نظم اور غزل کافرق

نظم اور غزل کافرق


تحریر : نسیم شیخ      ترتیب و پیشکش:  سید آصف جلال       زمرہ: اردو ادب

(السلام علیکم ، محترم قارئین صدائے مسلم ،شاعر  جناب نسیم شیخ صاحب کا ایک مضمون آپ کی نذر کرونگا، ان کی حصوصی اجازت سے آپ کے لئے پیش کر رہا ہوں، اگر آپ بھی اپنا مضمون بلاگ کا حصہ بنانا چاہیں تو لنک کو فالو کر کے ہمیں ارسال کر سکتے ہیں۔مضمون ملاحضہ ہو۔)
اردو شاعری کا شمار تاریخ میں ایک بہت نمایاں اور پر اثرار طریقہ اظہار خیال کے طور پر کیا جاتا ہے اور اس
کی بنیادی وجہ اس کی مختلف اضاف اور رنگینی ہے آج اردو شاعری کو دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔فیس بک پر شاعری کی اہمیت اور مقبولیت منہ بولتا ثبوت ہے۔مختلف انداز میں مختلف افراد فیس بک کی حد تک شاعری میں اپنا ایک نام رکھتے ہیں مگر دکھ اس وقت ہوتا ہے جب بظاہر کئی کئی کتابوں کے مصنف اور ان گنت غزلوں اور نظموں کے خالق شاعری کے بنیادی رموز سے بھی واقف نہیں جب ان سے ان کے کلام کے بارے میں ہی پوچھا جائے کہ یہ کیا ہے غزل ہے یا نظم تو جواب میں جو آتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ احساس کا قیدی بنا جاتا ہے۔مجھ سے بھی میری شاعری کے حوالے سے کئی بار شوالات پوچھے گئے اور میں نے برملہ اعتراف کیا کہ میں خود اس بحر سخن کی لہروں پر غوطہ خور ہوں مگر ایک اہم جستجو میرے وجود کا حاصل بن گئی جس وجہ سے میں اپنے ناقص علم کی بدولت غزل اور نظم پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ نئے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کے علم میں یہ بنیادی باتیں آسکیں۔
اردو غزل
غزل شاعری کی ایک صنف(قسم) ہے جو اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے اور جس کو با ضابطہ منظوم ہونے کے باعث گایا جاسکتا ہے۔اس کا آغاز دسویں صدی میں فارسی شاعری سے ہوا اور بعد ازاں اس پر عربی اور فارسی ادب کے بھی اثرات آگئے۔اسی اثر نے اردو زبان میں صوفیانہ رنگ بھر دیا۔اردو زبان میں غزل ایک غیر معمولی طریقہ اظہار ہے جس میں آپ اپنے بے انتہا اندرونی رومانی جذبات کی عکاسی کر سکتے ہیں۔لفظ غزل کا ادبی مطلب اپنے محبوب سے گفتگو ہے۔تاریخِ الفاظ کی رو سے یہ عربی زبان کے لفظ غزال سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہرن کے ہیں جو ایک خوبصورت معصوم جانور ہے عام فہم زبان میں غزل ایک اہسی پابند منظوم صنف ہے جس میں سات۔نویا درجن بھر یکساں وزن اور بحر کے جملوں کے جوڑے ہوں اس کا آغاز جس جوڑے سے ہوتا ہے وہ مطلع کہلاتا ہے اور اختتام کے کوڑے کو مقطع کہتے ہیں جس میں شاعر اپنا تخلص یا نام بھی استعمال کرتے ہیں تمام جوڑے اور ہر جوڑے کے ہر انفرادی جملے کا یکساں دراز ہونا لازم ہوتا ہے۔پابند جملوں کے یہ جوڑے شعر کہلاتے ہیں اور زبان اردو میں شعر کی جمع اشعار کہلاتی ہے۔غزل کے بنیادی نظریہ اور تعریف کے مطابق اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک آزاد اور مکمل منظوم معنیٰ رکھتا ہے۔کسی بھی شعر کے خیال کا اس سے اگلے شعر میں تسلسل ضروری نہیں ہوتا۔ایک غزل کے اشعار کے درمیان مرکزی یکسانیت کچھ الفاظ کے صوتی تاثر یا چند الفاظ کا ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں تکرار سے ہوتا ہے۔اس سے ہٹ کر بھی کسی غزل کے ایک سے زیادہ اشعار کسی ایک ہی خیال کو مرکزی ظاہر کر سکتے ہیں۔لیکن ہر شعر اپنی جگہ منظوم قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔جن غزلوں میں ایک سے زائد اشعار ایک ہی مرکزی خیال لئے ہوتے ہیں انکو نظم یا نظم نما غزل بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ارودو زبان میں لفظ نظم کا واضح مطلب جملوں کے اختتام پر وزن اور صوتی اثر کا یکساں ہونا ہے۔غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں آخری ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین الفاظ پوری غزل کا توازن برقرار رکھتے ہیں اور غزل کے مطلع کا پہلہ مصرعہ بھی انہی الفاظ پر ختم ہونا چاہیے۔اسے غزل کا ردیف کہتے ہیں ردیف سے پہلے کا لفظ منظوم ہونا ضروری ہے جو قافیہ کہلاتا ہے یہ اردو غزل کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔
اردو نظم
اردو نظم کی خوبصورتی سے واقفیت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پڑھنے والا غزل اور نظم کا تقابلی تجزیہ کر سکتا ہو۔کیونکہ دونوں اضاف میں بہت سی قدریں مشترک بھی ہیں اور کہیں کہیں ان میں مماثلت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ فرق کی باریک لکیر کو دیکھنے کے لئے بہت غور کرنا پڑھتا ہے۔اس کہ باوجود یہ دونوں اضاف اپنی اپنی جگہ منفرد اور آزاد حیثیت بھی رکھتی ہیں۔اردو زبان میں نظم بنیادی طور پر شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کسی ایک ہی خیال کو الفاظ کے ہموار بہاؤ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔جہاں تمام اشعار لکھنے والے کے خیال کے تسلسل کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل اور مختلف معنیٰ رکھتا ہے۔اگر وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو نظم اردو شاعری کی ان تمام اقسام کی نمائندگی کرتی ہے جن کو کسی اور تعریف کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن ادبی نکتہ نظر سے نظم شاعری کی ایک بہت منظوم اور منطقی لحاظ سے غیر محسوس طور پر ٹھوس صنعف ہے جس میں شاعری کا مرکزی خیال ایک ہوتا ہے اگرچہ روایتی نظم میں بھی پابندیاں ضروری ہیں لیکن کئی جگہوں پر ہمیں کئی شہکار آزاد نظموں کی بھی مثالیں ملتی ہیں نظم کے ادبی معنیٰ نثر کی ضد کے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ نظم کی ظاہری شکل میں بھی تغیر رونما ہواہے۔انیسوی صدی کے آخری عشروں میں تو اس کی ترکیبوں میں واضح تبدیلیاں آگئیں لیکنپھر اس کی قدیم تاریخ کے باعث اس کی انفرادیت اور کشش میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔نظم میں طوالت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی اس میں شاعر کا تخیل ارتکاز کے ساتھ ساتھ تفصیل سے بیان ہوتا ہے اور اس میں ایک خیال کی مرکزیت کو بگاڑے بغیر بہت وسیع انداز سے مضمون کو پھیلانے کی گنجائش ہوتی ہے اسی ممکنہ پھیلاؤ کی گنجائش کے باعث نظم کو اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔نظم لکھنے کے لئے شاعروں کا ہر دور میں مرغوب ترین موضوع محبت رہا ہے اور یہی رومانوی انداز تمام اردو شاعری کی اساس بھی ہے نظم کے ذریعے محبت کی خوبصورتی کو بہت باوقار سادہ اور نازک انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ نہ صرف محبت بلکہ فطرت کا حسن غم خوشی زندگی کی چمک و موت کا درد ہر موضوع کے لئے نظم ایک بہترین ذریعہ اظہار ہے جس میں اس موضوع کے معنیٰ اور مفہوم کو ذہن میں رکھ کر طویل بات کی جا سکتی ہے بہشتر مقام پر نظم کا مرکزی خیال قاری کو افسانوی دنیا کے بجائے موضوع کی ایک منطقی اور ٹھوس وضاحتی تصویر فراہم کرتا ہے۔نظم غزل کے مقابلے میں زیادہ حقیقی طریقہ اظہار ہے جبکہ غزل عام طور پر قاری کو محض افسانوی سرابوں کا شکار بناتی ہے۔
عزل اور نظم کے درمیان فرق
نظم کے ان غیر نکتوں کو سمجھنے کے لئے نظم اور غزل کو آمنے سامنے رکھ کر تقابلی جائزہ لینا بہت مددگار ہوتا ہے جہاں دونوں اصناف کی ضد اور مماثل ہونے کا اندازہ کیا جا سکے۔نظم ایک اور بھی اہم انداز سے غزل سے قدرے مختلف ہوتی ہے غزل کو یہ افتخار حاصل ہے کہ بنیادی طور پر یہ نظم ہونے کے باوجود اپنے اشعار کے ایک دوسرے سے تسلسل اور بندھے ہونے کی پابند نہیں ہوتی غزل کا شاعر اگر چاہے تو غزل میں تمام منظوم پابندیوں کے ساتھ ساتھ پہلے شعر میں محبت دوسرے میں موت تیسرے میں حسد اور چوتھے میں تصوف وغیرہ پر الگ الگ اظہار کر سکتا ہے جبکہ نظم کا حال اس سے بالکل مختلف ہے جہاں بنیادی خیال کو ہی مرکزیت حاصل ہے اور ابتداء سے اختتام تک اسی خیال کا ارتقاء ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نظم کا باقائدہ ایک موضوع ہوتا ہے نام ہوتا ہے جسے ٹائٹل کہا جاتا ہے جبکہ غزل اس نکتے سے آزاد یا یوں کہیں کہ اس ضلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔
مجھے امید ہے کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں مگر پھر بھی اساتذہ کرام سے امید واثق ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزید رہنمائی فرمائیں تاکہ ان کا علم آگے پھیل سکے۔یہاں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اہل علم حضرات اپنے علم کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں اور اسے اپنی میراث سمجھتے ہیں جس وجہ سے سخن کے سمندروں میں آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔میں انتہائی معذرت کے ساتھ ان شعراء سے درخواست کروں گا کہ اپنے علم کی روشنی سے ہم سب کو منور کریں تاکہ یہ شمع اپنی روشنی سے اندھیروں میں اجالے لانے کا سبب بن سکے۔شکریہ





گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ