اسلامی ریاست میں ٹیکس کا تصور

    اسلامی ریاست میں ٹیکس کا تصور۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری طالب حسین
    سرمائے کے حصول کے لیے ریاستیں ٹیکس بھی عائد کرتی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جمع شدہ سرمائےکے ذریعے ان مقاصد کو حاصل کیا جاے جن کے لئے ریاست وجود میں آتی ہے، اور ریاست کی بقا اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے. دنیا کے حاصل ممالک کے باشندوں پر لگاے جانے والے ٹیکسوں کی نوعیت عموماً ا ن کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوتی ہے....جو ممالک خود کو فلاحی ریاست قرار دیتے ہیں ،ا ن کے ہاں ٹیکسوں کا نظام
    اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ باشندگانِ مملکت پر وہی ٹیکس لگاے جایں جو ا ن کے حقوق کو متاثر نہ کریں، اور حاصل ہونے والی رقوم آبادی کی اجتماعی فلاح پر خرچ کی جائے۔ جنگی جنوں میں مبتلا قومیں اپنے ہاں ٹیکسوں کا نظام یوں وضع کرتی ہیں کہ ا ن کی آبادی کو ہر دم اپنے عدم تحفظ کا احساس رہے تاکہ وہ بخوشی ٹیکس دینے پر راغب ہوں . اس کی مثال آج کا امریکا یا ا س جیسے ممالک ہو سکتے ہیں .
    بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں ٹیکس کیوں.؟ اس کا جواب یہ کہ  ضروری نہیں کہ مذکورہ با لا مدات آمدنی میں سے ہر ایک مد کسی اسلامی ریاست کے پاس لازمًاّ موجود ہو. جزیہ مفتوحہ علاقے میں بسنے والی غیر مسلم آبادی پر چند شرائط کے ساتھ عائد ہوتا ہے. ضروری نہیں کہ ایسی آبادی کا وجود ہو یا
    بد قسمتی سے ٹیکس کو کچھ لوگوں نے سزا کا ہم معنی سمجھ لیا ہے
    جزیہ کے حصول کی شرائط پوری ہوتی ہوں. یہ قطعا ضروری نہیں کہ کسی ریاست کے پاس معدنی و سائل واقعی اور کافی موجود ہوں. لازمی نہیں کہ تسلسل کے ساتھ جہاد ہوتا رہے جس سے مال غنیمت اور فے جیسے ذریعہ آمدنی حاصل ہوتا رہے ،بلکہ یہ سب مدین ہیں جن سے مستقل آمدنی کا حصول یقینی نہیں ہوتا. 
    دوسری طرف  زکوۃٰ ریاست کا بطور ٹیکس زریعہ آمدنی نہیں ہے. بلکہ یہ مسلمانوں باشندوں کی ایک مالی عبادت ہے جس کے خرچ کے لیے کچھ مدات مقرر اور طے شدہ ہیں. ا ن سے ہٹ کر زکات کی آمدنی خرچ کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ا س عبادت میں خلل اندازی واقع ہو رہی ہے. زکوۃٰ کے مصارف طے شدہ ہیں جب کہ حکومت کی ضروریات اور مصارف کا دائرہ پھیلتا اور سکڑتا رہتا ہے.
    ڈاکٹر شہزاد اقبال شام لکھتے ہیں کہ، بد قسمتی سے ٹیکس کو کچھ لوگوں نے سزا کا ہم معنی سمجھ لیا ہے. فرض کریں محلے کی ایک گلی کے تمام گھرانے یہ طے کرتے ہیں کہ گلیوں اور نالیوں میں روزانہ صفائی کے لیے ایک شخص دو گھنٹے کے لیے ملازم رکھا جا ے گا. جس کی اجرت سب مل کر ادا کریں گے. اجرت کا جو حصہ ایک فرد ادا کرتا ہے اس کا نام صفائی ٹیکس رکھ لیجئے ، یا باری باری تمام گھر گلی کی صفائی کریں، یا یہ معاملہ کسی بلدیاتی ادارے کو تفویض کر دیا جائے، یہ بات ایک ہی ہے اور یہی ٹیکس کی حقیقت ہے. اب بلدیاتی ادارے ٹیکس تو لے لیتے ہیں لیکن اپنے فرائض میں غفلت برتتے ہیں. اسی طرح گاڑیوں کے مالکان جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کے بدلے میں ا ن کو توقع ہوتی ہے کہ سڑکیں درست حالت میں رہیں گی مگر عملا ایسا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ٹیکس ادا کرنا رضا کا رنہ سے زیادہ جبری بن گیا ہے۔

    ریڈیو اور ٹیلی وژن کی نشریات چلانے کے لیے ابتدہ میں جو رقم درکار ہوتی ہے اسے قومی خزانے سے حاصل کیا گیا ہے اور قومی خزانہ تمام آبادی کی مشترک ملکیت ہوتا ہے لیکن نشریات آبادی کے صرف ا س حصے کے لیے ہوتی ہیں جو ٹی۔و ی کی نشریات میں دلچسپی لے اور ٹی وی خریدنے کے لیے طاقت بھی رکھتا ہو. اب سوال یہ ہے کہ قومی خزانے کی رقم صرف یں لوگوں پر کیوں خرچ ہو جو ٹی وی رکھ سکتے ہوں؟ دوسرے نادار لوگ کیوں ا س سے محروم رہیں؟ اس مشکل کے حل کے لیے ٹی وی رکھنے والوں پر ایک ٹیکس لگایا جاتا ہے جو نشریات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے معاون ہوتا ہے. اسلامی ریاست میں ٹیکسوں کا نظام اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ اس کے اندر اسلامی تعلیمات کا عکس با آسانی دیکھا جا سکے. />ملکی ترقی و خو ش حالی کے لیے اسلامی ریاست کو بڑ ے بڑ ے منصوبے شروع کرنے پڑتے ہیں ان منصوبوں کی تکمیل اور اسلامی معاشی نظام کو بروے کار لانے کے لیے حکومت کو و سائل کی ضرورت ہوتی ہے. اسلامی ریاست یہ وسائل مختلف مدات، زکات و صدقات ضرا ئب Taxes و عشور Custom/import duties اور ملکی و غیر ملکی قرضوں وغیرہ سے حاصل کرتی ہے. غیر مسلم ممالک، بلخصوص یہود و ہنود و نصاریٰ ، کا اصل مقصد کسی غریب ،بلخصوص اسلامی، ملک کی مالی اعانت کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان سے مالی و غیر مالی دونوں صورتوں میں فائدہ اٹھانا ہوتا ہے. مالی فائدہ ا س قرض پر سود در سود وصول کرنے کی صورت میں جبکہ غیر مالی فائدہ اپنی من مانی شرطیں ،بلخصوص مذہبی،معاشی اور آزادی سے متعلق ،منوا  کر جیسے موجودہ صورتحال میں کیری لوگر بل اسلامی جمہوریہ پاکستان کیا مالی اعا نت کے لیے ہے. ا س صورت میں بیرونی قرضوں کے سبب نا صرف ملکی معاشی ترقی رک جاتی ہے بلکہ ملکی سالمیت، معاشی و سیاسی اور معاشرتی و مذہبی لحاظ سے ملک کھوکھلا بھی ہو جاتا ہے .ملکی باشند ے اپنے ملک میں رہنے کے باوجود آزادی سے نہیں رہ سکتے . بیرونی قرضوں کی نسبت ٹیکسز ضروری سمجھے جاتے ہیں .
    زاہدمحمودصاحب لکھتے ہیں. دراصل، اسلامی ریاست کی اخراجات برداشت کرنے Expenditure-incurring کی سرگرمیں کا معاشی مقصد یہ ہے کہ بہتات دولت Surplus of wealth کو گردش میں لانا اور معاشرے میں تمام طبقات ،بلخصوص فقراء و مساکین کے درمیان دولت کی منصفانہ و مساویانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے. اس لیے، فطرتاً اسلامی ریاست میں نظام ٹیکس فقراء کی نگہداشت اور فلاح و بہبود کے اصول پر استوار کیا جانا چاہیے . اس بنیادی اصول کو دیکھا جاے تو جو مروجہ نظام ٹیکس ہے وہ با لواسطہ indirect اور بلا واسطہ direct ٹیکس پر مشتمل ہے. بلا واسطہ ٹیکس وہ ہیں جن کا بوجھ دوسروں پر منتقل نہیں کیا جا سکتا اور با لواسطہ ٹیکس وہ ہیں جن کا بوجھ دوسروں پر منتقل کیا جا سکتا ہے اور بلحاظ خاصیت مؤخرالذکر بنیادی اشیا ضروریات پر عاید کیے جاتے ہیں اور تنزیلی Regressive فطرت کے ہوتے ہیں جن کا زیادہ حصہ غرباء کو برداشت کرنا پڑتا ہے.بہت سے ابتدائی معاشی تجزے سے یہ بات بڑی آسانی سے ثابت کی جا سکتی ہے کہ ایک محصولاتی آمدنی Revenue Tax با لواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں سے یکساں طور پر حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اگر یہ رقم بلا واسطہ ٹیکس سے حاصل کی جائے تو صارفین (فقراء) کی فلاح اور معاشی حالت بہتر رہے گئی اور ا ن کی سطح اطمینان زیادہ کم نہیں ہوتی ا س لیے معاشرے کے اہل ثروت اور اغنیاء کے فاضل اموال پر فقراء و مساکین اور محروم المیعشت افراد کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بقدر کفایت ٹیکس عائد کیے جایں. یہ ٹیکس اہل ثَروت سے وصول کر کے ضرورت مند افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کی لیے خرچ کیے جایں تاکہ امیر و غریب کے درمیان فرق و تفاوت کو کم کیا جائے اور دولت کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے.
    دین اسلام اور پوری دنیا میں بالواسطہ ٹیکس کو اچھا نہیں جانا جاتا کیونکہ ا ن کا بہت زیادہ بوجھ غرباء کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ا ن کی معاشی حالت بد تر ہو جاتی ہے، پاکستان میں ایسے ٹیکسوں کی age% کل آمدنی کا تقریبا ٦٥ فی صد یعنی ٢/٣ ہے اور بلا واسطہ ٹیکسوں سے حاصل کیے جانے والوں کی ٣٥ فی صد یعنی ١/٣ کل محصولات کا ہے (رپورٹ ٢٠٠٨-٢٠٠٩ ) اس طرح اشیاء ضروریات ،ذرائع رسل و رسائل اور Utilities ، بجلی گیس وغیرہ اور تیل یعنی پٹرولیم کی قیمتوں پر بالواسطہ ٹیکس عاید کر کے غرباء سے وصول کیے جاتے ہیں ...اس کا بوجھ ،قیمتیں بڑھ جانے اور افراط زر کی صورت میں غریب طبقے کو برداشت کرنا پڑتا ہے. اور اس طرح بجائے اس کے کہ حکومت اور اغنیاء، فقراء اور غریب طبقہ کی کفالت کریں غریب طبقہ کو حکومت اور اغنیاء کی کفا لت کرنا پڑتی ہے . اور دولت کی تقسیم مزید غیر منصفانہ اور غیر مسا و یانہ تقسیم افراط زر کے عوامل،یعنی اضافہ رسد زر و گردش زر اور اشیا کی کمیابی ،میں سے ایک ہے جس کے سبب پاکستان میں افراط زر بڑھتا جا رہا ہے اور ملکی معاشی حالت بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالله ابن عمررضی اللہ عنہ کے فرمانوں سے پتہ چلتا ہے کہ "تمہارے مال میں زکوۃٰ کے علاوہ بھی حقوق ہیں (جو ٹیکس اور صدقات نافلہ کی صورت میں ادا کیے جا سکتے ہیں) نبی کریمﷺ کے پاس جبایک قوم کے نادار اور ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے حضرا ت تشریف لائے، تو آپ نے انکی ناداری کو دیکھ کر سورہ حشر کی آیات پڑھ کر سنایں.  جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو وہ امیر کبیر ہوں یا فقر و صغیر ایک انسان آدم سے پیدا فرمایا اور اس لیے سب ہی بنی آدم ہیں اور یہ کہ انسان کو خدا سے ڈرنا چاہے کہ وہ کل قیامت کے دن خدا کہ سامنے کیا لے جا رہا ہے. ۔۔۔۔ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ ہر ملک کے اہل ثروت پر ان کے فقراء کی بنیادی ضروریات پورا کرنا فرض ہے.(سہ ماہی فکرو نظر -ص ١٣٠-١٣١ - اپریل --جوں ٢٠١١ --IRI- بین الا اقوامی اسلامی یو نیورسٹی ،اسلاما آباد.)
    فقہائےاسلام کے مطابق ریاست ایک ذریعہ(واسطہ) ہے مقصود بالذات نہیں ۔جیسا کے حضرت علامہ نے بھی بیان فرمایا ہے اسلا مستان کے بارہ میں. ا س طرح ہر اسلامی ملک ایک اکا ئی ہے ،اور عالم اسلام کے تمام ممالک ایک ریاست کی مانند ہیں،گو یا کہ تمام اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمان اس ریاست کے با شندے ہیں . خلیجی ممالک میں ٹیکس نہیں ہے . اس طرح ،اسلامی دنیا کو ایک یونٹ تسلیم کرتے ہوتے یں لوگوں سے زائد دولت لیکر غریب ممالک میں رہنے والے مسلموں کی فلاح کے لیے خرچ کرنی چاہے . یہ کوئی اچھنبے والی بات نہیں اسلام ممالک میں نظام زر ، دفاع اور معاشی اشتراک ہونا چاہیے ،یس کی مثالیں اقوام متحدہ ،دولت مشترکہ اور یو رو زون وغیرہ ہیں ،لیکن اسلامی ریاست میں تو تمام امت ایک قوم ہے جن کے انٹرسٹ سانجھے ہیں -خلیجی ممالک میں ٹیکس نا ہونا انکی معدنیات وغیرہ کا کافی آمدنی کی وجہ سے ہیں -- لیکن وہ لوگ غریبوں کا استحصا ل بھی کرتے ہیں ،جیسا کہ کفیل بن کر غریب ورکرز سے کفالت کی رقم لینا .

    ( مضمون نگار معاشیات اسلام کے ماہر ہیں۔ اوراسلامی  معیشت کے حوالے سے گہرا تجربہ رکھتے ہیں)
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    1 تبصروں کی تعداد:

    1. Talib Hussain احقر ،جناب دکتور شیزاد اقبال شام اور زاہد محمود صاحبان اساتذہ ، بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد کا شکر گزار ہے جن کی تحریروں سے استفادہ حاصل کیا گیا .

      ReplyDelete