عقیدہ وحدت الوجود


    عقیدہ وحدت الوجود۔۔۔۔۔۔۔ زمرہ : تصوف         
    وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماء اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق

     سمجھا جاتا ہے۔
    مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہاجاتاہے۔عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہوجاتے ہیں،اس عقیدے کو وحدت الشھود یا فنا فی
    اللہ کہاجاتاہے،عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہاجاتاہے۔۔۔۔ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہرزمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔۔۔۔۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کواور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا(جزء)قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے[حوالہ نمبر ۱ ملاحضہ ہو]

    مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتاہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ [حوالہ نمبر ۲ ملاحضہ ہو]

    شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:- اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا، اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔[حوالہ نمبر ۳ ملاحضہ ہو]
     

    اہل سنت والجماعت کا نقطۂ نگاہ
    وحدت الوجود اور اللہ تعالی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفرہے،[حوالہ نمبر ۴ ملاحضہ ہو]
    امام ابن تیمیہ کا نظریہ
    امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)

    اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہے
    الرب حق“ و العبد حق“
    یا لیتَ شعری مَن المکلف“
    جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اسی جیسے عقائد کی بنا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ابن عربی کو کافر قرار دیتے ہیں۔

    فنا کے تین درجات
    بعض صوفیا کے ہاں اتحاد یا وحدت الوجود سے مراد اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا ہے۔ امام کے ہاں فنا کے تین درجات ہیں۔
    اول۔ مناہی کو ترک کرکے اوامر کی تعمیل میں ڈوب جانا
    دوم۔ عبادت کرتے کرتے اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا
    سوم۔ اپنے آپ کو عین خداسمجھنا
    امام کے ہاں پہلی صورت محمود ہے اور باقی دونوں مذموم ۔ کیونکہ ان کی تائید نہ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی قول سے ہوتی ہے اور نہ فعل سے۔

    بریلوی نقطۂ نگاہ
    مولوی محمد یار دربار محمدیہ گڑھی شریف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدا قرار دیتے ہوے لکھتے ہیں:-
    گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
    پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں
    بریلوی علامہ سید احمد سعید کاظمی اس شعر کی تشریح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ ((قبلہ حضرت یار صاحب کا یہ شعر اور اس جیسی دوسری عبارات(جو مسلم بین الفریقین علماء کی کتب میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدۃ الوجود پر مبنی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کرکے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا یار صاحب کے شعر کا مضمون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے کلام میں ہے۔: تم محمد عظیم الشان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو محمد گمان کرتے ہو جیسے تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو،وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقتًا آب نہیں ہے،بلکہ سراب ہے،جب تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب آؤگے تو تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ پاؤگے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالی کو پاؤگے،اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالی کو دیکھوگے۔[حوالہ نمبر ۵ ملاحضہ ہو]

    دیوبندی نقطۂ نگاہ
    دیوبندی علامہ انور شاہ کاشمیری اپنی کتاب فیض الباری میں لکھتے ہیں :- (کنت سمعہ الذی) کے یہ معنی بیان کرنا کہ بندہ کہ کان،آنکھ وغیرہ اعضاء حکم الہی کی نافرمانی نہیں کرتے حق الفاظ سے عدول کرنا ہے،اس لیے کہ اللہ تعالی کے قول( کنت سمعہ الذی) میں کنت صیغۂ متکلم اس بات پر دلالت کرتاہے کہ متقرب با النوافل یعنی بندہ میں سوائے جسد وصورت کے کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی،اور اس میں صر اللہ تعالی ہی متصرف ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن کو صوفیائے کرام فنا فی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث مذکور(کنت سمعہ) میں وحدۃ الوجود کی طرف چمکتاہوا اشارہ ہے اور ہمارے شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی کے زمانے تک اس مسئلہ وحدۃ الوجود میں بڑے متشدد اور حریص تھے۔میں اس کا قائل تو ہوں لیکن متشدد نہیں ہوں[حوالہ نمبر۶ ملاحضہ ہو]

    نا قابل فہم فلسفہ
    قدیم وجدید صوفیاء کرام نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑی لمبی بحثیں کی ہیں، آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے تیار نہیں،جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک عام آدمی کے لیے نافہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوے ہے، ناقابل فہم ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے، اگر امر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون؟۔۔۔۔مرنے والا کون اور مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون اور زندہ کرنے والا کون؟ روز جزا حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون؟اور پھر جزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون؟ اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان کی تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ اگر اللہ تعالی کے ہاں یہ عقیدہ قابل ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟ مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟ وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا) یا اللہ تعالی کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا شرک ہے جس پر اللہ تعالی کا شدید غضب بھڑک سکتاہے۔(وجعلوا لہ جزءا) [حوالہ جات نمبر ۷،۸ ملاحضہ ہو]

    ڈاکٹر ابوعدنان سہیل لکھتے ہیں:- عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ،روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔ کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے،وہ اللہ تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان ومذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں،۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئی سے وہی ظاہر ہورہاہے، اس لیے ہر انسان مظہرِ ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔[حوالہ نمبر ۹ ملاحضہ ہو]

    ===========================
    حوالہ جات ملاحضہ ہوں۔
    1.. مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید، حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور، ص: 70-71
    2.. مولانا عبد الرحمن کیلانی، "2۔دین طریقت کے نظریات وعقائد"، شریعت وطریقت، 1، مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور، ص: 63-64
    3.. شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں، مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان، ص: 27
    4.. ناصر بن عبد الکریم العقل، اصول اہلسنت والجماعت، ص: 3
    5.. فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:127
    6.. فیض الباری جلد رابع ص:428
    7.. سورہ زخرف:15
    8..کتاب التوحید از مولانا اقبال کیلانی
    9.. ڈاکٹر ابوعدنان سہیل، اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    2 تبصروں کی تعداد:

    1. واحدت الوجود اور وا حدت الشہود کے بارے میں بہت ساری بحثیں ہو چکی ہیں ،اور اس نیم مذہبی جدلیات کو عمو ما لوگ اسے صحیح سمجھ نہیں پا رہے وہ اس لیے اس کا تصور مختلف لوگوں کے پاس مختلف رہا ہے. جن مآخذ کا حوالہ آپ نے دیا ہے ان سے آپ کے سوال کا جواب مشکل ہے.-------- یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں، اقبال نے،چونکہ رومی کے مرید ہیں،وحدت وجود کو تسلیم کیا ہے---اس ضمن میں اہل علم نے اختلاف بھی کیا ہے -لیکن یہاں دوسری وجہ بیان کی جا رہی ہے نیز دونوں نے نظریہ ہمہ الہیت کی تردیدکی ہے. ہمہ الاہیت اور وحدت وجود میں یہ فرق ہے کہ اول الذکر مسلک کی رو سے خدا، کائنات میں اس طرح حل ہو جا تا ہے جس طرح شکر پانی میں اور اس لیے اپنی مستقل انفرادی ہستی کھو بیٹھتا ہے -ہمہ الہیت کے مسلک سے حلول کا تصور پیدا ہوتا ہے اور حلول کے معنی لغت میں یہ کہتے ہیں--- ---یعنی حلول کے معنی یہ ہونے کہ اللہ فطرت کی قوتوں اور نوامیس کا نام ہے یا ہوں سمجھو کہ وہ ہر شے میں بطور "حال" ہے لیکن اس کا کوئی مستقل بالذات وجود نہیں ہے- اس کے مقابل وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ سا ری کائنات میں صرف ایک ہستی واجب الوجود ہے جو حقیقی معنی میں موجود ہے ،مستقل اور قائم بالذات ہے ،ازلی ابدی ہے اور اپنے وجود اور موجود ہونے میں کسی کی محتاج نہیں ہے، بلکہ ساری کائنات اپنے وجود کے لیے اس کی محتاج ہے- کیونکہ ساری کائنات کا کوئی ذاتی یا مستقل وجود نہیں ہے بلکہ ساری کائنات اس واحد ہستی کی ذات و صفات کا مظہر ہے اور اپنے وجود اور تسلسل وجود کے ہر آن اور ہر لحظہ اس واحد ہستی کی محتاج ہے.
      -------------------------------امید ہے آپکے سوال اسی تحریر میں مل جاے گا. مزید دیکھئے.--وجود کائنات اور انسان، از طارب جمالی اردو سانس میگزین -اکتوبر-دسمبر ٢٠٠٨.----شیخ اکبر اور اقبال ،مقالہ از ڈاکٹر سید عبدالله----------شیخ احمد سرہندی کی بابت ،Shaykha Ahmad Sirhindi's Doctrine of Wahdat al shahud- by Doctor Abdul Haq Ansari --IRI Islamabad.------------------Human Body in the Sufi Metaphysics of Muhyi I-Din Ibn Arabi------------Ibn Arabis Contribution to the Ethics of Divine Names. by Qaiser Shazad ----IRI Islamabad. یوسف سلیم چشتی اسلام کے مایہ ناز سکالر اور حضرت علامہ اقبال کے ساتھی نے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن و حدیث سے متعارض ہے.

      ابن حللاج ،اس ضمن میں کوئی واضح نظریہ نہیں دے سکے جو انہوں نے کہا وہ انکے روحانی واردات کے نتائج تھے.می نے اس کو حضرت رومی کے ضمن میں بھی بیان کیا ہے "جبر و اختیار میں.یہ پوسٹ آپ نے دیکھی ہے شائد غور سے نہیں پڑھی. ابن عربی کی فتوحات مکیہ بڑی مغلق ہے. اس کا شارح عبدل کریم جیلی ہے "انسان کامل" کا مصنف. ابن تیمیہ نے وحدت وجود والوں کی تکفیر کی ہے وہ انکی را ے ہے. بات وہی ہے جو آپکو پہلے ہی بتا دی گئی ہے. یہ مسلہ "علم ا لا نسان" کا ہے Unified science کی طرح کا ،عام بندے کے بس کا روگ نہیں. لیکن میں منع نہیں کرتا کسی کو. آپ نے Sufism (Taswwuf) میں مزید دیکھا ہے کیا؟.

      Usman Haider and his cousin have given their remarks as: اگر نہ ہو الجھن تجھے تو کھول کر کہ دوں--- وجود حضرت انسان نہ روح ہے نہ بدن (اقبال)--زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب -موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا ---انسان کیا ہے امر ربی سے ہے اور یہ ایک کوندہ ہے امر. سانس نے اب کھول کر بھی بتا دیا ہے کہ مادہ اصل میں توانائی یعنی نور ہی ہے صرف دوئی نظر آتی ہے ، تو اختلا ف کس بات کا ہے.(از احقر اور کزن ).

      ReplyDelete
    2. ہمہ الہیت pantheism

      وحدت وجود Unity of Being
      کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ہیں

      ReplyDelete