جنسی موضوعات پر قرآن و حدیث کا اسلوب

    جنسی موضوعات پر قرآن و حدیث کا اسلوب.........ڈاکٹر انیس احمد
    صحت مند تنقید دین کے فرائض میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ الدین نصیحۃ، یہ حدیث مبارکہ اپنی جامعیت کی بنا پر اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں اور حکمرانوں اور دیگر معاصرین کے طرزِفکر اور طرزِعمل کا جائزہ لینے اور جہاں کہیں اصلاح کی ضرورت ہو متوجہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ عالمی ترجمان القرآن کے ایک فاضل قاری نے الدین نصیحۃ کی پیروی کرتے ہوئے میرے مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ء) پر چند سوالات اُٹھائے اور اس موضوع پر مزید چند سطور تحریر کرنے کی تحریک دی۔
    محترم قاری کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ بہت ہی اچھا لگا، مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں: قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبَلَاہُ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟‘‘
    عصرجدید میں ’جنسی تعلیم‘ کی اصطلاح جس تناظر میں استعمال کی جاتی ہے، اس کا مقصد عالم گیریت کے زیرعنوان مغربی اخلاقی اقدار کو تعلیمی نصاب اور کمرۂ درس میں وضاحت کے ذریعے نئی نسل کو جنسی اباحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مشرقی تہذیب دونوں میں جنسی موضوعات پر جو رویہ صدیوں سے اختیار کیا گیا ہے وہ اسلامی اقدارِ حیات اور قرآنی اخلاق کی ضد نظر آتا ہے۔ ہندوازم جو خالصتاً ایک مشرقی خطے کا مذہب ہے اپنے فن تعمیر کے ذریعے جنسی تعلقات کو سرعام مذہبی عقیدت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مغربی تہذیب میں لذت پرستی (hedonism) میں جنسی لذت کا اپنا مقام ہے اور جدیدیت (Modernism) اور مابعد جدیدیت (Post-Modernism) اور ریخ تیگیت (Destructivism) جیسے فلسفوں نے آج کے مغرب کو جو راستہ دکھایا ہے وہ زندگی کو ایک جنسی لذتیت کے زاویے سے دیکھتا اور جنسی لذت کے ذرائع کو وہ مقام دے دیتا ہے جو زندگی کے عام معمولات، مثلاً صبح کا ناشتہ، رات کا کھانا، بازار سے پھل خرید کر لانے سے یا چائے کی ایک پیالی پینے سے زیادہ مختلف نہیں سمجھتا۔ اسی بنا پر جنسی تعلیم کے ذریعے عالمی پالیسی پر زور دیا جاتا ہے کہ اگر اسکول کے بچوں کو یہ سکھا دیا جائے کہ وہ کس طرح محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں، تو دنیا ایڈز جیسے مہلک مرض سے محفوظ ہوجائے گی۔
    واضح رہے کہ جنسی تعلیم کا محرک بڑی حد تک مغرب و مشرق کے ممالک کا یہ تصور ہے کہ وہ ہندستان ہو یا امریکا، جہاں کثرت سے ایڈز کے مثبت کیس پائے جاتے ہیں، اگر انھیں کم کرنا ہے تو آنے والی نسلوں کو ان ذرائع کی تعلیم دی جائے جن کے بعد اسکول کے بچے آپس میں محفوظ جنسی تعلق قائم کرسکیں۔ گویا جنسی تعلق قائم کرنا صبح کے ناشتے کی طرح کی ایک معصوم سرگرمی ہے، اور جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ناشتے میں کوئی جراثیم آلودہ غذا نہ ہو، اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے وقت کیا احتیاط کی جائے کہ اس عمل میں ملوث افراد کسی جسمانی بیماری کا شکار نہ ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس تعلیم کو دیتے وقت استاد یا معلمہ کمرۂ درس میں نہ صرف تصاویر کے ذریعے بلکہ زبانی وضاحت سے بھی اُن معاملات کو بیان کرے گی جو آج تک کمرۂ استراحت تک رہے ہیں، اور اس کے باوجود ہزارہا سال سے انسانی آبادی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔

    * جنسی مضامین کا ضابطۂ اخلاق میں لانا:

    قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس نازک تعلق کے بارے میں جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ حصولِ لذت کو اخلاقی ضابطے کے تناظر میں بطور اللہ تعالیٰ کی ایک آیت کی تعلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورۂ روم اور سورۂ نساء میں قرآن کریم شوہر اور بیوی کے تعلق کو جس اخلاقی اسلوب میں بیان کرتا ہے، وہ انسانی فکر کی پرواز سے بلند اور انسانی فکر کی رہنمائی کے لیے ہدایت و رہنمائی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کا اخلاقی اسلوب زندگی کے ہرعمل کے لیے اخلاقی ضابطے اور اصول فراہم کرتا ہے۔ اخلاقی اصول علومِ اسلامی کے تناظر میں اصول کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور تطبیقی میدان میں احکام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی اخلاقی ضابطہ ہے کہ مثالی اسلامی معاشرے میں رشتۂ ازدواج اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم اس اخلاقی اصول کو کائنات اور مخلوقات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح نظامِ کائنات کو اخلاقی ضابطے پر چلانے کے لیے جوڑے پیدا کیے گئے۔ اسی تسلسل میں انسان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی نفس سے اس کا زوج (جوڑا) بنایا۔
    گویا عالمِ انسانی ہو یا عالمِ حیوانی ، دونوں میں زواج کا قائم کیا جانا ایک فطری، اخلاقی اور شرعی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت چونکہ انسانوں سے وابستہ ہے، اس لیے اس میں زمان و مکان کا تعین بھی کیا جانا ضروری ہے۔ سنت مطہرہ اس پہلو کی وضاحت و تشریح کرتی ہے کیونکہ سنت کو دو امتیاز حاصل ہیں۔ اوّلاً یہ کہ سنت تشریعی ہے، اور ثانیاً یہ کہ سنت تشریحی ہے۔ چنانچہ یوم الحساب جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں یہ بات شامل ہے کہ جوانی کس طرح گزاری؟ کیا عفت و عصمت کو برقرار رکھا؟ کیا جوانی کی تعمیری قوت کو معروف کی اشاعت کے لیے استعمال کیا؟ کیا جوانی میں مادی وسائل اور وقت کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے استعمال کیا، یا بے راہ روی اور عبث میں گزاری؟
    جوانی، بلوغ اور عقل، ان سب کا قریبی تعلق ایک مومن کے جنسی معاملات کے ساتھ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ عقلی رویے کا مطالبہ ہے کہ ایک شخص جو ان ہو تو یا روزے رکھے یا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔ یہ بلوغ کا تقاضا ہے کہ اس سن کو پہنچے تو اس فکر میں نہ رہے کہ جب تک کثیرمالی وسائل کا مالک نہ ہو، نکاح سے دُور رہے۔ قرآن نے اس معاشی پہلو کا دوٹوک جواب دیا ہے کہ: وَانْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآءِکُمْط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۳۲) ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ مالی وسائل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ کے لیے، اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے اگر یہ کام کیا جائے گا تو وہ اپنی رحمت سے مالی ضروریات پورا کرنے کا راستہ نکال دے گا۔گویا اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں اس لیے منسلک نہ کرنا کہ ابھی تنخواہ کم ہے، کاروبار سے منافع کم آرہا ہے، ابھی عمر ہی کیا ہے، یہ اور اس قسم کے وہ تمام تصورات جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اسلام ان کو رد کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی آیت ان رواجی تصورات کی تردید کرتی ہے۔
    جنس کے حوالے سے قرآن و سنت کے اخلاقی اسلوب کے الہامی اور اعلیٰ ترین ہونے کا احساس اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایک محقق کلامِ الٰہی اور دیگر مذاہب کے اساطیر کا ایک تقابلی مطالعہ کرے۔ اساطیر نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت کی کتب مقدس میں جہاں ان مسائل کا ذکر ہے صرف انھیں ایک نظر دیکھ لیں تو زمین و آسمان کا فرق کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
    اس بنا پر ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام جنسی مسائل پر ایک اعلیٰ الہامی اخلاقی اسلوب اختیار کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس اسلوب کی بنیاد پر تدریس و تعلیم میں مواد اور طریق تدریس ایجاد کیے جائیں۔ فقہ ان میں سے ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس کی تعلیم بہت سے جنسی مسائل سے، بغیر کسی لذتیت کے، زمینی حقائق سے ایک غیربالغ اہلِ ایمان مرد اور عورت کو ان مسائل سے آگاہ کرتا ہے جن کو آج کل اسکولوں میں جنسی تعلیم کے زیرعنوان سکھانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جو فی الواقع طلبہ و طالبات کو بجاے اخلاقی طرزِعمل اختیار کرنے کے فحاشی و عریانی اور بے شرمی کی طرف لے جانے کا ذریعے ہوگی۔ مغرب و مشرق میں جہاں کہیں بھی عمر کے اس مرحلے میں جب ایک بچہ اور بچی تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو نتائج تباہ کن ہی رہے ہیں۔ امریکی نصابِ تعلیم میں جنسی تعلیم کی شمولیت کے بعد جس تیزی سے غیراخلاقی جنسی تعلق، قبل از وقت ناجائز ولادت اور حمل کے واقعات ہوئے ہیں وہ ہرصاحبِ علم کے سامنے ہیں۔
    اس لیے جنسی تعلیم کی اہمیت کو مانتے ہوئے اصل مسئلہ اسلوب کا ہے۔ اصل مسئلہ اسے اخلاقی ذمہ داری سے منسلک کرنے کا ہے۔ اصل مسئلہ ایک پاکیزہ خاندان کے قیام کاہے، جب کہ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ مستعار اور استعمال شدہ فکر کو اختیار کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہر وہ موضوع جو مغرب و مشرق کے دانش ور اُٹھاتے ہیں، ہمارے ہاں آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کو ’ترقی پسندی‘، ’روشن خیالی‘ سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ایک قومی فریضہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اور غیرحکومتی مدارس میں اسلامیات کے نصاب کو، نظرثانی کے بعد بطور لازمی اور قابلِ امتحان مضمون کے جس کا اثر نتائج میں ظاہر ہو، اسلام کے جامع تصور کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس جامع نصاب میں جنسی اخلاقیات بھی بطور ایک باب کے ہو اور وہ بغیر کسی مانع حمل ذرائع کی تعلیم کے جنسی ذمہ دارانہ رویے پر روشنی ڈالے۔
    یہ خبر کہ ایک الیٹ اسکول ہم جنس پرستی کے موضوع پر ۱۶جولائی کو ’میونخ ڈیبٹس‘پروگرام کے تحت مباحثہ منعقد کرنے جارہا ہے (جنگ، ۱۰جولائی ۲۰۱۲ء)، اس خبر پر مختلف حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کے زیرعنوان آخر وہ کون سی منزل ہے جس کی طرف قوم کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا ہر وہ اخلاق باختہ کام جو مغرب نے ’ترقی‘، ’روشن خیالی‘، اور ’جدیدیت‘ کے عنوان سے کیا ہے، کرنا ہمارے لیے فرض سمجھ لیا گیا ہے؟
    ہم شکرگزار ہیں کہ محترم قاری نے سوالات اُٹھا کر اس موضوع پر چند مزید نکات تحریر کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ جہاں تک سوال ’شانِ اجتہادی‘ کا ہے، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی جو جو بات خوش کرتی ہے اس کو اختیار نہ کرنا ہمارے خیال میں کوئی مناسب رویہ نہیں ہے۔ حدیث معاذ بن جبل میں جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہی اُمت مسلمہ کے لیے ذریعۂ نجات ہے۔ اس کوشش میں خلوصِ نیت کے ساتھ جو کام بھی کیا جائے گا اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں سے مطابقت رکھے تو اس کے لیے دو اجر کا وعدہ ہے، اور اگر پورے خلوص اور کوشش کے باوجود انسانی فکر سہو کا شکار ہو، جب بھی الرحم الراحمین کی طرف سے ایک اجر کا وعدہ ہے۔ اگر دین اسی کا نام ہے تو پھر طنزاً ’شانِ اجتہادی‘ تلاش کرنا یا نہ کرنا غیرمتعلق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کے فتنوں، گمراہی، غلو اور اباحیت سے محفوظ رکھے، قرآن و سنت پر غور کرنے اور نئے مسائل و معاملات کے حل تلاش کرنے کی توفیق دے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ