوا کہ اس سارے عمل میں مادہ کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔

    تخلیق انسانی کے مختلف مراھل
    لونیے(Chromosomes)میں سے صرف دو ایسے ہوتے ہیں جو انسانی جسم کی ساخت کا تعین کرتے ہیں، اور یہ جنس کے لونیے ہوتے ہیں، انہیں نر میں ’’ایکس وائی‘‘(XY) اور مادہ میں ’’ایکس ایکس‘‘ (XX) کہا جاتا ہے، اس لئے کہ ان کی شکل ان حروف سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔لونیہ ’’وائی‘‘ وہ ہے جو بطور خاص نر کے تمام جین اٹھاکرلے جاتا ہے۔ ایک شیر خوار بچے کی شکل و صورت دو لونیوں کے یکجا ہونے سے بننی شروع ہوجاتی ہے، ان میں سے ایک لونیہ باپ کا ہوتا ہے اور ایک ماں کا۔
    ایکس(X) لونیے ، ان کے تولیدی خلیے (Ova)اپنے اندر صرف ان کو رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس نر دونوں ایکس اور وائی لونیے رکھتے ہیں۔چنانچہ ان کے نصف تولیدی خلیے (Sperms) ایکس ہوں گے اور نصف وائی۔اگر ایک بیضہ کسی ایسے مادہ منویہ سے اتصال کرتا ہے جس میں ایکس لونیے ہوں تو اولاد مادہ پیدا ہوگی اور اگر یہ وائی لونیے والے مادہ منویہ سے اتصال کرتا ہے تو اولاد نر پیدا ہوگی۔
    دوسرے لفظوں میں ایک بچے کی جنس کا تعین (ایکس یا وائی) اُس وقت ہوتا ہے جب نر کے لونیے مادہ کے لونیوں سے اتصال کرتے ہیں ، اس میں سے بیسویں صدی کی جینیاتی دریافت تک کسی کو کچھ معلوم نہ تھا، بیشک کئی معاشروں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ماں کی صحت وغیرہ پر بچے کی جنس کے تعین کا انحصار تھا۔اسی وجہ سے جب بیٹیاں پیدا ہوتیں تو ماؤں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا تھا ، یہ قدیم عقیدہ اب بھی عام ہے ۔ تیرہ سو سال قبل جب جین ابھی دریافت نہ ہوئے تھے قرآن نے اس بارے میں جو معلومات مہیا کیں وہ اس کی تردید کرتی تھیں۔
    قرآن حکیم کی ایک سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ مادہ منویہ کے ایک قطرے سے بچے یا بچی کی تخلیق ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنس کا مأخذ عورت نہیں بلکہ مرد ہوتا ہے۔
    وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ﴿﴾ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی ﴿﴾
    ترجمہ: اور یہ کہ اُسی نے زندگی بخشی اور یہ کہ اُسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیاایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔
    (سورۃ النجم: ۴۵،۴۶)
    رحم مادر سے چمٹ جانے والا خون کا لوتھڑا
    جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ جب نر کا مادہ منویہ بیضے سے اتصال کرتا ہے تو پیدا ہونے بچے کا ’’جوہر‘‘ یا ’’ست‘‘ متشکل ہوتا ہے ، اس واحد خلیے کو حیاتیات میں ’’جفتہ‘‘ (Zygote) کہتے ہیں، جو تقسیم کے ذریعے عمل تولید شروع کردیتا ہے اور بالآخر ’’گوشت کا لوتھڑا ‘‘بن جاتا ہے، تاہم یہ جفتہ اپنی نشوونما کا عرصہ خالی مقام پر نہیں
    گزارتا ۔یہ ان جڑوں کی مانند رحم مادر سے چمٹ جاتا ہے، جو زمین کے ساتھ بیل نما تنو ں(Tendrils) کے ذریعے پیوست رہتی ہیں۔اس بندھن کے ذریعے یہ جفتہ ماں کے جسم سے وہ ضروری مادے حاصل کرسکتا ہے جن کی اس کو نشوونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کی تفصیل طب کے علم کے بغیر جاننا ممکن ہی نہ تھا۔ اور یہ بات عیاں ہے کہ ایسی معلومات چودہ سو سال قبل کسی بھی انسان کے پاس نہ تھی۔ کس قدر دلچسپ بات ہے یہ کہ اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم میں جفتے کی نشوونما کو رحم مادر میں ’’خون کا لوتھڑا‘‘ کہا ہے:
    اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ﴿﴾ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿﴾ اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ﴿﴾
    ترجمہ: پڑھو(اے نبیؐ)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوے خون کے ایک لو تھڑے سے انسا ن کی تخلیق کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔(العلق:۱۔۳)
    اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکُ سُدیً ﴿﴾ اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیِّ یُّمْنٰی ﴿﴾ ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی ﴿﴾ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ﴿﴾
    ترجمہ: کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یو نہی مہمل چھو ڑ دیا جائے گا ؟کیا وہ ایک حقیر پا نی کا نطفہ نہ تھا جو(رحم مادرمیں) ٹپکا یاجاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا ، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کئے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔(سورۃالقیمۃ :۳۶۔۳۹)
    لفظ ’’Clot‘‘ گوشت کے ٹکڑے کے عربی میں معنی ہیں ’’کوئی شے جو کسی اور سے چمٹ جائے‘‘۔ اس کے لفظی معنی ہیں جونکوں کا ایک جسم کے ساتھ خون چوسنے کے لئے چمٹ جانا۔ جفتے کی تشریح کے لئے اس سے بہتر لفظ اور کوئی نہ تھا، جو رحم مادر سے چمٹ جاتا ہے، اور اس میں سے اس کے مادے جذب کرلیتا ہے؛ قرآن میں جفتے کی تشریح کے لئے زیادہ باتیں منکشف کرنے کے لئے موجود ہیں۔
    رحم مادر سے پوری طرح چمٹ جانے کے بعد یہ جفتہ بالیدہ ہونے لگتا ہے ، اس دوران رحم مادر ایک سیال مادے سے بھر جاتا ہے جسے ’’غلاف جنین سیال مادہ‘‘ کہتے ہیں جو جفتے کو گھیر لیتا ہے۔ اس سیال مادے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے اور یہ باہر کی ہر ضرب یا چوٹ سے اُسے محفوظ رکھتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کو یوں منکشف کیا گیا ہے:
    اَلَمْ نَخْلُقْکُمْ مِنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ ﴿﴾ فَجَعَلْنٰہٗ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ﴿﴾
    ترجمہ: کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اور ایک مقررہ مدت تک اُسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا ۔
    (سورۃ المرسلت : ۲۰، ۲۱)
    انسان کے متشکل ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں دی گئی یہ ساری معلومات اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ صحیفہ آسمانی کسی ایسے منبع اور سرچشمہ سے آیا ہے جو اس کی شکل و صورت کے بننے کی چھوٹی سے چھوٹی جزئیات تک سے بھی واقف ہے۔
    یہ صورت حال ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ قرآن کلامِ الٰہی ہے، یہ بالکل ہی جاہلانہ بات ہوگی اگر کوئی یہ کہنے پر مُصر ہوکہ قرآن میں دی گئی ساری معلومات جو انسان کی پیدائش سے متعلق ہے اس کا درست ہونا ’’حُسنِ اتفاق یا کسی انطباق‘‘ کا نتیجہ ہے۔ قرآن میں چونکہ بہت سی تفصیل دیدی گئی ہے اور اس قسم کی تفصیلات کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس سچائی اور حقیقت کے ساتھ محض اتفاقاً مطابقت رکھتی ہوں۔
    قرآن میں دی گئی ہر بات سچ ہے، اس لئے کہ ہر قرآنی آیات اللہ کے کلام پر مشتمل ہے ، چونکہ اللہ نے انسان کو رحم مادر میں ایک شکل و صورت دے کر تخلیق کیا اس لئے اس سارے تخلیقی عمل کے بارے میں بتائے گئے بہترین الفاظ بھی اُسی خالقِ کائنات کے ہیں۔ اللہ رب العالمین ، جس نے ہم سب کو اُسی طریقے سے تخلیق کیا ،ہماری پیدائش اور آغاز زندگی کے بارے میں ایک اور صورت میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے:
    وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ﴿﴾ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ﴿﴾ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ﴿﴾
    ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر اُسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا ، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی۔ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اُسے ایک دوسرے ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔
    (سورۃ المؤمنون: ۱۲۔۱۴)
    محترم قارئین دین اسلام ڈاٹ کام:حکماء کا قول ہے کہ جو غذا انسان کھاتا ہے ، پہلے اس سے رس بنتا ہے۔رس سے خون، خون سے گوشت، گوشت سے چربی، چربی سے ہڈیاں اور ہڈیوں سے مغز تیار ہوکر کہیں ۲۶ دن کے بعد تخم انسانی(مادئہ منویہ) پیدا ہوتا ہے۔پس کون سی عقلمندی ہے کہ ایسے جوہرہفتہ آتشہ (مادئہ منویہ) کو جسے قدرت نے اتنی محنتوں سے تیار کیا ہو، ایک دم میں حفظ نفسانی (بے جا خواہشات، غیرمحل اوربے موقع لذت) کی خاطر ضائع کردیں۔
    ماں کے پیٹ میں بچہ کی کیفیت
    اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ط وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ ﴿﴾ [سورہ رعد:۸]
    اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، تمام جاندار مادائیں حیوان ہوں یا انسان ان کے پیٹ کے بچوں کا ،ان کے حمل کا خدا کو علم ہے۔ پیٹ میں کیا ہے؟ اُسے خدا بخوبی جانتا ہے، یعنی مرد ہے یا عورت؟ اچھا ہے یا بُرا ؟ نیک ہے یا بد؟ عمر والا ہے یا بے عمر کا؟
    چنانچہ ارشاد ہے ھو اعلم بکم الخ وہ بخوبی جانتا ہے جبکہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جبکہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو۔
    اور فرمان ہے یخلقکم فی بطون امھاتکم الخ وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے، ایک کے بعد دوسری پیدائش میں، تین تین اندھیریوں میں۔
    ارشاد ہے ولقد خلقناالانسان من سلالۃ الخ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، نطفے کو خون بستہ کیا ۔ خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کردیا۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا۔ پس بہترین خالق بابرکت ہے۔
    صحیحین کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ پھر اُتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کُل ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے:
    اس کا رزق ، عمراور نیک و بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اور حدیث میں ہے وہ پوچھتا ہے کہ خدایا ! مرد ہوگا یا عورت؟ شقی ہوگا یا سعید؟ روزی کیا ہے؟ عمر کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے۔
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم و خبیر کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ پیٹ کیا بڑھتے ہیں اور کیا گھٹتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔بارش کب برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں۔کون شخص کہاں مرے گا اُسے بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ پیٹ کیا گھٹاتے ہیں: اس سے مراد حمل کا ساقط ہوجانا ہے، اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے ؟ کیسے پورا ہورہا ہے یہ بھی اللہ ہی کو بخوبی علم رہتا ہے۔دیکھ لو کوئی عورت دس مہینہ لیتی ہے، کوئی نو مہینہ، کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے۔ نو ماہ سے گھٹنا اور نو ماہ سے بڑھ جانا اللہ ہی کے علم میں ہے۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ