ویٹی کن،ایک پراسرار دنیا

ویٹی کن۔۔۔۔ ایک پر اسرار دنیا
عالم اسلام کے بیشتر لوگ ویٹی کن کے بارے میں اس سے زیادہ کسی چیز سے واقف نہیں کہ یہ پاپائے روم کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں بیٹھ کر وہ کیتھولک نصاری کے مراسم عبادت وغیرہ کی نگرانی کرتے ہیں اور گاہے بگاہے ان کو اپنی برکت عطا کرتے ہیں!یوں بھی ہمارے ہاں اقوام اور مذاہب وادیان کے سیاسی، ثقافتی، جغرافیائی، سماجی اور اقتصادی احوال سے واقفیت کیلئے کم ہی جستجو پائی جاتی ہے۔
ویٹی کن جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے تو عملی لحاظ سے دنیا کی ایک موثر ترین قوت۔ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ملک شاید ویٹی کن ہوگا۔ صرف چوالیس ھیکٹر پر مشتمل اس ملک نے دنیا میں ذرائع ابلاغ کا ایک بہت بڑا جال پھیلا رکھا ہے۔ براہ راست اس کے زیرانتظام شائع ہونے والے روزناموں، ہفت روزوں اور ماہناموں کی تعداد دو سو سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اس کے پاس ٤٥١ ریڈیو سٹیشن ہیں اور انچاس ٹی وی سٹیشن ہیں۔ ایک ارب نفوس سے تجاوز کر جانے والی کھیتولک دنیا کا یہ روحانی مرکز نہ صرف مذہبی طور بلکہ کئی ایک لحاظ سے سماجی وسیاسی انداز میں بھی مغربی دنیا بلکہ پوری انسانی دنیا پر اثر انداز ہو تا ہے۔
کیتھولکوں کیلئے اس کا روحانی مرکز ہونا بھی ایک غیر معمولی معنی رکھتا ہے....
ایک مسلمان کے مکہ ومدینہ کو اپنا دینی مرکز سمجھنے اور ایک کیتھولک کے ویٹی کن کو اپنا روحانی مرکز سمجھنے میں
بہت بڑا فرق ہے۔ ایک مسلمان کیلئے مکہ ومدینہ اپنی تمام حرمت وتقدس کے باوجود محض ایک بابرکت عبادت گاہ وزیارت گاہ ہیں اور شعائر دین میں سے ایک شعار۔ جہاں تک بندگی کا تعلق ہے توایک مسلمان خدا کی براہ راست عبادت کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مکہ یا مدینہ میں بیٹھی کسی سرکار کو بندوں اور خدا کے مابین کسی بات کا دخل نہیں۔ البتہ کیتھولک جس خدا کی عبادت کرتے ہیں اور جس کے ___ معاذ اللہ ___ ایک یا تین ہونے کی بابت کوئی قطعی بات آج تک ان کے مابین طے نہیں ہو سکی، اس کی عبادت میں پیران کلیسا کا بندوں اور خدا کے مابین ایک ناگزیر واسطہ کی صورت میں براجمان رہنا البتہ طے ہے۔ برکت لینا، عبادت قبول کروانا، گناہ بخشوانا، اعتراف سیئات کرنا، جہنم سے خلاصی کروانا، جنت میں مختلف پیمائشوں اور نرخوں کے پلاٹ حاصل کرنا .... غرض کلیسا کی ہر جگہ ضرورت ہے۔ حلال اور حرام بھی خاصی بڑی حد تک کلیسا کا ہی اختصاص ہے۔

پھر مذہبی پیشوائی کا معاملہ بھی کیتھولک دین میں بہت مختلف ہے۔ مسلمان نماز کی امامت کیلئے اپنے میں سے کسی بھی مسلمان کو جو علم وفضل میں دوسروں کی نسبت بہتر ہو، آگے کر سکتے ہیں اور وہ مختلف عبادات اور شرعی معاملات میں ایک مسلمان جماعت کی امامت ودینی رہنمائی کر سکتا ہے۔ البتہ کیتھولک دین میں یہ اختیار کلیسا کا ہے۔ کیتھولک دین میں hiarachy ہے۔ یعنی ایک باقاعدہ پیشوائیت ہے۔ مذہبی طور پر باقاعدہ مذہبی رتبے ہیں۔ ہر رتبے کے اپنے مذہبی اختیارات و روحانی اختصاصات ہیں۔ ان رتبوں پر کسی کو فائز کرنا یا کسی کو ان رتبوں سے محروم کرنا کلیسا کا حق ہے۔ سب عہدے پوپ یا پھر پوپ کے مقرر کردہ افسران مجاز کی جانب سے عطا ہوتے ہیں۔ چنانچہ دنیا بھر کے کیتھولک عبادت خانے اور مذہبی پیشوا کڑی در کڑی پوپ سے منسلک ہیں اور اپنے وجود کے جواز کیلئے پوپ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ا س کے بغیر ان کی عبادت تک معتبر نہیں۔
اس لحاظ سے ویٹی کن کا ایک ارب کیتھولک نصاری کا روحانی مرکز ہونا اس کو ایک ناقابل اندازہ اہمیت دیتا ہے۔ تاہم ویٹی کن محض ایک روحانی مرکز ہی نہیں۔ اس کی اہمیت کی اور بھی کئی ایک جہتیں ہیں۔
               ویٹی کن کو ایک بے حد پراسرار نگری سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس کی بہت سی راہداریوں اور زمین دوز حصوں سے ویٹی کن کے بہت سے خواص بھی شاید واقف نہ ہوں۔ سوئٹزرلینڈ کے وہ فوجی جو ویٹی کن کے پہرہ وحفاظت پر مامور ہوتے ہیں ان کو ایک حلف اٹھانا ہوتا ہے کہ وہ یہاں کاکوئی راز فاش نہ کریں گے۔ یہاں کے لوگوں میں مشہور ہے کہ ویٹی کن کا کوئی راز ___ معاذ اللہ ___ اگلے جہان میں بھی فاش نہیں ہو سکتا۔ Holy See یعنی پوپ کا ادارہ دنیا کا ایک قدیم ترین ادارہ ہے۔ نہ معلوم اس کے اندر دنیا کے کیا کیا راز اور کیا کیا دستاویزات دفن ہیں۔ کئی ایک کا خیال ہے کہ کبھی ویٹی کن کے راز کھلیں اور اس کے کچھ حصوں تک لوگوں کو رسائی ہو تو نامعلوم یہاں سے کیا کیا کچھ برآمد ہو۔ حتی کہ بعید نہیں انجیل کے وہ مفقود نسخے تک برآمد ہوں جن تک دنیا کی رسائی اب ممکن نہیں رہی اور جن میں نبی آخر الزمان اور آپ کی اُمت کی بابت کئی ایک نصوص ہوں۔
                      چرچ اور اسٹیٹ میں علیحدگی ہو جانے کے بعد بھی چرچ کا دائرہ اثرکچھ ایسا گیا گزرا نہیں۔ اس کے کئی شواہد آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور ہم بھی اس کا کچھ ذکر کریں گے۔ البتہ موجودہ دور میں، جس کے اندر بین الاقوامی صورتحال ایک خاص لگی بندھی شکل اختیار کر گئی ہے، ضروری سمجھا گیا کہ پوپ کا روحانی منصب تو اپنی جگہ کلیسا کے سربراہ کو بین الاقوامی سطح پر بھی ایک باقاعدہ حیثیت حاصل ہو جو کہ دنیا کے کسی بھی ملکی سربراہ سے کسی صورت کم نہ ہو۔ اس مقصد کیلئے ویٹی کن کو ایک باقاعدہ ملک کا درجہ دیا گیا۔ گیارہ فروری ١٩٢٩ءکو روم کے سربراہ مسولینی اور پوپ پییس یازدھم PiusXI کے ایک نمائندے کے مابین ایک تاریخی معاہدے پر دستخط ہوئے جس کی رو سے چوالیس ھیکڑ پر مشتمل ویٹی کن ایک باقاعدہ ملک قرار پایا جو کہ براہ راست پوپ کی قلمرو ہوگا۔ اس سے دنیا میں ویٹی کن کے کردار کا ایک ازسرنو تعین ہوا۔ اس کے فوراً بعد یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ یکے بعد دیگرے معاہدے ہوئے۔ پوپ پییس یازدھم چیکوسلواکیا، یوگوسلاویا، رومانیا، پرتگال، بالٹک ممالک تک کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔
                 اس کے ساتھ ہی ویٹی کن سوویت خطرے کو کیتھولک دنیا میں سیاسی پذیرائی پانے کیلئے اور دراصل اپنی کھوئی ہوئی حیثیت ممکنہ حد تک بحال کرنے کیلئے بھرپور طور پر استعمال کرنے لگا۔ سوویت یونین سے یورپ کی دیگر قوتیں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی رسہ کشی کے باعث خطرہ محسوس کر رہی تھیں۔ مگراتفاق سے ان دونوں کے چرچ بھی مختلف تھے۔ روس کا چرچ آرتھوڈکس رہا ہے۔ جبکہ یورپ کے ایک بڑے حصے کا چرچ کیتھولک (انگلستان کو چھوڑ کر)۔ یہیں سے کیتھولک چرچ کیلئے اشتراکیت دشمنی دہرے فائدے کا باعث بنی۔ ضروری تھا کہ آرتھوڈکس روس کے مدمقابل کیتھولک یورپ کے اندر کیتھولک کلیسا ہی زندگی اور استحکام کی ایک زوردار روح پھونکے۔ ویٹی کن کیلئے یہ ایک سنہری موقعہ تھا جو کہ بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پوپ پیس یازدھم PiusXI نے ١٩٣١ءمیں نہ صرف کیتھولک بلکہ دیگر کلیسائوں کو بھی کمیونزم کے مدمقابل اپنے پیچھے کھڑا کرنے کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا۔ یہ الگ بات کہ ریکارڈ درست رکھنے کیلئے تھوڑی بہت تنقید کیپٹل ازم پر بھی کی جس کا انداز زیادہ تر لاڈ پیار کا رہا۔

Click here to zoom


غزہ میں قائم سنٹر فلسطین فار سٹڈیز اینڈ ریسرچ کی جانب سے پیش کی گئی ایک اسٹڈی زیر عنوان ”ویٹی کن اور عرب صہیونی کشمکش“ مؤلفہ نافذ ابوحسنہ کا کہنا ہے: تب سے ویٹی کن نے یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ عالمی پالیسیوں میں یہ زیادہ سے زیادہ شریک ہو اور نہیں تو عالمی پالیسیوں کے عملدرآمد میں ___ جہاں تک گنجائش ہو ___ ضرور حصہ پائے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ویٹی کن بطور خاص اس امر کی تاک میں رہا ہے کہ عالمی امور میں کہاں کہاں کوئی کردار ادا کیا جا سکتا ہے کہ روحانی مقام کے ساتھ ساتھ یا پھر اس کی آڑ میں اسے دنیا میں زیادہ سے زیادہ سیاسی اثر ورسوخ بھی حاصل ہو۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ویٹی کن یہودیوں اور صہیونیوں کی بابت بھی اپنی بہت سی قسمیں توڑ لینے پر آمادہ ہوا۔ ١٩٦٧ءکے بعد اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات کا سلسلہ چلایا گیا جو کہ بالآخر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام پر منتج ہوا۔ اگرچہ اس مسئلہ کی تفصیل ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔
ویٹی کن کو ایک باقاعدہ ریاست کا درجہ دے کر مستقبل میں دراصل اس کیلئے بہت سے عالمی کردار ادا کرنے کی جانب گویا راستہ کھول دیا گیا۔ اس سلسلہ میں مجلہ البیان کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ ہو:
”پچھلے دس سال سے ویٹی کن امیر ملکوں سے جو یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کریں وہ دراصل ایک شیطانی ڈھونگ ہے جو پوپ کے ہاں سے صادر ہونے والی ١٩٩٤ءکی ایک دستاویز کے ذریعے رچایا گیا۔ اس کیلئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ خاص طور پر توجہ طلب ہے یعنی کمیونزم کے خاتمہ اور سرد جنگ کے اختتام کا مابعد دور۔ اس دور میں ظاہر ہے کہ مغرب اور جنوب (افریقہ) کے ملکوں کے مابین تعلقات کی ایک نئی جہت شروع ہونا تھی۔مگر یہ آواز کلیسا سے اٹھائی گئی۔ اس دستاویز میں بہت ہی ہمدردانہ لہجہ اپنایا گیا: ”مقروض ملکوں کو جو کہ اپنی قرض خواہ قوتوں کے ہاتھ میں غلام ہو کر رہ گئے ہیں اب ‘آزاد‘ کردیا جائے“! پوپ نے اس دستاویز میں زور دیا کہ ٢٠٠٠ءتک ضرور ایسا ہو جائے۔ پوپ کی اس صدا کو دنیا کے آٹھ سو مراکز سے پورے زور وشور کے ساتھ نشر کیا گیا۔ پھر اس کیلئے کولونیا میں ١٩٩٩ءکی صنعتی ممالک کی کانفرنس سے پہلے اس مطالبہ کی تائید میں کئی ملین عوام کے دستخط حاصل کرنے کی بھرپور مہم چلائی .... اور پھر واقعی صنعتی ممالک کی اس کانفرنس میں بعض غریب ممالک کے کچھ قرضے جزوی طور پر معاف کرنے کی قرارداد بھی پاس ہوئی۔ ویٹی کن کی اپنی دولت کا بھی کچھ حد حساب نہیں مگر یہ نیکی ویٹی کن نے صنعتی ممالک کی جیب سے ہی کروائی۔
”اب یہ جاننا کوئی مشکل بات نہیں کہ یہ سب کچھ ویٹی کن کو ایک عالمی کردار اور ایک بین الاقوامی قد کاٹھ دینے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس میں ایک زبردست بات ٢٠٠٠ءکی معنویت ہے۔ یعنی نیا عیسائی میلینیم۔ گویا یہ تیسری دنیا کیلئے عیسائی بخشیشں تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں بہت سے پیغام پوشیدہ تھے!
٢٥      نومبر ١٩٩٩ءکو کیتھولک کلیسا نے اپنی اس پچھلے پانچ سال سے جاری مہم کا جائزہ لینے کیلئے ایک مجلس منعقد کی۔ اس میں کلیسا کے نمائندوں کی دنیا کے بڑے بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ساتھ کی گئی میٹنگوں کی رپورٹ پیش ہوئی۔ ان رابطوں کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف تک پہنچ لڑائی گئی۔ اس ساری بھاگ دوڑ کے بعد کلیسا بعض غریب ملکوں پر پائے جانے والے قرضے خود ’خرید‘ لینے میں کامیاب ہوا۔ بطور مثال اٹلی کے وہ قرضے جو گیانا اور زیمبیا کی جانب واجب الادا تھے۔ اس سے مقصد قرضے معاف کرنا اتنا نہیں جتنا یہ ظاہر کرنا کہ ان ملکوں کا قرض خواہ مالیاتی اداروں کی بجائے ویٹی کن خود ٹھہرا۔ پھر قرضے ’خریدنے‘ سے یہ مراد بھی نہیں کہ کلیسا نے ان مالیاتی اداروں کو واقعتاً رقوم کی ادائیگی کی۔ کلیسانے کچھ بھی ادا نہیں کیا۔ قرضے ان اصل قرض خواہوں نے ہی معاف کئے۔ یوں کہیے یہ خیرات پوپ کے ’دست مبارک‘ سے دلوائی گئی۔ البتہ قرضوں کی معافی میں ان امیر ملکوں اور ان کے مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ اب کلیسا کی شرطیں بھی شامل ہو گئیں۔ جن میں کم از کم یہ بات ضرور ہوگی کہ یہ ملک کلیسا کے اثر ورسوخ کیلئے اپنے دروازے کھلے کر لیں اور مشنری وعیسائیت سازی کی سرگرمیوں کی بھرپور اعانت کریں۔ گویا کیتھولک کلیسا ایک عالمی ساہوکار بننے جا رہا ہے۔
         ترقی پذیر ممالک جہاں سے بھی قرضے اور امدادیں لیں گے ’شرطیں‘ ساتھ میں ضرور آئیں گی۔ یہ محض مفروضہ نہیں۔ اس کی ایک چیختی مثال آئوری کوسٹ ہے جو کہ دنیا کے غریب ترین ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے۔ پوپ کا تقرب پانے کیلئے آئوری کوسٹ دارالحکومت یا موسوکرو میں دنیا کے عظیم ترین گرجائوں میں سے ایک گرجا تعمیر کرتا ہے جس پر ساٹھ ملین ڈالر لاگت آتی ہے۔ ڈیڑھ عشرہ پیشتر تعمیر ہونے والے اس گرجا کا ڈیزائن بھی روم کے سینٹ پال چرچ کی طرز پر بنایا گیا۔ براعظم افریقہ کے اس سب سے بڑے گرجا کا افتتاح پوپ جان پال دوئم کے اپنے ہاتھوں کرایا جاتا ہے۔ آئوری کوسٹ کے صدر فیلیکس ہوفے بوینی Felix Houphouet Boigny بنفس نفیس یہ ہدیہ پوپ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں: An African's gift to the Vetican۔ اندازہ کر لیجئے ایک غریب ترین ملک کا پوپ کی خدمت میں اتنابڑا تحفہ!!!“
             مجلہ البیان کے اس استنتاج پر شاید کچھ لوگ تعجب کریں اور ویٹی کن کے ان اقدامات کو غریب پروری کے سوا کسی بات پر محمول کرنے کو شکی مزاج یا مبالغہ آمیزی قرار دیں۔ لیکن یہ لوگ اگر عیسائی مشنری کام کی حقیقت سے واقف ہوں تو ان کو خوب اندازہ ہو سکے گا کہ پسماندہ غریب ملکوں میں، خصوصاً افریقہ کے اندر، لوگوں کے ہاتھ میں بائبل تھمانے اور ’یسوع‘ کو پکارنے کا سبق دینے کیلئے یہاں پائی جانے والی بھوک اور فاقے کا کیسا کیسا استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں جہاں قحط پڑے گویا ان کی وہاں قسمت جاگ اٹھتی ہے۔ افریقہ کے بے شمار خطے اس بات کے شاہد ہیں۔ دلیل کی قوت پاس نہ ہو تو مخاطب جتنا بھوکا اور ضرورت مند ہو اتنا ہی اچھا ہے!!
جان پال دوئم .... ویٹی کن کو نئی
جہتیں دینے والے ایک غیر معمولی پوپ :-
کلیسا کی تاریخ میں جو کوئی نہایت تیز طرار غیر معمولی شخصیات ہو گزری ہیں پوپ جان پال دوئم کا شمار یقینا ان میں کیا جاسکتا ہے۔ ویٹی کن کی تاریخ میں شاید یہ خصوصی طور پر ذکر کئے جائیں گے۔

کیرل جوزف ووٹیلا (Karol Josef Wojtyla

        حالات کو کلیسا اور کلیسا کو حالات کے رخ پر لے آنے میں جان پال دوئم نے غیر معمولی کام کئے۔ کمیونزم کے خاتمہ کی داستان میں یہ پوپ شاید ایک مستقل باب کی حیثیت میں بیان کئے جائیں گے۔ افریقہ اور مشرق بعید میں عیسائیت سازی کے پرچم گاڑ دینا اور دنیا میں مشنری نیٹ ورک کو منظم کرنے کے کیلئے عدیم النظیر منصوبے بنانا اور کامیابی سے ان پر عملدرآمد کروانا انہی کے دور کی ایک اہم پیشرفت ہے۔ چرچ کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے بے شمار اقدامات وانتظامات انہی کے ذہن رسا کا کام ہے اور کیتھولک دنیا میں اس پر انہی کو ساری داد جاتی ہے۔
        جان پال دوئم کا لقب پوپ بننے کے بعد اختیار کیا گیا۔ اصل نام کیرل جوزف ووٹیلا (Karol Josef Wojtyla) تھا۔ ووٹیلا ان کے والد کا خاندانی نام ہے۔ بچپن میں ان کو لولک (Lolek) کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ لولک کی پیدائش پولینڈ کے شہر Krakow سے ٥٣ میل جنوب مغرب میں واقع قصبہ Wadowice میں جو کہ چیک ریپبلک کے بہت قریب ہے آرمی کے ایک ریٹائرڈ افسر کیرل ووٹیلا کے گھر 1920ءمیں ہوئی۔ لولک کی ماں Emilia Kaczolowska Wojtyla لتھوانیا کی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اسکول ٹیچر تھی۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قصبہ کی آبادی اس وقت آٹھ ہزار کیتھولک اور دو ہزار یہودیوں پر مشتمل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لولک کے بہت سے بچپن کے دوست یہودی رہے ہیں اور یہ بات ان کی سوانح میں عام ملتی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں پوپ کے بچپن کے حوالے سے بتایا گیا ہے:
     ”جرزی کلوگر“ (Jerzy Klugar)جو کہ بچپن میں لولک کے کھیل کا ساتھی ہے ایک یہودی ہے جس نے کہ بعد ازاں جان پال دوئم اور اسرائیلی حکام کے مابین بچولیئے کا کلیدی کردار ادا کیا اور جس کے نتیجے میں ویٹی کن آخرکار اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ایک عرصہ سے واجب الادا فرض پورا کر پایا۔ کلوگر (Klugar) نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ بچپن میں اس نے کتنی ہی دوپہریں ووٹیلا گھرانے میں گزاریں جہاں وہ باورچی خانے میں کوئلے کے چولہے کے پاس بیٹھ کر لولک کے والد سے یونان، روم اور پولینڈ کے بارے میں کہانیاں سنا کرتا تھا۔
”دوسری جانب لولک کا بھی کلوگر کے دس کمروں پر مشتمل اپارٹمنٹ میں جانا ہوتا تھا جس کی بالکونی سے شہر کا بڑا چوک نظر آتا تھا اور جہاں وہ یہودیوں اور کیتھولکوں کا کورس کا میوزک سنتا تھا۔
”کلوگر نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ویٹی کن کے لوگ یہودیوں کو نہیں جانتے۔ اس سے پہلے کے پوپ بھی یہودیوں سے ناواقف ہی رہے۔ مگر یہ پوپ یہودی قوم کا ایک دوست ہے کیونکہ یہ یہودی قوم سے واقف ہے“۔
سی این این کی اسی رپورٹ میں کہا گیا: ”درحقیقت یہ ووٹیلا ہی تھا جو وہ پہلا عیسائی پوپ ثابت ہوا جس نے کہ کسی یہودی عبادت خانے کا دورہ کیا ہو اور وہ پہلا پوپ بھی جس نے کہ آس چوٹز (Auschwitz) میں ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یادگار کا دورہ کیا ہو۔ یہی وہ پوپ ہے جس نے کیتھولک اور یہودیوں کے مابین پائی جانے والی اجنبیت کا خاتمہ کرتے ہوئے یہودیوں کو اپنا ’بڑا بھائی‘ قرار دیا“۔ [سی این این کی اس رپورٹ کیلئے دیکھیے:

www.cnn.com/specials/1999/pope/bio/early/]
البتہ بعض لوگوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ یہودیوں سے پوپ جان پال دوئم کا تعلق محض بچپن کی دوستیوں اورمحض بیس فیصد یہودی آبادی والے قصبے سے ہونے کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے۔
جیو واچ (Jew Watch) کے ایک مضمون نگار جان کرسٹن سن (John Christensen) جو کہ پوپ کی ماں کے یہودی ہونے کے امکان کو غالب قرار دیتے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ پوپ کی ماں کی ان کے باپ کے ساتھ شادی کی تصویر دیکھیں تو اس کے چہرے کے روایتی یہودی خدوخال صاف نظر آتے ہیں .... اور یہ کہ ابتدائے جوانی میں پوپ نے جن سرگرمیوں میں حصہ لیا ان پر دنیا میں اور خصوصاً پولینڈ میں اس وقت یہودیوں کا ہی اجارہ تھا مثلاً پوپ کا تھیٹر میں اداکاری کرنا، گلوکاری میں حصہ لینا اور ادبی انجمنوں میں شریک ہونا وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ سی این این کی ایک رپورٹ میں بھی یہ ذکر ہے کہ پوپ کی اداکاری کو دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ وہ بے پناہ صلاحیتوں کا مالک نوجوان ہے .... تو غالباً یہاں تک رسائی ان کے ننھیالی رشتہ داروں اور ان کے یہودی دوستوں کی وساطت سے ہی ہوئی ہوگی۔ پھر یہ کہ ان کی سوانح میں ذکر ملتا ہے کہ ٩٣٩١ءکو جرمن نازیوں کے پولینڈ پر قابض ہو جانے کے بعد نوجوان کارلو جوزف ووٹیلا کو ملک بدری ایسے خطرے کا سامنا تھا۔ کرسٹن سن یہاں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ووٹیلا کا محض پولینڈ سے ہونا اس کی وجہ کیسے بن سکتا ہے؟ (ورنہ ہر پولش ہی کو پولینڈ سے ملک بدر ہونا پڑتا)۔ کرسٹن سن کے خیال میں اس کی وجہ بھی شاید ووٹیلا کا یہودیوں سے ننھیالی تعلق ہو۔ یہی وہ عرصہ تھا جب پوپ نے نازیوں سے چھپ کر چرچ میں پناہ لی اور پادریوں کا کورس Eatholic Theology پڑھنا شروع کیا۔
جان کرسٹن سن کہتے ہیں: پوپ کا نازی قبضہ سے پہلے کیتھولک لاہوت کی تعلیم پانا کہیں نہیں ملتا۔ اس کا آغاز ان کی زندگی میں تبھی ہوا جب جرمن قبضہ کے بعد ان کو جان کے لالے پڑے۔
[www.jewwatch.com/jew_religious_christianity_

penetration_pope_john/paul_2_jewish_news-release.html]

یہ بہرحال ایک تاریخی واقعہ ہے ___ اگرچہ اس کے کوئی سے بھی اسباب ہوں___ کہ یہودیوں کے ساتھ تعلقات کی بابت ویٹی کن کے بہت سے بند پوپ جان پال دوئم کے دور میں ہی ٹوٹے۔ بلکہ بہت بری طرح ٹوٹے۔ اس کی کچھ تفصیل آپ آگے چل کر دیکھیں گے۔

کیتھولک لاہوت کی تعلیم میں ترقی کرتے ہوئے کارلو ووٹیلا نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ کلیسا کے مراتب اور عہدوں کے زینے بھی بہت تیزی سے چڑھے۔ ٤١ یا ٤٢ءمیں کہنوت کا کورس پڑھنا شروع کیا۔ ٤٦ءمیں کراکووا کے کاہن (پادری) بنے۔ ٤٩ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ٥١ءمیں پی ایچ ڈی کی دوسری ڈگری لی، ٥٦ءمیں کیتھولک فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ٥٨ءمیں سب سے کم عمر بشپ مقرر ہوئے۔ ٦٤ءمیں کراکووا کے چیف بشپ بنے۔ اس کے ساتھ ہی ویٹی کن سیکرٹریٹ سے منسلک ہوئے۔ ٦٧ءمیں کارڈینل اور پھر ٧٨ءمیں پوپ بنے۔
پوپ جان پال دوئم کو ایک پراسرار شخصیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ کئی ایک نے رائے قائم کی کہ صہیونیت نے انہی کے دور میں ویٹی کن کے اندر نقب لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ کئی ایک ان کو کیپٹلسٹ بلاک کے ہراول میں گنتے ہیں اور چونکہ کیپٹلسٹ بلاک کی اصل منصوبہ ساز سرد جنگ کے دور میں سی آئی اے رہی ہے لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ پوپ اور سی آئی اے کے مابین ایک تعاون اور دوستانہ کا پایا جانا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
         سب سے پہلے تو ایک غیر اطالوی کا پوپ کے منصب پہ فائز ہونا ہی بڑی حد تک ایک انہونی اور غیر معمولی بات ہے۔ لگ بھگ پانچ صدیوں بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ یہ منصب اٹلی سے باہر گیا ہو۔ اور یہ تو تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ یہ منصب پولینڈ کے کسی شخص کو ملا ہو۔ مگر جو لوگ ویٹی کن کے معاملات میں کچھ بیرونی ہاتھوں کو دخیل سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دور میں کیتھولک پوپ کامشرقی یورپ سے ہونا کمیونزم کے ساتھ مقابلہ کی حکمت عملی میں بے حد ضروری تھا اور بے پناہ اہمیت کاحامل۔ بے شک امریکہ کا اپنا مقبول ترین چرچ پروٹسٹنٹ رہا ہے مگر مشرق یورپ کی کیتھولک پہچان کو نمایاں کرکے رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہو سکتا تھا کہ یہاں کے کیتھولک، روس کے آرتھوڈکس چرچ سے اپنے آپ کو ممیز رکھیں اور مغربی یورپ کے ساتھ جس میں ایک انگلینڈ کو چھوڑ کر ہر جگہ کیتھولک اکثریت ہے، ایک طبعی رشتہ محسوس کرتے رہیں۔ گویا یہ ایک مقدس مذہبی دیوار تھی جو روس اور اس کے زیر قبضہ مشرقی یورپ کے مابین کھڑی کر دی گئی .... یہ ایک ایسی دیوار تھی جو آخرکار دیوار برلن پہ بھاری پڑ گئی!
پھر کارلو ووٹیلا کی بطور پوپ تقرری موقعہ اور مناسبت کے لحاظ سے بھی کچھ پراسرار ہی رہی۔ ان سے پہلے پوپ البینو لوشیانی (Ablino Luciani) جو کہ جان پال اول لقب کرتے تھے، محض تنتیس (٣٣) دن پوپ رہ سکے اور بھلے چنگے محض چھیاسٹھ سال کی عمر میں یکدم انتقال کر گئے۔ ان کی مدت پاپائیت ٢٦ اگست١٩٧٨ءکو شروع ہوئی اور اگلے ہی مہینے یعنی ٢٨ ستمبر ١٩٧٨ءکو ان کی موت پر ختم ہو گئی۔ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے مگر ایک اتنے بڑے منصب پر فائز ہوتے ہی ایک تندرست صحت مند آدمی کی اچانک موت کئی سارے سوال کھڑے کر جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پھر ایک جواں سال غیر اطالوی شخصیت کا محض اٹھاون سال کی عمر میں پوپ منتخب ہو جانا ___ جو کہ پاپائوں کی تاریخ میں چاہے وہ اطالوی بھی ہوں کچھ غیر معمولی ہی ہے ___ لوگوں کی نگاہ میں اور بھی تعجب سے دیکھا گیا۔ نئے پوپ نے اپنے اس پیشرو سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لئے جان پال دوئم کا انتخاب کیا۔ ان کا عرصہء پاپائیت ستائیس سال رہا جو کہ Holy See کی تاریخ میں اتنا عام نہیں۔
          رہی سہی کسر ___ ان کی ذات پر انگلیاں اٹھانے والوں کی تائید میں ___ پھر پوپ کے دور میں ہونے والے واقعات اور پوپ کے ہاتھوں کئے جانے والے اقدامات نے دور کر دی ....
پوپ جان پال دوئم نے اپنے منصب پر فائز ہوتے ہی ویٹی کن کے کئی سارے دیرینہ پرہیز یوں تڑوائے گویا یہ محض خرافات یا خوامخواہ کے کوئی وہم ہوں۔ یہودیوں کے ساتھ تعلقات کی استواری کا ذکر ہم علیحدہ فصل میں کریں گے۔ یہاں ان کے کچھ دیگر اقدامات کو ہی اختصار سے زیر بحث لائیں گے۔

جان پال دوئم سے پہلے جو کئی ایک پوپ ہو گزرے ہیں فری میسن وغیرہ ایسی خفیہ تنظیموں کے شدید مخالف رہے ہیں۔ ویٹی کن سے بہت سے باقاعدہ رسمی بیانات واحکامات ایسے صادر ہوتے رہے ہیں جن کی رُو سے کیتھولک مذہبی شخصیات کیلئے ان خفیہ تنظیموں کی رکنیت اختیار کرنا روا نہیں۔ مگر جان پال دوئم نے روٹری کلب اور لائنز وغیرہ کی بڑی بڑی شخصیات کا ویٹی کن کے اندر استقبال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ یہ گویا ایک اشارہ تھا کہ فری میسن ایسی تحریکیں کیتھولک مذہبی شخصیات کیلئے اب شجرہء ممنوعہ نہیں رہیں۔

مجلہ البیان کا ایک مضمون نگار لکھتا ہے: نئے پوپ فری میسن اور روٹری وغیرہ ایسی تنظیموں کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں؟ اس کا جواب گو وقت ہی دے سکتا ہے مگر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے پوپ عمر کا خاصا بڑا حصہ گو گزار چکے ہیں پھر بھی اگر وہ جان پال اول کی طرح جلد جانا پسند نہیں کرتے تو وہ بھی شاید ان تنظیموں کی مخالفت نہیں کریں گے۔ جان پال اول کی موت کے اس امکانی سبب کی جانب ویٹی کن کے ایک بڑے کارڈینل اس سے پیشتر واضح انداز میں اشارہ کر بھی چکے ہیں۔

           جان پال دوئم ١٩٧٨ءکے تقریباً آخر میں پوپ کے منصب پر فائز ہوئے اور اگلے ہی سال اپنے وطن پولینڈ کا بطور پوپ پہلا دورہ کیا۔ یہ مذہبی سے زیادہ شاید سیاسی دورہ تھا۔ کہا جاتا ہے پوپ کا یہ صرف نو روزہ دورہ وہاں کمیونسٹ اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی یورپ میں کمیونسٹ اقتدار کی پسپائی کا آغاز ہوا اور دنیا ان کی جوڑ توڑ کی صلاحیتیں دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ مشرقی یورپ پر اس کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے۔ پوپ کا یہ خطرناک کردار دیکھ کر سوویت یونین نے ان کو قتل کروانے کی کوشش کی جو کہ کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ١٩٨١ءمیں پیٹرز سکوائر کے مقام پر ایک مسلمان نام بردار ٢٣ سالہ ترک محمد علی آغا (Mehmet Ali Agca) نے گولی چلا کر ان کو زمین پر ڈھیر کردیا۔ مگر وہ بروقت ہسپتال پہنچا دیے گئے اور چھ گھنٹے کے آپریشن کے بعد ان کی زندگی بچا لی گئی۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ پوپ کے قتل کا منصوبہ کے جی بی نے بنایا تھا اور اس پر عملدرآمد بلغاریہ کی سیکرٹ سروس نے کروایا تھا۔ گویا سی آئی اے اور پوپ ایک ہی مورچے میں کھڑے تھے۔
پوپ نے بعد ازاں اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کرنے والے کو معاف کردیا تھا۔
مجلہ البیان کا مضمون نگار لکھتا ہے:

”پوپ نے (پولینڈ میں) واضح انداز میں ’خدا‘ اور ’ڈیمو کریسی‘ کے حق میں صدا بلند کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: ”کلیسا پہ لازم ہے کہ وہ ڈیمو کریسی کیلئے عوام کی جدوجہد میں شامل ہو“ اور یہ کہ ”مسیح کی کمیونزم کے ساتھ جنگ ہے“ اور بھی کہ ”خدا کو ہم تعلیم گاہوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ خدا کو ہم اپنے گھروں میں دیکھنا چاہتے ہیں“۔ ’خدا‘ اور ’ڈیمو کریسی‘ پر مبنی عین یہی ایجنڈا ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد امریکہ کے دائیں بازو کے شدید مذہبی رحجان رکھنے والے ریپبلکن صدر رونالڈ ریگن کی دعوت کا عنوان بنتا ہے۔ مگر اس کی زد صرف ’کمیونزم‘ پر ہی نہ پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے عدی امین کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور ان کی جگہ ایک عیسائی حکمران تخت نشین کرایا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بوکاسا کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ وسطی افریقہ کا یہ وہ عیسائی حکمران تھا جس نے حکمران ہوتے ہوئے اسلام قبول کرنے کی جرات کر لی تھی (چاہے بعد ازاں وہ اس ’جرم‘ سے تائب ہی کیوں نہ ہو گیا ہو) ورنہ ڈکٹیٹر تو دنیا میں اور کیا کم تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی کیتھولک قوت (فرانس) کی فوجوںنے اس کا تختہ الٹ کر باقیوں کیلئے ایک درس آمیز مثال قائم کردی“۔

امریکی وسرمایہ داری مفادات کی خدمت کے حوالے سے جان پال دوئم کا ایک اور بڑا لاھوتِ حریت (liberation Theology) کا رحجان ختم کرنا ہے ....

ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں لاطینی امریکہ کے بیشتر ملکوں خصوصاً پیرو، چلی، یوراگوا، ارجنٹائن اور برازیل میں، جہاں پر کہ کیتھولک اکثریت ہے، مذہبی رہنمائوں کے ہاں ایک رحجان مقبول رہا اور وہ تھا غریب کے حق میں بولنا اور مظلوم کیلئے آواز بلند کرنا اور ظلم کی مذمت کرنا۔ جس کی وجہ زیادہ تر وہاں کے ظلم واستحصال پر مبنی حالات تھے۔ یہ رحجان مسیح کو پسے ہوئے طبقوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ، کمیونزم کے برعکس، یہ ایک مذہبی رحجان تھا مگر اپنے مضمرات کے لحاظ سے سرمایہ داری نظام اور اس پہ قائم حکومتوں کے حق میں اچھا شگون نہ تھا۔ خصوصاً امریکہ کیلئے جس کے پڑوس میں ظلم کے خلاف یہ سب لاوا پک رہا تھا جبکہ وہاں کی بدعنوان حکومتوں کی پشت پناہی زیادہ تر یہیں سے ہوتی رہی تھی۔ حتی کہ خود امریکہ کے اندر سیاہ فام اور دیگر نظر انداز کئے جانے والے طبقے اس رحجان کے پھیلنے کی صورت میں اس سے تقویت پا سکتے تھے۔ پوپ جان پال دوئم کے ابتدائی اقدامات میں کیتھولکوں کے مابین اس رحجان کی شدید حوصلہ شکنی کی جانا بھی شامل ہے۔ پوپ نے ٩٧ءمیں اپنے میکسیکو اور ڈومینی کن ریاستوں کے دورے میں کیتھولک عیسائیت کو حریتی لاھوت سے برگشتہ کرنے کی جانب خاص توجہ دی۔(بشکریہ: سہ ماہی ایقاظ ڈاٹ کام۔

بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ

گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ

0 تبصروں کی تعداد:

Post a Comment