تنہائی کا نوحہ گر، تنہا کرگیا


تنہائی کا نوحہ گر، تنہا کرگیا ..... اقبال خورشید
طلسم، وقت سے جدا ہوا۔ تنہائی نے آخری سانس لیا۔ دنیائے ادب پر یاسیت چھا گئی۔ اُس کے آبائی وطن میں پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ اگلے روز میکسیکو، جہاں اُس نے موت قبول کی، زلزلے سے لرز رہا تھا۔17 اپریل کو موصول ہونے والی گیبریل گارسیا مارکیز المعروف ’’گابو‘‘ کی موت کی خبر، کرب ناک ضرور تھی، مگر غیرمتوقع نہیں۔ وہ اپنے بوڑھے کرداروں سا دکھائی دینے لگا تھا۔ بیماری نے اُسے
گھیر رکھا تھا۔ ہم 2000 میں بھی اُس کی رخصتی کی بازگشت سن چکے ہیں، مگر اُس خبر کی جلد ہی تردید ہوگئی تھی۔ البتہ اِس بار تردید نہیں ہوئی۔ ہاں، وہ اپنی طبعی زندگی پوری کرچکا تھا۔ اور اب عشروں تک زندہ رہ سکتا تھا، اُن بے بدل ناولوں کی صورت، جو قاری کو اُس طرز احساس تک رسائی فراہم کرتے، جہاں اُنھیں کوئی اور ناول نگار نہیں لے جاسکا۔ ایک مبصر کے بہ قول؛ 82ء میں نوبیل انعام اپنے نام کرنے والے اِس ادیب کو موت نے ایک بڑا اعزاز بخشا؛ وہ امر ہوگیا!!
عظیم الشان روسی ادب کے بعد، جس نے پورے ایک عہد کو گرویدہ بنایا، یہ لاطینی امریکی ادب ہی تھا، جس نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دنیا کو حصار میں لے لیا۔ اِس کا زریں دور مارکیز کی منظر میں آمد سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا، طلسمی حقیقت نگاری کے بھی کرشمے نظر آنے لگے، بورخیس، کارلوس فونتینس، حوان زلفو، حولیوکارتازار اور پھر ماریوبرگیس یوسا، سب ہی موجود تھے، مگر اِس خطے کے ادب کا مقبول ترین نمایندہ، طلسمی حقیقت نگاری کو بام بخشنے والا مارکیز ہی ٹھہرا۔ ادبی شاہ کار ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کے وسیلے وہ اپنے عہد پر چھا گیا۔ سات نسلوں کی کہانی بیان کرتے اِس ناول کو اُس کے زرخیز تخیل نے ایک زندہ ابتدائیہ عطا کیا:’’برسوں بعد، فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کرنل ارلیانو بوئندا کے ذہن میں وہ بھولی برسی سہ پہر تھی، جب زندگی میں پہلی بار اُس کا باپ اُسے برف دکھانے لے گیا۔‘‘
وہ ہمیں اُس دنیا سے متعارف کرواتا ہے، جو ’’پیدایش کے باب‘‘ میں پیش کردہ دنیا جیسی ہے؛ نئی اور حیرت انگیز۔ یہ دریا کے کنارے، بیس گھروں پر مشتمل بستی ’’ماکوندا‘‘ ہے۔ اتنی تازہ کہ بہت سی چیزیں بے نام ہیں، اُن کی نشان دہی کے لیے اشارہ ضروری ہے۔
اِس تذکرے کا آغاز مارکیز کی تحریروں کے موضوعات سے کرتے ہیں، جن کا تعین مشکل تو نہیں، مگر ان کی تشریح پُرپیچ ہے۔ پہلا موضوع، بلاشبہہ، تنہائی ہے۔ کہتے ہیں، ادیب زندگی میں درحقیقت ایک ہی کتاب لکھتا ہے، باقی تمام کتابیں اس کا پرتو ہوتی ہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ مارکیز نے تنہائی کو کتاب کیا۔ اور یہ تنہائی فقط شخصی نہیں، تاریخی اور ثقافتی بھی ہے۔ ’’سردار کا زوال‘‘، ’’تنہائی کے سو سال ‘‘، ’’پتوں کا طوفان‘‘ اور ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ سب کی تہ میں تنہائی بہتی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرا عنصر ہے گزرتا وقت، جس کے ساتھ معاشرتی شکست و ریخت اور تنہائی گہری ہوتی جاتی ہے۔ بڑھاپے کو بھی بڑی گرفت کے ساتھ موضوع بنایا۔ یہی معاملہ جنسی عمل کا ہے، جو اُس کے ہاں کسی کردار کے مانند نظر آتا ہے۔
عورتوں نے اُس پر گہرے اثرات چھوڑے، جن کے طفیل اُس نے بڑی بے ساختگی سے نسوانی کردار تخلیق کیے۔ اور ہاں، جادو اور ماکوندا؛ مارکیز کا تذکرہ ان کے بغیر ادھورا ہے۔ ماکوندا، اس کے ہاں فقط ایک بستی نہیں، ایک نقطۂ نظر ہے، جس کے ذریعے، اپنے بیش تر قصّوں میں، وہ حالات و واقعات اور سماجی تبدیلیوں کو پرکھتا رہا۔ اور طلسم، وہ تو اُس کے ہاں ’’معمول کی بات‘‘ تھی! اُسے سمجھنے کے لیے اس کے حالات زندگی کا جائزہ معاون ثابت ہوسکتا ہے: مارکیز 9 مارچ 1927 کو کولمبیا کے ساحلی شہر، اراکاتا میں پیدا ہوا۔ ابتدائی چند برس ننھیال میں گزارے۔ وہ بڑا سا مکان کہانیوں سے بھرا تھا۔ اُس کے نانا، کرنل نکولس نے لبرل دستے کی طرف سے برسراقتدار کنزرویٹیو پارٹی کے خلاف ’’ہزار روزہ جنگ‘‘ میں حصہ لیا تھا۔ اس زمانے کی کہانی وہ اپنے پوتے کو بڑے ہی سنسنی خیز انداز میں سنایا کرتے۔ پھر نانی اور خالائیں، جو  اَن ہونے واقعات پر کامل یقین رکھتیں۔
طلسم، وقت سے جدا ہوا۔ تنہائی نے آخری سانس لیا۔ دنیائے ادب پر یاسیت چھا گئی۔ اُس کے آبائی وطن میں پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ اگلے روز میکسیکو، جہاں اُس نے موت قبول کی، زلزلے سے لرز رہا تھا۔
17 اپریل کو موصول ہونے والی گیبریل گارسیا مارکیز المعروف ’’گابو‘‘ کی موت کی خبر، کرب ناک ضرور تھی، مگر غیرمتوقع نہیں۔ وہ اپنے بوڑھے کرداروں سا دکھائی دینے لگا تھا۔ بیماری نے اُسے گھیر رکھا تھا۔ ہم 2000 میں بھی اُس کی رخصتی کی بازگشت سن چکے ہیں، مگر اُس خبر کی جلد ہی تردید ہوگئی تھی۔ البتہ اِس بار تردید نہیں ہوئی۔ ہاں، وہ اپنی طبعی زندگی پوری کرچکا تھا۔ اور اب عشروں تک زندہ رہ سکتا تھا، اُن بے بدل ناولوں کی صورت، جو قاری کو اُس طرز احساس تک رسائی فراہم کرتے، جہاں اُنھیں کوئی اور ناول نگار نہیں لے جاسکا۔ ایک مبصر کے بہ قول؛ 82ء میں نوبیل انعام اپنے نام کرنے والے اِس ادیب کو موت نے ایک بڑا اعزاز بخشا؛ وہ امر ہوگیا!!
عظیم الشان روسی ادب کے بعد، جس نے پورے ایک عہد کو گرویدہ بنایا، یہ لاطینی امریکی ادب ہی تھا، جس نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دنیا کو حصار میں لے لیا۔ اِس کا زریں دور مارکیز کی منظر میں آمد سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا، طلسمی حقیقت نگاری کے بھی کرشمے نظر آنے لگے، بورخیس، کارلوس فونتینس، حوان زلفو، حولیوکارتازار اور پھر ماریوبرگیس یوسا، سب ہی موجود تھے، مگر اِس خطے کے ادب کا مقبول ترین نمایندہ، طلسمی حقیقت نگاری کو بام بخشنے والا مارکیز ہی ٹھہرا۔ ادبی شاہ کار ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کے وسیلے وہ اپنے عہد پر چھا گیا۔ سات نسلوں کی کہانی بیان کرتے اِس ناول کو اُس کے زرخیز تخیل نے ایک زندہ ابتدائیہ عطا کیا:’’برسوں بعد، فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کرنل ارلیانو بوئندا کے ذہن میں وہ بھولی برسی سہ پہر تھی، جب زندگی میں پہلی بار اُس کا باپ اُسے برف دکھانے لے گیا۔‘‘
وہ ہمیں اُس دنیا سے متعارف کرواتا ہے، جو ’’پیدایش کے باب‘‘ میں پیش کردہ دنیا جیسی ہے؛ نئی اور حیرت انگیز۔ یہ دریا کے کنارے، بیس گھروں پر مشتمل بستی ’’ماکوندا‘‘ ہے۔ اتنی تازہ کہ بہت سی چیزیں بے نام ہیں، اُن کی نشان دہی کے لیے اشارہ ضروری ہے۔
اِس تذکرے کا آغاز مارکیز کی تحریروں کے موضوعات سے کرتے ہیں، جن کا تعین مشکل تو نہیں، مگر ان کی تشریح پُرپیچ ہے۔ پہلا موضوع، بلاشبہہ، تنہائی ہے۔ کہتے ہیں، ادیب زندگی میں درحقیقت ایک ہی کتاب لکھتا ہے، باقی تمام کتابیں اس کا پرتو ہوتی ہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ مارکیز نے تنہائی کو کتاب کیا۔ اور یہ تنہائی فقط شخصی نہیں، تاریخی اور ثقافتی بھی ہے۔ ’’سردار کا زوال‘‘، ’’تنہائی کے سو سال ‘‘، ’’پتوں کا طوفان‘‘ اور ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ سب کی تہ میں تنہائی بہتی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرا عنصر ہے گزرتا وقت، جس کے ساتھ معاشرتی شکست و ریخت اور تنہائی گہری ہوتی جاتی ہے۔ بڑھاپے کو بھی بڑی گرفت کے ساتھ موضوع بنایا۔ یہی معاملہ جنسی عمل کا ہے، جو اُس کے ہاں کسی کردار کے مانند نظر آتا ہے۔
عورتوں نے اُس پر گہرے اثرات چھوڑے، جن کے طفیل اُس نے بڑی بے ساختگی سے نسوانی کردار تخلیق کیے۔ اور ہاں، جادو اور ماکوندا؛ مارکیز کا تذکرہ ان کے بغیر ادھورا ہے۔ ماکوندا، اس کے ہاں فقط ایک بستی نہیں، ایک نقطۂ نظر ہے، جس کے ذریعے، اپنے بیش تر قصّوں میں، وہ حالات و واقعات اور سماجی تبدیلیوں کو پرکھتا رہا۔ اور طلسم، وہ تو اُس کے ہاں ’’معمول کی بات‘‘ تھی! اُسے سمجھنے کے لیے اس کے حالات زندگی کا جائزہ معاون ثابت ہوسکتا ہے: مارکیز 9 مارچ 1927 کو کولمبیا کے ساحلی شہر، اراکاتا میں پیدا ہوا۔ ابتدائی چند برس ننھیال میں گزارے۔ وہ بڑا سا مکان کہانیوں سے بھرا تھا۔ اُس کے نانا، کرنل نکولس نے لبرل دستے کی طرف سے برسراقتدار کنزرویٹیو پارٹی کے خلاف ’’ہزار روزہ جنگ‘‘ میں حصہ لیا تھا۔ اس زمانے کی کہانی وہ اپنے پوتے کو بڑے ہی سنسنی خیز انداز میں سنایا کرتے۔ پھر نانی اور خالائیں، جو  اَن ہونے واقعات پر کامل یقین رکھتیں۔

اراکاتا میں، بیسویں صدی کے اوائل میں، امریکی یونائیٹڈ فروٹ کمپنی داخل ہوچکی تھی، جس نے اُسے شہر ت ضرور عطا کی، مگر 1941 میں جب وہ لوٹی، شہر کی معیشت تباہ ہوگئی۔ مارکیز کی پیدایش کے اگلے ہی برس کولمبیا کے قصبے سانتا مارتا میں ’’بنانا کمپنی‘‘ کے مزدوروں نے ایک بڑی ہڑتال کی۔ امریکی دبائو پر کولمبیا کی حکومت نے مزدوروں کے خلاف کارروائی کی۔ بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ اُس سانحے کو Banana massacre کہا جاتا ہے۔ نانا کے انتقال کے بعد مارکیز والدین کے پاس شہر بارنکیلا آگیا۔ اور تب اُس خواب کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں وہ ہمیشہ خود کو اراکاتا میں اپنے نانا کے گھر دیکھا کرتا تھا۔اِس تذکرہ کے بعد آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی بُنت میں کون سا دھاگا استعمال کیا گیا تھا!
جس زمانے میں وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، لبرل راہ نما، ہوسے گپتان کا قتل ہوگیا۔ ریاست میں پُرتشدد کارروائیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ شاید یہ حبس زدہ ماحول تھا، جس نے اُسے کتابوں میں پناہ لینے کی راہ سجھائی۔ آغاز شاعری سے ہوا۔ پھر کافکا کی ایک تحریر اُسے ناول کی دنیا میں لے گئی۔پڑھائی چھوڑ کر صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ کہانی کاری کا آغاز ہوا۔ آرٹ اور ادب میں دل چسپی کے طفیل بارنکیلا کے پرُجوش نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ اس ٹولے نے اسے جیمس جوائس، ولیم فاکنز اور ورجینا وولف سے متعارف کروایا۔
’’تیسری مایوسی‘‘ پہلی مطبوعہ کہانی اور ’’پتوں کا طوفان‘‘ پہلا ناول تھا۔ ناول سے ایک دل چسپ قصّہ جڑا ہے۔ اس وقت بائیس سالہ مارکیز ایک سستے ہوٹل میں مقیم تھا۔ اگر کبھی وہ کرایہ ادا نہیں کرپاتا، تو ناول کا مسودہ ہوٹل مینیجر کے پاس گروی رکھوا دیتا۔ ہوٹل مینیجر جانتا تھا کہ اِن کاغذوں کی نوجوان کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی اشاعت کے بعد وہ شخص مارکیز سے آٹو گراف لینے آیا۔ دونوں نے ہنستے ہوئے پرانے دن بازیافت کیے۔
پہلا ناول توجہ حاصل نہیں کرسکا، البتہ صحافتی سرگرمیوں نے لوگوں کو اس کی جانب متوجہ کیا۔ یہی پیشہ اسے یورپ لے گیا۔ اور بعد میں بے باک صحافتی تحریروں ہی کی وجہ سے اُسے بے روزگاری بھوگنی پڑی۔ وہ ایام، جب مارکیز نے اپنی محبوبہ، مرسیدس بارچا سے شادی کی، مصائب سے بھرپور تھے۔ معاشی مسائل کی گھن گرج میں اس کا دوسرے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ مکمل ہوا، جسے چار برس بعد جاکر ڈھنگ کا پبلشر ملا۔ اسی زمانے میں ناول ’’منحوس وقت‘‘ شایع ہوا۔ پھر ایک روز، سب چھوڑچھاڑ کر ایک اور ناول لکھنے کے لیے اس نے خود کو گھر میں قید کرلیا۔ وہ پندرہ ماہ مسلسل لکھتا رہا۔ بیوی ادھار مانگ کر گھر چلاتی رہی۔ یہ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی تکمیل کا زمانہ ہے۔ عجیب تجربہ تھا وہ۔ ناول کا مرکزی کردار، کرنل ارلیانو قلم سے نکلتے ہی روح میں سما گیا۔ اُس کی موت کو منظر کرتے ہوئے مارکیز انتہائی تکلیف سے گزرا۔ وہ صدمے سے بستر پر گرگیا، اور دو گھنٹے تک روتا رہا۔
مارکیز کا خیال تھا کہ اس ناول کی پانچ ہزار کاپیاں بک جائیں گی۔ پبلشر سمجھتا تھا کہ آٹھ ہزار افراد اُسے خریدیں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں جو کچھ ہوا، وہ طلسماتی تھا۔ ایک ماہ کے اندر پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ حیران کن پذیرائی ملی۔ لاطینی امریکا کے تین قدآور ادیبوں کے حالیہ ناول؛ ’’ہاپ اسکاچ‘‘، ’’گرین ہائوس‘‘ اور ’’تھری ٹائیگرز ٹریپڈ‘‘ مقبولیت میں اُس سے پیچھے رہ گئے۔ موازنہ اُس کا ’’ڈان کیہوتے‘‘ سے کیا گیا۔ ادب کے آسمان پر نیا ستارہ طلوع ہوچکا تھا۔ آج ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اِس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

آگے کے واقعات تیزی سے رونما ہوئے۔ دولت اور شہرت قدموں میں تھی۔ تخلیقات ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ نوبیل سمیت متعدد اعزازات دوڑے چلے آئے۔ سیاسی اور سماجی شعبوں میں بھی وہ مصروف رہا۔ یہ سوال اہم ہے کہ اِس عہد ساز تخلیق کار نے لکھنا کیوں کر شروع کیا۔ مارکیز کے بہ قول، ایک دوست پر ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی نسل میں بھی ادیب پیدا ہوسکتے ہیں، اُس نے قلم اٹھایا۔ اور پھر لکھنے کی للک نے اُسے اپنے جال میں پھنسا لیا۔ اوروں کے ہاں شاید ناول کا جنم کسی انوکھے خیال سے نتھی ہو، مگر مارکیز کے ہاں کتاب بصری منظر سے ابھرتی ہے۔ ’’منگل کے دن کا قیلولہ‘‘، جسے وہ اپنی بہترین کہانی خیال کرتا تھا، سخت دھوپ میں، سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک عورت اور لڑکی کو چھتری لیے ویران سڑک پر چلتے ہوئے دیکھنے سے پیدا ہوئی۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کا جنم اُس کے ذہن میں محفوظ اُس منظر سے ہوتا ہے، جس میں بوڑھا آدمی ایک بچے کو سرکس لے جارہا ہے۔ یعنی وہ اور اُس کا نانا۔
مارکیز ناول نگاری کو ایک تیز رفتار عمل خیال کرتا تھا۔ پہلے جملے کو خصوصی اہمیت دیتا۔ بہ قول اس کے،’’کبھی کبھی تو مجھے پہلا جملہ لکھنے میں پوری کتاب لکھنے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ ‘‘ اسے ایسے موضوعات سے دل چسپی نہیں تھی، جو طویل عرصے تک نظرانداز کیے جانے کے متحمل نہ ہوسکیں۔ اگر وہ اتنے مضبوط ہیں کہ ’’سردار کا زوال‘‘ کی طرح سترہ سال اور ایک ’’پیش گفتہ موت کی روداد‘‘ کی طرح تیس سال کا عرصہ سہہ جائیں، تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ اسے لکھ ڈالے۔ لکھنے کے ہنر کی تربیت میں مارکیز کی اولین مددگار اُس کی نانی تھیں، جو انتہائی ہول ناک قصّے، پلک جھپکائے بغیر سنا دیتیں۔
البتہ یہ بات کہ اُسے ادیب بننا ہے،کافکا نے سمجھائی۔ ’’میٹامورفوسس‘‘ پڑھنے کے بعد اس نے دنیا کے تمام بڑے ناول پڑھنے کا تہیہ کیا۔ ہیمنگ وے اور گراہم گرین نے بھی بہت متاثر کیا۔ کونریڈ اور سانت ایگزیوپیری کو وہ بار بار پڑھنا پسند کرتا تھا۔ ٹالسٹائی کے ’’جنگ اور امن‘‘ کو عظیم ناول خیال کرتا۔ جو ادیب پسند تھے، اُن کے اثر سے بچنے کی مارکیز نے شعوری کوشش کی۔ کچھ ناقدین کو اُس پر ولیم فاکنز کا سایہ نظر آیا۔ وہ متفق تو نہیں تھا، مگر اس کا کبھی برا نہیں منایا۔ وہ فاکنز کو عظیم ناول نگارخیال کرتا تھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ ورجینا وولف تھی، جس نے اس کی تحریروں پر اثر چھوڑا۔
مارکیز نے ناولوں میں مکالمے کم ہی برتے۔ اُس کا خیال تھا؛ ہسپانوی میں بولے جانے والے اور لکھے جانے والے مکالموں میں بڑی خلیج حائل ہے۔ اپنے ناولوں میں اسے ’’سردار کا زوال‘‘ بہت بھایا۔ دوسرے نمبر پر وہ ’’ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘ کو رکھتا تھا۔ نہیں، اِس فہرست میں ’’ تنہائی کے سو سال‘‘ کا ذکر نہیں کرتا تھا، جس کی مقبولیت اُس کے لیے معما تھی۔ اُس نے کئی بار کہا،’’اس ناول کی کام یابی میرے دیگر ناولوں کے حق میں غیرمنصفانہ ثابت ہوئی۔‘‘ اس کے سیاسی نظریات واضح تھے ، جن کی وجہ سے اُسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ وہ سوشلسٹ دنیا کا متمنی تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ جلد یا بدیر یہ خواب حقیقت کا روپ اختیار کر جائے گا، تاہم وہ احتجاجی ادب کا قائل نہیں تھا۔ اس کے خیال میں لاطینی امریکا کے باشندے کسی ناول سے، اس جبر اور بے انصافی کے انکشاف سے، جس سے وہ بہ خوبی واقف ہیں، کچھ زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
نانا کے اثر نے اُسے جمے جمائے نظام کے خلاف بغاوت کی تحریک دی۔ اسکول میں مارکسی نظریات سے آگاہی ہوئی۔ نوجوانی میں کچھ عرصے کمیونسٹ پارٹی کے سیل سے بھی وابستہ رہا۔ فیڈل کاسترو سے خاصی دوستی رہی۔ تعلق کا بنیادی سبب ادب میں فیڈل کی دل چسپی رہی۔ اس نے اپنے ایک ناول کا مسودہ بھی پڑھنے کے لیے اُنھیں بھجوایا۔ فیڈل نے اس میں ایک غلطی کی بھی نشان دہی کی۔

ایک بھرپور زندگی گزارنے والے مارکیز پر عمر نے کاری وار کیا۔ بڑھاپا تنہائی ساتھ لایا۔ اُس نے لوگ سے ملنا، تقریبات میں شرکت کرنا کم کردیا۔ لکھنے کا عمل بھی سکڑنے لگا۔ 87 برس کی عمر میں وہ اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے انتہائی مشابہہ معلوم ہوتا تھا۔ یادداشت بکھر گئی۔ موت سے چند روز قبل اسے اسپتال لے جایا گیا۔ وجہ پھیپھڑوں کا انفیکشن ٹھیرا۔ چند روز بعد گھر بھیج دیا گیا، اِس لیے نہیں کہ وہ صحت یاب ہوگیا تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ ایسا ہی چاہتا تھا۔
17 اپریل کو مارکیز کے ایک رشتے دار نے ’’ٹوئیٹر‘‘ پر اُس کی موت کا اعلان کیا۔ یہ خبر اُس کے کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار کرگئی۔ دنیا بھر کی نام وَر شخصیات نے مارکیز کو شان دار الفاظ میں، جن کا وہ حق دار تھا، خراج تحسین پیش کیا۔ کولمبیئن صدر نے کہا:’’اس بے بدل مصنف کی موت ہمیں ہزاروں سال کی تنہائی اور اداسی دے گئی۔‘‘ اوباما نے ٹوئٹ کیا:’’دنیا نے ایک عظیم مصنف کھو دیا۔‘‘ نوبیل انعام یافتہ، ماریو برگیس یوسا نے جو کہا، وہ اہم تھا۔’’مجھے یقین ہے کہ مارکیز کے ناول نئے قارئین تک پہنچتے رہیں گے۔‘‘
یوسا دُرست ہے۔ ایسا ہی ہوگا۔ اور یہ واضح ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ پانچ عشروں کی زندگی، جو فقط بڑے ناول کا نصیب بنتی ہے، جی چکا ہے۔ اور ایک امریکی نقاد کے مطابق، مارکیز کی موت اِسے مزید کئی دہائیوں کی زندگی بخش گئی۔مارکیز کا انتقال دنیائے ادب کا ایک اہم واقعہ ہے۔ وہ مر گیا، اور اب بڑی سہولت سے برسوں جی سکتا ہے۔ ایک نابغے کی حیثیت سے، ایک اساطیر کی صورت، یا شاید ایک ’’کلٹ‘‘ (Cult) کے روپ میں!!!
٭ تذکرہ کتابوں کا۔۔۔
مارکیز کے فکشن کو تیرہ کتب میں سمویا گیا۔ ناول کہانیوں پر، جن کے چاہنے والے کم نہیں، غالب رہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کو اساطیری شہرت ملی۔ دیگر میں ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘، ’’سردار کا زوال‘‘، ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘، ’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ اور ’’بڑی ماما کا جنازہ‘‘ نمایاں ہیں۔ ’’میری سوگوار بیسوائوں کی یادیں‘‘ آخری ناول تھا۔ نان فکشن میں بھی اس نے قابل قدر کتب چھوڑیں۔ مارکیز کے ہم وطن، پلینیو اپولیومیندوزا نے زندگی اور فن سے متعلق اس سے ایک طویل گفت گو کی، جسے ’’امرود کی مہک‘‘ نامی کتاب میں پیش کیا گیا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اردو کے قارئین کے لیے بھی خاصا مواد دست یاب ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ ، ’’وباکے دنوں میں محبت‘‘، ’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ اور ’’میری سوگوار بیسوائوں کی یادیں‘‘ کو اردو روپ دیا جاچکا ہے۔ خالد جاوید کی مارکیز کے فن اور شخصیت سے متعلق کتاب دست یاب ہے۔ سب سے اہم ’’آج‘‘ کا مارکیز نمبر ہے، اہتمام جس کا اجمل کمال نے کیا۔
٭ حقیقت، مارکیز اور طلسم!
اُس نے کبھی طلسمی حقیقت نگاری کی ترکیب قبول نہیں کی۔ اصرار تھا کہ اس کی کتابوں میں ایک بھی فقرہ ایسا نہیں ، جس کی بنیاد حقیقت پر نہ ہو۔ ’’میرے یورپی قارئین غالباً میری کہانیوں کے طلسم سے تو باخبر ہیں، لیکن اس کے عقب میں چھپی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے۔ اُن کی عقلیت پسندی اُنھیں یہ دیکھنے سے باز رکھتی ہے کہ حقیقت ٹماٹر اور انڈوں کے بھائو تک محدود نہیں۔ لاطینی امریکا کی روزمرہ زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ حقیقت نہایت غیرمعمولی باتوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘ اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کرنے کے بعد وہ کہتا ہے،’’میں ایسے لوگوں سے واقف ہوں، جنھوں نے ’تنہائی کے سو سال‘ کو بہت غور اور مسرت سے پڑھا، اور انھیں ذرا بھی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ میں نے کوئی ایسی چیز بیان نہیں کی تھی، جو اُن کی زندگیوں میں پیش نہ آچکی ہو۔‘‘
اراکاتا میں، بیسویں صدی کے اوائل میں، امریکی یونائیٹڈ فروٹ کمپنی داخل ہوچکی تھی، جس نے اُسے شہر ت ضرور عطا کی، مگر 1941 میں جب وہ لوٹی، شہر کی معیشت تباہ ہوگئی۔ مارکیز کی پیدایش کے اگلے ہی برس کولمبیا کے قصبے سانتا مارتا میں ’’بنانا کمپنی‘‘ کے مزدوروں نے ایک بڑی ہڑتال کی۔ امریکی دبائو پر کولمبیا کی حکومت نے مزدوروں کے خلاف کارروائی کی۔ بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ اُس سانحے کو Banana massacre کہا جاتا ہے۔ نانا کے انتقال کے بعد مارکیز والدین کے پاس شہر بارنکیلا آگیا۔ اور تب اُس خواب کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں وہ ہمیشہ خود کو اراکاتا میں اپنے نانا کے گھر دیکھا کرتا تھا۔اِس تذکرہ کے بعد آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی بُنت میں کون سا دھاگا استعمال کیا گیا تھا!
جس زمانے میں وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، لبرل راہ نما، ہوسے گپتان کا قتل ہوگیا۔ ریاست میں پُرتشدد کارروائیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ شاید یہ حبس زدہ ماحول تھا، جس نے اُسے کتابوں میں پناہ لینے کی راہ سجھائی۔ آغاز شاعری سے ہوا۔ پھر کافکا کی ایک تحریر اُسے ناول کی دنیا میں لے گئی۔پڑھائی چھوڑ کر صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ کہانی کاری کا آغاز ہوا۔ آرٹ اور ادب میں دل چسپی کے طفیل بارنکیلا کے پرُجوش نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ اس ٹولے نے اسے جیمس جوائس، ولیم فاکنز اور ورجینا وولف سے متعارف کروایا۔
’’تیسری مایوسی‘‘ پہلی مطبوعہ کہانی اور ’’پتوں کا طوفان‘‘ پہلا ناول تھا۔ ناول سے ایک دل چسپ قصّہ جڑا ہے۔ اس وقت بائیس سالہ مارکیز ایک سستے ہوٹل میں مقیم تھا۔ اگر کبھی وہ کرایہ ادا نہیں کرپاتا، تو ناول کا مسودہ ہوٹل مینیجر کے پاس گروی رکھوا دیتا۔ ہوٹل مینیجر جانتا تھا کہ اِن کاغذوں کی نوجوان کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی اشاعت کے بعد وہ شخص مارکیز سے آٹو گراف لینے آیا۔ دونوں نے ہنستے ہوئے پرانے دن بازیافت کیے۔
پہلا ناول توجہ حاصل نہیں کرسکا، البتہ صحافتی سرگرمیوں نے لوگوں کو اس کی جانب متوجہ کیا۔ یہی پیشہ اسے یورپ لے گیا۔ اور بعد میں بے باک صحافتی تحریروں ہی کی وجہ سے اُسے بے روزگاری بھوگنی پڑی۔ وہ ایام، جب مارکیز نے اپنی محبوبہ، مرسیدس بارچا سے شادی کی، مصائب سے بھرپور تھے۔ معاشی مسائل کی گھن گرج میں اس کا دوسرے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘ مکمل ہوا، جسے چار برس بعد جاکر ڈھنگ کا پبلشر ملا۔ اسی زمانے میں ناول ’’منحوس وقت‘‘ شایع ہوا۔ پھر ایک روز، سب چھوڑچھاڑ کر ایک اور ناول لکھنے کے لیے اس نے خود کو گھر میں قید کرلیا۔ وہ پندرہ ماہ مسلسل لکھتا رہا۔ بیوی ادھار مانگ کر گھر چلاتی رہی۔ یہ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی تکمیل کا زمانہ ہے۔ عجیب تجربہ تھا وہ۔ ناول کا مرکزی کردار، کرنل ارلیانو قلم سے نکلتے ہی روح میں سما گیا۔ اُس کی موت کو منظر کرتے ہوئے مارکیز انتہائی تکلیف سے گزرا۔ وہ صدمے سے بستر پر گرگیا، اور دو گھنٹے تک روتا رہا۔
مارکیز کا خیال تھا کہ اس ناول کی پانچ ہزار کاپیاں بک جائیں گی۔ پبلشر سمجھتا تھا کہ آٹھ ہزار افراد اُسے خریدیں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں جو کچھ ہوا، وہ طلسماتی تھا۔ ایک ماہ کے اندر پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ حیران کن پذیرائی ملی۔ لاطینی امریکا کے تین قدآور ادیبوں کے حالیہ ناول؛ ’’ہاپ اسکاچ‘‘، ’’گرین ہائوس‘‘ اور ’’تھری ٹائیگرز ٹریپڈ‘‘ مقبولیت میں اُس سے پیچھے رہ گئے۔ موازنہ اُس کا ’’ڈان کیہوتے‘‘ سے کیا گیا۔ ادب کے آسمان پر نیا ستارہ طلوع ہوچکا تھا۔ آج ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اِس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

آگے کے واقعات تیزی سے رونما ہوئے۔ دولت اور شہرت قدموں میں تھی۔ تخلیقات ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ نوبیل سمیت متعدد اعزازات دوڑے چلے آئے۔ سیاسی اور سماجی شعبوں میں بھی وہ مصروف رہا۔ یہ سوال اہم ہے کہ اِس عہد ساز تخلیق کار نے لکھنا کیوں کر شروع کیا۔ مارکیز کے بہ قول، ایک دوست پر ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی نسل میں بھی ادیب پیدا ہوسکتے ہیں، اُس نے قلم اٹھایا۔ اور پھر لکھنے کی للک نے اُسے اپنے جال میں پھنسا لیا۔ اوروں کے ہاں شاید ناول کا جنم کسی انوکھے خیال سے نتھی ہو، مگر مارکیز کے ہاں کتاب بصری منظر سے ابھرتی ہے۔ ’’منگل کے دن کا قیلولہ‘‘، جسے وہ اپنی بہترین کہانی خیال کرتا تھا، سخت دھوپ میں، سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک عورت اور لڑکی کو چھتری لیے ویران سڑک پر چلتے ہوئے دیکھنے سے پیدا ہوئی۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کا جنم اُس کے ذہن میں محفوظ اُس منظر سے ہوتا ہے، جس میں بوڑھا آدمی ایک بچے کو سرکس لے جارہا ہے۔ یعنی وہ اور اُس کا نانا۔
مارکیز ناول نگاری کو ایک تیز رفتار عمل خیال کرتا تھا۔ پہلے جملے کو خصوصی اہمیت دیتا۔ بہ قول اس کے،’’کبھی کبھی تو مجھے پہلا جملہ لکھنے میں پوری کتاب لکھنے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ ‘‘ اسے ایسے موضوعات سے دل چسپی نہیں تھی، جو طویل عرصے تک نظرانداز کیے جانے کے متحمل نہ ہوسکیں۔ اگر وہ اتنے مضبوط ہیں کہ ’’سردار کا زوال‘‘ کی طرح سترہ سال اور ایک ’’پیش گفتہ موت کی روداد‘‘ کی طرح تیس سال کا عرصہ سہہ جائیں، تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ اسے لکھ ڈالے۔ لکھنے کے ہنر کی تربیت میں مارکیز کی اولین مددگار اُس کی نانی تھیں، جو انتہائی ہول ناک قصّے، پلک جھپکائے بغیر سنا دیتیں۔
البتہ یہ بات کہ اُسے ادیب بننا ہے،کافکا نے سمجھائی۔ ’’میٹامورفوسس‘‘ پڑھنے کے بعد اس نے دنیا کے تمام بڑے ناول پڑھنے کا تہیہ کیا۔ ہیمنگ وے اور گراہم گرین نے بھی بہت متاثر کیا۔ کونریڈ اور سانت ایگزیوپیری کو وہ بار بار پڑھنا پسند کرتا تھا۔ ٹالسٹائی کے ’’جنگ اور امن‘‘ کو عظیم ناول خیال کرتا۔ جو ادیب پسند تھے، اُن کے اثر سے بچنے کی مارکیز نے شعوری کوشش کی۔ کچھ ناقدین کو اُس پر ولیم فاکنز کا سایہ نظر آیا۔ وہ متفق تو نہیں تھا، مگر اس کا کبھی برا نہیں منایا۔ وہ فاکنز کو عظیم ناول نگارخیال کرتا تھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ ورجینا وولف تھی، جس نے اس کی تحریروں پر اثر چھوڑا۔
مارکیز نے ناولوں میں مکالمے کم ہی برتے۔ اُس کا خیال تھا؛ ہسپانوی میں بولے جانے والے اور لکھے جانے والے مکالموں میں بڑی خلیج حائل ہے۔ اپنے ناولوں میں اسے ’’سردار کا زوال‘‘ بہت بھایا۔ دوسرے نمبر پر وہ ’’ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘ کو رکھتا تھا۔ نہیں، اِس فہرست میں ’’ تنہائی کے سو سال‘‘ کا ذکر نہیں کرتا تھا، جس کی مقبولیت اُس کے لیے معما تھی۔ اُس نے کئی بار کہا،’’اس ناول کی کام یابی میرے دیگر ناولوں کے حق میں غیرمنصفانہ ثابت ہوئی۔‘‘ اس کے سیاسی نظریات واضح تھے ، جن کی وجہ سے اُسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ وہ سوشلسٹ دنیا کا متمنی تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ جلد یا بدیر یہ خواب حقیقت کا روپ اختیار کر جائے گا، تاہم وہ احتجاجی ادب کا قائل نہیں تھا۔ اس کے خیال میں لاطینی امریکا کے باشندے کسی ناول سے، اس جبر اور بے انصافی کے انکشاف سے، جس سے وہ بہ خوبی واقف ہیں، کچھ زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
نانا کے اثر نے اُسے جمے جمائے نظام کے خلاف بغاوت کی تحریک دی۔ اسکول میں مارکسی نظریات سے آگاہی ہوئی۔ نوجوانی میں کچھ عرصے کمیونسٹ پارٹی کے سیل سے بھی وابستہ رہا۔ فیڈل کاسترو سے خاصی دوستی رہی۔ تعلق کا بنیادی سبب ادب میں فیڈل کی دل چسپی رہی۔ اس نے اپنے ایک ناول کا مسودہ بھی پڑھنے کے لیے اُنھیں بھجوایا۔ فیڈل نے اس میں ایک غلطی کی بھی نشان دہی کی۔
ایک بھرپور زندگی گزارنے والے مارکیز پر عمر نے کاری وار کیا۔ بڑھاپا تنہائی ساتھ لایا۔ اُس نے لوگ سے ملنا، تقریبات میں شرکت کرنا کم کردیا۔ لکھنے کا عمل بھی سکڑنے لگا۔ 87 برس کی عمر میں وہ اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے انتہائی مشابہہ معلوم ہوتا تھا۔ یادداشت بکھر گئی۔ موت سے چند روز قبل اسے اسپتال لے جایا گیا۔ وجہ پھیپھڑوں کا انفیکشن ٹھیرا۔ چند روز بعد گھر بھیج دیا گیا، اِس لیے نہیں کہ وہ صحت یاب ہوگیا تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ ایسا ہی چاہتا تھا۔
17 اپریل کو مارکیز کے ایک رشتے دار نے ’’ٹوئیٹر‘‘ پر اُس کی موت کا اعلان کیا۔ یہ خبر اُس کے کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار کرگئی۔ دنیا بھر کی نام وَر شخصیات نے مارکیز کو شان دار الفاظ میں، جن کا وہ حق دار تھا، خراج تحسین پیش کیا۔ کولمبیئن صدر نے کہا:’’اس بے بدل مصنف کی موت ہمیں ہزاروں سال کی تنہائی اور اداسی دے گئی۔‘‘ اوباما نے ٹوئٹ کیا:’’دنیا نے ایک عظیم مصنف کھو دیا۔‘‘ نوبیل انعام یافتہ، ماریو برگیس یوسا نے جو کہا، وہ اہم تھا۔’’مجھے یقین ہے کہ مارکیز کے ناول نئے قارئین تک پہنچتے رہیں گے۔‘‘
یوسا دُرست ہے۔ ایسا ہی ہوگا۔ اور یہ واضح ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ پانچ عشروں کی زندگی، جو فقط بڑے ناول کا نصیب بنتی ہے، جی چکا ہے۔ اور ایک امریکی نقاد کے مطابق، مارکیز کی موت اِسے مزید کئی دہائیوں کی زندگی بخش گئی۔مارکیز کا انتقال دنیائے ادب کا ایک اہم واقعہ ہے۔ وہ مر گیا، اور اب بڑی سہولت سے برسوں جی سکتا ہے۔ ایک نابغے کی حیثیت سے، ایک اساطیر کی صورت، یا شاید ایک ’’کلٹ‘‘ (Cult) کے روپ میں!!!
٭ تذکرہ کتابوں کا۔۔۔
مارکیز کے فکشن کو تیرہ کتب میں سمویا گیا۔ ناول کہانیوں پر، جن کے چاہنے والے کم نہیں، غالب رہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کو اساطیری شہرت ملی۔ دیگر میں ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘، ’’سردار کا زوال‘‘، ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘، ’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ اور ’’بڑی ماما کا جنازہ‘‘ نمایاں ہیں۔ ’’میری سوگوار بیسوائوں کی یادیں‘‘ آخری ناول تھا۔ نان فکشن میں بھی اس نے قابل قدر کتب چھوڑیں۔ مارکیز کے ہم وطن، پلینیو اپولیومیندوزا نے زندگی اور فن سے متعلق اس سے ایک طویل گفت گو کی، جسے ’’امرود کی مہک‘‘ نامی کتاب میں پیش کیا گیا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اردو کے قارئین کے لیے بھی خاصا مواد دست یاب ہے۔ ’’تنہائی کے سو سال‘‘ ، ’’وباکے دنوں میں محبت‘‘، ’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ اور ’’میری سوگوار بیسوائوں کی یادیں‘‘ کو اردو روپ دیا جاچکا ہے۔ خالد جاوید کی مارکیز کے فن اور شخصیت سے متعلق کتاب دست یاب ہے۔ سب سے اہم ’’آج‘‘ کا مارکیز نمبر ہے، اہتمام جس کا اجمل کمال نے کیا۔
٭ حقیقت، مارکیز اور طلسم!
اُس نے کبھی طلسمی حقیقت نگاری کی ترکیب قبول نہیں کی۔ اصرار تھا کہ اس کی کتابوں میں ایک بھی فقرہ ایسا نہیں ، جس کی بنیاد حقیقت پر نہ ہو۔ ’’میرے یورپی قارئین غالباً میری کہانیوں کے طلسم سے تو باخبر ہیں، لیکن اس کے عقب میں چھپی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے۔ اُن کی عقلیت پسندی اُنھیں یہ دیکھنے سے باز رکھتی ہے کہ حقیقت ٹماٹر اور انڈوں کے بھائو تک محدود نہیں۔ لاطینی امریکا کی روزمرہ زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ حقیقت نہایت غیرمعمولی باتوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘ اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کرنے کے بعد وہ کہتا ہے،’’میں ایسے لوگوں سے واقف ہوں، جنھوں نے ’تنہائی کے سو سال‘ کو بہت غور اور مسرت سے پڑھا، اور انھیں ذرا بھی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ میں نے کوئی ایسی چیز بیان نہیں کی تھی، جو اُن کی زندگیوں میں پیش نہ آچکی ہو۔‘‘
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ

0 تبصروں کی تعداد:

Post a Comment