ایک دن انقلاب آئیگا

ایک دن انقلاب آئیگا
تحریر :   سید آصف جلال        زمرہ جات:     ہمارا معاشرہ‘  اردو ادب
محترم قارئین اکرام! ابرار الحق 21 جولائی کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ بہت سے دیگر نئے پاکستانی فنکاروں کی طرح ابرارالحق نے بھی اپنی سن پیدائش کو خفیہ رکھا ہوا ہے تا کہ اپنی عمر کو عوام سے پوشیدہ رکھ سکے۔ تاہم ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اس کی سن ولادت 1968ء ہے۔ ابرار نے ٹی وی کے پروگراموں میں کئی دفعہ کہا ہے کہ وہ نہ زیادہ عمر رسیدہ ہے اور نہ ہی بہت کم عمر ہے اور اس بات کے بھ اشارے دیے ہیں کہ وہ 1960ء کی دہائی میں پیدا ہوا۔اس ابتدائی تعلیم
گجرات اور راولپنڈی میں ہوئی۔سر سید کالج (راولپنڈی) سے بی۔ اے۔ کیا اور جامع قائد اعظم سے معاشرتی علوم میں ایم۔ اے۔ کیا۔
1996ء میں ایچی سن کالج (لاہور) میں مستقل استاد کی حیثیت سے متعین ہو گیا۔ بعد میں پاپ موسیقی کی وجہ سے اسے درس و تدریس کے پیشے کو خیر بعد کہنا پڑا اگرچہ ایچی سن کالج (لاہور) میں اپنی تعیناتی کے دن کو ابرار نے اپنی زندگی کا سب سے قابل فخر دن قرار دیا ہے۔ابرار کے زیادہ تر گیت پنجابی زبان میں اور بھنگڑا طرز موسیقی کے ہوتے ہیں۔ اس نے اردو میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اس کا ایک معروف گیت "سانوں تیرے نال" دو زبانوں، انگریزی اور پنجابی، میں ہے۔ابرار کا پہلا گیت "بلو دے گھر" اسی نام کی البم کے ساتھ فوری مشہور ہوگیا۔ اس کی ویب سائیٹ کے مطابق اس البم کی 1 کروڑ ساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
قارئین کرام ! ابرارالحق کی اس مختصر سوانح کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد ان کی لکھی ہوئی ایک انقلابی نظم ہے جس نے مجھے ان کے متعلق چند الفاظ و تعارف لکھنے پر مجبور کیا۔ ہمارا مقصد معاشرے کی اصلاح کی ہر پہلو کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ ہماری قوم کے اندر ایسے جذبات و احساسات پیدا ہو جس سے پاکستان ایک ترقی او خوشحال ملک کا منظر پیش کرے،اور معاشرے کا ہر فرد اپنی قومی اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا بنے ۔ اس مختصر سوانح کو پیش کرنے میں ‘ ہم نے آزاد دائرہ معارف وکی پیڈیا‘ سے مدد لی۔ یہ نظم مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آئی۔ اس نظم سن کر  فیض احمد فیض کی اس غزل کا نقشہ ذہن کی دیواروں پہ بنا  انہوں  کیا خوب کہا تھا۔۔ ’’ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔۔۔ الخ‘‘
اب ابرار الحق صاحب کی یہ نظم ملاحضہ ہو:

سر جلائنگے روشنی ہو گی
اس اجالے میں فیصلے ہونگے
روشنائی بھی خون کی ہوگی
اور وہ فاقہ کش قلم جس میں
جتنی چیخوں کی داستانیں ہیں
ان کو لکھنے کی آرزو ہو گی
نہ ہی لمحہ قرار کا ہو گا
نہ ہی رستہ فرار کا ہوگا
وہ عدالت غریب کی ہو گی
جان اٹکی یزید کی ہو گی
اور پھر اک فقیر کا بچہ
مسندوں پر بیٹھایا جا ئے گا
اور ترازوں کے دونون پلڑوں میں
سرخ لہو کوتولا جائے گا
سابقہ حاکمین حاضر ہو
نا م اور ولد بولا جائے گا
جو یتیموں کی طرف اٹھے تھے
ایسے ہاتھوں کو توڑ ڈالیں گے
اور جس نے روندی غریب کی عصمت
اس کی گردن مروڑ ڈالیں گے
جس نے پیچی ہے قلم کی طاقت
جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے
جو دکانیں سجائے بیٹھے ہیں
سب سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچا‘ عذاب بیچا ہے
مفلسوں کو سراب بیچا ہے
دین کو بے حساب بیچا ہے
کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے
اور کیا کہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ قوم نے خود کو کس طرح بار بار بیچا ہے
فیض ؔ و اقبالؔ کا پڑوسی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں ہے
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
مہک میری چار سو بھی ہے
جونُپڑی کے نصیب بدلیں گے
پھر کہیں انقلاب آئیگا۔
بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا
اک دن انقلاب آئیگا



گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ