ضمیر کی عدالت میں ۔۔۔۔

  ضمیر کی عدالت                        تحریر: سید آصف جلال
     محترم قارئین السلام علیکم! گزشتہ کافی عرصہ سے سے قلم و کالم سے دوری رہی اس کی بنیادی وجہ میری کچھ داخلی و خارجی مصروفیات تھی کی کی بنا کر یہ سلسلہ تعطل کا شکار رہا، آج موقع ملا تو سوچا کہ تخیلات کو اپنے معزز قارئین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔
آج میں نے موضوع پر لکھنے کی جسارت کی ہے وہ کچھ ایسا ہے کہ جس کے اردگرد ہماری معاشرتی و سماجی‘فکری و شعوری‘ہمارا ماضی حال و استقبال اور ہماری خارجی اور باطنی دنیا محو گردش ہے، زندگی جب مسائل سے الجھتی ہے تو انسان کے اندر عدم اطمینانی‘خوف اور دیگر منفی خدشات جنم لیتے ہیں ۔ دراصل مسائلِ زندگی
دراصل ہماری اپنی سے سوچ سے پیدا ہوتے ہیں، کہیں خیالات کے باہمی ٹکراؤ سے تو کہیں ذاتی انا پرستی کے زیر اثر۔
ایک دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ہر مصیبت انسان کے صبر کا امتحان لیتی ہے‘‘،۔ لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ صبر کا مادہ اپنے اندر کیسے پیدا کیا جائے؟ کون سے ایسے اسباب اختیار کیے جائے کہ اس پیکر خاکی کو صبر کی دنیا کی روشناس کرایا جائے۔
قارئین اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں اکثر مسائل اس بے صبری کی مرہون منت نظر آئینگے، ایک دوسرے کے جذبات کے درعمل میں عدم برداشت کی کیفیت، اپنی بات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی اندھی ہوس، اپنے آپ کا اہل حق اور دوسرے کو’’ مردود‘‘ قرار دینے کا تاویلیں ۔۔۔یہ تمام ایسے جذبات ہے جو کہ ہمارے معاشرتی نظام کا خاصہ بن چکے ہیں، اور ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہیں یہ دیمک ہماری سماج کو کھا نہ جائے ۔۔۔اگر آپ ان مراحل سے گزرے نہیں تو یقیناًآپ کا مشاہدہ ضرور ہو گا کہ ہر شخص دوسرے پر انگلی اٹھانے کی تگ و دو میں لگا ہوتا ہے کہ فلاں کے اندر یہ خامی ۔۔۔وہ خامی۔۔۔لیکن سیانے کہتے ہیں ناکہ جب انسان دوسری پر انگلی اٹھاتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ تین انگلیاں میرے جانب گھور رہی ہے کہ ’’وہ نہیں بلکہ تو ایسا ہے‘‘۔
میرے ہم وطنو! ہم کب تک یوں ہی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا کر اپنے آپ کو اپنے دینی و دنیوی فرائض سے بری کرتے رہینگے۔کیا ایسا کرنے سے ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہماری قومی پسماندگی کو یہی حل ہے۔۔۔؟ ہم ایک دوسرے کے گریبانوں میں جانکنا تو اعزاز سمجھیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے ہر کتراہت محسوس کریں۔۔۔جس سے پوچھا جائے یہی ارشاد فرما رہا ’’کہ بھائی حکمران ہی بے غیرت ہے تو عوام پہ کیا گلہ‘‘ ، افسوس یہ جملہ ایسا ہوکہ
’’میں برا ہو، خامیاں میرے اندر ہے، کوتاہیوں کا سراپا میں ہو اپنے فرائض سے غافل لوگوں کی فہرست میں تو میں شامل ہو ، اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دینے والا میں ہو۔۔۔اپنے معاشرہ کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ تو میں بنا ہوا ہو۔۔۔دولت کی اندھی ہوس نے تو مجھے اندھا بنا دیا ہے۔۔۔حقوق اللہ و حقوق العباد کی عدم ادائیگی کا ذمہ تو میری ذات ہے۔۔۔میں ہی ہوں جس کے اندر غریب کی آہ کی کوئی وقعت نہیں۔۔۔مجھے ہی مسکینوں کے آنسو پوچھنے کی فرصت نہیں۔۔۔مجھے تو اپنی نفسانی خواہشات نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہو ا ہے۔۔۔مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میر
اس جہاں میں آنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔ہاں ہاں ۔۔ میں غافلوں کے قبیلے کا سب سے غافل شخص ہو‘‘۔
افسوس کی ہمیں فرصت کے لمحات مل جائے ۔آئیے اس کے متعلق کچھ سوچتے ہیں کہ ہم کیسے مقدمہ کی سماعت اپنے ضمیر کی عدالت میں کریں۔
انسانی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آتے ہیں جب انسان اپنی عدالت خود قائم کرتا ہے، خود ہی ملزم ہو، خود ہی مدعی، خود ہی وکیل صفائی، خود ہی منصف، خود ہی اپنے آپ کو مجرم بھی ثابت کرے، اور کبھی کھبار خود ہی اپنے آپ کو بری کر دے۔۔۔معلوم ہے یہ کون سی عدالت ہے؟؟ ضمیر کی عدالت ۔۔۔احساس کی عدالت
جہاں اپنی زندگی کو سنوارنے کا موقع ملتا ہے۔۔۔جہاں اپنے سابقہ زندگی پر غور فکر کرنے کے لمحات نصیب ہوتے ہے ۔۔۔جہاں اپنے ماضی کو سمجھنے اور اس سے کچھ حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔۔۔جہاں حال کا مشاہد ہوتا ہے۔۔۔جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی تشکیل پاتی ہے۔۔پس ایک لمحہ جو لوگوں کی زندگیا ں بدل دیتا ہے جو ایک غیر اللہ کی عبادت کرنے والے کو توحید کاراستہ پر گامزن کرتا ہے ۔۔۔بس ایک لمحہ جس ایک موچی کے بیٹے کو 20کروڑلوگوں کا حاکم بنا دیتا ہے ۔۔۔ہاں یہی ایک لمحہ تو سے جس ہر فتح وشکست کے فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔۔!!
تو چلیں آئیں نا ہم کیوں نہ اس احساس کی عدالت میں پیشی کے لئے روانہ ہو جائے ۔۔۔کیونکہ وقت بڑا ظالم ہے یہ کسی کی قدر نہیں کرتا ہاں اس کا ساتھ ضرور دیتا ہے جو اس کا احترام کرے جو اس کو سمجھے ۔۔۔جو یہ سوچے کہ مجھے دن رات میں جو چوبیس گھنٹے ملیں ہے یہ محض چوبیس کا ہندسہ نہیں بلکہ کے 1440منٹ ہیں جو کہ اپنے اندر 86400سیکنڈز کا سمندر موجزن کیے ہوئے ہیں۔۔۔اور میرے پیارے دوستوں سیکنڈ کا بھی ہر حصہ ہم سے اپنے تقاضے کی بھیگ مانتا ہے کاش کہ ہم اس کی اس التجا کو سن سکیں کہ کیا کہ رہا ہے ۔۔۔جب میں نے تصور کے کان اس کی التجاوں پر غور کیا تو مجھ پر ایک عجیب سا انکشاف ہو ا مجھے یہ معلوم ہوا کہ قوموں کی زندگیاں کیسے موڑ لیتی ہے۔۔۔؟ یہ راز ملا کہ ایک انسانی زندگی میں بدلاؤ کیسے آتے ہیں جب یہ سرگوشی میری سماعتوں سے ٹکرائی کہ ’’ میں قدردانون کا ہمیشہ کامیابی کا صلہ دیا کرتا ہوں ‘‘ تو مجھے اس کا اکتشاف ہوا کہ ہم ذلالت کی اندھی وادی میں کسے پہنچے؟؟؟
قارئین آج ہی سے احتساب زندگی شروع کیجئے۔ رات سونے سے پہلے تنہائی کے کچھ لمحات میں اپنے بستر پر اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو اپنے گزشتہ زندگی کا مقدمہ لڑیں اپنے خلاف و اپنے حق میں خود ہی دلائل دے۔۔۔خود ہی مجرم سے ملزم کا سفر طے کریں ۔اور اپنے کل کی فکر کریں ، اس خوبصورت ملک پاکستان اور اس کے عوام کی فکر کریں ،اپنے قومی فرائض کی ادائیگی کی فکر کریں ۔۔۔۔۔!!
موضوع کو سمیٹوں گا معروف شاعر سید حاکم علی شاہ کے اس شعر پر
تم اپنی ذات کا پس خود ہی احتساب کرو۔۔۔تمھارے بیچ زمانے کی کیا ضرورت ہے



گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ