مصر میں جمہوریت کا قتل

    30جون ۲۰۱۳ء کو مصر میں جمہوریت کا قتل عرب بہار (Arab Spring) پر خزاں کا ایک ایسا حملہ ہے جس نے ہر باشعور شخص کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ وزیردفاع نے فوج کے ذریعے جمہوری انتخابات میں اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر اور اس کی کابینہ کا برطرف کردیا ہے۔ عوامی راے سے براہِ راست منتخب کیے ہوئے صدر کو نظربند کردیا ہے۔ فوجی مداخلت کے خلاف جمہوری مزاحمتی جدوجہد کو قوت، دھونس اور دباؤ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور
    فوجی حکم نامے کے ذریعے ایک عبوری حکومت بناکر عارضی دستور کے نام پر ایک من مانا نظام مسلط کیا جارہا ہے۔ اسے فوجی قبضے (coup deta)کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
    جمہوریت کے اس قتل عام پر یورپ اور امریکا کا ردعمل شرم ناک ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مغرب کا اپنا مفاد اگر فوجی آمروں اور بادشاہتوں سے وابستہ ہو تو اسے کبھی جمہوریت کی یاد نہیں آتی، اور اگر ایک عوامی جمہوری انتخاب کے بعد قائم ہونے والی ایسی جمہوریت ہو جس میں مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے اپنا صدر منتخب کیا ہو تو وہ ایسی جمہوریت کے مقابلے میں دوبارہ فوجی آمریت کے قیام میں سرگرم نظر آتا ہے۔
    مغربی طاقتوں کی یہ دوعملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں مسلم دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ مغرب کی دوعملی کی زندہ مثال ہے۔ لیکن اس اندوہناک واقعے نے بہت سے اہم اور بنیادی سوالات کو ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے اور اُمت مسلمہ کے ہرباشعور شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یورپ اور امریکا، ایشیا اور افریقہ آخر کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ کیا ایک جمہوری صدر اور حکومت کو فوج کے ذریعے زیرحراست لاکر فوج کی طرف سے ایک عارضی صدر کا مقرر کیا جانا جمہوریت ہے؟ کیا تحریر چوک میں چند لاکھ افراد کے مظاہرہ کرنے اور مصر کی عوامی اکثریت کے منتخب کردہ صدر کے خلاف نعرے لگانے سے فوج کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت کو برطرف کردے؟
    کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدرمرسی نے حلف اُٹھایا اور ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو ایک سال گزرنے پر فوج نے انقلاب برپا کرکے انھیں نظربند کردیا؟ یا یہ سب ایک سال سے پلنے والی ایک سازش ہے جس میں فوج، عدلیہ اور مصر کے سیکولر افراد کے ساتھ مغربی طاقتیں اور ان کے زیراثر بعض مسلم ممالک جو مصر میں اسلامی احیا اور بالخصوص اخوان المسلمون کے برسرِاقتدار آجانے کو کسی صورت ہضم کرنے کو تیار نہ تھے، شریک تھے۔ ان ممالک نے بھی اس غیرجمہوری فوجی مداخلت کو پسند کیا اور جمہوریت کے قتل پر اطمینان کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔
    نیویارک ٹائمز کے گلوبل اڈیشن میں قاہرہ سے اس کے نمایندوں Ben Hubbard اور David D. Kirkspatrick اپنے مقالے میں ہمارے اس بیان کی تصدیق جن الفاظ میں کی ہے، وہ ہر صاحبِ عقل کے لیے سوچنے کا مواد فراہم کرتے ہیں:
    ریاست کے مختلف اداروں پٹرول کے ذخیروں سے لے کر اسے ملک بھر میں گیس اسٹیشن تک پہنچانے والوں ٹرکوں، سب نے اس بحران کو پیدا کرنے میں حصہ لیا۔
    وہ مزید کہتا ہے: پس منظر میں کام کرنے والے حسنی مبارک کے قریبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی اور ملک کے چوٹی کے جرنیلوں نے ان لوگوں کو مالیات فراہم کرنے، مشورہ دینے اور منظم کرنے میں مدد دی جو اسلامی قیادت کو اُکھاڑ پھینکنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے۔ ان میں نجیب سویریس بھی شامل تھا جو ایک ارب پتی ہے اور اخوان کا معروف کھلادشمن ہے، اور سپریم دستوری عدالت کے جج تہامی الجبالی بھی جو حکمران جرنیلوں کے بہت قریب ہیں۔
    وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ فوجی کو (Coup) کے بعد یکایک سڑکوں پر پولیس اور پٹرول پمپوں پر پٹرول کی فراوانی ہوگئی اور اچانک پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی۔ گویا فوج، عدلیہ اور سول انتظامیہ اور مال دار طبقہ سب نے مل کر صورت حال خراب کی تاکہ اسلامی قوتوں کو ناکام کرسکیں۔
    اس افسوس ناک واقعے پر غور کرتے وقت ہمیں چند پہلوؤں پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس پورے عمل میں ابلاغِ عامہ کے کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    ابلاغ عامہ کا کردار
    مصر میں اخوان المسلمون اور دیگر اسلام پسند جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی مصر کے سیکولر عناصر خصوصاً میڈیا کے لیے سخت غم و غصے کا سبب بنی۔ چنانچہ روزِ اوّل سے برقی ابلاغِ عامہ خصوصاً نجی چینلوں نے اخوان دشمن مہم کا آغاز کردیا اور عیسائی اقلیت کے حوالے سے بار بار یہ بات اُٹھائی کہ اخوان شریعت نافذ کریں گے اور عیسائیوں کو ’ذمی‘ کا درجہ دیتے ہوئے دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ اس بات کو بھی اُچھالا گیا کہ اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان غیرمسلموں کو پہنچے گا وغیرہ۔ پھر ابلاغِ عام نے مصر کی معاشی صورت حال کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کیا کہ روٹی اور پانی کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے، جب کہ یہی صورت حال حسنی مبارک کے دور میں تھی اور میڈیا اس پر خاموش تھا۔ دستور میں بعض دفعات کے اضافے اور شریعت کی بالادستی پر بھی میڈیا نے احتجاج اور مخالفت کی مہم چلائی۔ یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ اسلامی حکومت میں مصر کی سیاحت کی صنعت ختم ہوجائے گی جو قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔
    ۳۰سالہ دورِ آمریت میں حسنی مبارک نے مصر کو جس معاشی بدحالی میں مبتلا کر دیا تھا اور جو حسنی مبارک کے خلاف عوامی مہم اور انقلاب کا ایک سبب تھا اسے ابلاغِ عامہ نے نظرانداز کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ گویا معاشی زوال سب کا سب مرسی کے آنے کا نتیجہ ہے۔
    ابلاغ عامہ کی اس سازش میں مصر کا مال دار ترین شخص نجیب سویریس جو ٹی وی چینل اور اخبار کا مالک ہے اور حسنی مبارک کا قبطی دستِ راست رہا ہے، پیش پیش تھا، (اس کا اپنا بیان نیویارک ٹائمز نے ان الفاظ میں دیا ہے: Tammarrud did not even know it was me, I am not ashamed of it. ’تمرد‘ کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ مَیں تھا۔ مجھے اس پر کوئی شرم نہیں ہے)۔ اس نے سب سے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل کے ذریعے اس مہم کو چلایا۔
    یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مصر مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بیرونی امداد وصول کرنے والا ملک رہا ہے۔ ۳۰سال سے گرتی ہوئی معاشی حالت کو ایک سال سے کم عرصے میں عروج و ترقی کی طرف لے جانا ایک اچھی تمنّا تو ہوسکتی ہے لیکن عملاً ایک ناممکن ہدف ہی کہا جاسکتا ہے۔ جس میڈیا نے حسنی مبارک کو ۳۰سال کی مہلت دی کہ وہ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات چاہتا ہو کرے، اسی میڈیا نے صدر مرسی کے سلسلے میں ۳۶۵ دن کی مہلت کو بھی ضرورت سے زیادہ مدت قرار دیا اور بار بار اس بات کو دہرایا کہ حکومت معاشی اصلاح میں ناکام ہوگئی ہے۔ کیا اسی کا نام عدل ہے؟ کیا یہی غیر جانب دارانہ صحافت ہے؟ کیا دنیا میں کسی عوامی منتخب حکومت کو چار پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جائے، اور پھر ایک سال کے بعد یہ کہہ کر کہ وہ ناکام ہوگئی ہے دوبارہ فوج کو مسلط کردینا مسائل کا حل ہوسکتا ہے؟ یا یہ صرف فوج اور عدلیہ کی طرف سے ایک ردعمل ہے تاکہ وہ جس طرح ۳۰سال سے عوام پر حکومت کر رہی تھی اور فوائد حاصل کر رہی تھی، دوبارہ پرانے نظام کو لاکر اصلاح اور تبدیلی کی کوششوں کو قوت کے ذریعے کچل سکے۔
    واضح رہے کہ مصر کی معاشی صورت حال کو بگاڑنے اور تیل اور گیس کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں مفادپرست عناصر کا ہاتھ تھا اور اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ فوجی مداخلت کے دوسرے ہی دن چشم زدن میں تیل،گیس اور بجلی بحال ہوگئی، اور یہ بھی لطف کی بات ہے کہ صدرمرسی کی وزارت میں جو غیراخوانی وزیر، وزیرداخلہ اور وزارتِ پٹرولیم کے وزیر تھے، فوج کی بنائی ہوئی نئی وزارت میں وہی ان وزارتوں پر براجمان ہیں۔

    پولیس اور فوج کا کردار
    ۳۰سالہ دورِ استبداد میں پولیس اور فوج نے جن مراعات کو حاصل کرلیا تھا اور جن اختیارات پر ان کو تسلط حاصل ہوگیا تھا وہ اب اس تبدیلی سے سخت برہم تھے۔ چنانچہ وزارتِ داخلہ میں وہ عناصر جو سابقہ دور میں بااختیار تھے پسپا نہیں ہوئے۔ نیویارک ٹائمز کے نمایندے David Kirkspatrick نے اپنے یکم جولائی ۲۰۱۳ء کے مراسلے میں جن دو اُمور کا تذکرہ کیا وہ حالات کی سنگینی اور ان میں پولیس اورفوج کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ کہتا ہے: mismanagement or sabotage of the institutions of the old government has stunned the transition to democracy، یعنی سابقہ حکومت کے اداروں کی بدانتظامی اور سبوتاژ نے جمہوریت کی طرف تبدیلی کے عمل کو بالکل روک کر رکھ دیا۔ وہ آگے چل کر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے الفاظ کو بیان کرتا ہے:
    وہ لوگ جو جیلوں میں تھے آج صدر ہیں۔ اگر اتوار کو اخوان کے دفتر کی حفاظت کے لیے کوئی ایک افسر بھی گیا تو میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اسے گولی ماردی جائے گی۔ جنرل صلاح زیدان نے یقین دلایا: ہم سب نے متفقہ طور پر طے کیا ہے کہ اخوان المسلمون کے ہیڈکوارٹر کو کوئی سیکورٹی نہیں فراہم کی جائے گی۔
    پولیس کے ذمہ داران اور فوجی جنرل کا یہ باغیانہ بیان اخوان کے مخالف سیکولر عناصر نے موبائل فون پر ایک دوسرے کو پہنچا کر مزید ہمت بڑھائی کہ اخوان کے خلاف وہ جو کارروائی کرنا چاہیں کریں۔ فوج اور پولیس کے کردار کونرم ترین الفاظ میں ایک جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

    کامیابی کا پیمانہ
    ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں کس جمہوریت میں ۳۶۵ دن کسی نومنتخب حکومت کی کامیابی یا ناکامی کے لیے پیمانہ قرار دیے جاسکتے ہیں؟ نہ صرف یہ بلکہ کہاں پر ایک نومنتخب صدر اور اس کی کابینہ کو حزبِ اختلاف کے مظاہرے اور صدر کی کسی پالیسی سے اختلاف کی بنا پر فوج کو یہ حق حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ ایک منتخب صدر کو محبوس کرے اور نہ صرف اس کی کابینہ کو برطرف کردے بلکہ فوج کی طرف سے مقرر کیا ہوا ’عارضی‘ صدر ملک کے منتخب کردہ ایوانِ بالا کو بھی برطرف کردے؟ ظاہر ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد اخوان المسلمون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایوانِ بالا میں اسے واضح اکثریت حاصل ہے۔ اخوان اور اسلامی قوتوں نے ایک نہیں پانچ بار عوامی راے سے انتخاب اور استصواب جیتے ہیں اور انھیں عوامی ووٹ کی قوت سے ہٹانا ناممکن تھا۔ اس لیے پہلے مبارک دور کی مقرر کردہ عدالت کے ذریعے منتخب ایوان کو برطرف کرنے کا اقدام کیا گیا اور پھر فوج نے بلاواسطہ مداخلت کر کے جمہوری بساط کو لپیٹ دیا۔

    جمہوریت کا کردار
    موجودہ حالات کے تناظر میں سب سے اہم اور کلیدی سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ کوئی فوجی سربراہ یا وزیرداخلہ یا وزیردفاع کسی جمہوری حکومت کو اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق نہ پاتے ہوئے برطرف نہیں کرے گا؟ اگر ایک مرتبہ فوج کے اس استحقاق کو مان لیا گیا تو وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا پیدایشی حق سمجھے گی اور جب چاہے گی کسی بھی منتخب حکومت کو قوت کے ذریعے برطرف کر کے خود اقتدار پر قابض ہوجائے گی۔ اس سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا فوج قانون سے بالاتر ایک ادارہ ہے؟ یا ملک کا دستور اور قانون دونوں فوج سے بلند شمار کیے جانے چاہیں اور فوج کو بھی دستور کی پابندی کرنی چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہرفوجی جب عہدے کا حلف اُٹھاتا ہے تو دستور کی پابندی کا عہد کرتا ہے۔ فوج دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے دستور کے تحت قانونی عمل کے ذریعے دستور کا پابند کرنا ہوگا۔ اگر صرف ایک فوجی سربراہ پر دستور کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر عوامی عدالت میں بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے تو صرف ایک مرتبہ اس عمل کے بعد کسی فوجی کو دستور کو توڑنے اور خود آگے بڑھ کر حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش اور خیال بھی نہیں آئے گا۔
    مصر میں ۳۰سالہ فوجی آمریت نے جو کلچر پیدا کیا اس میں نہ صرف فوج اور انتظامیہ نوکرشاہی ذہنیت اور بادشاہ نوازی کے طرزِعمل کی عادی بنی بلکہ فوج کے زیراثر عدلیہ میں بھی ایسے افراد کو مقرر کیا گیا جو ہاں میں ہاں ملانے کے لیے قانونی نکات تلاش کرنے میں ماہر ہوں۔ اس سہ طرفہ اخلاق باختہ نظام کے خلاف بغاوت اور تبدیلی کا عمل کسی بھی پیمانے سے ایک سال میں مکمل ہونا ناممکن تھا۔ ہاں، جس بات کی ضرورت تھی وہ یہ کہ درجہ بدرجہ تبدیلی کے عمل کو اختیار کیا جائے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدر مرسی نے جو اندازے قائم کیے وہ اپنی مثبت فکر اور حسنِ ظن کی بنا پر تھے، جب کہ ایک سازشی اور نوکرشاہی ذہنیت رکھنے والی انتظامیہ اور اقتدار کا مزہ لوٹنے والی فوج اور ان دونوں کے پشت پناہ اسلام دشمن غیرمسلم اور مسلم حکمران، ان سب نے مل کر وہ طریقہ اختیار کیا جسے قرآن کریم نے شیطان کے مکر سے تعبیر کیا ہے۔ شیطان کا مکر بظاہر بہت متاثرکن، غلبہ رکھنے والا اور قوت سے بھرپور نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر آخرکار کامیاب ہوتی ہے۔ اس بظاہر اَبرآلود فضا میں بھی ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بجلی کا کڑکا آئے گا اور تاریکی روشنی میں تبدیل ہوگی کیونکہ آخر حق ہی کو غالب ہونا ہے۔
    معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت سے صدر مرسی نے حلف اُٹھایا اسی وقت سے مخالف قوتوں نے اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے بعد اس پر عمل کا آغاز کردیا ۔دوسری جانب اخوان نے یہ قیاس کیا کہ فوج اور عدلیہ جمہوری طور پر منتخب افراد اور اداروں کا احترام کرتے ہوئے کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جو جمہوری روایات کے منافی ہو۔ چنانچہ ۳۰جون ۲۰۱۲ء کو صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد صدرمرسی نے ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے زمانے کے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو برطرف کردیا۔ صدرمرسی کا یہ اقدام ایسا ہی تھا جسے ایک بپھرے ہوئے سانپ کو زخمی کردیا جائے۔ تین ماہ بعد ۳۰نومبر کو صدر مرسی نے دستور میں اسلامی دفعات کے اضافے کے بعد اسے ایوانِ بالا میں پیش کیا جس نے اسے منظور کرلیا۔ صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے صدر مرسی نے ۲۲نومبرکو خصوصی اختیارات کا اعلان کیا تھا جسے حزبِ اختلاف نے ایک قومی مسئلہ بناکر ان کے خلاف مہم شروع کی تو صدرمرسی نے ۸دسمبر کو صدر کے وہ اختیارات ختم کردیے۔
    ۱۵تا ۲۰ دسمبر کو ملک گیر ریفرنڈم میں ۶۴ فی صد افراد نے دستوری ترامیم خصوصاً اسلامی دفعات کی دو راؤنڈ کے بعد توثیق کردی۔ اس کے باوجود افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اور ۵؍اپریل ۲۰۱۳ء کو قاہرہ کے شمال میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی۔ ۷مئی کو صدر نے اپنی کابینہ میں ردوبدل کیے لیکن عدالت عالیہ نے جون کی ۲تاریخ کو اسلامی اکثریت رکھنے والے سینیٹ کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ عموماً جب تک پارلیمنٹ کے انتخابات نہ ہوں، سینیٹ فعال رہتا ہے۔ یہ گویا عدالت عالیہ کی طرف سے صدر اور اخوان کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳جون کو وزیردفاع جنرل عبدالفتاح السّیسی نے بیان دیا کہ اگر ملک میں ہنگامے ہوئے تو فوج کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ ۲۸جون کو امریکی سفارت خانے نے اپنے غیرضروری عملے کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی اور ۲۹جون کو صدر اوباما نے صدر مرسی کو مشورہ دیا کہ وہ تعمیری رویہ اختیار کریں۔ گویا جو لوگ جمہوری طور پر منتخب صدر اور حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے اور کھلی بغاوت (rebellion) یا تمرد میں مشغول تھے، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمرد کرنے والوں پر ایک خالی فائر بھی نہ کیا گیا، جب کہ جہاں کہیں اخوان یا ان کے ہمدردوں نے پُرامن مظاہرہ کرنا چاہا ان کی روک ٹوک کے ساتھ ان پر گولیاں برسائی گئیں اور ۳۰جون کو سرکاری طور پر ۳۰۰، جب کہ غیرسرکاری طور پر کئی ہزار اخوان کو قید میں ڈال دیا گیا۔
    حالات کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ صدر مرسی کے حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی ایک گھناؤنی سازش تیار کرلی گئی تھی جس پر قدم بہ قدم عمل کیا گیا اور آخرکار برہنہ قوت کا استعمال کرتے ہوئے فوج نے مداخلت کر کے جمہوری عمل کو منجمد کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
    اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مرسی کے چند اقدامات بظاہر جلدی میں کیے گئے فیصلے نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھیں کسی نہ کسی مقام سے تبدیلی کے عمل کا آغاز کرنا تھا۔ حسنی مبارک کی میراث ۲ء۱۳ فی صد بے روزگاری جس میں ۱۵ تا ۲۹سال کے افراد کا تناسب ۷۷فی صد تھا، کسی طلسماتی عمل سے ہی ایک سال میں اس مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا تھا۔ امریکا اپنی ۱۲فی صد بے روزگاری کو صدر اوباماکے دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے باوجود حل نہ کرسکا تو صدرمرسی ایک سال میں اسے کیسے حل کرسکتے تھے۔ لیکن جھوٹ، افواہوں اور ابلاغِ عامہ و اخبارات میں باربار یہ بات دہرائی گئی کہ حکومت اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمون حکومت کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے اور نہ حکومت کرنا جانتے ہیں، یا یہ کہ صدر مرسی اور حسنی مبارک میں کوئی فرق نہیں ہے وغیرہ۔ ۳۰جون کو تحریر چوک میں چند ہزار افراد کے دھرنے اور مظاہروں کو حسین کمال نے، جو حسنی مبارک کے خفیہ ادارے کے سربراہ کے دستِ راست تھے اور گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل بیانات داغ رہے ہیں، اس مظاہرے کے بارے میں فرمایا کہ ہم اسے عوام کا ریفرنڈم سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے، تحریر چوک میں جو افراد جمع ہوئے، خواہ ان کی تعداد کتنی ہی ہو، وہ پورے ملک کے نمایندہ کیسے ہوگئے؟ پھر جو لوگ وہاں جمع ہوئے، وہ کھلے طور پر ان پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے جو صدر کی مخالف ہیں۔ اس لیے ان کا نعرہ لگانا ایک بے معنی بات ہے۔ نیز ان کو فوج کی کھلی سرپرستی حاصل تھی جس نے کئی بار fly past کر کے، اور جھنڈے جہازوں سے چھوڑ کر ان کے ساتھ اپنی شرکت کا اظہار کیا جسے ٹی وی پر دکھایا گیا اور خود فوجی ہیلی کوپٹرز نے فلم بناکر میڈیا کو دی۔
    اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو ایک جانب نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ وہ افراد بھی جن کے بال سفید ہونے لگے ہوں، یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر جمہوریت میں رکھا ہی کیا ہے کہ ہم صبح و شام اس کی تسبیح پڑھتے رہیں، جب کہ مغرب ہو یا مشرق، فوجی اور غیرفوجی آمر انھیں جب بھی موقع مل جائے وہ جمہوریت کے عمل کو قوت کے استعمال کے ذریعے برسوں پیچھے پھینک دیتے ہیں۔ کیوں نہ خونیں انقلاب کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر کے اسلامی نظام کو نافذ کردیا جائے۔
    اسلام کی کامیابی کا عمل ایک صبرآزما عمل ہے۔اس کی منزل محض پارلیمنٹ اور ایوانِ اقتدار نہیں ہے بلکہ وہ ابدی کامیابی ہے جس کے مقابلے میں محض دنیاوی کامیابی اور پارلیمنٹ میں ۹۰ فی صد نشستیں حاصل کرلینا یا صدارت اور وزارت کے عہدے پر بیٹھ جانا ایک قابلِ تعریف کام نہیں ہے۔ اصل کامیابی وہی ہے، اصل منزل وہی ہے ۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور خصوصی کرم ہے کہ وہ اس جدوجہد میں اپنے بندوں کو اس زمین میں خلافت کا منصب بخش دے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی عنایت ہے اگر وہ اسے مؤخر کرتا ہے تو بھی اس کی حکمت سے وہی آگاہ ہے۔
    اصل بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ جمہوری عمل کا اسلامی جواز کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں اسلام بھلائی، اچھائی اور نیکی کی طرف دعوت کا نام ہے۔ یہ تمام نظاموں کو ایک طرف رکھ کر، اللہ تعالیٰ کے دین کو انسانی معاشرے میں نافذ کرنے کا نام ہے۔ اس میں حکومت، اور حکومتی ادارے ایک اہم مقام رکھتے ہیں جن کا صحیح استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ ان اداروں کی اصلاح بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی افرادِکار کی۔ جمہوری عمل سے مغربی لادینی جمہوریت مراد لینا سادہ لوحی ہے۔ اسلامی تحریک نے کسی بھی مرحلے میں مغربی لادینی جمہوریت کو نہ تسلیم کیا اور نہ اس کی حمایت کی۔ اس کی جگہ تحریکاتِ اسلامی نے مروجہ جمہوری نظام کو پہلے مرحلے میں دستوری تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کی راہ میں ایک زینے کی حیثیت دی اور اسے بااِکراہ اس حد تک بطورِ حکمت عملی کے اختیار کیا جس سے اس کا اصل ہدف، یعنی نظامِ اسلامی کا قیام عمل میں آسکے۔
    حالتِ جنگ میں اگر حکمت عملی کا مطالبہ ہو کہ وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر دشمن کو اپنی زمین پر قبضہ کرنے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اسلامیان پشت پھیر کر اپنی دعوت سے پھر گئے۔ تحریکاتِ اسلامی نے تبدیلیِ قیادت کے لیے حکمت عملی کے طور پر بعض ممالک میں دستور میں تبدیلی کے ذریعے، مثلاً پاکستان میں اور ابھی حال میں مصر، اور بعض مقامات پر بغیر دستور میں تبدیلی لائے، پہلے مرحلے میں ایوانِ حکومت میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کی اور پھر ان اداروں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جو لادینیت پر مبنی تھے، مثلاً ترکی میں دستوری ترمیمات کے ذریعے فوج کے عمل دخل کو ختم کرنا، گو آج بھی ترکی اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتا ہے۔ اس طویل حکمت عملی میں جب تک ہدف اور منزل واضح ہو اور اس کے لیے اخلاقی ذرائع استعمال کیے جارہے ہوں، کم تر بُرائی کا گوارا کرنا تاکہ مناسب وقت پر بُرائی کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے، دین کی حکمت کا لازمی حصہ ہے۔
    فقہ اسلامی میں سیاسۃ شرعیہ، مصالحِ عامہ اور قواعد فقہ کی روشنی میں غور کیا جائے تو بغیر کسی مداہنت اور مفاہمت کے دین نے شریعت کے نفاذ کے لیے عملی راستے تجویز کیے ہیں۔ حصولِ مقصد کے لیے اصل طریقہ اور مثال انبیاے کرام ؑ کا دعوتی اسلوب ہے، دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے، حق کی دعوت کو بہترین طریقے سے پہچانا ہے ، دین میں کسی مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ اگر دینی مصالحت کا تقاضا ہو کہ قوت کے استعمال کو مؤخر کیا جائے تو یہ نہ بے ہمتی ہے نہ بزدلی بلکہ یہ عین دین کا تقاضا ہے۔

    جمہوری جدوجہد کا مقصد
    جمہوری جدوجہد سے دراصل جو چیز مراد لی جاتی ہے وہ اس دور کی زبان کو استعمال کرتے ہوئے ’عوامی رابطہ براے دعوت و اصلاح‘ہے۔ یہی وہ جادۂ حق ہے جسے انبیاے کرام نے اپنے اپنے دور میں اختیار فرمایا۔
    جمہوری عمل سے تبدیلی لازماً صبرآزما عمل ہے اور اسی بنا پر ہرلمحے انسان سوچتا ہے کہ برسہا برس سے جدوجہد کر رہے ہیں، آخر تبدیلی کب آئے گی؟ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قابلِ قدر کام وہ سعی اور کوشش ہے جو صرف اسی کے لیے کی جارہی ہو۔ نتائج اگر مطلوبہ اندازے کے مطابق ہوں تو یہ صرف اس کی عنایت ہے۔ ہمارے زورِبازو کی بنا پر نہیں ہیں اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے چاہے وہ تاخیر برسوں کی ہی کیوں نہ ہو، تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ صرف وہ ہے جو کسی عمل کی بھلائی اور بُرائی سے آگاہ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ ایک کام کی تاخیر سے وہ اپنے بندے کے لیے کس طرح کی خیر اسے دینا چاہتا ہے۔
    اس زاویے سے اگر مصر کا جائزہ لیا جائے تو حالیہ آزمایش جہاں ہر صاحبِ شعور کے لیے تکلیف و اذیت کا باعث ہے اور واضح طور پر مغربی دوعملی جمہوریت کی ڈفلی بجانے کے ساتھ فوجی آمریت کی حمایت اور اسلام دشمنی کی کھلی دلیل ہے، وہاں وہ لوگ بھی جنھوں نے انتخابات میں صدر مرسی کو ووٹ نہیں دیا، فوج کے اس شب خون کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ صدر مرسی نے بعض فیصلے غلط کیے ہوں لیکن کیا کوئی غلط فیصلہ کرنا ایسا جرم ہے کہ اسے ایک جمہوری حق سے محروم کردیا جائے؟
    اخوان کے مرشدعام (سربراہ) نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم قوت کا استعمال نہیں کریں گے، جب کہ ایک دن میں قاہرہ یونی ورسٹی میں اخوان کی حمایت کرنے والے ۱۷نوجوان شہید کردیے گئے۔ ایک دن میں پُرامن مظاہرہ کرنے والے عوام پر فوجی یلغار رہی، ۵۳ افراد شہید ہوگئے۔ اخوان کے مرکز اور ملک بھر میں اس کے متعدد دفاتر کو نذرِآتش کردیا گیا ہے اور اخوان کی تحریکِ مزاحمت میں ۱۰۰ سے زیادہ افراد بشمول چار خواتین شہید ہوچکے ہیں۔ اس سب کے باوجود اخوان کی پوری تحریک دستوری (legitimacy) اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے اور پُرامن ہے۔ فوج اور پولیس کا نشانہ اخوان کی تحریک ہے، جب کہ تحریر چوک پر مظاہرہ کرنے والے صدر مرسی کے مخالفین پر نہ پولیس نے، نہ فوج نے ایک ہوائی فائر تک نہیں کیا ہے، بلکہ تازہ اطلاعات کی روشنی میں فوج اور پولیس کے علاوہ بھی غنڈوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اخوان کی مزاحمتی تحریک پر حملہ آور ہورہی ہے۔
    اگر مصری عوام آنکھیں رکھتے ہیں تو وہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ فوج اور انتظامیہ خصوصاً وزارتِ داخلہ کس طرح دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ اخوان کے مظاہروں پر آنسوگیس اور گولی، جب کہ اخوان کے خلاف مظاہروں پر رحمت و تحفظ۔ وزارتِ داخلہ، پٹرولم کی وزارت اور فوج کی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کا کردار جمہوریت کش اور اخوان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو ناکام بنانا تھا۔ بدقسمتی سے خود صدرمرسی کی وزارت میں ایسے لوگ موجود تھے جو حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت کو ناکام کرنے میں مصروف تھے۔ صدرمرسی کی accomodate کرنے کی پالیسی اس خطرناک انتہا تک گئی کہ دشمنوں کو بھی وزارت میں جگہ دی لیکن اس پر بھی ان پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کو ساتھ نہیں لیا۔
    اخوان المسلمون جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پُرامن ہیں لیکن سی این این ، سکائی نیوز اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ انھیں جنگجو ( millitant) کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، جب کہ جمہوریت کے باغی سیکولر اور غیرمحب وطن افراد کو عوامی مہم کہا جارہا ہے۔ یہ ابلاغی تعصب کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے، لیکن مغربی اور مصری ابلاغِ عامہ کا بار بار ایک بات کو دہراتے رہنا اخوان المسلمون کے بارے میں صرف ایک ہی تاثر کو گہرا کرتا ہے کہ وہ حکومت چلانے کے قابل افراد نہیں ہیں، جذباتی اور شدت پسند ہیں، جب کہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اخوان تشدد کا نشانہ ہیں اور ملک میں جمہوری طریقے سے اصلاح کے عمل سے قوت کے ذریعے روک دیے گئے ہیں۔
    حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں اس بات کا امکان ہے کہ ملک گیر بدامنی پیدا ہونے دی جائے تاکہ دوبارہ اخوان پر پابندی لگائی جاسکے اور وسیع پیمانے پر انھیں زیرحراست لاکر حزبِ اختلاف کو بے بس کیا جاسکے۔ مسلم ممالک میں کویت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں فوجی انقلاب لانے والے ٹولے کو فوری طور پر مجموعی امداد کی ۱۲ملین ڈالر رقم کا اعلان کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض مسلم ممالک اسلامی قوتوں سے کتنے خائف ہیں۔
    تحریکاتِ اسلامی کے لیے اس میں اہم سبق یہ ہے کہ ۶۰ فی صد کامیابی کے باوجود تبدیلی کے عمل کو صبروحکمت کے ساتھ کرنا ہوگا تاکہ تبدیلی پایدار ہو۔ ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور بعض ایسے پہلوؤں کو جو عوامی نفسیات کی روشنی میں بڑے اہم اور بنیادی نظر آتے ہوں اپنی مہم میں اہم مقام دینا ہوگا، تاکہ کلمہ طیبہ کا یہ پودا مضبوط تنے اور شاخوں کے ساتھ ایک مرتبہ مستحکم ہوجائے اور اس کا سایہ ہر مظلوم و محکوم کو اپنی آغوش میں لے کر یہ بات باور کرادے کہ صبرواستقامت کے بعد جب اسلامی نظامِ عدل قائم ہوتا ہے تو وہ ہر انسان کے لیے برکت کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں عدل ہے انسانوں کی جان، مال، عزت کا تحفظ ہے اور رنگ، نسل اور زبان کی قید سے آزاد معاشرے کی تعمیر ہے۔


    مقالہ حصوصی: ڈاکٹر انیس احمد
    ماخذ: ترجمان القرآن
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ