مسلم حکمرانوں کی غیر موجودگی میں مسلح مزاحمت کیلئے شرعی ضوابط

    مسلم حکمرانوں کی غیر موجودگی میں مسلح مزاحمت کیلئے شرعی ضوابط........حامد کمال الدین
    ایسے کئی ایک واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جب کچھ غیر ذمہ دار جذباتی نوجوان کوئی ایسی حرکت کر آتے ہیں جو طرفین میں فسادات کے بھڑک اٹھنے کا باعث بنیں اور جو ایسے نتائج پیدا کریں جو مسلم قیادتوں کے کسی منصوبے میں فٹ نہ بیٹھیں اور نہ ہی مسلم قیادتیں ان کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوں۔بھارت میں کئی بار جلسے جلوسوں کے اندر یا کچھ اور مواقع پر ایسا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں طرفین سے بلوائیوں کے ہاتھوں ناگفتہ
    بہ واقعات کا ایک پورا سلسلہ چل نکلا۔ بعض مغربی ممالک میں بھی کچھ انتہا پسند نوجوان گاہے بگاہے ایسے کام یا اس کی کوشش کرتے پائے گئے۔
    کیا ایسی ہر حرکت کو ’جہاد‘ کہا جائے گا؟ کیا ہر آدمی معاملات اُمت کو یوں اپنے ہاتھ میں لے لینے اور پوری قوم کو اپنی ایک غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیز کارروائی کے بھیانک نتائج بھگتنے پر مجبور کر دینے کا مجاز ہے؟
    آپ کی شخصی رائے اور صوابدید آپ کے اپنے گھر کے معاملہ میں قابل عمل ہو سکتی ہے۔ اُمت کا کوئی اجتماعی معاملہ ہے جو پوری اُمت کو متاثر کرنے والا ہے، اس میں آپ کی شخصی رائے یا شخصی اجتہاد ایک غیر متعلقہ امر ہے۔
    چند آدمیوں کو کیا حق کہ وہ اُمت کے امن اور مستقبل سے کھیلیں اور قوم کے عقلمندوں کو اپنی نادانیوں کی قیمت ادا کرنے پرمجبور کردیں؟ ان کو کوئی بات قرآن میں یا حدیث میں نظر آتی ہے، اور بہت امکان تو یہ ہے کہ وہ ان کی غلط فہمی ہو، تو بھی جہاد ایک انفرادی عمل نہیں بلکہ ایک اجتماعی واجب ہے جبکہ اجتماعی واجبات کو لے کر چلنے اور اجتماعی امور کو طے کرنے کا طریقہ ہمارے دین میں واضح کردیاگیا ہے۔
    کچھ کم علم جذباتی افراد کی ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت ’اجتہادی غلطی‘ کے زمرے میں بھی نہ آئے گی۔ اجتہاد کی اہلیت آدمی میں ہو تو ہی اس کو اجتہاد کی غلطی کا وہ فائدہ دیا جا سکتا ہے جو حدیث میں بیان ہوا یعنی اس کی غلطی کی مغفرت اور اجتہاد کرنے پر ایک اجر۔پھر اجتماعی امور میں ایک یا چند افراد کا ذاتی اجتہاد بھی ایک ایسی کارروائی کیلئے وجہ جواز نہیں بن سکتا جس کی قیمت پوری جماعت کو مل کر اٹھانی پڑے۔
    حضرت عثمان  کے خلاف جن چھوکروں نے خروج کیا کسی نے بھی ان کو اجتہادی غلطی کا فائدہ نہ دیا اگرچہ بظاہر وہ دینی جذبہ سے سرشار اور ’قرآن وحدیث‘ کے حوالے بھی بار بار دیتے تھے۔ وہ دراصل ’اجتہاد‘ کی اہلیت رکھے بغیر ’فتوے‘ دے رہے تھے۔ پھر اُمت میں اتنے بڑے بڑے فقیہ صحابہ کے ہوتے ہوئے دین میں کلام کر رہے تھے جو کہ ایک شرمناک بات تھی اور یوں اُمت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے رہے تھے۔ یہ لوگ شر انگیز باغی تصور کئے گئے اور اگر خلیفہ وقت مانع نہ ہوتے تو بڑے بڑے صحابہ ان کی گوشمالی کا ارادہ رکھتے تھے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے دور میں طائفہ معاویہ  اور طائفہ عائشہ  و زبیر  وطلحہ  کو اجتہادی غلطی کا فائدہ دیا گیا باوجود اس کے کہ نقصان ان کے قتال کے باعث بھی بے حد ہوا.... اس کی وجہ یہ کہ اس طائفہ میں مجتہدین صحابہ کی ایک معتدبہ تعداد پائی جاتی تھی اور اُمت میں ان کے علم اور فہم پر ایک اعلیٰ درجہ کا اعتماد پایا جاتا تھا۔ (12)
    چنانچہ کفار کے دھاوے کے خلاف مزاحمت کو عالم اسلام کے بعض معروف محاذوں پر جمہور اُمت کے نزدیک اس وقت اگر جائز کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظلم کفار کے خلاف مسلم مزاحمت کے کوئی ضوابط نہ ہوں اور کوئی بھی جذباتی آدمی کسی بھی وقت بڑے آرام سے بلوے کراسکتا ہے۔
    جہاں تک ضوابط کی بات ہے تو اہل علم کے تعامل کے تتبع سے ہم پر اس معاملہ کے دو اہم پہلو واضح ہوتے ہیں:
    ایک شرعی پہلو اور ایک انتظامی۔
    (الف) ضوابط قتال کا شرعی پہلو:
    آپ نے عموماً دیکھا ہوگا کہ کسی خطہ کے اندر کفار کے عدوان کا جب مسئلہ کھڑا ہوتا ہے یا جب مسلمانوں کے اندر اس کے خلاف کھڑے ہونے کی استعداد محسوس کی جاتی ہے تو وہاں جہاد جائز ہونے کے معاملہ میں اُمت کے اہل علم کی جانب سے باقاعدہ فتویٰ دیا جاتا ہے۔ آپ نے مزید غور کیا ہوگا کہ اس معاملہ میں کسی ایک یا دو عالموں کے فتاویٰ پر اکتفا نہیں کر لیا جاتا چاہے علمی طور پر وہ ایک دو عالم کتنے بھی قابل اعتماد کیوں نہ ہوں۔ ایک اجتماعی مسئلے پر اتفاق رائے کی فضا پیدا کرنے کیلئے خصوصاً خلافت کی غیر موجودگی میں، علمائے اُمت کا ایک جمع غفیر درکار ہوتا ہے۔
    یہ ایک بے حد زبردست بات ہے کہ آج جب دینی طبقوں میں اختلاف اورانتشار ناقابل یقین حد کو پہنچا ہوا ہے اُمت کے ان اہم محاذوں پر جہاد کی بابت پھر بھی علمائے اُمت کی ایک بڑی تعداد یک آواز نظر آتی ہے! یہ خدا کا اس اُمت پر ایک خاص فضل ہے۔
    چنانچہ ضوابط کے حوالے سے پہلی بات جو ہمیں اہل علم کے تعامل کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ ایسے معاملات جو پوری اُمت کو یا اس کے ایک بڑے حصہ کو متاثر کرنے والے ہوں ان کی بابت ایک یا چند علماءکا فتوی کسی اقدام کیلئے کافی نہیں۔فتوی یا اجتہاد میں ایک عالم کی ذاتی طبیعت، مزاج اور شخصی پس منظر کو دخل ہو سکتا ہے۔ اس کی اپنی جذباتیت اور تہور و بے احتیاطی یا پھر اس کی بزدلی اور فرط احتیاط اور شدت توقف ایسی باتوں کو اس کے اس فتووں میں دخل ہو سکتا ہے بے شک اس کی ’علمی اہلیت‘ میں کوئی کلام نہ ہو۔ دیگر امور میں اس کا اجتہاد قابل عمل ہو تو ہو مگر جہاں تک اُمت کے اجتماعی امور کا تعلق ہے اور جن کے مضمرات پوری اُمت پہ پڑنے والے ہوں ___ خصوصاً مسئلہ اگر ’توقف‘ کی بجائے ’اقدام‘ کا ہو ___ وہاں کسی ایک عالم کا فتوی ’علم جہاد‘ بلند کر آنے کیلئے کافی نہیں۔ اس بات کی اجازت دے دی جائے تو کوئی بھی جا کر کسی ایک آدھ ’جگہ‘ سے فتویٰ لے آسکتا ہے اور اس صورت میں مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور بدنظمی کا آجانا یقینی ہے۔
    افغانستان میں جس وقت روس کی افواج گھس آئیں تب اُمت کے ہزاروں علماءنے ان کے خلاف قتال پر اتفاق کیا بلکہ علماءکی ایک کثیر تعداد نے بنفس نفیس اس قتال میں حصہ لیا یا پھر کسی اور حیثیت میں اس کی پشت پناہی کی۔
    یہی معاملہ فلسطین میں قتال کا ہے۔ یہی معاملہ خاصی بڑی حد تک کشمیر اور کچھ دیگر خطوں میں ہونے والے قتال کا رہا۔ طالبان کے قتال کی تائید میں علمائے اُمت کی ایک بہت بڑی تعداد ہمیں یک آواز نظر آئی۔
    ان سب محاذوں پر علمائے اُمت کی ایک بڑی تعداد تو قتال کے جواز کا باقاعدہ فتویٰ دیتی رہی۔ پھر علما کی ایک اور بہت بڑی تعداد ایسی تھی جس نے اس معاملہ میں کوئی فتوی صادر نہیں کیا تو اس کے خلاف بھی فتوی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ اس کے خلاف فتاوی آنے کے واقعات سنے ہی نہیں گئے۔ کوئی ایک آدھ ’آواز‘ اس کے خلاف سنی گئی ہو تو الگ بات ہے البتہ اہل علم کی کوئی معتدبہ تعداد اس قتال کی ’حرمت‘ پر اپنا موقف لے کر کبھی سامنے نہیں آئی اور جیسا کہ ہم نے کہا اُمت کے اجتماعی امور میں ایک آدھ آواز کی بجائے جماہیر اہل علم کا اختیار کردہ اجتہاد اپنا لینا ہی ایک صائب طرز عمل ہے۔
    اس کے باوجود ہم نے یہ نہیں کہا کہ جہاد افغانستان یا جہاد فلسطین وغیرہ پر اُمت کا اجماع رہا ہے۔ یہ بہرحال ایک اجتہاد تھا جس سے اختلاف کا آپ کو سو فیصد حق ہے البتہ یہ ایک ایسا اجتہاد تھا جس پر علمائے اُمت کی ایک بہت بڑی اور غیر معمولی تعداد کا اتفاق رائے پایا جانا اور اہل علم کی ایک اور بہت بڑی تعداد کی جانب سے اس معاملہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہ کیا جانا ایک واضح معلوم واقعہ ہے۔
    اب دوسری جانب دیکھیے تو مثلاً بھارت کے اندر وقتاً فوقتاً جو ہندو مسلم تصادم کھڑے ہو جاتے ہیں یا دُنیا کے کچھ اور خطوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین آناً فاناً خونریزی کے کچھ واقعات ہو جاتے ہیں.... ان کی چھیڑ چھیڑنے یا ان کو ہوا دینے کے حق میں علمائے اُمت کے ہاں کبھی کوئی ایسا فتوی نہیں پایا گیا۔ یہ ہمیشہ کچھ غیر ذمہ دار اور ناعاقبت اندیش افراد کا کیا دھرا ہوتا ہے اور یقینا حد سے بڑھ کر قابل مذمت ہے۔ کوئی شاذ قسم کی آواز ایسی حرکت کے حق میں کہیں اِدھر اُدھر سے سننے میں آئی بھی ہو تو اس کا ظاہر ہے کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ انسانی خون کی حرمت بازیچہ اطفال بہرحال نہیں۔اس کے باوجود ہم نے یہ نہیں کہا کہ جہاد افغانستان یا جہاد فلسطین وغیرہ پر اُمت کا اجماع رہا ہے۔ یہ بہرحال ایک اجتہاد تھا جس سے اختلاف کا آپ کو سو فیصد حق ہے البتہ یہ ایک ایسا اجتہاد تھا جس پر علمائے اُمت کی ایک بہت بڑی اور غیر معمولی تعداد کا اتفاق رائے پایا جانا اور اہل علم کی ایک اور بہت بڑی تعداد کی جانب سے اس معاملہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہ کیا جانا ایک واضح معلوم واقعہ ہے۔
    اب دوسری جانب دیکھیے تو مثلاً بھارت کے اندر وقتاً فوقتاً جو ہندو مسلم تصادم کھڑے ہو جاتے ہیں یا دُنیا کے کچھ اور خطوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین آناً فاناً خونریزی کے کچھ واقعات ہو جاتے ہیں.... ان کی چھیڑ چھیڑنے یا ان کو ہوا دینے کے حق میں علمائے اُمت کے ہاں کبھی کوئی ایسا فتوی نہیں پایا گیا۔ یہ ہمیشہ کچھ غیر ذمہ دار اور ناعاقبت اندیش افراد کا کیا دھرا ہوتا ہے اور یقینا حد سے بڑھ کر قابل مذمت ہے۔ کوئی شاذ قسم کی آواز ایسی حرکت کے حق میں کہیں اِدھر اُدھر سے سننے میں آئی بھی ہو تو اس کا ظاہر ہے کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ انسانی خون کی حرمت بازیچہ اطفال بہرحال نہیں۔
    چنانچہ قاعدہ صرف اتنا نہیں کہ کہیں پر کفار کا راج ہے تو بس قتال جائز ہو جائے۔ حتی کہ کفار کے کسی مسلم سرزمین پر غاصبانہ ومجرمانہ تسلط اور ان کے ہاں ظلم وستم کا پا یا جانا بھی بذات خود اس بات کیلئے کافی نہیں کہ وہاں کچھ لوگ اپنی ذاتی صوابدید پر کوئی ہنگامہ کھڑا کرکے اُمت کو پھنسا آئیں اور اس کو جہاد قرار دیا جائے.... تاآنکہ اس معاملہ کو پہلے اُمت کے اہل علم ودانش ہی کی جانب نہ لوٹا دیا گیا ہو:
    وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً (النساء: 83)
    ”جہاں کوئی معاملہ امن یا خوف کا ان کے (سامنے) آیا یہ اس کو پھیلانے لگے، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنے میں سے ذمہ دار اصحاب کی جانب ہی لوٹا دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ (بخوبی) معلوم کر لیتے جو (معاملہ کی) تہہ میں پہنچ کر نتیجہ اخذ کر لینے (کی صلاحیت رکھتے) ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی حرمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے“۔
    ’اپنے میں سے ذمہ دار اصحاب‘.... آیت میں لفظ آیا ہے اولی امر منہم یہ لفظ اس سے چند آیات پہلے (أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ۔ النساء: 59) بھی گزرا ہے۔ تفسیر ماثور کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجئے اولی الامر سے مراد لینے میں سلف کی ایک رائے یہ ہے کہ یہ مسلم حکمران ہیں ا ور ایک رائے یہ کہ یہ مسلم علماءاور فقہاءہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو اقوال میں کوئی ایسا تعارض نہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ ایک پہلو سے حکمرانوں کو علماءکی اطاعت کرنی ہے اور ایک پہلو سے علماءکو حکمرانوں کی.... مطلق اطاعت گو دونوں کو اللہ اور رسول کی کرنی ہے۔ 
    اولی امر  سے حکمران مراد لئے جانا اور اس کی تائید میں سلف سے بے شمار اقوال پائے جانا معروف ہے لہٰذا اس کا ثبوت اور تفصیل دینا یہاں ضروری نہیں۔ البتہ ’اولی اولی امر  سے اہل علم وفقہ مراد لئے جانے کی کچھ تفصیل یہاں ذکر کی جاتی ہے:
    علماءکا اولی امر کے زمرے میں آنا
    امام طبری:
    (بہ ذیل تفسیر آیت 83 سورۃ النساء)
    اثر9997 : بیان کیا ہم سے بشر بن معاذ نے، کہا بیان کیا ہم سے یزید نے، کہا بیان کیا ہم سے سعید نے، قتادہ سے، کہا [ولو ردوہ الی الرسول والی ولی المر منہم ”اگر لوٹا دیتے اُسے یہ رسول کی طرف اور اپنے میں سے ذمہ دار اصحاب کی طرف“] یعنی لوٹا دیتے یہ (معاملہ کو) اپنے علماءکی طرف۔
    اثر 9998: بیان کیا ہم سے قاسم نے، کہا بیان کیا ہم سے حسین نے، کہا بیان کیا ہم سے حجاج نے، ابن جریح سے کہ [ ولو ردوہ الی الرسول والی ولی المر منہم: ”یعنی ان لوگوں کی طرف جو دین میں صاحب فقہ ہیں اور صاحب دانش]
    (بہ ذیل تفسیر آیت 59 سورۃ النساء)
    اثر9862: بیان کیا مجھ سے سفیان بن وکیع نے، کہا بیان کیا ہم سے میرے والد نے علی بن صالح سے، اس نے عبداللہ بن محمد بن عقیل سے، اس نے جابر بن عبداللہ سے (اثر 9863) کہا بیان کیا ہم سے جابر بن نوح نے اعمش سے، اس نے مجاہد سے [اطیعوا اﷲ وطیعوا الرسول وولی المر منکم ”اطاعت کرو اللہ کی، اطاعت کرو رسول کی، اور اپنے میں سے اولی الامر کی“ای ولی الفقہ منکم] ”یعنی تم میں سے اہل فقہ .
    اثر 9684: بیان کیا ہم سے ابوکریب نے، کہا بیان کیا ہم سے ابن ادریس نے، کہا خبر دی ہمیں لیث نے مجاہد سے[ اطیعوا اﷲ وطیعوا الرسول واولی المر منکم ] کہا: اصحاب فقہ وعلم
    اثر 9865: بیان کیا مجھ سے محمد بن عمرو نے، کہا بیان کیا ہم سے ابوعاصم نے، عیسی سے، اس نے ابن ابی نجیح سے [واولی المر منکم ] کہا: ”دین میں سمجھ رکھنے والے اور اصحاب دانش“
    اثر 9866: ایسی ہی روایت کی مجھ سے مثنیٰ نے، کہا بیان کیا ہم سے ابو حذیفہ نے، کہا بیان کیا ہم سے شبل نے ابن نجیح سے، اس نے قتادہ سے
    اثر9867: بیان کیا مجھ سے مثنیٰ نے، کہا بیان کیا ہم سے عبداللہ بن صالح نے، کہا بیان کیا مجھ سے معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے، اس نے ابن عباس  سے [اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم] یعنی اہل فقہ ودین۔
    اثر9868: بیان کیا مجھ سے احمد بن حازم نے، بیان کیا ہم سے ابونعیم نے، کہاں بیان کیا ہم سے سفیان نے، حصین سے، اس نے مجاہد سے  [واولی المر منکم ] کہا: اہل علم
    اثر9869: بیان کیا مجھ سے یعقوب بن ابراہیم نے، کہا بیان کیا ہم سے ہشیم نے، کہا خبر دی ہمیں عبدالمالک نے عطاءبن سائب سے [قولہ تعالی: اطیعوا اﷲ وطیعوا الرسول و اولی الامر منکم] کہا: اہل علم وفقہ
    اثر9870: بیان کیا ہم سے مثنیٰ نے، کہا بیان کیا ہم سے عمرو بن عون نے، کہا بیان کیا ہم سے ہشیم نے، عبدالملک سے، اس نے عطاءسے[ واولی المر منکم ] کہا: فقہاءوعلماء
    اثر9871: بیان کیا ہم سے حسین بن یحییٰ نے، کہا خبر دی ہمیں عبدالرزاق نے، کہا خبر دی ہمیں معمر نے حسن سے ے  [واولی المر منکم ] کہا: یہ علماءہیں
    اثر9872: (حسن بن یحییٰ ہی نے) کہا اور خبر دی ہمیں عبدالرزاق نے سفیان ثوری سے بھی بروایت ابن ابی نجیح عن مجاہد ے[ واولی المر منکم ]  کہا: یہ ہیں اہل فقہ واہل علم
    اثر9873: بیان کیا مجھ سے مثنی نے، کہا بیان کیا ہم سے اسحاق نے، کہا بیان کیا ہم سے ابن ابی جعفر نے اپنے باپ سے، اس نے ربیع سے، اس نے ابوالعالیہ سے [واولی المر منکم] کہا: یہ اہل علم ہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ولو ردوہ ی الرسول واولی المر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم
    امام قرطبی:

    (بہ ذیل تفسیر آیت 83 سورۃ النساء)

    ”یا پھر اولی المر کی طرف، جو کہ اہل علم اور اہل فقہ لوگ ہیں، ازروئے روایت حسن بصری  و قتادہ  “

    تفسیر ابن کثیر میں مذکورہ آثار اور امام ابن کثیر کا اپنا بیان:

    علی بن طلحہ نے کہا روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عباس  سے کہ اولی الامر منکم سے مراد ہیں اہل فقہ ودین۔ ایسا ہی قول ہے مجاہد، عطاء اور حسن بصری کا، ابوالعالیہ نے کہا: واولی الامر منکم یعنی علماء۔ جبکہ ظاہر یہ ہوتا ہے واﷲ اعلم کہ یہ آیت علماءاور امراءسمیت (سب) اولی الامر کو شامل ہے، جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔

    (اہل علم کے مراد ہونے کے حوالے سے) فرمان الٰہی ہے: لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ (المائدۃ: 63) ”کیوں نہیں حکم دیتے ان (اہل کتاب) کو یہ ربانی اور یہ احبار رک جانے کا گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے علاوہ ازیں فرمایا
    ”دریافت کرو اہل علم سے اگر خود تم علم والے نہیں

    (امراءکے مراد ہونے کے حوالے سے) صحیح متفق علیہ حدیث ابوھریرہ  سے عن رسول اللہ ﷺ فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔ جس نے میری معصیت کی اس نے خدا کی معصیت کی۔ اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی معصیت کی اس نے میری معصیت کی“۔  

    چنانچہ یہ احکام ہیں علماءاور امراءکی اطاعت کے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: اطیعوا اﷲ یعنی اللہ کی کتاب کی اتباع کرو واطیعوا الرسول یعنی رسول کی سنت کو اختیار کرو واولی المر منکم یعنی ان معاملات میں جن میں وہ تمہیں خدا کی اطاعت میں (رہتے ہوئے) حکم دیں نہ کہ خدا کی معصیت میں۔ کیونکہ خدا کی معصیت میں تو کسی مخلوق کی کوئی اطاعت ہی نہیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں پیچھے گزر چکا۔
    افظ ابن عبدالبر:

    اثر 963: عطاءسے روایت ہے قولہ تعالی: اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول کہا: اللہ اور رسول کی اطاعت ہے، کتاب وسنت کی اتباع واولی الامر منکم ہیں اصحاب علم وفقہ

    اثر 964: مجاہد سے روایت ہے کہا: اصحاب فقہ

    (ملاحظہ فرمائیے صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص 295)

    مفسر ابوبکر بن العربی کی تقریر:

    اولی الامر منکم کی تفسیر میں دو قول مروی ہیں:

    پہلا قول: میمون بن مہران کہتے ہیں: یہ سرایا کے امراءہیں۔ اس مفہوم پر وہ ایک حدیث بھی لاتے ہیں۔ بخاری نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے: یہ آیت عبداللہ بن حذافہ کے معاملہ میں اتری جب نبی ﷺ نے ان کو ایک سریہ میں (امیر بنا کر) بھیجا۔

    دوسرا قول: جابر  کہتے ہیں: یہ علماءہیں۔ یہی قول اکثر تابعین کا ہے اور اسی کو امام مالک نے اختیار کیا ہے۔

    (سلف کے کچھ مزید آثار ذکر کرنے کے بعد ابن العربی اپنا بیان دیتے ہیں:)

    میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد امراءاور علماءہر دو ہیں۔ امراءاس لئے کہ امر دراصل انہی سے صادر ہوتا ہے اور حکم انہی کی طرف لوٹتا ہے۔ اور علماءاس لئے کہ ان سے (امر) دریافت کرنا مخلوق پر واجب متعین ہے اور ان کی بات ماننا اور ان کے فتویٰ پر عمل پیرا ہونا لازم۔ عورت کیلئے خاوند بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ خصوصاً جبکہ ہم بیان کر چکے کہ یہ سب (اپنے اپنے لحاظ سے) حاکم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے یہ لفظ (باقاعدہ) استعمال فرمایا ہے۔ ارشاد ہے یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والر بانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اﷲ وکانوا علیہ شھداء(المائدۃ:44) ”حکم وفیصلہ کرتے تھے اس (تورات) کی رو سے وہ سارے نبی جو مسلم تھے یہودیوں کے معاملات کا اور اسی طرح ربانی (علمائ) اور احبار (اس حیثیت میں) کہ بنائے گئے تھے وہ امین کتاب اللہ کے اور تھے وہ اس پر شہید“[ چنانچہ حاکم (اس آیت میں) نبی کو کہا گیا اور حاکم ہی ربانی (عالم) کو اور حاکم ہی حبر (فقیہ) کو“۔
    (دیکھئے احکام القرآن۔ از ابن العربی بہ ذیل آیت 59 النساء)

    شیخ الاسلام ابن تیمیہ:

    ”اولوا الامر یعنی اصحاب الامر وذووہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو امر صادر کرتے ہیں اس میں اصحاب طاقت واقتدار بھی آتے ہیں اور اصحاب علم ورائے بھی۔ چنانچہ اولوا الامر دو اصناف ہیں۔ علماءاور امراء۔ یہ اگر ٹھیک ہو جائیں تو سب لوگ ٹھیک ہو جائیں۔ یہ اگر خراب ہونے لگیں تو سب لوگ خراب ہو جائیں“۔
    ”ان میں ملوک بھی آتے ہیں اور مشائخ بھی اور اہل دیوان (بیورو کریسی) بھی۔ ہر وہ شخص جس کے پیچھے لوگ چلتے ہوں اولی الامر میں شامل ہے۔ ان میں سے ہر ایک پابند ہے کہ وہ (اپنے پیروکاروں کو) اسی بات کا حکم دے جس کا اللہ نے حکم دیا ہو اور اس بات سے روکے جس سے اللہ نے روکا ہو۔ (دوسری طرف) ہر وہ شخص جو اس کی اطاعت کا پابند ہے اسے چاہیے کہ اللہ کی اطاعت میں رہتے ہوئے اس کی اطاعت کرے اور اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت نہ کرے“۔
    (مجموع فتاوی ج 28 ص 170]وقال فصل فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر)
    شیخ الاسلام کا ایک اور اقتباس:
    ”فرمایا کہ اس نے رسول بھیجے اور کتاب اور میزان اتاری اس لئے کہ لوگ قسط پر قائم ہوں۔ پھر فرمایا کہ اس نے حدید (آہن) اتارا جس کی مدد سے اس حق کی نصرت کی جائے گی۔ چنانچہ کتاب ہدایت کیلئے ہے اور تلوار نصرت کیلئے ”اور کافی ہے تیرا رب ہدایت دینے میں اور نصرت دینے میں“۔

    چنانچہ لوگوں کی استقامت ’حاملین کتاب‘ کے دم سے ہے یا پھر ’حاملین حدید‘ کے دم سے۔ جیسا کہ سلف میں سے کسی کا قول ہے: ”دو اصناف ہیں جو اگر ٹھیک ہوں تو لوگ ٹھیک ہو جائیں: امراءاور علماء “۔ آیت اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم کی تفسیر میں اہل علم نے جو اقوال چھوڑے ہیں وہ علماءاور امراءدونوں کو شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد نے ان دونوں اصناف کے اس آیت کے مراد میں شامل ہونے پر تصریح فرمائی ہے کیونکہ دونوں کی ہی اطاعت واجب ہے ان امور میں جو وہ اللہ کی اطاعت میں انجام دیں“۔

    مجموع فتاوی ج 18 ص 158 (فصل: قولہ وجعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا)

    فخر الدین رازی:

    ”علماءسلاطین ہیں۔ اپنے اس کمال کی بدولت جو انہیں قوت علم سے حاصل ہے۔ بادشاہ سلاطین ہیں اس قوت وتمکین کی بدولت جو انہیں حاصل ہے۔ تاہم سلطنت علماءکامل تر اور قوی تر ہے بہ نسبت سلطنت ملوک۔ کیونکہ سلطنت علماءنہ تو کسی وقت زائل ہوتی ہے اور نہ معزول جبکہ سلطنت ملوک پر دونوں ہی احتمال وارد ہیں۔ اور اس لئے بھی کہ سلطنت ملوک تابع ہے سلطنت علماءکے“۔

    (دیکھیے تفسیر مفاتیح الغیب بہ ذیل سورۃ ھود آیت 96)

    ابوبکر جصاص:

    ”فقہاءکو اولی الامر کہنے کا جواز ہے کیونکہ وہ خدا کے اوامر ونواہی کو جانتے ہیں اور دوسروں پر خدا کے اوامر ونواہی کی بابت ان کا قول ماننا لازم ہے۔ اس پہلو سے جائز ہے کہ ان پر اولی الامر کا اطلاق ہو۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا: ]لیتفھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلہم یحذرون (التوبۃ: 122) ”تاکہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور واپس جا کر اپنے علاقوں کے باشندوں کو متنبہ کریں تاکہ وہ متنبہ ہو جائیں“ چنانچہ یہاں علماءکی تنبیہ پہ متنبہ ہوجانا اللہ تعالیٰ نے لازم ٹھہرا دیا اور جن کو تنبیہ کی جائے ان پر علماءکا قول ماننا ضروری کردیا۔ اس لئے ان پر اولی الامر کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ امراءپر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ ان کے اوامر ان کے زیر امارت لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں“۔

    (دیکھیے تفسیر احکام القرآن للجصاص بہ ذیل آیت 83 سورۃ النساء)

    علاوہ ازیں .... اندلس کے بعض خطوں میں جب کچھ ایسے ادوار آئے کہ معاملہ طوائف الملوکی سے ہوتا ہوتا ’اختتام ملوک‘ تک پہنچ گیا تو اُمت کے کئی ایک معاملات کو راہ راست پہ رکھنے اور امور مسلمین کو ضیاع اور تلف سے بچانے کیلئے اس وقت کے مالکی علماءکے ہاں سے فتویٰ دیا گیا تھا کہ ایسے ملکوں کے اہل علم ورائے مل کر معاملات روزمرہ میں حسب ضرورت تصرف کر سکتے ہیں اور یہ کہ ان کے اس تصرف کی باقاعدہ شرعی حیثیت تسلیم ہوگی۔ ان متاخرہ ادوار کے بلاد مغرب کے مالکی علماءکے یہ فتاوی بمع حوالہ جات ہمیں اس وقت دستیاب نہیں لہٰذا وہ ہمارے اس مضمون کا حصہ نہ بن سکیں گے اور شاید کسی اور وقت ہم انہیں حاصل کرکے شائع کر سکیں۔ مگر عمومی طور پر بھی اُمت پر آنے والے ایسے غیر معمولی ادوار کی بابت یہ بات معروف ہے اور یہی بات علمائے اُمت کے ہاں عملاً باقی ہے۔

    خاص قتال کی بابت.... اب دو فتاوی ہم اپنے دور کے اہل علم کے دیں گے، باوجود اس کے کہ ان فتاوی کا مضمون دور حاضر کے اہل علم کی کثیر تعداد کے ہاں رائج اور معمول بہ ہے۔
    شیخ سعود بن عبداللہ الفنیسان:

    فتوی بہ عنوان: جھاد الطلب وجھاد الدفع

    ”یہ تعین کرنا کہ جہاد دفع کہاں ہوگا اور کس حد تک ہوگا اور اس کیلئے علم جہاد بلند کرنا، اس کا فیصلہ اہل علمِ شرعی کے اجتماعی اجتہاد کی رو سے ہوگا ___ ہر ملک میں اس کی صورت حال کے بہ حسب___ اِلاَّ یہ کہ کسی شخص کو (خاص اپنی ذات کے معاملہ میں) اپنی جان یا مال یا آبرو پر عدوان کا سامنا ہو۔ ایسے شخص کیلئے البتہ جائز ہے کہ اسے دفع کرنے کیلئے جو بھی اس سے ہو کرے۔ اگرچہ اس کیلئے بھی افضل یہ ہے کہ وہ کسی اقدام سے پہلے کسی اپنے سے زیادہ بہتر علم، دانش اور تجربہ رکھنے والے سے مشورہ لے۔

    ایسی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی جس سے جہاد دفع کے جائز نہ ہونے کا ثبوت ملے۔ جب بھی اُمت ضعیف و مستعضف ہو یہ قیامت تک باقی ہے۔ جہاد کی دونوں میں سے جو بھی قسم اختیار کی جانا ہو کسی بھی ملک کے اندر اس کا فیصلہ اہل علم ودانش اور اہل شوکت کے اختیار کردہ موقف کی بنیاد پر ہوگا.... جبکہ ہر جگہ مسلمان اپنے حالات ومعاملات کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں“۔

    (الاسلام الیوم ویب سائیٹ)

    فتوی بہ عنوان: جہاد الدفع ودخول العدو بلاد المسلمین:

    ”چنانچہ جہاد دفع کیلئے یہ شرط نہیں کہ لڑنے والے کسی متعین تعداد کو پہنچتے ہوں۔ جہاد دفع کیلئے یہ بھی لا زم نہیں کہ وہ مسلمان جن پر کفار چڑھائی کر آئے ہوں وہ ایک امام رکھتے ہوں جس سے کہ وہ اجازت لیں۔ اسی طرح والد، والدہ یا شوہر وغیرہ سے اجازت لینا بھی (جہاد کی اس قسم میں) ضروری نہیں۔ اور اگر وہ مسلمان جو جارحیت کی زد میں آگئے ہوں کہیں ایسی جگہ رہتے ہوں جہاں مسلمان بھی پائے جائیں اور غیر مسلم بھی وہاں تو یہ بھی شرط نہیں کہ وہاں پر ان کی ہی ایک قیادت (رایہ) ہو جس کے تحت وہ سب مل کر لڑیں۔ اگر ایسا ممکن ہو تو بہت اچھا ہے۔ البتہ اگر یہ ممکن نہ ہو تو مسلمان اپنی سرزمین میں پائے جانے والے کفار کے تعاون سے بھی اس دشمن کے خلاف قتال کر سکتے ہیں جو ان کے گھروں پر چڑھ آیا ہو۔ مگر مسلمانوں پر، خواہ وہ افراد ہیں یا جماعتیں، اس صورت میں یہ لازم ہوگا کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ انکا جہاد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کیلئے ہے اور اللہ کے راستے میں نہ کہ کسی اور مقصد کیلئے....

    ”جہاں تک جہاد فی سبیل اللہ (کی اس قسم) میں امام کی موجودگی کو شرط قرار دینے کا معاملہ ہے تو میں نہیں جانتا کہ (اُمت کے اندر) معتبر مانے جانے والے کسی بھی اہل علم نے یہ شرط لگائی ہو“۔

    (الاسلام الیوم ویب سائیٹ)

    شیخ خالد بن عبداللہ القاسم:

    فتوی بہ عنوان (الجہاد فی فلسطین)

    ”(جہاد کی شرطوں کے ضمن میں) یہ کہ جہاد کا رایہ ہو جس کی دعوت امام (حکمران) کی طرف سے آئے۔ البتہ امام کی غیر موجودگی میں مرجع علمائے اہل حل وعقد ہوں گے، یا پھر مجالس افتاءیا پھر اسی طرح کا (کوئی فورم) جو (کسی دی ہوئی صورتحال میں) مصلحت اسلام کا تعین کر سکے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ (13) واذا جاءھم امر من الامن اوالخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامرمنہم (النسائ: ۳۸) اس کے بغیر قتال شروع کر دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے پیدا ہونے والی مفسدت (اس کے فائدہ سے) کہیں بڑھ کر ہو سکتی ہے۔

    (الاسلام الیوم ویب سائیٹ)

    ٭٭٭٭٭

    یہاں ایک سوال یہ اٹھا دیا جاتا ہے کہ ’خلیفہ‘ یا ’حکمران‘ کی غیر موجودگی میں جو ’علماءکی اتھارٹی‘ ہم بیان کرتے ہیں اسے ہم ’جہاد‘ کروانے کے سلسلے میں درست سمجھتے ہیں تو ’اقامت حدود‘ میں بھی کیا پھر ہم اسی چیز کے پابند نہ ہوئے؟

    اس سلسلہ میں سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ ’البلوی العامۃ (14)‘ ایسے ایک اجتماعی معاملہ میں ہم کسی ایک آدھ شخص کے استدلال اور استنباط کی بجائے ’اجتہاد عام‘ کو اختیار کرنا ہی درست سمجھتے ہیں۔ جبکہ اس دور کے اندر کوئی ایسا ’اجتہاد عام‘ سرے سے پایا ہی نہیں جاتا کہ حکمران شرعی کی غیر موجودگی میں ’غیر حکمران‘ حدود کی اقامت کریں۔ ہمارا منہج ایک بہت آسان اور منضبط اور عملی منہج ہے۔ اس منہج کو اختیار کرکے، ایک اتنے بڑے اجتماعی مسئلہ کے معاملے میں، ہم ’اپنے‘ صغری وکبری ملانے کے ضرورت مند نہیں رہتے، سوائے ایک تعلیمی عمل کے دوران جسے کہ ہم نے خود اپنے سیکھنے سکھانے کیلئے اختیار کرنا ہوتا ہے نہ کہ دعوت عام دینے کے عمل میں۔ اصل اور موٹی بات تو بس یہی ہے.... یعنی یہ ان مسائل کی قبیل سے ہے جو علمائے عصر کی جانب لوٹائے جائیں گے۔

    تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ فقہاءکے ہاں جہاں جہاد اور اقامت حدود ’حکمران‘ کے ساتھ متعلق قرار دیئے جاتے ہیں وہاں ’جہاد‘ کی بابت ان کا وہ قول ان کا ایک عام اطلاق ہے۔ البتہ جہاد ہی کی بابت، امام نہ پائے جانے کی صورت میں یا امام تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں، اذنِ امام کا مشروط نہ کیا جانا الگ سے فقہاءکے ہاں ثابت ہے (15) لہٰذا فقہاءکے صرف ایک اطلاق کو لایا جانا اور دیگر اطلاقات کو ذکر نہ کرنا درست نہیں۔

    تیسری بات یہ کہ کچھ غیر معمولی حالات میں جہاں آپ کو ایک انسان پر پورا اختیار نہیں وہاں چاہے ’حکمران‘ کے نمائندہ بھی کیوں نہ ہوں تو بھی وہاں آپ اس انسان پر حد قائم نہیں کرتے۔ کجا یہ کہ آپ ہوں ہی بے اختیار۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے سفر جہاد میں جہاں آدمی دشمن کی حدود کے قریب ہوتا ہے یا پھر دشمن ہی کی سرزمین پر ہوتا ہے، ہاتھ کاٹنے کی سزا نافذ کرنے سے ممانعت فرمائی ہے:

    عن جنادۃ بن ابی میۃ ، قال: سحنا مع بسر بن ابی ارطۃ فی البحر، فتی¸ بسارق یقال لہ مصدر قد سرق بختیۃ، فقال: سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: لا تقطع ال یدی فی السفر ولو لا ذلک لقطعتہ (16)

    ”جنادہ بن ابی امیہ سے روایت ہے، کہا: ہم بسر بن ابی ارطۃ کے ساتھ بحری مہم پر تھے۔ تب ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک اونٹ چرایا تھا۔ تب (بسر) نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”سفر (جہاد) میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں“ یہ (فرمان نبوی) نہ ہوتا تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“۔

    امام اوزاعی اور کچھ دیگر اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممانعت اس لیئے ہو سکتی ہے کہ مبادا ایک مسلمان بشری کمزوری کے تحت سزا سے بچنے کیلئے کافروں کے ہاں پناہ لے بیٹھے۔ (17) بہرحال کچھ غیر معمولی احوال میں خصوصاً جب لوگوں پر آپ کا باقاعدہ اختیار ہی نہ ہو وہاں حدود کو قائم کرنے کے شرعی طور پر آپ اس طرح مخاطب نہیں رہتے جس طرح کہ معمول کے حالات میں اور ایک پورا باقاعدہ اختیار رکھتے ہوئے۔ اسی حدیث کی بنیاد پر فقہاءنے دارالحرب میں اقامت حدود کی ممانعت کی ہے۔

    چوتھی بات یہ کہ حدود کو شبہات کی بنیاد پر ٹال دیا جانا فقہاءکے ہاں ایک معروف مقرر قاعدہ ہے جبکہ جہاد کا تعلق مصالح اُمت سے ہے جو کہ کسی وقت ناگہانی ہو سکتی ہے خصوصاً جب دشمن آپ کے گھروں پر چڑھ آیا ہو۔

    البتہ یہ واضح رہے کہ اقامت حدود کی بابت یہ سب عذرات excuses یا موانع جو ہم نے بیان کئے یا جو کوئی اس کے علاوہ ہو سکتے ہیں ایک ’غیر حکمران‘ کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں نہ ’حکمرانوں‘ کے حوالے سے، جو کہ آج اقتدار رکھتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔ ان کیلئے خدا کی حدیں قائم نہ کرنے کے معاملے میں ان باتوں سے البتہ کوئی بھی عذر نہیں۔

    ٭٭٭٭٭

    ب: ضوابط قتال کا انتظامی پہلو:

    اُمت کو انتظامی طور پر بھی انتشار سے بچانا ضروری ہے۔ کسی محاذ پر لڑنا اہل علم ودانش کے فتوی کی رو سے جائز قرار پا چکا ہو تو بھی کیا ہر آدمی وہاں اپنی اپنی مرضی سے کارروائی کرنے کا مجاز ہوگا؟ امام کی غیر موجودگی میں اس کی بھی کوئی صورت ہونی چاہیے۔

    ایک غلط فہمی بعض طبقوں میں عام ہوگئی ہے کہ جہاد جب فرض عام ہو جائے تو اس کیلئے کسی کی اجازت ضرورت نہیں رہتی۔ حالانکہ جہاد کے فرض عین ہونے کی صورت میں صرف والدین، خاوند یا قرض خواہ وغیرہ کی اجازت ساقط ہوتی ہے۔ رہ گئی دستیاب اسلامی قیادت (امام یا پھر اس کی غیر موجودگی میں جو بھی اسلامی جماعت میسر ہو) تو اس کی سرکردگی میں رہنے کا وجوب پھر بھی ساقط نہیں ہوتا الا یہ کہ صورتحال انتہائی ہنگامی ہو اور کچھ نہ کچھ فوری طور پر ہی کر گزرنا ضروری ہو۔

    ابن قدامہ خرقی کا قول نقل کرتے ہیں:

    ”لوگوں پر واجب ہے جب دشمن چڑھ آئے تو اس کے خلاف سب نکل پڑیں۔ کسی کے پاس تھوڑے آدمی ہیں تب زیادہ ہیں تب۔ البتہ امیر کے اذن کے بغیر نہ نکل کھڑے ہوں الا یہ کہ دشمن اچانک حملہ آور ہو گیا ہو اور (اس کو چھوڑ دینے کی صورت میں) ڈر ہو کہ دشمن اپنے پنجے مضبوط کر لے گا۔ جبکہ ان کیلئے امیر سے اجازت لینا (اس دوران) ممکن نہ ہو“۔

    اس کی شرح میں ابن قدامہ لکھتے ہیں:

    ”کیونکہ جب دشمن چڑھ آیا تو جہاد فرض عین ہوگیا اور سب پر واجب ٹھہرا۔ تب کسی کیلئے جائز نہ رہا کہ پیچھے رہے۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا، تو وہ امیر کے اذن کے بغیر بہرحال نہ نکلیں گے۔ کیونکہ معاملہ جنگ امیر ہی کی صوابدید پر ہے۔ دشمن کی قلت یا کثرت کا اندازہ وہی بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ وہی دشمن کے ٹھکانوں اور دشمن کی چالوں کو زیادہ بہتر جان سکتا ہے۔ پس لازم ہے کہ اسی کی رائے کی جانب رجوع کیا جائے۔ یہی مسلمانوں کیلئے محتاط تر بات ہو سکتی ہے۔ الا یہ کہ امیر سے رجوع کیا جانا کسی وقت ممکن نہ ہو کیونکہ دشمن نے اچانک حملہ کر دیا ہو۔ تب ایسی حالت میں البتہ اس کی اجازت لازم نہ رہے گی۔ اس صورت میں دشمن سے بھڑ جانا اور اس کے خلاف نکل کھڑے ہونا ہی مصلحت ہوگا اور اس کو (اپنی پوزیشن مضبوط کرلینے کیلئے) چھوڑے رکھنامفسدت۔ یہی وجہ ہے کہ کفار نے ایک بار جب رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں پر آناً فاناً کارروائی کی تو سلمہ بن الاکوع  اکیلے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور کسی اذن کے بغیر ان سے لڑائی کرتے رہے (تاآنکہ سب کے سب اونٹ واگزار کرا لئے) بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے سلمہ بن الاکوع کو سراہتے ہوئے فرمایا خیر رجالتنا سلمۃ بن الاکوع ”ہماری پیادہ سپاہ میں بہترین سلمہ بن الاکوع ہے“ (دیکھیے مغنی ابن قدامہ کتاب الجہاد مسئلہ نمبر 7438، جہاں تک سلمہ بن الاکوع والی حدیث کا تعلق ہے وہ صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ ذی فرد وغیرھا حدیث نمبر 3371 وحدیث نمبر 3372 کے تحت دیکھی جا سکتی ہے)

    اسلامی قیادت کا پابند رہنے کی بابت مزید دیکھیے شیخ خالد بن عبداللہ المصلح کا ایک فتوی:
    www.almosleh.com/almosleh/article_826.shtml
    خلافت کا ادارہ جس وقت کمزور ہوا اور عملاً نہ ہونے کے برابر رہ گیا تو مسلم سلاطین اور بادشاہوں کا دور آیا۔ ویسے یہ کوئی درست صورت نہ تھی۔ بیک وقت کئی ایک امیر کی بیعت ہونا اُمت میں اصولاً جائز نہیں۔ پھر بھی اُمت کے معاملات کو بڑی دیر تک معطل نہ رکھا جا سکتا تھا۔ تب اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے قتال سمیت وہ متعدد امور جو خلیفہ کے ساتھ مختص تھے ان خود مختار بادشاہوں کی تحویل میں دے دیے، باوجود اس کے کہ اس پر بھی لوگوں کے کئی ایک ملاحظات ہو سکتے ہیں اور کئی بار تو اس میں پیچیدگیاں بھی آئیں....

    آج جہادی قیادتوں پر لوگوں کا یہ اعتراض ضرور کسی حد تک بجا ہو سکتا ہے کہ کسی ایک محاذ پر یہ ایک مشترکہ قیادت وجود میں کیوں نہیں لے آتیں۔ لیکن جہادی قیادتوں کا اس امر میں بوجوہ ناکام رہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کی قیادت میں لڑا جانے والا جہاد محض اس وجہ سے باطل ہے۔ ’دور سلاطین‘ میں کئی بار ایسے مواقع پیش آئے کہ صورتحال شرمناک حد تک بری ہو جاتی رہی۔ دور ملوک الطوائف کا یہ عام واقعہ رہا ہے کہ ایک ’سلطان‘ یا ’نواب‘ دشمن سے معاہدہ دوستی کر آیا ہے اور کوئی دوسرا اس کے خلاف اعلان جہاد کر رہا ہے اور بسا اوقات یہ ذاتی مفادات اور شخصی مزاج اور شاہی خاندانی مطالب کے تحت ہوتا تھا۔ ان درباروں کے کئی اہم فیصلے محلات کی کچھ طرحدار کنیزوں کے غمزہ و ادا تک کے رہین منت رہے ہیں۔ آج کی جہادی قیادتوں کی سنجیدگی اور اخلاص اور واقعیت پسندی ماضی کے کئی ایک ’نوابوں‘ کی نسبت بے انتہا اعلیٰ معیار کی ہے حتی کہ بعید نہیں بعض جماعتوں کے ہاں پائی جانے والی قوت اور تعداد اور تنظیمی وفنی صلاحیت بھی ماضی کے بعض نوابوں کی سپاہ پر فوقیت رکھتی ہو۔
    حتی کہ جہاد کرنے میں سب کے سب مسلم سلطان ضروری نہیں مشترک قیادت کے تحت آتے رہے ہوں بلکہ شاید کبھی کبھار ہی ایسا ہو پایا ہو۔
    مسلم سلاطین کی آپس کی جنگوں سے بھی ہماری تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ آج کے مثالیت پسند اصحاب شاید اس بات سے انکار نہ کرپائیں کہ خود انانیت کے کئی ایک مظاہر ’دور سلاطین‘ میں ہمارے آج کے اس ’دور تنظیمات‘ سے کہیں بڑھ کر نظر آتے ہیں۔
    اس کے باوجود خلافت کے عملاً روپوش ہو جانے کے بعد بھی.... اہل علم نے مصالح اُمت کو معطل نہ ہونے دیا اور ہر قسم کے حالات میں کوئی مناسب ترین لائحہ عمل مرتب کرکے اُمت کے مخلص اور درد مند طبقوں کو دیا اور برابر اس کوشش میں لگے رہے کہ بہت کچھ تار تار ہو جانے کے باوجود اندرونی وبیرونی محاذوں پر جہاں تک ممکن ہو پورا اترا جائے۔ علمائے سنت کو واللہ ایسی دانش اور واقعیت اور دور اندیشی نصیب رہی ہے اور ایک ایسا سوز اور ایک درد رہا ہے کہ ہم میزوں پر بیٹھ کر ’اظہار خیال‘ کرنے والے اس کا اندازہ تک نہ کر پائیں۔

    آج جو صورتحال ہمیں درپیش ہے ہم مانتے ہیں وہ پچھلے سب ادوار سے بے انتہا مختلف ہے اور اس کے اندر کچھ بہت بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں جن کی بنا پر جمہور علمائے سنت کی بنیادی ترجیح اس وقت اُمت کا بیرونی محاذ نہیں اگرچہ اعداءکی چیرہ دستیوں میں کوئی حد نہیں رہی۔ دشمن کی تمام تر جارحیت کے باوجود اُمت کے اعلیٰ سطحی علمی طبقوں high level scholorship کی اصل ترجیح اُمت کا اندرونی محاذ ہے یعنی عقیدہ، علم، فکر، تربیت، تہذیب وثقافت، فقہی اصلاحات، سائنسی ترقی، معاشی بہتری اور سماجی اصلاح وغیرہ کے میدانوں میں اُمت کی ایک ازسرنو صف بندی کیونکہ یہیں پر آچکے خلل کے باعث ہم یہ دن دیکھنے پر مجبور ہوئے ہیں.... بہرحال یہ ”ایقاظ“ کا ایک عمومی موضوع ہے اور یہاں ہم اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے۔
    اس کے باوجود علمائے سنت نے بیرونی محاذوں کو مکمل طور پر آج بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ بیرونی دشمن سے دفاع کے کئی ایک محاذوں کو جماھیر اہل علم کی تائید بلکہ ایک انداز کی سرپرستی تک حاصل ہے۔
    اب جہاں تک قتال کے محاذ پر سرگرم ہونے کیلئے یا حتی کہ خیر کے کئی اور اجتماعی واجبات کی ادائیگی کیلئے ’انتظامی ضوابط‘ کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں جس اجتہاد پر دور حاضر کے فقہا میں قریب قریب اتفاق رائے پایا جاتا ہے وہ یہ کہ امام کی غیر موجودگی میں اور جب تک اس کا وجود عمل میں نہیں آجاتا اداروں، جماعتوں، تنظیموں اور انجمنوں وغیرہ سے کام چلایا جائے۔ کسی جماعت یا انجمن کو ’الجماعۃ‘ سمجھ کر اس سے منسلک ہونا البتہ اہل علم کے نزدیک بے حد مذموم ہے اور تفرقہ وبدعت کا پیش خیمہ۔ البتہ تعاون علی البر والتقویٰ کی متعدد صورتوں میں سے ایک انتظامی صورت جانتے ہوئے اور مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب (18)کے باب سے اس کو اختیار کرنا باعث حرج نہیں۔

    اداروں، تنظیموں اور انجمنوں میں جہاں تک ہو سکے بہتر سے بہتر کے ساتھ تعاون ہونا چاہیے۔ مگر مثالیات کی شرطیں عائد کرنا درست نہیں۔ اگر کہیں کچھ شرعی یا انتظامی یا انسانی بے قاعدگیاں اور زیادتیاں پائی جائیں تو بھی ان پر صبر کرنا چاہیے۔ امرا میں فسق وفجور، بدعت وانحراف (جب تک کہ شرک تک نہ پہنچے) اور ظلم وجور تک پایا جانا ایک ایسا امر ہے جس کو اُمت کے کچھ بلند تر مقاصد کی برآری کیلئے برداشت کرنا اہلسنت کے منہجی امتیازات میں سے ایک ہے۔ تنظیموں اور اداروں پر بھی آج اس اصول کا اطلاق کیا جانا اہل علم کی ایک بڑی تعداد کے ہاں معتبر ہے۔

    اداروں اور جماعتوں کے مابین تعصب روا رکھنا جائز نہیں، جب تک کہ سب کی سب ___مجموعی معنی میں ___ اہل سنت کے دائرہ میں ہوں جس میں کہ مذاہب اربعہ واہل ظاہر واہل حدیث وغیرہ سب آتے ہیں۔ خاص صورت حال میں ایک ایسے ادارے یا جماعت سے تعاون میں بھی حرج نہیں جو مثلاً رافضی یا خرافاتی یا سیکولر یا اس طرح کے کسی اور بدعتی مسلک سے وابستہ ہو، جبکہ اس سے عدم تعاون کی صورت میں اُمت کو ایک زیادہ بڑا نقصان ہو جانے کا اندیشہ ہو، گو اس کیلئے وہاں کے صالح اہل علم سے ہدایات لینا ضروری ہوں گی۔ تاہم کسی ایسے بدعتی طائفہ کے ساتھ اپنے عقیدہ کے اصولی اختلاف کو حاشیائی ہونے دینا اس وقت بھی جائز نہیں۔

    اس میں بھی حرج نہیں کہ خیر کے مختلف منصوبوں یا پروگراموں کیلئے مختلف اداروں اور انجمنوں سے بیک وقت منسلک اور متعاون رہا جائے۔ مثلاً جہاد کے معاملے میں آپ کسی جماعت سے متعاون ہیں تو دعوت وتعلیم کے معاملے میں کسی دوسری جماعت یا ادارے سے اور اسلام کے کسی ابلاغی شعبے میں کسی تیسری انجمن سے اور کسی سماجی یا سیاسی عمل میں کسی چوتھے پروگرام سے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ’الجماعہ‘ نہیں۔

    خیر کے کسی منصوبے کیلئے سرگرم اداروں یا جماعتوں یا پروگراموں کے ساتھ تعاون کا کم از کم مرتبہ ان کیلئے کلمہ خیر کہہ دینا ہے اور ان کیلئے نیک جذبات اور نیک خواہشات رکھنا۔

    ٭٭٭٭٭

    یہ تھے حکمرانِ شرعی کی غیر موجودگی میں قتال کے کچھ ضوابط۔

    علمائے شریعت کے ساتھ ساتھ کسی معاملہ کے فنی ماہرین بھی خاص اس معاملہ میں ’اہل ذکر‘ شمار ہو سکتے ہیں۔ ضوابط قتال میں بھی یہ بات نظر انداز نہ ہونی چاہیے۔ اب اگر اس بات کو بھی دیکھا جائے تو اُمت کے بعض جہادی محاذوں پر اعلیٰ سطحی فوجی ماہرین کی آراءاور مشورے عنقا نہیں۔

    اور تو اور آپ کے یہاں کے کئی ایک ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف، انٹیلی جنسوں کے ریٹائرڈ سربراہ اور دیگر اعلیٰ سطح کے فوجی افسران بھی جب اپنی ’سرکاری مجبوریوں‘ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں تو ان جہادی کارروائیوں کی بابت جو کشمیر تا افغانستان وعراق وفلسطین ہور ہی ہیں، امید افزا تجزیے کرتے عام دیکھے گئے۔ ان محاذوں پر اپنائی جانے والی اسٹرٹیجی کو بے وقوفانہ یا ناقابل عمل کہتے یہ شاید ہی کبھی سنے گئے ہوں۔

    ایک پیشہ ورانہ فنی رائے تو ایک یہودی یا عیسائی کی بھی ہو تو وہ ایک وزن رکھتی ہے بہ نسبت ایک ایسے مسلم دانشور کے جو ایک پیشہ ورانہ فوجی رائے دینے سے عاجز ہو۔

    فلسطین میں اُمت کے کچھ بہت اچھے فوجی دماغ اپنے آپ کو جہادی عمل کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں کہ بس یہ کچھ نوجوان ہیں جو اُٹھ کر کارروائیاں کرنے لگتے ہیں۔ یہاں جو عقول صبح شام منصوبہ بندی کرتی ہیں، اور ان کا اجر خدا کے ذمے، وہ اپنے ہتھیار بہت سوچ سمجھ کر برتتی ہیں اور اپنے کارڈ بڑی عقلمندی کے ساتھ کھیلتی ہیں۔ کچھ سنسنی خیز لمحات پر ’تماشائی‘ اگر خوفزدہ ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ بہرحال کوئی بہت محفوظ کھیل نہیں! اس میں کچھ نہ کچھ نقصان کرانا بہرحال ناگزیر ہوتا ہے اور خدا نے اس اُمت کے شہداءسے ان کی جان اور مال کے بدلے جنت میں بلند مراتب کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ صدیوں کی غفلت کے باعث آپڑنے والی یہ بھاری چٹان اُمت کے سینے سے ہٹانا اتنا آسان ہے اور نہ اتنا مختصر۔

    گوریلا جنگ آج ایک باقاعدہ ’سائنس‘ بن گئی ہے۔ اس کی کچھ اپنی مساواتیں equations ہیں جو بے شک کسی وقت بہت ’خوفناک‘ ہو جاتی ہیں مگر وہ اپنے ایک خاص حساب اور خاص رفتار سے چلتی ہیں۔ اس پر ’تنقید‘ اور پیشہ ورانہ ’تبصرہ‘ کرنے کیلئے آدمی کو اس ’سائنس‘ سے کچھ شدبد ہونا ضروری ہے۔

    ٭٭٭٭٭

    جنگ آزادی اور تحریک مجاہدین وغیرہ کی کچھ بڑی بڑی غلطیوں کا تذکرہ بھی ہمارے ان احباب کا ایک باقاعدہ موضوع ہے....

    آج سے ڈیڑھ پونے دو سو سال پیشتر .... مسلمان جب اس خواب غفلت سے ابھی بیدار ہونا ہی شروع ہوئے تھے تب وہ استعمار کی اس پوری حقیقت کو جانے بغیر کہ دراصل یہ ہے کیا چیز، جہاں اس فکری اور نظریاتی میدان کارزار کا درست تعین نہ کر سکے ___ اور جس کا تذکرہ ہم اور جگہوں پہ کرتے رہتے ہیں ___ وہاں جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے بھی کچھ فاش غلطیاں کر بیٹھتے رہے تھے۔ مگر بعد ازاں ان سب میدانوں میں ہی ایک سہتی سہتی حقیقت پسندانہ اپروچ کے ساتھ ایک اچھی پیشرفت ہونے لگی تھی.... گو بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت سے ہم اب بھی انکاری نہیں۔
    معترضین آج تک ایسی ہی کچھ غلطیوں کی مثال دے دے کر مسلم مزاحمت کی بابت نا دانستہ اُمت میں بددلی پھیلا رہے ہیں۔ ’ٹیلیگرام‘ کی ایجاد والی مثال قریب قریب ان کے ہر مضمون میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جو جہاد کرنے اٹھے تھے اتنا نہ کر سکے کہ دشمن کا وہ برقی اتصال کا نظام کاٹ دیں جو ملک کے اطراف واکناف میں محض تاروں سے جڑا ہوا تھا اور جس کی بدولت اس کی فوجی کمک کا پورا نظام ایک کامیاب طریقے سے عمل کر رہا تھا۔

    یقینی طور پر ایسی بہت سی غلطیاں یہاں کی قومی یا جہادی تحریکوں سے ہوتی رہیں۔ مگر پسماندگی کی بہت سی ایسی مثالیں پچھلی کئی صدیوں سے مسلم ’حکمرانوں‘ تک کے حوالے سے ذکر کی جا سکتی ہیں۔ آپ چاہیں تو مغل حکمرانوں کے بھی بہت سے لطیفے سنا سکتے ہیں۔ مصر میں جب نپولین داخل ہوا تب بھی ایسے کئی افسوسناک واقعات ہوئے تھے۔ یہی بات ہے تو ہمارے ان مسلم بادشاہوں نے بھی جو سترھویں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اندر یہاں عالم اسلام میں ’اقتدار‘ کی شرط پوری کر رہے تھے.... ان بادشاہوں اور ’حکمرانوں‘ میں سے کسی نے بھی ہمارے ان حضرات کی سائنسی اور تکنیکی شرطیں پوری نہیں کیں۔ نسل درنسل چلی آنے والی وہ ابتری اور غفلت اپنی جگہ، مگر کیا ان سب حکمرانوں اور نوابوں کو افواج مغرب کے لنگر انداز ہونے سے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دینے چاہئیں تھے اور مکی دور پر قیاس کرتے ہوئے فوراً مرحلہ صبر کا آغاز کر دینا چاہیے تھا؟ اگر ایسا ہے تب تو ’حکمرانوں‘ کی سرکردگی میں کیا جانے والا وہ قتال بھی پھر شاید باطل قرار پائے جو مثلاً سرنگا پٹم اور میسور اور مصر اور سوڈان سمیت بہت سی مسلم ریاستوں کی جانب سے ’حالت اقتدار‘ میں ہوا!

    ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ جہادی تحریکوں کو معاملہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا اور اس دوران، خصوصاً ابتدا میں، کچھ سنگین غلطیاں ہوئیں۔ بعد ازاں جو فرق آیا وہ یہ کہ دور حاضر کے جنگی فنون وتجربات ___خصوصاً وہ جنگی فنون جو ہلکے پھلکے گوریلا قتال کیلئے ضروری ہوتے ہیں ___ بعض اسلام پسند فوجی ماہرین کے ذریعے اسلامی قوتوں کو منتقل ہوئے اور پھر جہاد کیلئے مسخر ہونے لگے اور تو اور سرد جنگ ہی اس معاملے میں بہت مددگار رہی جس کا نقطہ عروج جہاد افغانستان تھا جس نے ایک زندہ سپر پاور ہاتھی زمین میں دھنسا دیا۔ بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جہاں عالمی جنگیں مسلم ’اقوام‘ کیلئے ایک طرح کی خیر لے کر آئیں (گو مہاتما گاندھی بھی ان کے نتیجے میں فاتح ہند رہے!) وہاں سرد جنگ کا دور مسلم ’تحریکوں‘ کیلئے بے شمار مواقع لے کر آیا۔ خود مغرب کا سرمایہ داری بلاک ہی ایک اعلیٰ سطح کی فوجی مہارت جہاد کی بعض قوتوں کو منتقل کر دینے پر مجبور ہوا، جس کا ویسے شاید سوچا بھی نہ جا سکتا ہو۔ پھر یہ بھی اب کوئی راز نہیں کہ مسلم ملکوں کی بعض سیکولر گورنمنٹس بھی کئی ایک اپنے قومی مفادات جہادی تحریکوں سے وابستہ سمجھتی ہیں اور خدا کا کرنا کئی عالمی تبدیلیاں اور صف بندیاں ایسی ہوئیں کہ ان قومی حکومتوں کیلئے بوجوہ جہادی تحریکیں ہی ایک اچھا آپشن رہ گئی ہیں۔ ان جہادی تحریکوں سے تعاون کرکے یہ حکومتیں اپنے بین الاقوامی معاہدوں اور میڈیا کو اپنے روز دیے جانے والے بیانات کی خلاف ورزی کرتی ہیں یا نہیں کرتیں، اس کا گناہ بہرحال جہادی تحریکوں پر نہیں۔ مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ فنی اور تکنیکی معاونت کی کئی صورتیں بروئے کار لائی جاتی ہیں بلکہ معاملہ اس سے بھی شاید کہیں آگے تک جاتا ہو۔ اس واقعہ سے انکار کوئی حالات سے بہت ہی بے خبر انسان کر سکتا ہے۔

    کئی تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جہادی تحریکوں کی جنگ دراصل ایک پراکسی وار ہے۔ جو قوتیں ان کی پشت پر ہیں وہ اگر خود بھی سیدھا سیدھا جنگ میںا ترنا چاہیں تو اس کی بھی یہی صورت ہو جو اس وقت جہادی عمل کی صورت میں جاری ہے.... یعنی ایک سست رفتار لگاتار گوریلا عمل جو طاقت کے نشے میں مست ہاتھی کو ایک اچھا سا زخم لگائے اور پھر اسے مندمل نہ ہونے دے بلکہ جہاں تک ہو سکے اس میں گھس کر اچھل کود کرتا رہے اور جتنا جتنا موقعہ ملے اتنا اتنا ہی اور پوری آہستگی کے ساتھ اسے وسیع کرتا جائے جب تک کہ وہ ’ہاتھی‘ اپنی حدود میں نہ آجائے۔ ہتھیاروں کا جو توازن دُنیا میں اس وقت دستیاب ہے اور جس کا کہ آپ بھی اکثر ذکر کرتے ہیں وہ بھی اسی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔

    بہرحال کون کس حیثیت میں آج کے اس جہادی عمل کی پشت پر ہے، ایک الگ بحث ہے اور جہادی قوتیں اپنا راستہ بنا جانے میں کہاں تک زیرک ثابت ہوتی ہیں، ایک علیحدہ موضوع ہے مگر آپ دیکھتے ہیں جہاں ایک بے قابو ہاتھی کئی ایک براعظموں میں بیک وقت اودھم مچاتا پھر رہا ہے وہاں ’چیونٹیاں‘ اس کو کچھ کاری زخم لگانے میں بھی کامیاب ہو چکی ہیں۔ یہ ’چیونٹیاں‘ افغانستان میں روپوش ہوتی ہیں تو عراق میں نکل آتی ہیں۔ وہاں گم ہوتی ہیں تو فلسطین میں اس کی سونڈ کے اندر گھسی ہوئی ملتی ہیں۔ کسی وقت لبنان کے اندر ’محسوس‘ ہوتی ہیں تو کسی وقت یمن اور سوڈان اور کشمیر میں۔ اور پھر اب صومالیہ کا حال سنو تو بارہ پندرہ سال کی خاموش محنت کے ایسے زبردست نتائج ہیں کہ یقین ہی نہ آئے۔ اور اس سے بھی شاید آپ کو انکار نہ ہو کہ ہر جگہ پورا اترنے میں ہاتھی کیلئے اچھی خاصی مشکل پیش آرہی ہے ان تکونوا تالمون فانہم یالمون کما تالمون وترجون من اﷲ مالا یرجون (19) چیونٹیوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے مگر ہاتھی کا کھاجا تو روز بروز اس کیلئے ایک پریشان کن مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلا جو ہاتھی مرا تھا وہ بھی کوئی طیارے اور توپیں کم پڑ جانے کے باعث تھوڑی مرا تھا جیسا کہ آپ ہمیں طاقت کے توازن پر لیکچر دیتے ہیں۔ اس کا بھی تو کھاجا ہی کم ہوا تھا۔ اور اب ذرا دیکھیے تو سہی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے بڑے بزنس کس طرح اسے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں.... الم ترکیف فعل ربک بصحاب الفیل؟

    چنانچہ اگر آپ کو ہلکے پھلکے ہتھیاروں سے لڑی جانے والی ایک سست رفتار اور بظاہر تھکا دینے والی گوریلا جنگ نظر آرہی ہے تو اس وقت کیلئے وہ ایک بہترین اور موثر ترین حکمت عملی ہے۔ 1857ءکی جنگ آزادی وغیرہ کی آپ جو مثالیں دیتے ہیں ان بے ہنگم واقعات کی بہ نسبت یہ ایک بہت ترقی یافتہ منصوبہ بندی ہے اور اس کے پیچھے خاصے باصلاحیت اور حوصلہ مند فوجی دماغ بیٹھے ہیں.... اور مزید کیلئے صلائے عام ہے!

    ٭٭٭٭٭

    یہاں دو جملہ ہائے معترضہ بھی!

    ہمارے ان اصحاب میں سے کئی ایک دور حاضر کی قومی ریاستوں کو ’الجماعۃ‘ کے قائم مقام مانتے ہیں۔ کیا ان کی ’الجماعۃ ‘ کا اب یا ماضی میں جہاد کے کئی ایک محاذوں پر متعاون ہونا ان کی ’اقتدار‘ والی شرط کیلئے مزیل waiver باور نہیں ہو سکتا!؟

    طالبان نے جو کہ ابتدا میں پاکستان کے تعاون سے اقتدار میں آئے تھے، کچھ سالوں کیلئے سیاسی اقتدار حاصل ہو جانے کی یہ ’شرط‘ پوری کر لی تھی۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اگر پاکستانی حکومت کو آپ ’الجماعۃ ‘ کا درجہ دیتے ہیں تو اس ’ الجماعۃ ‘ سمیت سعودیہ کی ’ الجماعۃ ‘ اور امارات کی ’ الجماعۃ ‘ نے اس افغانستان کی ’ الجماعۃ ‘ کو ڈھکے چھپے نہیں باقاعدہ سرکاری مراسم کے ساتھ تسلیم کیا تھا۔ یعنی یہ ایک باقاعدہ ’اقتدار‘ تھا بے شک ’انجمن اقوام متحدہ‘ نے اسے تسلیم نہ کیا ہو۔ طالبان کا کسی ملک کے ساتھ ’مجرموں کے تبادلہ‘ کا کوئی معاہدہ نہ تھا جس کے آپ کی نظر میں وہ شرعاً یا عرفاً پابند ہوتے۔ کوئی مجرم ہے تو وہ شرعاً اور عرفاً حق رکھتے ہیں کہ اپنی ہی عدالتوں میں اس پر مقدمہ چلائیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے ان پر قطعی ناجائز حملہ ہوتا ہے لہٰذا یہ ’جہاد طلب‘ بھی نہیں جس سے آپ کو اختلاف ہو۔ صاف ’جہاد دفع‘ کی صورت تھی۔ تو پھر اس بار چند مہینوں کیلئے یہاں جہاد کے حق میں کیا موقف کی کچھ نرمی آئی؟ محض ایک سوال ہے۔

    اس کے باوجود ہم نہیں کہتے کہ اس وقت جاری جہادی عمل سب نقائص سے پاک ہے۔ یقینا اس میں کئی ایک خاصے بڑے بڑے جھول ہیں کچھ شرعی ہوں گے تو کچھ عملی اور واقعاتی اور اس باعث یقینا کسی وقت آپ ہمیں اس پر تنقید کرتے بھی پائیں گے۔ مگر اپنی مجموعی حیثیت میں یہ اس اُمت کے حق میں ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔

    بے شک اس میں بہت کچھ اصلاح طلب ہے مگر اس میں پائی جانے والی کمیاں کوتاہیاں اس بات کا باعث بنیں کہ ہم اس کی مخالفت پر ہی کمربستہ ہو جائیں؟ ویسے بھی اُمت میں سب لوگ ہماری ہی رائے اور فہم پر چلنے کے پابند تو نہیں!
    یہ مضمون ایقاظ ڈاٹ کام سے اخذ کیا گیا ہے۔۔۔۔ سائٹ پر جانے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔۔
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ