یہودیوں کے خطرناک عزائم


    یہودیوں کے خطرناک عزائم .....  مرتب: سید آصف جلال
    امریکی یہودی مفکر چومسکی نے کہا’’ امریکی نظام(یہودی نظام) کا دنیا پر حکمران ہونا ضروری ہے‘ اس سے کم کوئی چیز قطعاً ہماری نگاہ میں قابل اعتبار نہیں اور نہ ہم کسی چیلنج کے ساتھ کسی قسم کی رواداری برتنے کیلئے تیار ہیں خاص طور پر شر و فساد کے عالمی سرچشموں مثلاً قوم پرستی‘وطن پرستی‘اسلامی بنیاد پرستی دہشت گردی اور نسلی تنازعات کوکسی قیمت پر برداشت نہیں کرینگے۔ ‘‘ دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 0.2فیصد ہے۔ اس کے باوجود یہودی دنیا کی موثر ترین قوت ہے پوری دنیاکے وسائل پر
    قبضہ کرنا یہودیوں کا مشن ہے ۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے 1896ء میں ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس کی منظوری 31اگست 1897ء کو باسل میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی۔ اس اجلاس میں 20یہودی شریک تھے۔ یکم جنوری 1920ء کو اسی منصوبے کے تحت لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیاجبکہ 24اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیااقوام متحدہ کے قیام کا مقصد چھوٹے اور کمزور ممالک پر بڑی طاقتور حکومتوں کے فیصلے مسلط کرنا تھا۔اقوام متحدہ کے قیام سے عالمی حکومت کے قیام کا پہلا وسیلہ یہودیوں کے ہاتھ آ گیا۔ دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کے لئے یہودیوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے ادارے قائم کئے یہودیوں کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایک مضبوط بیس کی ضرورت تھی اس مقصد کے لئے
    کرنل ایڈورڈ منڈیل
    امریکہ ایک آئیڈل ملک تھا امریکہ پر کیسے قابض ہوا جائے؟اس مقصد کے حصول کے لئے کرنل ایڈورڈ منڈیل نے لندن میں ایک حفیہ میڈنگ بلائی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ میں ’’امریکی ادارے برائے عالمی اُمور‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جائے جس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو مستقبل میں امریکہ کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ سکیں۔ 1921ء میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے’’کونسل برائے خارجہ تعلقات‘‘ یعنی (سی ایف آر )رکھ دیا گیا۔سی ایف آر نے وجود میں آتے ہی اپنا ترجمان’’فارن افیئرز‘‘ کے نام سے نکالنا شروع کیاسی ایف آر کے تمام ارکان یہودی تھے۔ ایک قلیل مدت میں ان یہودیوں نے امریکہ میں تمام عہدوں پر قبضہ کر لیا۔بڑ ے بڑے ادارے‘میڈیا ‘ بینک اور اہم سیاسی جماعتوں پر بھی یہودی قابض ہو گئے۔ سی ایف آر نے اس قدر قوت حاصل کر لی کہ امریکہ کے چھبیسویں صدر تھیوڈ روز ویلٹ سے لیکر آج تک ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی صدارت کے لئے جتنے امیدوار نامزد کئے ان سب کا تعلق سی ایف ار سے تھا۔ رونالڈریگن اگرچہ سی ایف ار کے رکن نہیں تھے تاہم انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا نائب جارج بش کو منتخب کریں اس لئے کہ جارج بش سی ایف ار کا رکن تھا، امریکی صدارت کا چارج سنبھالنے کے بعد ریگن پر قاتلانہ حملہ کرایا گیاریگن پر قاتلانہ حملے کا مقصد جارج بش کو وسیع اختیارات دلوانا تھاریگن کی حکومت کے ارکان کی تعداد313تھی اور وہ سب کے سب سی ایف ار کے رکن تھے جب کلنٹن نے صدارت کا عہدہ سنبھالاتو اس نے سی ایف ار کے یہودی صدرکرسٹوفر وران کو پوری آزادی دی کہ وہ حکومتی امور چلانے کے لئے جسے چاہے منتخب کرے۔ یہی وجہ تھی کہ کلنٹن حکومت کے بھی بیشتر ارکان کا تعلق سی ایف ار سے تھا۔
    سی ایف ار کا ترجمان رسالہ ’’فارن افیئرز‘‘ اس قدرموثر کہ اگر کوئی تجویز اس میں دوبار شائع ہو جائے تو امریکی حکومت اسے اس طرح نافذ کرتی ہے جیسے و ہ تسلیم شدہ حقیقت ہو۔ 1948میں بے سروسامانی کے عالم میں مہاجر بن کر امریکہ آنے والی قوم تین فیصد ہونے کے باوجود 97فیصد امریکی آبادی پر مکمل حاوی ہو چکی ہے، امریکی میں جڑیں مضبوط کرنے کے بعد یہودیوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے باقی دنیا میں اپنی سرگرمیاں بڑھانی شروع کر دی ہیں۔14مئی1948ء کو خطہ ء عرب میں یہودی ریاست کا قیاپہلا قدم تھا۔ا
    اسرائیل کے قیام کا مقصد عرب دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے اس منصوبے کا آغا ز عراق سے ہو چکا ہے وسطی ایشیاء کی نومسلم ریاستیں افغانسان میں جنگی محاذ تاحال جاری ہے، اس کے لئے علامہ ایران اور پاکستان بھی یہودیوں کا ٹارگٹ ہے۔پاکستان کو کمزور کرنے کے منصوبے پر اس وقت زور و شور سے عمل درامد جاری ہے، طالبانی حکومت کا خاتمہ اور ’’وار ان ٹیرر‘‘ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنانا اسی منصوبے کا تسلسل ہے، پاکستان کے حکمرانوں سے ایسے کام کروائے گئے ہیں اور کروائے جا رہے ہیں کہ جس سے عوام اور فوج میں دوری پیدا ہونے کی فضا پیدا ہو۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں فوجی آپریشنز کروا کر عوام اور
    فوج کو ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا کرنا بھی یہودی منصوبے کا حصہ ہے۔دوسر ی طرف پاکستانی عوام کو گروہوں یعنی روشن خیال (مذہب سے بیزار اور امریکہ نواز) اور بنیاد پرست (مذہب پسند اور امریکہ مخالف) میں منقسم کر کے ایک دوسرے کے مدمقابل لایا جار ہا ہے اس تقسیم کے نتیجے میں خانہ جنگی ہو گی اور بے پناہ خون بہے گامگر لگتا یوں ہے کہ پاکستان کو مٹانے اور چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کی تمام تر کوشش کے باوجودپاکستان نہ صرف قائم رہے گا بلکہ ایک نئی طاقت ابھر ے گا تاہم اس وقت یہودی پوری دنیا کو پنی گرفت میں لینے کا عزم کئے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں سب بڑی رکاوٹ ’’بنیاد پرست‘‘ مسلمان ہیں اس لئے یہودیوں نے مذہب سے تعلق ختم کرنے کے لئے مذہب کو ایک انفرادی معاملہ قرار دے دیا گیا۔ مذہب سے لوگوں کا دور کرنے اور فخاشی عام کرنے کے لئے یہودیوں نے ’’فری میسن‘‘ کے تحت دور جدید کی تحریک ’’New age Movement‘‘کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس کا مقصدایک نئے دین کی تشکیل ہے ۔ ایسا دین جس میں شیطان کی پرستش کی جائے منشیات کا استعمال قانونی طور پر جائز ہو۔ اس تحریک کے نتیجے میں سوئیزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ایک تفریحی مرکز صرف نشہ آوراشیاء استعمال کرنے والوں کے لئے مخصوص کر دگیا ہے۔ اس مخصوص علاقے میں نشہ کا انجیکشن باقاعدہ سرکاری طور پر لگانے کا اہتمام کیا گیا ۔ خطہ ء عرب میں مغربی جمہوریت اور پاکستان میں روشن خیالی کا نعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اسلامی ممالک میں ڈش اور کیبل کو گلی محلے تک پہنچایا جا رہے تاکہ نئی نسل کو گمراہی کے راستے پر ڈال کر مذہب سے دور کیا جائے۔ ان کی تحقیق کے مطابق مسلمان جب مذہب سے دور ہو جاتا ہے توان میں جرات، بہادری ، حیا اور غیرت مندی جیسی حصوصیات ختم ہو جاتی ہیں، اس کے بعد وہ کافروں کے غلام بن کر رہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی روشن خیالی کی معراج ہے۔تاہم اصل سوال یہ ہے کہ ہم کو ڈیرہ کروڑ سے شکوہ کرنا زیب دیتا ہے؟یہودیوں کے پاس صرف ایک ملک ہے اور ہم مسلمانوں کے پاس 61ملک ہیں، وہ ڈیرہ کروڑ اور ہم ڈیرھ ارب ہیں۔ اس کے باوجود ہم محکوم وہ حاکم ہیں تو ہمیں شرم آنی چاہیے ہمیں اپنا سر پیٹنا چاہیے اور اپنے آپ سے شکوہ کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے آپ کو کوسنا چاہیے، دوسروں پر تنقید اور نکتہ چینی کرنے کے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ نہ جانے ہم مسلمان کب خواب غفلت سے بیدار وہونگے۔ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی اور نہ جانے کب ہوش آئے گا۔۔۔رات طویل ہو گئی ہے!! (بشکریہ: روزنامہ جناح، پیر 22 اکتوبر 2007)
    ********
    ایک کتاب
    ۔ یہودی پروٹوکولز (گریٹر اسرائیل کے عالمی صیہونی منصوبے کی حفیہ دستاویز کا اردو ترجمہ)
    مترجم: محمد یحییٰ خان۔
    اس کتاب کو ان لائن پڑھئے۔۔ اگر اپ کو یہ کتاب برقی صورت میں درکار ہوں تو اس ایڈریس پر رابطہ کیجئے۔
    s.aisfjalal@hotmail.com
    yahoodi Protocoles (Jewish Protocolles Urdu)

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment