اسلام اور سیکولر ازم، حقائق کیا ہیں؟

اسلام اور سیکولر ازم، حقائق کیا ہیں

سیاسی امور میں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کو سیکولر ازم کہتے ہیں، سیکولر ریاست میں ایک فرد ریاستی قوانین کے سوا کسی دوسری چیز کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ نجی زندگی میں بالکل آزاد ہوتا ہے، لیکن استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس دور میں بہت سی اصطلاحات اور الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں سے عاری کر کے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ چنانچہ جس طرح اپنے کردار وعمل کو اسلامی تعلیمات کے
مطابق بنانے کو'' بنیاد پرستی'' ٹھہرایا جا تا ہے، نبوی اسوہ حسنہ کو اپنی زندگی کے لئے معیار بنانے کو دقیانوسی اور رجعت پسندی قرار دیا جاتا ہے، غاصب اور قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ بالکل اسی طرح سیکولر ازم کے معنی ومفاہیم بھی تبدیل کئے گئے ہیں۔ اس کی وہ تشریح قابلِ قبول ہے جو نیو ورلڈ آرڈر کے مفادات کی نگرانی اور اس کا تحفظ کرے، لہذا آج کے سیکولر ازم میں نیو ورلڈ آرڈر اور سرمایہ داریت کے لئے ناپسندیدہ اور انکے لئے خطرہ بننے والے کسی نظام یا مذہب کے پیرو کاروں کے لئے شخصی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس نکتہ نظر کی کوئی لاکھ تردید کرے مگر اس کا کیا کیجئے کہ ہر آنے والا دن، اور پیش آنے والا ہر واقعہ اس نکتہ نظر کو قوت فراہم کر رہا ہے۔ اگر یہ غلط ہے تو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان امتیازات کیوں روا رکھے جاتے ہیں؟ مسلمانوں کو مذہبی امتیازات کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ اگر عیسائیت پر یقین رکھنے والا فرد گردن میں صلیب لٹکاتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں، اس کے برعکس اگر اسلام کی پیروی کرنے والوں میں سے کوئی اسلامی شعائر کو اپناتا ہے تو کوئی دلیل یا ثبوت تو کجا! قرائن کے بغیر ہی اس کے خلاف الزامات کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔ مغربی ریاستوں کے اندر جو اپنے آپ کو سیکولر ازم کا علمبردار سمجھتی ہیں کسی بھی مذہب کا پیروکار اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کر سکتا ہے ، لیکن کسی مسلمان خاتون نے اگر سر پر سکارف اوڑھ لیا تو ریاستی مشینریوں اور ذرائعِ ابلاغ میں ایک طرح کا بھونچال آجاتا ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے امتیازی سلوک برتنے کے باوجود، دوغلا پن کہیے یا سوچی سمجھی پالیسی کہ سیکولر ازم کی حامل ریاستوں کی لغت میں انتہا پسندی اور اسلام دونوں مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ تنگ نظری اور اسلامی فکر وعقائد یکساں باور کئے جاتے ہیں۔ انہیں دہشت گرد کا لفظ سنتے ہی دماغی سکرین پر مسلمان کا تصور جھلملانے لگتا ہے۔ حالانکہ امرِ واقعہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ان خیالات کا حقیقت کے ساتھ سرے سے تعلق ہی نہیں۔
ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ سیکولر قوتیں مسلمانوں کو انکے رویہ اور عسکریت پسندی کی وجہ سے مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ مگر اسلام مخالف قوتوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں یا جان بوجھ کر اس سے اعراض کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر مزاحمتی خیالات کی افزائش کا کارنامہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دے رہی ہیں۔ ایک عام اور سادہ سی بات ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ لہذا آپ اگر کسی کو اس کے پیدائشی حق سے محروم کریں گے یا اس کے ملک اور قومی وسائل کا استحصال کریں گے تو لازماً وہ بھی ردِ عمل میں کسی نہ کسی صورت اپنے جذبات کا اظہار کرے گا۔
پھر بسا اوقات ان جذبات کا اظہار انتہائی شدید اور ناقابلِ تحمل ہوتا ہے کہ اس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس کا محرک کونسی چیز ہے؟ بنیادی سبب کیا ہے؟جب تک اس بنیادی محرک کو تلاش کر کے اس کا سدِّ باب نہیں کیا جاتا دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مگر افسوس! کہ ان خطوط پر عالمی قوتوں کے اندر کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔
کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں بھی سیکولر ازم کا ذکرِ خیر جاری ہے اور پاکستانی قوم کو سیکولر اور مذہبی حصوں میں تقسیم کرنے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔ قوم کو سبز باغ دکھاکر یہ بات بڑے تواتر کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ جب تک مذہب کو سیاست سے الگ کر کے ''چنگیزیت'' نافذ نہیں کی جاتی، اس وقت تک ترقی ناممکن ہے۔ بد قسمتی سے مغربی تقلید پر کمر بستہ ہمارے بعض دانشور حضرات ہر اس چیز کو من وعن لینا چاہتے ہیں جسے مغرب نے کسی بھی مرحلہ پر اختیار کیا ہو۔ پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ان خوبیوں کو حاصل کرنے پر اتنا زور نہیں دیتے جن کے ذریعے مغرب نے ترقی کی بلکہ ہماری توجہ ان برائیوں اور معاشرتی کمزوریوں پر مرکوز ہوتی ہے جن کی وجہ سے مغربی معاشرہ روبہ زوال ہے۔ جس کا وہ بارہا خود بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی سوچ اور معاشرتی اقدار کو ان کی غلامی سے آزاد کریں؟ جہاں تک وطنِ عزیز میں ترقی کی راہ میں مذہب کا حائل ہونا ہے تو مذکورہ بالا فکر کے حامل حضرات کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں دے سکتے کہ جس میں حکومت نے عوامی بہبود وفلاح کے لئے کوئی منصوبہ شروع کیا ہو اور اسے مذہبی حلقوں نے اس بنا پر رد کیا ہو کہ یہ اسلام کے خلاف ہے یا اسلامی احکام اس کی راہ میں حائل ہیں۔
دراصل یہ غلط فہمی کہ'' ہمارے ہاں مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے'' اس پس منظر کو نظر انداز کرنے سے ہوئی ہے جس پس منظر میں مغربی سیکولر انقلاب پروان چڑھا تھا۔ یورپ میں جدید سیکولر ریاستی نظام (Modren state system)سے پہلے قرون وسطی کے تاریک دور (dark age)میں جو 500ء سے لے کر 1648ء تک محیط ہے، پوپ کا مضبوط ادارہ کلیسا (Church)موجود تھا، جس نے وہاں کے مظلوم عوام سے مال بٹورنے اور انہیں مستقل اپنے ماتحت رکھنے کے لئے مختلف حربے اختیار کر رکھے تھے۔ وہ نجی عدالتوں میں لوگوں کو اذیت ناک سزائیں دیتے، تعلیمی اور صحت مند ترقی کو جرم تصور کرتے چنانچہ بڑے بڑے اسکالرز اور سائنسدانوں کو زندہ آگ میں جلایا جاتا اور یہ سارا کھیل مذہب کے نام پر کھیلا جاتا۔ پادریوں نے تحریف در تحریف کر کے مذہب کو بازیچہء اطفال بنا دیا تھا۔
دوسری طرف (Emperor)بادشاہ کا ادارہ بالکل بے بس تھا۔ ان مظالم کی وجہ سے عوام نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے مذہب کو دیس سے نکالا جائے یا کم از کم اسے اجتماعی معاشرت سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ عوام نے مارٹن لوتھر کی قیادت میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور پروٹسٹنٹ (Protestant) فرقہ وجود میں آیا۔ بالآخر 1648ء میں باقاعدہ مذہب کو ریاست سے کاٹ کر چرچ تک محدود کر دیا گیا، اور ریاستی سربراہ (King) اور عوام کے درمیان سے سارے پردے اٹھا لئے گئے۔
مغرب میں سیکولر ازم آنے کے مذکورہ بالا معروضات کو مدنظر رکھ کر 1648ء سے پہلے کی عیسائیت کا اسلام سے صرف مذہب کی قدرِ مشترک کی بنیاد پر یہ کہنا کہ چونکہ اسلام بھی ایک مذہب ہے لہذا اسے بھی ریاست سے الگ ہونا چاہیے، فکر وعقل کا قحط نہیں تو اور کیا ہے؟ قرون وسطی (Medieval) کے جابر چرچ کی اسلام جیسے عادلانہ اور رحمدل مذہب سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسلام اوراس وقت کے چرچ کا موازنہ کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ حالانکہ چرچ کے مظالم کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والا اسلام ہی ہے چنانچہ حق تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ:''اے ایمان والو! بہت سے یہودی ربی اور عیسائی پادری عام لوگوں کے اموال کو غلط طریقہ سے کھاتے ہیں'' (9-34)
لہذا جو مذہب یورپی قرونِ مظلمہ (dark ages)کی خود یورپی باشندوں سے بھی ایک ہزار سال پہلے مذمت کرے اسے انہیں قرونِ مظلمہ جیسا قرار دینا سراسر جہالت پر مبنی ہے۔اسلام تو ترقی اور خوشحالی کا پیامبر ہے جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت تو دور کی بات ہے وہ تو اس کی ہمت افزائی کرتے ہوئے نوید سناتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:''اور اﷲ تعالی وہ چیزیں پیدا فرمائیں گے جو تمہیں معلوم نہیں'' (16-
الغرض کسی طور پر بھی یہ درست نہیں کہ ہمارے ہاں مذہب کو سیاست سے اسلئے دور رکھا جائے کہ وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اخیر میں اپنے دانشورانِ قوم سے خلوصِ دل کے ساتھ گذارش ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس دقیق موضوع پر قوم کی صحیح راہنمائی فرمائیں۔ وقتی واقعات اور ایشوز (Issues)کو لے کر مخصوص خیالات کے پر چار سے گریز کریں۔ اس وقت جبکہ قوم پہلے ہی فرقہ واریت اور انتشار کا شکار ہے ، اسے مزید فکری خلفشار کا تحفہ دے کر نئے ہنگامے بپا کرنا دانشمندی کی بات نہیں بلکہ دگرگوں ملکی حالات میں قوم کو فکری وحدت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہییں۔ یہی ملک وملت کے مفاد میں ہے۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ