تصوف کے معترضین ہی مجوزیں


    تصوف کے معترضین ہی مجوزیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: چوہدری طالب حسین
    آجکل تصوف کے علوم  زاویوں اور خانقاہوں سے نکل کر جدید  اصطلاحات کی شکل میں مشہور و معروف جامعات سے ہوتے ہویے بازاروں میں بک رہے ہیں.اور لوگوں کو اس بارے میں پتہ بھی نہیں کہ علم و عمل کا یہ ادارہ بھی تقریبا لٹ چکا ہے. تصوف کے ورثاء میں وہ لوگ بھی  شامل ہو گئے ہیں جن کو تصوف کا بالکل علم نہیں ہے. کاروبار کے طور پر یہ ادارہ استعمال کیا جا رہا ہے . لیکن مایوس ہونے کی بات نہیں ، ایسا وقت
    پہلے بھی آیا اور مخلص حضرات نے اسے مفاسد سے پاک کیا  اور بنی نو ع انسان کی بھلائی کے لیے کام کیا اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے . اس سلسلہ میں تنقید، تردید اور تائید کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہا .اس ضمن میں ہم نے کچھ اقتباسات کپتان واحد بخش سال صاحب کی تحریروں سے لیے ہیں جو انہوں نے  "حیات و تعلیمات حضرت خواجہ غلام فرید"میں لکھے ہیں.
    تصوف کے معترضین ہی مجوزیں۔۔!

    تصوف کے حق میں-کپتان واحد بخش سیال کیا لکھتے ہیں.ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بعض علماء و مشائخ نے اوائل عمر میں علم دانی کے جوش میں آکر تصوف کی ضرور مخالفت کی لیکن بعد میں ان کو حقیقت سے آگاہی ہوئی تو نہ صرف تصوف کو عین اسلام ثابت کیا بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر مراتب قرب یعنی فنا فی اللہ اور بقا با للہ تک رسائی حاصل کی. ان حضرات میں مولانا جلال الدین رومی، حضرت امام غزالی ،حضرت امام احمد بن حنبل ،حافظ ابن قیم جو امام ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور خود امام ابن تیمیہ ،ابن جوزی،قاضی شوکانی یمنی ،شاہ اسماعیل شہید اور علمائے دیوبند شامل ہیں. ان حضرت نے ابتدائی عمر میں تصوف کی مخالفت کی لیکن آخر حقیقت حال سے آگاہ ہونے اور پھر تصوف کی حمایت میں کتابیں لکھیں . لیکن افسوس ہے کہ ظاہر بین حضرات ان بزرگوں کی اوائل عمر کی تصانیف کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اواخر عمر کی تصانیف پڑھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے. مثال کے طور پر ابن جوزی تصوف کے شدید ترین مخالف سمجھے جاتے ہیں اور تصوف کی مخالفت میں ان کی ابتدائی کتاب"تلبیس ابلیس" پیش کی جاتی ہے لیکن ان کی آخری عمر کی کتاب" صفوة الصفوۂ" کو کوئی نہیں دیکھتا جس میں تصوف کی حمایت کی گئی ہے. اسی طرح حافظ ابن قیم کی سابقہ عمر کی کتابوں کو دیکھا جاتا ہے لیکن آخری عمر کی کتب "الفوائد" ،"مدارج السالکین" اور"کتاب الروح" کو کوئی نہیں دیکھتا . اسی طرح شاہ اسماعیل شہید کی ابتدائی کتاب" تقویة الایمان " کو مخالفین تصوف پیش کرتے ہیں ،لیکن انکی آخری عمر کی کتاب "صراط مستقیم" اور"عبقات" کو نظر انداز کرتے ہیں. جو علم اور وحدت الوجود سے لبریز ہیں. اسی طرح امام ابن تیمیہ کی اوائل عمرکی کتابوں میں اگرچہ تصوف کی مخالفت ہے آخری عمر کی کتابوں میں آپ نے مقدمین صوفیاء کی تائید اور تعریف فرمائی ہے. نیز یہ بات بھی اب پایہٴ سبوت کو پہنچ گئی ہے کہ امام ابن تیمیہ سلسلہ قادریہ سے منسلک تھے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے ایک خلیفہ کے مرید تھے. جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے.ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی حضرت جیلانی کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے خیالات اس طرح لکھتے ہیں ابن تیمیہ نے الفتویٰ کے حصہ"التصوف و علم السلوک " میں شیخ عبدالقا در جیلانیؒ کے اس طریق کار کو بیان کیا ہے جس میں آپ نے قرآن و سنت میں وارد اصولوں اور تعلیمی منہاج میں تزکیہ نفس کو لازم قرار دیا گیا ہے (الفتویٰ مذکورہ)آپ(حضرت عبدل قادر جیلانی ) نے تصوف میں پیدا ہونے والے فکری و مشقی انحرافات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر اسے اصل کآم یعنی مکتب تربیت کی طرف لوٹا دیا جس کا بنیادی مقصد تجرد خالص اور زہد صحیح کا بیج بونا تھا. اس میدان میں آپ کے افکار کا خلاصہ آپ کی دو کتابوں" الغنیہ الطالبی طریق الحق" اور"فتح الغیب" میں موجود ہے. دوسری کتاب کو ابن تیمیہ نے شرح کے ساتھ اپنی کتاب الفتویٰ کے حصہ دھم میں "کتاب السلوک "کے نام سے شامل کیا ہے اور اسے ایسے زہد کے نمونے کے طور پر پیش کیا ہے جس پر قرآن کریم اور سنت شریفہ نے زور دیا

    اب ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ امت کی زبردست اکثریت تصوف یعنی مسلک اولیاءاللہ کی حامی ہے اور چند لوگ اس کی مخالفت کرتے آے ہیں . مثلاّ اہل سنت و الجماعت جس میں امام ابو حنیفہ ، امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار شامل ہیں .مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے اور نبی کریم (ص) نے اس حدیث کی رو سے مسلمانوں کو اس جماعت میں شامل ہونے کا حکم فرمایا ہے" سواد آعظم مسمانوں کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہو جاؤ،کیونکہ میری امت ہرگز گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی "
    یاد رہے کہ یہ چاروں امام صوفی مشرب رکھتے تھے -اور اپنے زمانے کے اولیاء کرام سے روحانی فیوض حاصل کرتے تھے .مثلاّ حضرت امام ابو حنیفہ ،حضرت امام جعفر صادق کے صادق العقیدہ مرید تھے .اسی طرح امام شافعی مشہور صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض کے معتقد اور فیض یافتہ تھے. حضرت امام احمد بن حنبل بغداد کے صوفی حضرت بشر حافی کے عقیدت مند اور صحبت یافتہ تھے ،یہاں تک کہ جب کوئی آپ سے شریعت کے مسائل دریافت کرتا تو خود بتاتے تھے،لیکن طریقت کے مسائل دریافت کرنے کے لیے آپ لوگوں کو حضرت بشر حافی کی خدمت میں بھیج دیتے.یہ کہہ کر کہ مجھے خدا کے احکام کا علم ہے لیکن بشر حافی کو خدا تعالیٰ کا علم حاصل ہے . اسی طرح امام مالک بھی صوفی تھے.

    طالب حسیں سیال اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ حضرت امام ابو یوسف ،پیر طریقت حضرت حاتم اصم کے مرید تھے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء و علماء اس دور کی معاشرتی مذہبی روایت کا پاس کرتے ہونے کسی با شرع شیخ طریقت  کی بیعت تو کر لیتے تھے لیکن ایسے شواہد نہیں ملتے کہ وہ اطاعت شیخ کا اس قدر التزام رکھتے جیسا کہ صوفیہ کا شعار تھا .طریقت کے دلدادہ سالکین عقیدت شیخ میں مستغرق رہتے اور مرشد کی غیر مشروط ا طاعت کرتے تھے  وہ شیخ کی تعظیم میں حد درجہ احتیاط سے کا م لیتے تھے.امام قشیری اپنے شیخ ابو علی الدقاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب کبھی و اپنے شیخ نصر آبادی کے پاس جاتے تو پہلے غسل کرتے پھر انکی مجلس میں جاتے.(قشیری خود  اس معاملہ میں بہت محتاط تھے۔
    اہل سنت و الجماعت کے ان چاروں ائمہ کرام کی تصوف دوستی کی وجہ سے آج تک ان کے پیروکار اولیائے اسلام کے گرویدہ ہیں. اور ان کے مسلک پر قا ئم ہیں . آج کل بر صغیر ہند و پاک میں یہ جو بریلوی ،دیوبندی اختلاف پایا جاتا ہے، اکثر لوگ اس حقیقت سے نہ واقف ہیں کہ یہ دونوں فرقے اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں بنیادی طور پر تصوف کے حامی ہیں. اس وقت جو حضرات تصوف کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں وہ اپنے آپ کو غیر مقلد یا اہل حدیث کہتے ہیں . حالانکہ ان کے اکابر مثل امام ابن تیمیہ ،حافظ ابن قیم اور قاضی شوکانی تصوف کے خلاف نہیں تھے بلکہ ان صوفیوں کے خلا ف تھے جن کی حرکات اور عملیات اسلام کے خلاف تھیں .رسالہ" سہروردیہ لاہور" سلسلہ ٨ میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے جس میں مختلف یورپی مصنفین نے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ حضرت امام ابن تیمیہ جو حنبلی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے. حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مرید حضرت ابن قدامہ کے فرزند اور خلیفہ ابن عمر قدامہ کے مرید تھے. اس مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ چیرٹی لائبریری ڈبلن میں ایک مخطوطہ موجود ہے جس میں حضرت امام ابن تیمیہ کا شجرہ طریقت درج ہے اس کتاب کا نام ہے "ترغیب المتحابین" مصنفہ جمال الدین الطیلیلا ئی ،اس کتاب میں امام ابن تیمیہ کا یہ قول بھی درج ہے کہ."مجھے سیدنا عبدالقادر الجیلانی کابا برکت خرقه تصوف نصیب ہوا اور میرے اور انکے درمیان دو صوفی مرشد تھے"
    حضرت امام ابن تیمیہ کے شاگرد اور مرید حافظ ابن قیم ابن جوزی کی تصانیف میں تصوف کا رنگ غالب ہے. بلکہ انہوں نے مشہور (حنبلی)صوفی بزرگ حضرت شیخ عبداللہ۔ انصاری ہروی کی کتاب"مںازل السائیرین" کی صوفیانہ انداز میں شرح بھی لکھی ہے جس کا نام"مدارج السالکین" رکھا ہے. اس کے علاوہ ان کی" کتاب الفوائد" اور"کتاب الروح" بھی مسائل تصوف سے لبریز ہے.حوالہ جات:١.کپتان واحد بخش سیال--حیات و تعیلمات حضرت خواجہ غلام فرید.٢.ڈاکٹر محمد ماجد عرسان الکیلانی -- عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی - مترجم صاحبزادہ محمّدعبدالرسول ٣.-طالب حسیں سیال -سہ ماہی فکرو نظر- جولائی- ستمبر ۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    1 تبصروں کی تعداد:

    1. Assalm o Alaikum wa Rahmatullah wa brakatoho
      Muhtram shaikh sahib!
      I am student of Islamic Studies in Sargodha University.My topic of my thesis is "Punjab maen Uloom ul Quran wa Tafseer per ghair matboa Urdu mwad" please guide me and send me the relavant material for said topic.I will be thankful to you for this kind of act and I will pray for your forgiveness.
      your Islamic brother Rafi ud Din 03336750546,03016998303 email drfi@ymail.com

      ReplyDelete