انا، خودی اور ایگو وغیرہ کے متعلق مباحث ﴿قسط نمبر١ ﴾


    انا، خودی اور ایگو وغیرہ کے متعلق مباحث   ﴿قسط نمبر١ ﴾۔۔۔۔تحریر و تحقیق۔ چوہدری طالب حسین

    قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے * اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو فرمایا ---تم(میری اطاعت کے لیے )آؤ خوشی کے ساتھ یا مجبوری میں *--(لیکن انہوں نے کہا ہم آتے ہے خوشی سے ) اس کا مطلب ہے کائنات میں بھی شعور ہے .وضاحت آگے چل کر ہو گی.
    EGO-ایگو،ایغو -خودی ،انا -شعور -لاشعور - اجتماعی شعور -اجتماعی لاشعور .

    آءی ڈی، ایگو اور سپر ایگو کی مثالیں

    یہ لفظ لاطینی زبان میں" میں، بجائے خود" کے معنی دیتا ہے .سگمنڈ فرایڈ نے انفرادی شخصی رویے کی وضاحت کے لیے اپنا نفسی نظام پیش کیا جو ذہن میں مختلف عاملوں کی باہمی کشمکش پر مبنی ہے. ان عاملوں کو آءی ڈی ،ایگو Ego اور سپر ایگو Super Egoکا نام دیا گیا . یہ لا شعور کے حصے ہیں . لا شعوری جبلی قوتوں اور ذہن نشین کروائے گءے اصولوں کی تجسیم کو بالترتیب اڈ اور ایگو کا نام دیا گیا ہے . ایگو ذہن کا وہ حصہ ہے جس میں شعور موجود ہوتا ہے. اس کے نزدیک پرکھ، تحمل،حقیقت کی جانچ،ضبط ،منصوبہ بندی،حقائق کا امتزاج ،دانشورانہ سرگرمی اور یاداشت سب ایگو کے ساتھ وابستہ افعال ہیں. فرایڈی نفسیات میں اڈ اور سپر ایگو خارجی دنیا کے ساتھ ایگو کے توسط سے معاملہ کرتے ہیں . ایگو کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدائی محرکات Primitive drives،اخلاقی مسلمات اور حقائق کے مابین توازن قائم رکھے اور ساتھ ہی ساتھ اڈ اور سپر ایگو کی تسلی کا کام بھی کرتی رہے. اس کے پیش نظر فرد کی سلامتی ہے . تاہم اگر نتائج و عواقب گمبھیر نہ ہوں تو یہ اڈ کی خواہشات پر پابندی نہیں لگاتی . جب حقیقت یا معاشرتی اخلاقی مسلمات،ممانعات اور معیارات اءی ڈی کے ساتھ متصادم ہونے لگیں تو ایگو کی مدافعتی میکانیات بروئے کار آتی ہے اور فرد کی سلامتی کے لیے مختلف سطحوں پر مختلف اقدامات کیے جاتے
    ایگو کی ایک اور مثال
    ہیں. جب مذکورہ بالا معیارات ،مسلمات،اور ممانعات فرد کے اندر جگہ کر لیتے ہیں اور پھر ان کے زیر اثر تشکیل پانے والی توقعات کی شکشت و ریخت ہوتی ہے تو بھی ایگو ہی فرد کو احساس شکشت سے بچاتی ہے.
    فرد کے اڈ اور اس کے خارجی ماحول کے درمیان موجود ایگو معاملہ کار کی حیثیت سے بلعموم انہیں متصادم نہیں ہونے دیتی. اڈ کے بہت سے مظاہر ایگو کے باعث سامنے نہیں آ پاتے. تاہم اگر صورت حال گمبھیر ہونے کا امکان نہ ہو تو ایگو،اڈ پر زیادہ پابندی نہیں لگاتی .

    اڈ اور سپر ایگو کے درمیان سرگرم معاملہ کار کی حیثیت میں ایگو ہر دو کی ضروریات کو پیش نظر رکھتی ہے اور انکے پورا ہونے کو یقینی بناتی ہے....سگمنڈ فرایڈ نے ایگو اور اڈ کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے گھڑ سوار اور گھوڑے کی علامتیں استعمال کی ہیں. اس میں ایگو گھڑ سوار ہے جبکہ اڈ گھوڑا ہے. گھوڑا توانائی اور اس کے ذرائع فراہم کرتا ہے جبکہ سوار طے کرتا ہے کہ اسے کس سمت میں استعمال کرنا ہے. جس طرح دشوار گزار اور مشکل راہ گزر پر گھوڑا اپنی مرضی کر گزرتا ہے اس طرح بعض غیر معمولی حالت میں اڈ بھی ایگو پر غالب آجاتی ہے.
    نفسیات کے بعض مصنفین نے ایگو کو ایسا غلام قرار دیا ہے جس کے تین درشت مزاج آقا ہیں یعنی اڈ،سپر ایگو اور بیرونی دنیا. تاہم کہا جاتا ہے کہ اس کی وفاداری اڈ کے ساتھ نسبتا زیادہ ہے. اسی لیے یہ حقیقت کی جزئیات و تفصیلات پر پُر فریب پردہ ڈالتی ہے تاکہ ا ڈ کے ساتھ اس کے اختلافات ٹھوس شکل اختیار نہ کرنے پائیں . اپنے اس عمل میں ایگو حقیقت کے ساتھ وفاداری کا ڈھونگ رچاتی ہے. لیکن سپر ایگو ایک بیدار پہرے دار کی طرح ایگو کے افعال اور حکمت عملی کی نگرانی کرتی ہے اور اسے احساس جرم، احساس کمتری اور احساس اضطراب جیسی سزائیں دیتی ہے.سپر ایگو کی عائد کردہ ان حالتوں پر حاوی ہونے کے لیے ایگو انکار،تخیل ،تصعیدSublimation، رجعت Regression، استحصالRepression ، دانشورانہ توجیہ اور تلافی Compensation کا رستہ اختیار کرتی ہے. فرایڈ کی بیٹی اینا فرائیڈ نے اس فہرست میں عینیت تراشی Idealization ،الٹاو Inversion ،اکتساب Interjection ،جسمانیت Somatization اور پارگیSplitting کو بھی شامل کیا ہے.
    انا ،خودی ،ایغو--Ego--(کشاف اصطلاحات فلسفہ سے ماخوز)- ایغو کو تصوریت کے فلسفہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسے فعال ،انضباطی اور روحانی اکائی کہا جاتا ہے اور اس کی خودمختارہستی تسلیم کی جاتی ہے .مثلاّ ڈسکارٹ Descartes کہتا ہے کہ ایغو ،تعقلی افکار کا وجدانی اصول ہے اور نفس انسانی کا جزو لاینفک ہے.
    رینی ڈسکارٹ
    ہیوم Hume نے ایغو کو ادراکات میں تحلیل کر دیا. کانٹ نے ایغو کے دو اقسام بتلاے ایک تجربی اور دوسرا محض Pure . انانے محض کو وہ ادراکات کی ماورائی وحدت Transcendental Unity of Apperciption اور حکم اطلاقی Categorical Imperative کا ذریعہ اظہر کہتا ہے. فختے Fichte کے خیال میں ایغو ،قطعی تخلیقی اصول ہے اور اس کے مقابلے میں باقی سب کائنات غیر ایغو ہے. ہیگل ایغو کو مبداء تصور نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ایغو تو خارجی خارجی خود شعوری کی اکائی ہے. ایغو کی مطلقیت،وجودیت کا لابدی عنصر ہے جب اس تصور کو انتہا تک پہنچایا جائے تو اس سے ہمہ انائیت --Solipsism وارد ہوتا ہے جو ایک مغالطہ ہے .


    مارکسی ایغو کا مادی تصور پیش کرتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ ایغو کی ہستی معاشی مادی وسائل سے وابستہ ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات اس وجہ سے نہیں کہتے کہ وہ روح رکھتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ معاشی علائق اور تمام مادی اور روحانی ثقافت کا خالق ہے. فرایڈ نے Ego انا اور فوق انا Super ego میں تمیز کی ہے . فوق انا وہی شے ہے جو علم الاخلاق میں ضمیر کہلاتی ہے.

    اقبال کا فلسفہ خودی کا فلسفہ ہے. کائنات کا ہر ذرہ مرکز شعور یا ایغو ہے ترقی کے مختلف مرکز طے کرتا ہوا یہ ایغو انسان کی منزل تک پہنچ جاتا ہے ،یہاں بھی اس کی ترقی جاری رہتی ہے اور اس کے لیے معاشرتی ماحول از بس ضروری ہے اور اس ماحول کی اساس اخلاق اور روحانیت پر ہونی چاہیے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقبال کا ایمان تھا کہ توحید اور رسالت ہی معاشرے کا اساس بن سکتے ہیں.

    علامہ اقبال

    اقبال اپنی کتاب "اسرار خودی" کی پہلی چھاپ کے دیباچے میں لکھتے ہیں "یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات مستنیر ہوتے ہیں. یہ پُر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے ،یہ انا یا عین عمل کی رو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے. جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدے کی گرم نگاہ کی تاب نہیں لا سکتی، کیا چیز ہے..........اور آخر میں لفظ خودی کے بارے میں لکھا ہے " اس کا مفھوم محض احساس نفس اور تعیں ذات ہے"

    خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں ---یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا اقبال نے خودی کی تربیت کے تین مراحل بھی خود ہی بتا دیے ہیں. ان میں پہلا مرحلہ اطاعت کا ہے .قرآن میں خدا نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے جن و انس کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت کا اصول ا طاعت ہے. جس کی پرستش کی جاتی ہے اس کی ا طاعت بھی کی جاتی ہے. ا طاعت اپنی آزادی کو کسی آئین یا قانون کی حدود میں رکھنے کا دوسرا نام ہے. دوسرا مرحلہ ضبط نفس کا ہے. یہ مرحلہ انسان کو اپنے آپ پر قابو پانا سکھاتا ہے. اس میں انسان کسی اور کا نہیں خود اپنا پابند ہوتا ہے. جو شخص اپنے اوپر حکمرانی نہیں کر سکتا وہ خود دوسروں کی حکومت میں آ جاتا ہے . اس کے بعد تیسرا مرحلہ نیابت الہی کا ہے اور یہ وہی منصب ہے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے" انی جاعل فی الارض خلیفه" یہ وہ نازک اور مشکل مقام ہے جہاں انسان کا فرض اور عمل ایک ہو جاتا ہے اور اس کا عمل ہی اپنی جزا بن جاتا ہے لیکن یہ منصب کسبی نہیں وہبی ہے اور عطیہ خداوندی ہے.(اقبال --مجدد عصر-اقبال اکادمی پاکستان )
    اطاعت الہی میں پوری کائنات مصروف ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں ہی قرآن کریم سے حوالہ دیا ہے. کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور سجدہ میں مشغول ہے.
    قسط نمبر ۲ میں کارل گستاؤ ژنگ کے نفسیاتی نظریات میں اجتماعی لاشعور کے بارے میں گفتگو ہو گی۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment