غیبت۔۔۔ قران و حدیث کی رو سے۔

    غیبت۔۔۔ قران و حدیث کی رو سے۔                                  پیشکش : سید آصف جلال     
    غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کے برے وصف کو اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کریں کہ اگر وہ سن لے تو برا مانے خواہ زبان سے بیان کرے یا بذریعہ اعضاء یا بذریعہ قلم یا کسی اور طریقے سے عیب جوئی کی جائے اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ تہمت اور بہتان ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید فرقانِ حمید میں غیبت کی مذمت بیان کی ہے۔ اور غیبت کرنے والے کو مُردار گوشت کھانے والے سے تشبیہ دی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
    ’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
     الحجرات، 
    رسول اللہ ؐ نے فرمایا "پر ایک مسلمان پر اپنے بھائی کا خون و مال و ہتکِ عزت حرام ہے"۔ نیز فرمایا کہ" غیبت سے پرہیز کرو، کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ کیونکہ زانی اگر توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر کے اس کا گناہ بخش سکتا ہے ۔ اور غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی معاف نہ کرے۔
    اہل دل کہتے ہیں کہ غیبت کرنے والے کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو ہر طرف تیر پھینکتا رہا ہے تو جس طرح اس کا ترکش تیروں سے خالی ہو جاتا ہے اسی طرح غیبت کرنے والا گویا اپنی نیکیاں لوگوں کو دیتا ہے اور اس کا اعمال نامہ خالی ہو جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "غیبت یہ ہے تو اپنے بھائی کے پیچھے ایسی بات کہے جو کہ وہ پسند نہیں کرتا"۔ خواہ وہ بات اس کے بدن کے متعلق ہو یا اس کے حسب و نسب ، قول و فعل یا دین دنیا سے تعلق رکھتی ہو۔ خواہ اس کے لباس و پوشاک سے متعلق ہو یا اس کی سواری و گھوڑے ، گاڑی یا علاقہ سے تعلق رکھتی ہو۔ یہاں یک کہ اگر کہا جائے کہ فلاں کا کپڑا لمبا ہے یا چھوٹا ہے تو یہ بھی غیبت میں شامل ہے۔
    روایت ہے کہ "ایک پست عورت کسی ضرورت کے واسطے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا "کسی پست قدتھی"، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ !تو نے اس کی غیبت کی ہے۔ 
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "غیبت سے پرہیز کرو اس میں تین آفتیں ہیں۔۔۔1) غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔۔۔2)اس کی نیکیاں مقبول نہیں ہوتیں۔۔۔3)برائیوں بدکاریوں کا اس پر بوجھ ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "قیامت کے دن سب سے بڑا آدمی چغل خور، غیبت کرنے والا، ذوجہین(دو زبان والا منافق) ہے جو ایک کو کچھ کہتا ہے دوسرے کو کچھ۔جو شخص دنیا میں ذوجہین ہو گا قیامت کے روز اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی"۔
    رسول اللہ ﷺ سے اخذ کر دہ غیبت کی جائز صورتیں:
     ایک مرتبہ ایک بدو آکر حضور ﷺ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ " خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد ﷺ پر ٗ اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر۔ حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا " تم لوگ کیا کہتے ہو یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیاکہ رہا تھا؟ ..........( ابوداؤد)
    ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا ۔ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوا لجہم ۔ انہوں نے آکر حضور ﷺ سے مشورہ طلب کیا ۔آپ نے فرمایا " ابو معاویہ غریب ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں " .......(بخاری ومسلم)
      ایک روز حضور ﷺ حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے آکر ملاقات کی اجازت طلب کی ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے ۔پھر آپ باہر تشریف لے گئے اورا س سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی ۔گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی ،حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا ۔جواب میں آپ نے فرمایا " خدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہوگا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جُلنا چھوڑ دیں".......(بخاری و مسلم)
    ایک موقع پر حضرت ابوسفیان کی بیوی ہِند بنت عُتبہ نے آکر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ " ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں ،مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو".......(بخاری و مسلم)

    ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔
    اس کے علاوہ دیگر جائز صورتیں یہ ہیں۔
      اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ اُن برائیوں کو دُور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے ۔
      استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔
      لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کےنقصان سے بچ سکیں ۔مثلاً راویوں ،گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں ٗواجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے ،عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب وصواب اسے بتادیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔
      ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کررہے ہوں یا خلقِ خدا کو بے دینی اور ظلم وجور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔
    جو لوگ کسی بُرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکےہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ٗان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرضِ تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص۔

    غیبت کرنے والے کا انجام:
    حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"اے وہ لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو ٗ اور ایمان ابھی ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرواور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے نہ پڑ اکرو(یعنی ان کی چھپی ہوئی کمزوریوں کی ٹوہ لگانے اور ان کی تشہیر کرنے میں دلچسپی نہ لیا کرو) کیونکہ جو ایسا کرئے گا اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معاملہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گھر میں ذلیل کردے گا" .......(سنن ابی داؤد)
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت حضور ﷺ نے فرمایا ،کہ " جب مجھے معراج ہوئی تو (اس سفر میں) میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو ا جن کے ناخن سرخ تابنے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کررہے تھے ٗ میں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں،جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے(یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے)اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے۔".......( سنن ابی داؤد)
    غیبت کی اقسام:
    علماء کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:
    ·      غیبت کرنا کفر ہے: وہ قسم جہاں غیبت کرنا کفر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تو غیبت نہ کر تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ لہذا اس صورت میں غیبت کرنا کفر ہے۔· 
     
    غیبت کرنا منافقت ہے: دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔
     غیبت کرنا معصیت ہے: تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا معصیت ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے۔ وہ گناہگار ہے۔ اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔ 
     غیبت کرنا جائز ہے: چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا باعث بھی ہے، وہ یہ ہے کہ فاسق معلن [یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا] کے افعال و کردار کا ذکر، بدعتی کے کارناموں کا تذکرہ کرنا جائز ہے۔ اس میں ثواب ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاجر کے برے افعال کا تذکرہ کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں۔
    غیبت سے بچنے کے طریقے :
    •  انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔ 
    • قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔ 
    •  موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔ 
    • معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔ 
    • انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہو گیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
    • غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔  
    • سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔
    غیبت کے اسباب:
    •   غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
    • لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
    •    انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
    •   کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔ 
    •  ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔۔۔۔
    • امام ترمذی نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:

    • عرض کیا، "یا رسول اللہ! کامیابی کیا ہے؟" آپ نے ارشاد فرمایا، "اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو [یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں] اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔"َ
     ماخذات
    ماہنامہ ۔ دعوۃ اعمال صالحہ جلد دوم شمارہ 14
    http://www.siratulhuda.com
    http://www.mubashirnazir.org
    http://quraniscience.com


    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    1 تبصروں کی تعداد: