اسرائیل ہائی ٹیک عسکری طاقت کیسے بنا ؟؟

تحریر: وقاص چوہدری 
یہ 1950ء کی بات ہے۔۔۔ یہودی ریاست اسرائیل کی حکومت نے اپنا سب سے
 پہلا تجارتی مشن جنوبی امریکن مملکت، ارجنٹائن کی جانب بھجوایا۔ تب اسرائیل کو قائم ہوئے 2 برس ہو چکے تھے۔ اسرائیلی حکومت کو دنیا بھر میں تجارتی ساتھیوں کی تلاش تھی تاکہ وہ اپنی آمدن میں اضافہ کر سکے۔ اسرائیل کا بیشتر رقبہ صحرا پر مشتمل ہے۔ وہاں ایک پتا بھی نہیں اگ سکتا۔ پھر مملکت قدرتی وسائل سے بھی محروم تھی وہاں تیل تھا نہ قیمتی معدنیات جبکہ پڑوسی عرب ممالک تیل فروخت کر

کے سالانہ اربوں ڈالر کمانے لگے تھے۔
اسرائیلی تجارتی مشن نے ارجنٹائن حکومت کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کیں لیکن ہر بار انہیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑا۔ دراصل اسرائیلی ارجنٹائن کو مالٹے، مٹی کے تیل والے چولہے اور مصنوعی دانت فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ارجنٹائن میں ڈھیروں مالٹے پیدا ہوتے ہیں لہذا حکومت کو یہ پھل درکار نہ تھا۔ پھر مملکت میں وافر بجلی دستیاب تھی، اس لیے مٹی کے چولہے بھی ارجنٹائن کو نہیں چاہیے تھے۔ دیگر اسرائیلی مصنوعات بھی بے فائدہ اور بیکار تھیں۔  چنانچہ اسرائیلی تجارتی مشن ناکامی کا شکار ہو کر واپس آ گیا۔ لیکن پچھلے 68 برس کے دوران کایا پلٹ چکی۔
 آج اسرائیل 60 ارب ڈالر سے زائد کا سامان بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ ان برآمدات میں سے تقریباً 22 ارب ڈالر مالیت کی اشیا جدید ترین عسکری و غیر عسکری مشینری پر مشتمل ہیں۔  ان اشیا میں جنگی طیارے، ڈرون، جدید کمپیوٹر، انٹی گریٹیڈ سرکٹ، میزائل وغیرہ شامل ہیں۔ آج اسرائیل دنیا کی ہائی ٹیک ( High tech) یعنی اعلی ترین ٹیکنالوجی رکھنے والی سپر پاور بن چکا۔ وہ دنیا کے ان 5 بڑے ممالک میں شامل ہے جو دیگر ملکوں کو سب سے زیادہ اسلحہ بیچتے ہیں۔ اسرائیل ہر سال 7 ارب ڈالر کا خالصتاً اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اسرائیلی خاص طور پر نت نئے ڈرون بنانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اسی لیے 1985ء کے بعد سے اسرائیل ہی ڈرون برآمد کرنے والا دنیا میں سب سے بڑا ملک بن چکا۔ ڈرون کی 60 فیصد عالمی مارکیٹ اسرائیل کے قبضے میں ہے جبکہ امریکی ڈرون صرف 25 فیصد خریدار خریدتے ہیں۔ امریکی ڈرون زیادہ کارگر ہیں مگر وہ بہت مہنگے بھی ہیں۔ اسرائیل کے گاہکوں میں روس، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ جب ہمارے پڑوس میں نیٹو ممالک کی افواج تعینات تھی، تو وہ اسرائیل کے بنے ڈرون ہی اڑاتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی حکمران نے ایسا کیا کرشمہ کر دکھایا کہ صرف 67 برس میں اسرائیل ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کی سپر پاور بن گیا۔ آج وہ ٹیکنالوجیکل اعتبار سے جدید ترین فوج بھی رکھتا ہے۔


یہ انقلاب چند وجوہ کی بنا پر ظہور پذیر ہوا۔ اول وجہ یہ کہ سبھی ممالک کی طرح اسرائیل میں بھی سیاست دان اقتدار پانے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے لیکن ان کی اکثریت کرپشن کی دلدل میں نہیں دھنسی۔ دوسرے انہوں نے قومی مفادات کو ہر قیمت پر ذاتی مفاد سے مقدم رکھا۔ یہی وجہ ہے، اسرائیل میں جو نئی حکومت آئی، اس نے ملک و قوم کو ترقی دینے والی پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ یہ نہیں کیا کہ بلا سوچے سمجھے مفید منصوبے بھی ختم کر دیئے گئے۔ اسرائیل نے سب سے پہلی قومی پالیسی یہ تشکیل دی تھی کہ شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ و ڈویلپمنٹ پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابیاں پا کر اسرائیل معاشی، عسکری، معاشرتی غرض ہر لحاظ سے ایک ناقابل تسخیر طاقت بن سکتا ہے۔ 1948 کے بعد جس سیاسی جماعت یا اتحاد کی بھی حکومت آئی، اس نے یہ قومی پالیسی جاری رکھی  اور جی ڈی پی کا بڑا حصہ شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر خرچ کرتی رہی۔ نتیجہ آج دنیا والوں کے سامنے ہے۔ آج اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن چکا۔ وہ اپنے جی ڈی پی کا 4.25 فیصد اس مد میں خرچ کرتا ہے۔ اسرائیل کا جی ڈی پی 323 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ گویا اسرائیلی حکومت ہر سال تقریباً پونے 14 ارب ڈالر سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبوں پر خرچ کرتی ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کی برآمدات 20.21 ارب ڈالر کے مابین گھوم رہی ہے۔ یہ اربوں ڈالر ایسے سرکاری و غیر سرکاری اسرائیلی سائنسی و ٹیکنالوجیکل اداروں کو دیئے جاتے ہیں جو عسکریات سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی ایجادات کرنے اور انوکھی اشیا بنانے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی ایجادات جو کم سے کم پانی اور کھاد کے ذریعے فصلیں اگا دیں۔ یا ایسے مشینی انسانوں (روبوٹ) کی تیاری جو میدان میں جا کر لڑ سکیں۔
رقم کی فراوانی کے باعث پچھلی نصف صدی میں اسرائیل میں ریسرچ و ڈویلپمنٹ کے کئی نامور اور بین الاقوامی طور پہ شہرت یافتہ مستند سرکاری و نجی ادارے جنم لے چکے۔ ان اداروں میں سائنس داں بڑے جوش و جذبے سے قسم قسم کی ایجادات و اختراعات تخلیق کرتے ہیں۔  اداروں میں ماہرین کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے شعبے میں جدت و ندرت دکھا سکیں۔  جو ہر قابل کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ وہ ملک و قوم کے لیے کارنامے انجام دے سکے۔ اسرائیلیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خطرات مول لینے سے نہیں گھبراتے۔ وجہ یہ کہ اسرائیل میں لازمی فوجی تربیت کا قانون لاگو ہے۔ کم عمری ہی میں اسرائیلی لڑکے، لڑکیوں کو ایسے خطرناک مشن انجام دینے پڑتے ہیں کہ بعض اوقات ان کی زندگیاں تک خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ یہ مشن بہرحال نوجوانوں کو دلیر و بہادر بنا دیتے ہیں اور وہ مشکلات میں جلد پریشان نہیں ہوتے۔ جب 18,19 سالہ اسرائیلی لڑکے، لڑکیاں سرحدوں پر جا کر مشن مکمل کرتے ہیں ، تو بیشتر مغربی اور اسلامی ملکوں کے نوجوان آرام دہ اور محفوظ تعلیمی اداروں میں سکون سے بیٹھے ہوتے ہیں۔  مستقبل میں وہ اپنی افواج کا حصہ بنیں تب ہی سخت عسکری تربیت سے گزرتے ہیں۔ عام زندگی میں رہتے ہوئے وہ زیادہ سخت جان
نہیں بن پاتے۔
اسرائیل شروع سے مخالفین میں گھرا ہوا ہے۔ اس نے پھر تقریباً ہر عشرے میں
ایک جنگ ضرور لڑی ہے۔ جنگوں کی کئی خامیاں ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایک قوم مسلسل حالت جنگ میں رہے، تو وہ دیگر اقوام کی نسبت اعصابی طور پر زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ وہ خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت چوکنا رہتی ہے۔ خطرات سے مسلسل ٹکرانے اسرائیلی قوم کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بقا کے لیے نت نئے زیادہ کارگر و موثر ہتھیار ایجاد کرتی رہے۔ اپنے دفاع کو اتنا مضبوط بنا لے کہ کوئی انہیں شکست نہ دے سکے۔ اسرائیل میں صرف 8.55 ملین  افراد آباد ہیں۔ مگر اسرائیل سائنسی و تکنیکی مقالہ جات کی اشاعت کے سلسلے میں دنیا کا 13ویں بڑا ملک ہے۔ اسرائیل میں ہر 10,000 افراد میں 140 مرد و زن سائنس دان ہیں۔ امریکہ میں یہ شرح 85 اور جاپان میں 83 ہے۔ دنیا کے نامور سائنس دان اقرار کر چکے ہیں کہ امریکا کے بعد اسرائیل ہی میں سب سے زیادہ ہائی ٹیک مراکز واقع ہیں۔ اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کی صورت حال دیکھی جائے تو شدید مایوسی ہوتی ہے۔ عالم اسلام میں دنیا کی کل آبادی کا 25 فیصد آباد ہے۔ مگر ان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین بہت کم ہیں۔  چند اسلامی ممالک کو چھوڑ کر بقیہ ملکوں میں شعبہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا وجود ہی نہیں۔  اس کوتاہی کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔ اکثر اسلامی ملکوں میں حکمرانوں 
کی بیشتر توانائی اپنی کرسی بچانے پر خرچ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے دور حکومت کے دوران سیاسی جوڑ توڑ اور مخالفین کے خلاف سازشیں کرنے، آپس میں لڑنے مرنے یا پھر رشوت ستانی میں محو رہتے ہیں۔  شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی و بڑھاوا دینے کے لیے ان کے پاس کہاں وقت ہے؟ ایک زمانہ تھا جب عالم اسلام میں سائنس دان نت نئی ایجادات سامنے لاتے اور بیش بہا تحقیق کرتے تھے۔ اسی زمانے میں اسلامی ملک دنیا کی سپر پاور تھے۔ مگر یہ زمانہ قصہ پارینہ بن چکا، آج عالم اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے تقریبا ہر معاملے میں مغرب کا دست نگر ہے۔ چنانچہ کثرت آبادی کے باوجود عالمی سطح پر اسلامی ممالک کا اثر ور رسوخ بہت کم ہے۔ اگر ابھی عرب ممالک تیل کی دولت سے محروم ہو جائیں تو عالم اسلام کا رہا سہا اثر بھی ختم ہو جائے۔ لیکن تیل کا ہتھیار ہوتے ہوئے بھی امریکا، اسرائیل اور بھارت من مانی کرنے میں مصروف ہیں۔ 

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ تیسرے مقدس ترین اسلامی مقام، یروشلم میں منتقل کرنے کا اعلان کیا تو ایک بھی اسلامی ملک امریکا کے خلاف ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکا۔ زبانی جمع خرچ تو ہر اسلامی حکمران نے بڑھ چڑھ کر انجام دیا۔ اسی طرح بھارت، مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل، مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں جبکہ عالم اسلام کے حکمران ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو چکے۔ ان کے مابین اختلافات کے بیج بو کر ٹرمپ، نیتن یاہو اور مودی کا اتحاد ایک دوسرے سے خوب دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل میں شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی محیر العقول ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیلی افواج کو پہنچا۔

 اسرائیلی سائنس دانوں اور انجینئروں نے نہ صرف مختلف قسم کے ہتھیار ایجاد کیے بلکہ جو اسلحہ بیرون ممالک سے خریدا گیا، اس میں بھی  انقلابی تبدیلیاں لا کر اسے مزید موثر اور کارگر بنا دیا۔ ذیل میں ایسے ہتھیاروں کا تذکرہ پیش ہے جنہیں اسرائیلی سائنس دانوں نے تیار کیا۔ ان کے باعث اب اسرائیلی افواج ہائی ٹیک اور ایک خطرناک طاقت بن چکیں۔ 
:روبوٹ فوجیاسرائیلی ہنرمند بیشتر توانائی اور پیسہ نت نئے روبوٹ فوجی بنانے پر خرچ کر رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ میدان جنگ میں انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ پھر یہ روبوٹ فوجی انسانی فوج سے زیادہ موثر بھی ثابت ہوئے ہیں۔ پچھلے سال اسرائیل نے (Guardium) نامی روبوٹ اپنی سرحدوں کی نگرانی کے لیے متعین کر دیا۔ یہ چھوٹی سی جیپ نما روبوٹ ہے۔ اس میں انفراریڈ کیمرے، ریڈار، نہایت حساس مائکرو فون اور مختلف اقسام کے سینسر لگے ہیں۔ اس میں ہتھیار بھی نصب ہیں تاکہ کوئی حملہ کرے تو اپنا دفاع کر سکے۔ مگر اسرائیلی فوج نے ان ہتھیاروں کو خفیہ رکھا ہوا ہے اور کوئی تفصیل نہیں بتائی۔  
اسکا بنیادی کام سرحدوں پر نظر رکھنا ہے تاکہ کوئی اجنبی داخل ہو، تو اسرائیلی فوج  کو خبر ہو جائے۔ مزید براں اسرائیلی فوج کسی جگہ حملہ کرنے جائے تب بھی وہ کو آگے آگے رکھتی ہے۔

 اس طرح بارودی سرنگ کسی فوجی کی جان نہیں لے پاتی۔ پھر اس کے ذریعے محاذ جنگ کا جائزہ لینا بھی ممکن ہے۔ Guardium دراصل زمین پر رواں دواں ڈرون ہے۔ کئی سو میل دور واقع کمانڈ اسٹیشن میں بیٹھا ڈرائیور جی پی ایس سسٹم کی مدد سے اسے باآسانی چلا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج Guardium کو مصر، شام، لبنان، اردن، غزہ اور مغربی کنارے سے لگنے والی اپنی سرحدوں پر تعینات کرنا چاہتی ہے۔ یوں اسے پھر نگرانی کی خاطر افرادی قوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ (Probot) نامی روبوٹ اسرائیلی افواج کا خچر بن چکا۔ یہ بھی جیپ نما روبوٹ ہے۔ اسے خاص طور پر اس لیے ڈیزائن کیا گیا کہ وہ 1500 پونڈ تک کا وزن اٹھا سکے۔ یہ دشوار گزار پہاڑی مقامات پر بھی چل سکتا ہے۔ چنانچہ اب اسرائیلی فوجی دستے اپنا سارا سامان Probot پر لادتے اور سبک خرامی سے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بھی جی پی ایس سسٹم کے ذریعے چلتا ہے۔ (Segev) بھی Guardium کے مانند سرحدوں کی دیکھ بھال کرنے والا روبوٹ ہے۔ اسرائیلی افواج تیزی سے روبوٹ فوجی اپنی سرحدوں پر تعینات کر رہی ہے اور اس کی وجہ عیاں ہے۔ انسانی فوجیوں کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر انہیں کھانا اور پانی بھی چاہیے ہوتا ہے مگر روبوٹ فوجی صرف ایندھن مانگتے ہیں۔  ایک بار ایندھن بھر دو تو وہ مسلسل 24 گھنٹے سرحد پر نظر رکھتے ہیں۔  پھر ان پر حملے سے کوئی انسانی جان بھی ضائع نہیں ہوتی۔ ماضی میں فلسطینی مجاہدین نے سرحدوں کے نزدیک سرنگیں کھود کر اسرائیلی فوج کو خاصا نقصان پہنچایا تھا۔ ان سرنگوں کے ذریعے مجاہد اسرائیلی سرزمین میں داخل ہوتے، فوجیوں پر حملے کرتے اور بعض اوقات انہیں اغوا بھی کر لیتے۔ مگر اب اسرائیلی فوج روبوٹ کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کی سرنگیں تباہ کر رہی ہے۔ یہ روبوٹ سانپ کی شکل ہے۔ اس میں مختلف قسم کے جدید آلات مثلاً تھرمل امیجر، کیمرے، لیزر اسکینر اور سینسر لگے ہیں۔  یہ سانپ سرنگ میں چھوڑا جاتا ہے تاکہ وہ اس کا پورا جائزہ لے اور یہ بھی دیکھے کہ کیا اندر جنگجو موجود ہیں۔  جب روبوٹ سانپ سرنگ کا جائزہ مکمل کر لے تو اسرائیلی فوجی اندر داخل ہو کر اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ اس روبوٹ کو مائکرو ٹیکٹیکل گرانڈ روبوٹ (MTGR) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سرنگ میں بم رکھنے کے علاوہ بوبی ٹریپ ہٹا بھی سکتا ہے۔ سمندری سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی اسرائیل نے کشتی نما پروٹیکٹر روبوٹ تیار کر لیا ہے۔ یہ روبوٹ بحیرہ روم میں گشت کرتے اور اسرائیلی سرحد کی حفاظت کرتے ہیں۔  یہ ایک جنگی روبوٹ ہے کیونکہ اس میں .50 0کیلی بر کی مشین گن یا 0.62 ایم ایم کی مشین گن اور 40 ایم ایم کا گرینڈ لانچر نصب ہوتا ہے۔ اسرائیلی سائنس دانوں کا تیار کردہ (Dogo) روبوٹ بھی خطرناک مشین ہے۔ اس ٹینک نما چھوٹے سے روبوٹ میں 9 ایم ایم کا گلوک پستول نصب ہے جو 14 گولیاں رکھتا ہے۔ اس کا وزن صرف 11 کلو ہے۔ خاصیت یہ کہ Dogo کا قد صرف 11 انچ بلند ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے 4 انچ تک گھٹایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج اور پولیس، دونوں یہ حیرت انگیز روبوٹ استعمال کر رہی ہیں۔  پولیس جب مجرموں کے اڈے پر چھاپہ مارے، تو وہاں Dogo کو سب سے آگے رکھا جاتا ہے۔ دور بیٹھا ایک سپاہی Dogo کو چلا رہا ہوتا ہے۔ وہ اس میں نصب کیمرے اور دیگر حساس آلات کی مدد سے مجرموں کو نشانے پر لیتا اور فائر کر کے انہیں زخمی کر دیتا ہے۔ فوج بھی کسی معرکے پر جائے، تو Dogo کو آگے رکھتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسرائیلی اور امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2035ء  تک اسرائیل روبوٹوں کی پوری فوج تیار کر لے گا۔ تب زمین، سمندر اور فضا میں انسانی فوجی نہیں یہی مشینی فوجی دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ یہ تمام روبوٹ مسلسل ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں گے تاکہ بدلتی صورت حال سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ میدان جنگ میں ساری لڑائی یہی روبوٹ انجام دیں گے جبکہ انہیں چلانے والے دور محفوظ مقام پر بیٹھے ہوں گے۔ گویا اسرائیلی سائنس دان اور انجینئر مستقبل میں جنگ کی ماہیت ہی بدلنے والے ہیں۔  کیا خاص طور پر عرب حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اسرائیلی روبوٹ فوج کی صورت ان کے سروں پر ایک بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے؟  اکثر عرب حکمران تو بلند و بالا عمارتیں اور پرتعیش مقامات تعمیر کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ میزائل شکن دفاعی پروگرام: 1991 میں پہلی خلیجی جنگ کے دوران صدر صدام حسین کے حکم پر عراقی فوج نے کئی سکڈ میزائل اسرائیل کی طرف چھوڑے تھے۔ ان میزائل حملوں نے اسرائیل میں دہشت پھیلا دی تھی۔ لاکھوں اسرائیلی زیر زمین بنی پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہو گئے۔ اسرائیل میں روز مرہ زندگی معطل ہو کر رہ گئی۔ عراقی میزائل حملوں کے بعد اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مستقبل میں ایسے حملے روکنے کی خاطر میزائل شکن دفاعی نظام واضع کیا جائے۔ چنانچہ سائنس و ٹیکنالوجی سے منسلک سبھی سرکاری و نجی اداروں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایسے موثر میزائل تیار کریں جو بیرون ممالک سے آنے والے ہر راکٹ یا میزائل کو فضا میں تباہ کر سکیں۔ چنانچہ آج اسرائیل میں ایک، دو نہیں 5 میزائل شکن دفاعی نظام وجود میں آ چکے۔ ان میں سب سے زیادہ طاقتور ایرو میزائل سسٹم ہے۔ یہ اینٹی بلاسٹک میزائل امریکی کمپنی، بوئنگ کے تعاون سے بنائے گئے ہیں۔ اس سلسلے کے تین نمونے بنائے جا چکے۔ ایرو میزائل 3 خلائی سیارے (سیٹلائٹ) بھی تباہ کر سکتا ہے۔ ان میزائلوں کا خاص نشانہ دشمن کے بڑے میزائل ہیں۔ (Iron Dome) میزائل شکن سسٹم، چھوٹے میزائلوں ، راکٹوں اور توپوں کے گولے تباہ کرنے میں کام آتا ہے۔ (Davids Sling) نامی سسٹم، ہوائی جہازوں ، ڈرون، راکٹ، کروز میزائل اور بلاسٹک میزائل بھی مار گراتا ہے۔ (SPYDER) نامی سسٹم بھی یہی کام کرتا ہے۔ پچھلے سال اسرائیل نے (Iron Beam) کے نام سے نیا میزائل شکن سسٹم متعارف کرایا۔ اس نظام میں لیزر گن سے راکٹوں اور توپوں کے گولوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ لیزر گن کی شعاع 7 کلو میٹر تک حد مار رکھتی ہے۔ اسرائیل دراصل چھوٹا سا ملک ہے۔ چنانچہ عراق، ایران، مصر وغیرہ میں نصب میزائل اس کے کسی بھی حصے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیلیوں نے آمدہ میزائلوں کو روکنے کے لیے پانچ دفاعی میزائل نظام وضع کر ڈالے۔ اسرائیلی سائنس دان ان نظاموں کے میزائلوں کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کی خاطر تحقیق و تجربے کر رہے ہیں۔  اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دوران جنگ دفاع کے طور پر میزائل استعمال کیے ہیں  اور لگتا یہی ہے کہ اسرائیل مستقبل کی جنگوں میں اپنے میزائل شکن نظاموں ہی کو بھرپور طریقے سے اپنے دفاع میں استعمال کرے گا۔ یعی وجہ ہے، اسرائیلی حکومت نت نئے ایسے نظام بنانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر شاید تعجب ہو کہ بھارت بھی میزائل بنانے میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ اسرائیل کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل بارک 8 اسرائیلی ادارے، آئی اے آئی (اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز) اور بھارتی سرکاری ادارے ڈی آر ڈی او (ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن) نے مل کر تیار کیا ہے۔ اسے زمین کے علاوہ بحری جہاز سے بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ یہ ہر قسم کے میزائل، ہوائی جہاز، ڈرون، راکٹ کو فضا میں نشانہ بناتا ہے۔ اس 275 کلو وزنی اور ساڑھے چار میٹر لمبے میزائل کی رفتار ماک 2 ہے۔ 
یہ 90 کلو میٹر تک حد مار رکھتا ہے۔ جاسوس خلائی سیارے: سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست ترقی نے اسرائیل کو اس قابل بھی بنا دیا کہ وہ خلا میں جاسوس مصنوعی سیارے بھیج سکے۔ اس شعبے میں بھی اسرائیلی سائنس دان بہت زیادہ مہارت حاصل کر چکے۔ فی الوقت وہ اپنے ملک کے لیے دو قسم کے جاسوس خلائی سیارے تخلیق کر رہے ہیں۔ پہلی قسم کے سیاروں میں انتہائی طاقتور کیمرے نصب ہیں۔ یہ نہایت ہائی ریزولیشن کی تصاویر کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ستمبر 2016ء میں اسرائیل نے اپنا جدید ترین جاسوس سیارہ، اوفیک 11 خلا میں بھیجا۔ اس سیارے میں لگے کیمرے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود صرف 20 انچ بڑی شے کی بھی صاف اور واضح تصویر کھینچ سکتے ہیں۔ دوسری قسم کے سیاروں میں خصوصی ریڈار سسٹم نصب ہے۔ یہ نظام کیمرے کی طرح ہائی ریزولیشن تصاویر اتار سکتا ہے۔ اس ریڈار سسٹم کا فائدہ یہ ہے کہ اگر بادل ہوں یا کسی شے کو کیمو فلاج کیا گیا ہے تو تب بھی وہ مطلوبہ شے کی تصویر کھینچ لے گا۔ انتہائی خفیہ ٹینک منصوبہ: یہ 1969ء کی بات ہے، برطانیہ نے اپنا چیفٹین ٹینک سیاسی وجوہ کی بنا پر اسرائیل کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ تبھی اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اپنی فوج کے لیے مقامی طور پر ٹینک تیار کیا جائے۔ اسرائیلی سائنس دانوں نے 1973ء تک یہ ٹینک ایجاد کر لیا جسے (Merkava) کا نام دیا گیا۔ پچھلے 45 سال کے دوران Merkava کے چار ورژن یا نمونے سامنے آ چکے۔ ۔Merkava 4 کا شمار دنیا کے جدید ترین اور انتہائی خطرناک ٹینکوں میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی سائنس دان اور انجینئر مسلسل اس ٹینک کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں اور اس کی تفصیل انتہائی خفیہ ہے۔ Merkava 4 چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ خاص بات یہ کہ مشن کے اعتبار سے اس ٹینک پر مختلف اقسام کا ڈھانچا نصب کرنا ممکن ہے۔ مثلا ٹینک نے پہاڑی مقام پر جانا ہے، تو جغرافیائی صورتحال سے ہم آہنگ دھاتی ڈھانچا اس پر منڈھا جائے گا۔ اس ٹینک کا ڈھانچا انتہائی مضبوط دھاتوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ نیز یہ ٹینک ٹرافی نام کے دفاعی میزائل سسٹم سے لیس ہے۔ ٹرافی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب دشمن ٹینک شکن میزائل فائر کرے، تو اس کا ریڈار فوراً اسے دیکھ لیتا ہے۔ لہذا Merkava 4 میں بیٹھے اسرائیلی فوجی فوراً اس میزائل سے بچنے کی تدابیر اپنا لیتے ہیں۔ حرف آخر: اسرائیل کی بڑھتی سائنسی و عسکری طاقت عیاں کرتی ہے کہ اب اسلامی ملکوں خصوصاً عرب ممالک کو پرتعیش سرگرمیوں کے بجائے سائنس و ٹیکنالوجی، خاص طور پر شعبہ عسکریات کی ترقی پہ رقم خرچ کرنا ہو گی۔ اگر انھوں نے جلد اپنے آپ کو سائنسی و عسکری لحاظ سے طاقتور نہ بنایا تو مستقبل کی جنگ میں اسرائیل ایک خوفناک اژدہے کی صورت ان کو باآسانی نگل جائے گا۔ اب بھی وقت ہے، عالم اسلام کو خواب ِغفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے۔ بھارت اور اسرائیل کی بڑھتی قربت: حال ہی میں اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اعظم، نیتن یاہو نے بھارت کا دورہ کیا۔ قوم پرست بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی نے ہوائی اڈے پر پروٹوکول توڑ کر نیتن یاہو کا استقبال کیا اور بڑی گرمجوشی دکھائی۔ اس کی وجہ ہے۔ آج خاص طور پر عسکری سائنس و ٹیکنالوجی میں اسرائیل سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ نریندر مودی چاہتے ہیں کہ بھارت بھی اسرائیلی سائنس و ٹیکنالوجی سے مستفید ہو۔ اسی لیے وہ بھارتی سرکاری و نجی سائنسی و ٹیکنیکل اداروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے سائنسی اداروں کے ساتھ مل کر مختلف منصوبے شروع کریں۔ پچھلے تین سال کے دوران اس سلسلے میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے۔ بھارت اب ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ اسرائیل سے خرید رہا ہے۔ ان دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم بھی 5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ ان دونوں ملکوں کی بڑھتی قربت پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی ہتھیاروں سے لیس ہو کر بھارتی افواج کو خاصی برتری حاصل ہو جائے گی۔ بھارت اور اسرائیل کے اتحاد کا مقابلہ کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ پاکستان معاشی و سیاسی طور پر مضبوط مملکت بن جائے۔ اس طرح وہ دونوں مخالفوں کا مقابلہ بخوبی کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے معیشت و سیاست کے میدان میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں۔  پاکستانی حکمرانوں کا اکثر و بیشتر وقت اور توانائی سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ قومی معیشت سدھارنے پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتے اور وہ بدستور کمزور و ناتواں رہتی ہے۔ اس خرابی کا علاج یہی ہے کہ پاکستان میں مضبوط و مستحکم سیاسی حکومت قائم ہونی چاہیے جو بھارت و 

اسرائیل کے جنم لیتے انتہائی خطرناک اتحاد کا پوری طاقت سے مقابلہ کر سکے۔


     
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ