حبیب جالب ۔۔۔۔۔۔ تعارف



حبیب جالب ۔۔۔۔۔۔ تعارف
پیدائش: 1928ء
اردو شاعر۔ دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ 15 سال کی عمر سے مشق سخن شروع کی ۔ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہتے تھے۔ آزادی کے بعد کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع

بیایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔ ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھلیں۔ نظموں کے پانچ مجموعے ۔ برگ آوارہ ، سرمقتل ، عہد ستم ، ذکر بہتے خون کا ، گوشے میں قفس کے ۔ شائع ہو چکے ہیں۔

حبیب جالب کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔ نومبر 1997 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

حق بات پہ کوڑے اور زنداں
باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں
خوں خوار درندے ہیں رقصاں

ہر شام یہاں شام ویراں
آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے
وہ شہر دل برباد کہاں

صحرا کو چمن
بن کو گلشن
بادل کو ردا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فن کاروں
ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سروں کے باسی
قاتل ہیں سبھی اپنے یاروں

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا
اس غم کو نیا کیا لکھنا

صر صر کو صبا ظلمت کو ضیا،> بندے کو خدا کیا لکھنا

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم

اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ