رشوت ایک سنگین جرم ہے

    اسلام نے ہر اس ذریعہ اکتساب کو منع اور حرام قرار دیا ہے جس میں کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کمایاجائے۔انہیں حرام ذرائع میں سے ایک نہایت قبیح ذریعہ اکتساب رشوت ہے، جو شریعت کی نظر میں انتہائی جرم ہے اور یہ جرم آج ہمارے معاشرے میں ناسور کی مانند پھیل چکا ہے، جس کا سد باب مسلمان معاشرے کے لئے ضروری ہے۔درحقیقت ”جرم“ یا ”جریمہ“ عربی زبان میں ارتکاب گناہ کو کہا جاتا ہے۔بقول شاعر:

    ”تعدعلی الذنب ان ظفرت بہ وان لاتجد ذنباًعلی تجرم۔“(۱)
    ترجمہ:۔”جب تمہیں موقع میسر آجاتا ہے تو گن گن کر مجھے قصور وار ثابت کرتے ہواور جب کامیابی نہیں ہوتی تو مجھ پر تہمت لگاتے ہو“
    ”جریمة“واحد ہے اور ”جرائم “اس کی جمع ہے اور جرم کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ:شرعی لحاظ سے کوئی منع شدہ کام کا ارتکاب کرناجس سے الله تعالی نے حد یا تعذیر کے ذریعہ منع کردیا ہو۔(۲)
    رشوت کی لغوی تعریف
    لفظ ”رشوة“ مأخوذ ہے ”رشاء“ سے، اور اس کا اطلاق عام طورپر اس رسی پر کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ کنویں کا پانی نکالا جاتا ہے۔(۳)
    لیث کہتے ہیں کہ ”رشو“ یعنی رشوت کا فعل اور ”مرشاة“یعنی ایک دوسرے کی مدد کرنا اور فیصلہ میں انصاف سے ہٹ کر مدد کرنا۔
    رشوت کی اصطلاحی تعریف:
    بعض اہل علم نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
    ۱-ہر وہ مال جو بشرط اعانت خرچ کیا جائے۔
    ۲-”رشوت“ وہ مال یا چیزہے جو لینے والے کی طلب پر اس کے حوالے کی جائے۔
    ۳-رشوت وہ ہے جو حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لیئے دی جائے۔
    ۴-بطرس بستانی کے نزدیک:
    ”الرشوة ما یعطی لا بطال حق أو لاحقاق باطل“۔(۴)
    قرآن حکیم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانے کو منع فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
    ”یاأیھاالذین آمنوالاتأکلواأموالکم بینکم بالباطل۔“(۵)
    ترجمہ:۔اے ایمان والوںآ پس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نا کھاوٴ۔“
    امام بخاری  نے حضرت معقل بن یسار  سے نقل کیا ہے کہ آپ ا نے فرمایا:
    ”مامن وال یلی رعیة من المسلمین فیموت وہوغاش لہم الاحرم الله علیہ الجنة“(۶)
    ترجمہ:۔”ہر وہ والی جو مسلمان رعایا کی نگرانی کرتا ہو، اگر اسکی موت اس حال میں آجائے کہ وہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ فریب کرتا ہو تو الله تعالی اس پر جنت کو حرام فرمادیتا ہے۔“
    ابن جریر نے حضرت جابر  سے نقل فرمایا ہے کہ حضوراکرم ا نے فرمایا :امراء کو ہدیہ دینا خیانت ہے۔(۷)
    کئی احادیث میں آپ انے صراحتاً رشوت لینے دینے کو منع فرمایاہے۔بزار نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا کہ آپ ا نے فرمایا:”الراشی والمرتشی فی النار“․․․رشوت دینے اور لینے والے دونوں دوزخی ہیں۔
    طبرانی میں حضرت ابن عمرسے آپ اکا ارشادمنقول ہے:
    ”لعن الله الراشی والمرتشی“
    ترجمہ::۔”رشوت دینے اور لینے والے پر الله نے لعنت فرمائی ہے۔“
    حضرت ثوبان  نے ارشاد نبوی نقل کیا ہے:
    ”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش الذی یمشی بینہما“(۸)
    ترجمہ:۔”الله تعالی نے رشوت کھانے اور کھلانے والے اور جودونوں کے درمیان معاملہ طے کراتا ہے، ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔“
    امام احمدفرماتے ہیں کہ امور سلطنت سے متعلقہ کسی کام کا جو شخص ذمہ دار ہوگا،اس کے لیے کسی قسم کا تحفہ قبول کرنے میں ہر گز اجازت نہیں دوں گا۔ہاں اس منصب پر فائز ہونے سے قبل جس کسی سے اس کا یارانہ اور میل جول ہوگا اس سے تحفہ قبول کرنا مستثنی ہوگا۔
    رشوت دینے کی چند ممکنہ صورتیں
    ۱-حصول منصب کے لیے رشوت دینا۔درحقیقت کوئی منصب اور ذمہ داری نااہل کے حوالے کرنے کو آپ ا نے امانت کی بربادی سے تعبیرکیا ہے، اورامانت کو برباد کرنا حرام ہے۔
    ۲-ادارے کی جانب سے رہائش کے حصول کے لیے رشوت دینا،خصوصاًجب کہ یہ ابھی اس کا استحقاق نہ رکھتا ہو۔
    ۳-ملازمت برقراررکھنے کے لیے رشوت دینا۔
    ۴-غیر حق دارکو رشوت لے کر نوکری دینا۔
    ۵-کسٹم ڈیوٹی سے بچنے کے لیے رشوت دینا۔
    ۶-سرکاری بلوں میں کٹوتی کے لیے رشوت دینا۔
    ۷-کسی ادارے کا کوئی ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا۔
    ۸-گاڑی والے کا پولیس کو رشوت دینا۔
    ۹-ایک شہرسے دوسرے شہر مال لے جانے پر رشوت دینا۔
    مندرجہ بالاتمام صورتوں میں اپنے مقصد کے حصول کے لئے اگر کوئی کہیں رشوت دے رہا ہے تو اس کی توبہ و استغفار کے ذریعے برأت کی کچھ گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن لینے والابہر صورت گنہگار ہوگا۔(۹)
    دواء ساز کمپنی کا ڈاکٹر کو رشوت دینا
    یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ڈاکٹرکا مریض کی مصلحت اورخیرخواہی کو مدنظر رکھنا شرعی اور اخلاقی تقاضا ہے، اس کی بناء پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملے کی ہر وہ صورت جو مریض کی مصلحت اور فائدے کے خلاف ہویا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشے یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت یا بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہو ،وہ درست نہیں،لہٰذااگر ڈاکٹر محض اپنے مالی فائدے یا کسی قسم کی ذاتی منفعت ہی کو ملحوظ رکھتاہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے علاج تجویز کرتاہے تو یہ دیانت کے خلاف ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹرگناہ گار ہوگا اور اگر صورتحال ایسی نہیں تو پھر ڈاکٹر گناہ گا ر نہیں ہوگا۔
    اس تمہید کی روشنی میں اگر ڈاکٹر مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے کسی مخصوص کمپنی کی دوائی مریض کولکھ کر دیتا ہے اور پھر اس کے بدلے دواء ساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹرکو جو کمیشن ،یا تحائف و غیرہ کی صورت میں دیگر مراعات ملتی ہیں،ڈاکٹرکے لیے ان کا لینا جائزہے،لیکن چند شرائط کے ساتھ:
    ۱-محض کمیشن، تحائف اور مراعات وسہولیات حاصل کرنے کی خاطر ڈاکٹر غیر معیاری وغیر ضروری ادویات تجویز نہ کرے۔
    ۲-کسی دوسری کمپنی کی دوائی مریض کے لیے زیادہ مفیدہونے کے باوجود خاص اس کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کرے۔
    ۳-دواء ساز کمپنیاں ڈاکٹرکودیئے جانے والے کمیشن ،تحفہ تحائف اور مراعات کا خرچہ ادویات مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں۔
    ۴-کمیشن،تحفہ اور مراعات کی ادائیگی کا خرچہ وصول کرنے کے لیئے ادویات کے معیار میں کمی نہ کریں۔
    اگر ڈاکٹر،مریض کو کسی مخصوص کمپنی کی دوائی لکھ کردیتے وقت ان شرائط کا لحاظ نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں دواء ساز کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے کمیشن،تحفہ تحائف یا دیگر مراعات وسہولیات کالیناڈاکٹر کے لیے جائز نہیں،یہ رشوت ہیں اور ناجائز ہیں۔(۹)
    ہسپتال ولیباٹری والوں کا ڈاکٹر کو رشوت دینا
    بسااوقات ڈاکٹرکسی مریض کو علاج کے لیے کسی پرائیوٹ ہسپتال بھیجتا ہے اور کبھی ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کسی مخصوص لیباٹری یاالٹراساوٴنڈیاسی ٹی اسکین والے کے پاس بھیجتا ہے اوریہ لوگ اس کے بدلے ڈاکٹر کو کمیشن،تحفہ تحائف اور دیگر مراعات دیتے ہیں،اس صورت میں ڈاکٹر کا کسی مریض کو مخصوص لیباٹری یا ہسپتال کی طرف بھیجنا چند شرائط کے ساتھ جائزہے:
    ۱-ڈاکٹراپنے فہم و تجربہ کی روشنی میں ان کی طرف بھیجنامریض کے لیے زیادہ مفید اورزیادہ تسلی بخش سمجھتا ہو۔
    ۲-انہی سے علاج یا ٹیسٹ کرانے پر مریض کو مجبور نہ کیاجاتا ہو۔
    ۳-کمیشن فیصد کے اعتبارسے یا متعین رقم کی صورت میں طے نہ ہو۔
    ۴-کمیشن ادا کرنے کی وجہ سے لیباٹری یا ہسپتال والے مریض سے علاج اور ٹیسٹ کے سلسلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہ کرتے ہوں۔
    ۵-اس کمیشن کی ادائیگی کا بوجھ ریٹ بڑھاکر مریض پر نہ ڈالا جائے ،بلکہ کمیشن دینے والے اپنے حاصل شدہ نفع سے کمیشن اداکریں۔
    ۶-مریض کو بلا وجہ اور ضرورت سے زائد ٹیسٹ نہ دیئے جائیں۔
    اگر ڈاکٹر مریض کو مخصوص ہسپتال یا لیبارٹری کی طرف بھیجتے وقت ان درج بالاشرائط کا لحاظ نہ رکھتا ہوتو پھر ڈاکٹر کے لیے اس پر کمیشن،تحفہ تحائف یا دیگرمراعات وسہولیات وصول کرنااور لیباٹری یا ہسپتال والوں کا یہ چیزیں ڈاکٹرکو دینا جائزنہیں،یہ رشوت ہیں اورناجائزہیں۔(۱۰)

    حوالہ جات
    ۱-جریمة الرشوةفی الشریعةالاسلامیة:عبدالله عبدالمحسن،بمبئی،رنگ بھارتی پریس۱۹۸۳ءء،ص:۲۸۔
    ۲-ایضاً:حوالہ بالا،ص۲۹۔
    ۳-لسان العرب:ابن منظورافریقی،طبع بیروت۱۹۵۷ءء،ص:۳۲۲،ج:۱۴۔
    ۴-محیط المحیط:بطرس بستانی،ص:۳۲۲،ج:۱۴۔
    ۵-القرآن:النساء:۲۹۔
    ۶-فتح الباری:حافظ ابن حجرعسقلانی،کراچی،قدیمی کتب خانہ،س -ن،ص:۲۴۶۔
    ۷-کنزالعمال:علی المتقی الھندی،لاہور،تالیفات اشرفیہ،س نہ دارد،ص:۱۱۴-۱۱۵،ج:۶۔
    ۸-ایضاً:حوالہ بالا،ص:۱۱۴،ج:۶۔
    ۹-رشوت اور اسکی جائز و ناجائز صورتوں کے شرعی احکام:محمدکمال الدین راشدی،کراچی،ماریہ اکیڈمی،۰۲ص:۱۷۔
    ۱۰-ایضاً:حوالہ بالا۔
    ماخذ
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment