اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر عنوان : اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدآقا ﷺ کا فرمان ہے ’’اللہ غیرت مند ہے اور غیرت مندوں کو پسند کرتا ہے ‘‘ ناناؐ کے کندھوں پر سواری کرنے والے حسینؓ کو ناناؐ کا یہ فرمان یاد تھا ، اچھّی طرح یاد تھا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ خلافت کو ملوکیت میں ڈھالنے کی کوشش کرنے والے امیر معاویہؓ کے فیصلے کو وہ درست مان لیتے۔ امیر معاویہؓ نے اپنی زندگی میں یزید کی خلافت کااعلان کیا اور حضرت امام حسینؓ نے بیعت سے انکار کر دیا ۔آپؓ کو ناناؐ کے دین سے سرِ مُو انحراف بھی گوارہ نہ تھا۔انہوں نے یزیدیت کے خلاف جہاد کیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ دس ہزار یزیدیوں کے سامنے صرف بہتر افراد کا کنبہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ، سر کٹوانا پسند کیا ،سر جھُکانا نہیں۔موت تو برحق ہے ،وہ آنی ہی آنی ہے لیکن شہید کی موت ۔۔۔۔۔ وہ موت ہے جس پر خود حکمِ ربّی ہے کہ ’’شہید کو مُردہ مت کہو ، وہ زندہ ہے اور اپنے ربّ کے ہاں سے خوراک حاصل کر رہا ہے ۔پھر شہید بھی حسینؓ جیسا کہ جس نے آبروئے دینِ محمدﷺکی خاطر سر کٹوانے میں ایک لمحے کی ہچکچاہٹ بھی نہیں دکھائی،اُس شہادت پہ ہزار شہادتیں قُربان کہ جس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر تا قیامت ناناؐ کے دین کی آبرو رکھ لی ۔سچ کہا گیا کہ : ۔
قتلِ حسینؐ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کبوتر باکبوتر ، با ز با با ز
آج بڑے بڑے سقّہ لکھاری اپنی ساری ’’قلمی توانائیاں‘‘ یہ ثابت کرنے میں صرف کر رہے ہیں کہ ہم میں امریکہ یا بھارت سے لڑنے کی سکت نہیں ۔ بجا ارشاد ۔۔۔۔ تو پھر اتنی فوج ، سامانِ حرب ، ایٹمی میزائیل اور ایٹم بم بنا کر قوم کو گھاس کھانے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے ۔؟ دست بستہ کچھ امریکہ کے حوالے کر دیں اور کچھ بھارت کے تاکہ ہر گھر میں دو وقت کا کھانا تو پک سکے ۔ لیکن اتنا ضرور یاد رکھیئے گا کہ معمر قذافی کا زوال اُسی دن سے شروع ہوگیا تھا جب اس نے اپنا ایٹمی پروگرام ٹھپ کرکے سب کچھ جہازوں میں بھر کے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا ۔ اگر آپ کو بھی قذافی جیسے انجام کا شوق ہے تو بسم اللہ اور اگر عزت کی زندگی درکار ہے تو پھر یا د رکھیئے کہ ویت نام سے افغانستان تک امریکہ نے جب بھی پنجہ آزمائی کی اُسے سوائے ذلتوں کے کچھ نہ ملا۔سامنے کی بات ہے کہ نہتے افغانی طالبان کے پا س نہ کوئی لڑاکا طیارہ ہے نہ میزائیل ، نہ کوئی آب دوز ہے نہ بحری جہاز، نہ ٹینک ہے نہ توپ اور ایٹم بم تو رہا دور کی بات اُن کے پاس تو کوئی سادہ بم بھی نہیں لیکن پھر بھی انہوں نے امریکہ اور اس کے حواریوں کو نہ صرف بھاگنے پر مجبور کر دیا بلکہ امریکہ کو دنیا کا مقروض ترین ملک بنا کر اُس کی معشیت کو برباد کر دیا۔ آج امریکہ 65 1 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہو کر طالبان سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہوا ۔؟ سادہ اور سیدھا جواب ہے کہ افغان غیرت مند تھا ، بے غیرت نہیں ۔ وہ کٹ تو سکتا ہے مگر جھُک نہیں سکتا ۔ لیکن ہمیں زندگی سے پیار ہے ، ہم اسے بہت سینت سنبھال اور بچا بچا کے رکھ رہے ہیں حالانکہ یہ ایسی متاع ہے جسے پایانِ کار لُٹنا ہی لُٹنا ہے ۔ البتہ یہ طے کرنا باقی ہے کہ ہمارے نصیب میں عزّت کی موت ہے یا ذلّت کی ۔۔۔
بذریعہ جی میل تبصرہ
بذریعہ فیس بک تبصرہ