جماعتیں اور ان کے منشور

    جماعتیں اور ان کے منشور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : ادریس آزاد
    کسی بھی جماعت کے منشور کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتا ہے نظریاتی منشور اور دوسرا انتخابی۔

    اوّل الذکر کسی بھی جماعت کے ہونے کا جواز ہوتاہے، جبکہ ثانیُ الذکر وقتی، عارضی اور متغیر ہوتاہے۔مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریاتی منشور سوشلزم کا نفاذ ہے اور جماعتِ اسلامی کا نظریاتی منشور اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ لیکن یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور کے وقت کس قدر لچکدار ہیں؟۔۔۔۔۔ دیکھنا یہ ہوتاہے۔

    پاکستان میں جتنی بھی مسلم لیگیں ضیاالحق کے دور میں معرض ِ وجود میں آئی ہیں، اُن میں سے کسی کا کوئی نظریاتی منشور سرے سے ہے ہی نہیں۔ اور ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ مسلم لیگ کا منشور قیام ِ پاکستان تھا۔ محمد خان جونیجو کو اسی سوال کاجواب دیتے ہوئے کہنا پڑتا تھا، "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیںگے" ۔۔۔۔۔ گویا اب پاکستان بچائیں گے، مسلم لیگ کا منشور ٹھہرا۔ سو ایک جماعت جو نظریاتی منشور کے اعتبار سے تہی دامن ہے وہ کبھی انتخابی منشور پیش کرتے وقت اپنی کسی بنیاد کی طرف متوجہ نہیں رہ سکتی۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتی ہے، کوئی بھی وعدہ کرسکتی ہے۔
    عمران کے کی جماعت کے نظریاتی منشور کا بنیادی نکتہ "تبدیلی" ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ تبدیلی کس نظام کے تحت؟ عمران کو خود بھی اس بات کا ٹھیک سے ادراک نہیں کہ کون سی تبدیلی وہ لانا چاہتے ہیں؟ عمران کے اب تک کے اعمال سے لگتاہے کہ اُن کا جھکاؤ کنزرویٹوز کی طرف ہے۔ طالبان کے معاملہ سے لے کر قادری صاحب کے ساتھ تعاون تک۔۔۔۔۔۔عمران کے نظریاتی سفر میں ایک قدامت پسند بہرحال موجود رہا ہے۔

    قادری صاحب تو روز ِ اوّل سے عوام کے سامنے آئے بھی ایک مذہبی پیشوأ کی شکل میں تھے۔ اپنی جماعت کا منشور بھی عام مذہبی جماعتوں کے منشور جیسا رکھا، یعنی "خدا کی زمین پر خدا کا نظام" کی قسم کا۔ لیکن یہ بات پوری تسلی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قادری صاحب کو اپنی جماعت کے منشور وغیرہ کے ساتھ کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ممکن ہے انہیں اپنے منشور کی تمام شقیں بھی پوری طرح سے یاد نہ ہوں۔ چنانچہ انقلاب اور تبدیلی میں کچھ فرق تو ضرور ہے۔ عمران خود اقتدار اور مقبولیت کے لیے اتنا دیوانہ نظر نہیں آتاجس قدر قادری صاحب ہمیشہ سے نظر آتے رہے ہیں۔البتہ جہاں تک نظریات کی بات ہے تو ایک لحاظ سے دونوں ، کنزرویٹوز ہی ہیں۔ اور یوں اگر پاکستان ان میں سے کسی کے ہاتھ میں چلا گیا تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ پاکستان میں دراصل کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے۔
    ملک میں سیکولر جماعتیں موجود ہی نہیں رہیں۔ پیپلز پارٹی نے زرداری کے دور میں اپنی نظریاتی رُوح کھو دی ہے۔ رُوح سے مراد سوشل اور سیکولر جذبہ۔ اے این پی کے اصل قائدین بوڑھے ہوئے تو بعد کی قیادت غیر نظریاتی طرز کی رہی اور یہ جماعت بھی میدان میں ویسے نہ رہی جیسے ہوا کرتی تھی۔ اس عرصہ میں سرائیکی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی واقع ہوئی ہے اور کنزرویٹوز کے مخالفین بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں لیکن اُس بڑی تعداد سے ابھی تک کوئی ملک گیر جماعت نہیں بنائی جاسکی۔ غرض ملک میں بھٹو کے بعد سے ابھی تک کنزرویٹوز کا ہی راج رہا ہے۔ کیونکہ مشرف نے جس طرح کی سیکولر ریاست کا خواب دیکھا تھا وہ یقیناً کنزرویٹو پاکستان کے عین مخالف گویا تبدیلی تھی لیکن مشرف کوئی جماعت نہ تھا فلہذا اُسے عوامی تائید حاصل کرنے میں ہمیشہ مشکل رہی اور وہ اپنی پسند کی تبدیلی لانے میں ناکام رہا۔
    معاملہ یہ ہے کہ ضیاالحق نے جو نسل تیار کی تھی وہ اب پوری قوم کے والدین ہیں۔ اور اس لیے اب اجتماع کا تصور ہی تبدیل ہوچکا ہے۔ ضیاالحق کوئی عوامی لیڈر تو تھا نہیں کہ کسی ایک نظریاتی منشور پر قوم کی تربیت کرتا لیکن اُس نے ڈنڈے سے ملک میں ایک ماحول پیدا کردیا اور اس ماحول میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے اب ملک کو سنبھال چکے ہیں۔یہ مخصوص طرز کے لوگ ہیں۔ جن کی انفرادی فکر میں مادیت غالب ہے۔ پہلے عوام کا جوش و جذبہ معنی خیز ہوتاتھا۔ اب بے معنی ہوتاہے۔
    میری دانست میں بطور قوم پاکستان کی بقأ اِسی میں ہے کہ اب بھی نئی نسل کی تربیت کے لیے سنجیدہ ہوجائے۔
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment