مثالی کاروباری حکمت عملی کے رہنما اصول

    ان پانچ قوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ادارہ تین میں سے کوئی ایک حکمت عملی بنا سکتا ہے:
    1. امتیاز(Differentiation):اس حکمت عملی میں فرم کی پروڈکٹ کو دیگر فرموں کی پروڈکٹ سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ صارف کو ا س کی امتیازی خصوصیات پہنچانے کے لیے تشہیر کاری(Advertisement) کا سہارا لیا جاتا ہے،تا کہ صارف محسوس کرے کہ پروڈکٹ دیگر پروڈکٹ سے الگ ہے۔

    اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے صارف کا اعتماد(Loyalty of Customer) اس پروڈکٹ پر قائم ہو جاتا ہے اور وہ اس پروڈکٹ کی زیادہ قیمت دینے کے لیے تیا ر ہوتا ہے،نیز فرم کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔اس حکمت عملی کا مشاہد ہ ہم بآسانی کثیر القومی کمپنیز (Multinational Companies)کے حوالے سے کرسکتے ہیں، جیسے: سیف گارڈ کے جراثیم کش ہونے کی تشہیر کی جاتی ہے تو لیکس کا جلد کو نرم و ملائم کرنے کا بتا یا جاتا ہے۔یہ سب اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
    2.لاگتی قیادت(Cost leadership):اس حکمت عملی کے تحت کاروباری لاگتوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔اس کے لیے بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال،بہترین پیداواری نظام،سپلائرز سے اچھے تعلقات قائم کرکے چیز اپنے مقابل سے سستی بنائی جاتی ہے۔اس طرح مارکیٹ میں کم قیمت کے باوجود مناسب نفع کما یا جارہا ہوتاہے۔
    ٭…اگر حکمت عملی امتیازی پیداوار کی ہے تو اس پروڈکٹ کے امتیازی اوصاف کو لے کر غالب حکمت عملی بنائی جائے گی ٭…ایک مسلمان تاجر کی حکمت عملی صارف کو گمراہ کر کے منافع حاصل کرنے کی نہیں ہو سکتی 



    3.توجہ(Focus):اس صورت میں کمپنی بجائے پوری مارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھنے کے یا تو علاقے کے اعتبار سے کسی خاص مارکیٹ کو ہدف بناتی ہے یا صارفین میں سے کسی خاص طبقے کو ہدف بنا کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جیسے:ایک مالیاتی ادارہ پوری مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہ کسی خاص مارکیٹ جیسے کراچی یا فیصل آبادکو ہدف بنا سکتا ہے یا پھر تمویلی صارفین کے حوالے سے چھوٹے اور متوسط تاجروں کو ہدف بنا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہی کے حوالے سے امتیازی پروڈکٹ متعارف کروا کر مارکیٹ میں مقابلہ کرسکتا ہے۔
    4.عملی سطح کی حکمت عملی تیار کریں: اس حکمت میں بڑے بڑے شعبہ جات، جیسے: مارکیٹنگ (Marketing)، پیداوار (Production)، مالیات (Finance)،افرادی قوت (Human Resource)اور تحقیق و ترقی(Research and Development) کے شعبہ جات، کے لیے وہ حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے کاروباری حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے، جیسے: اگر کاروباری حکمت عملی امتیازی پیداوار کی ہے تو پھر شعبہ تحقیق و ترقی کے لیے نیو پروڈکٹ ڈیزائن،مارکیٹنگ کے لیے اس پروڈکٹ کے امتیازی اوصاف کو لے کر غالب حکمت عملی (Agressive Strategy) بنائی جائے گی۔مزید پیداواری شعبے میں نئی پروڈکٹ کی پیداور کے لیے نئے پلانٹ کی انسٹالیشن وغیرہ کو دیکھا جائے گا، شعبہ برائے افرادی قوت اس حوالے سے نئے اسٹاف کی ہائرنگ (Hiring)اور موجودہ کی ٹریننگ(Training) کے لیے حکمت عملی بنا ئے گا ۔

    5.  مسلما ن تاجر کے لیے راہ عمل:حکمت عملی کی تیاری کے حوالے سے ایک مسلمان تاجریا منتظم کے لیے کیا راہ عمل ہو؟پیش کیا جاتاہے۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاق کا حصہ جس طرح تفصیل سے موجود ہے،جتنا مضبوط (Strong)ہے اور جس قدر عملی (Practicle)ہے ،کسی اور مذہب،کسی اور زندگی گزارنے کے طریقے میں موجود نہیں۔ کاروباری معاملات اسلام میں دین،اخلاق سے جدا نہیں ہیں جیسا کہ مغربی فلسفہ میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ وہاں کاروبار میںدین یااخلاق کا کو ئی عمل دخل نہیں۔جن اخلاقیات کوکاروباری اخلاقیات(Business Ethics)سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں بھی پیش نظر فرم یا سرمایہ دار کا اپنا نفع کی زیادتی ہے۔ورنہ بنیادی طور پر مغربی فلسفہ میں کاروبار ہر طرح کی رکاوٹوں سے پاک ہے۔لیکن ایک مسلمان کے لیے کاروبار اس کے دین کا حصہ ہے، اسی لیے کسب حلال پر اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، نیز سچے،امانت دار تاجر کا حشر انبیاء اور صدیقین کے ساتھ بتایا جارہا ہے۔ مزید قرآن میںاللہ تعالیٰ مسلمان کی شان بیان فرماتے ہیں:’’جن گھروں کے بارے میں اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کو بلند مقام دیا جائے،اور ان میں اس کا نام لے کر ذکر کیا جائے،ان میں صبح وشام وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں جنہیں کو ئی تجارت یا کوئی خریدوفروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوۃ دینے سے۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ کر رہ جائیں گی۔‘‘(سورۃا لنور، آیت:37،36) اللہ نے مسلمان تاجر کے بارے میں فرمایا کہ اس کا بزنس اسے اللہ سے غافل نہیں کرتا۔وہ بزنس میں بھی اللہ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرتا ہے، لہذا جب بات آئے گی حکمت عملی بنانے کی تب بھی وہ اسباب کے درجے میں اندرونی ،بیرونی ماحول کا تجزیہ کرے گا۔اپنے ادارے، کاروباری اکائیوں، شعبہ جات کے لیے حکمت عملی بھی بنائے گا، لیکن اس بات کو نہیں بھولے گا کہ اللہ نے اس پر کچھ حقوق رکھے ہیں ، اس کے ساتھ کاروبار کرنے والوں کے(Rights for Competitors) بھی،اس کے ملازمین کے(Rights for employees)،اس کے رسد کنندگان کے( Rights for Suppliers)صارفین(Customers) کے بھی جس کے نتیجے میں اس کی حکمت عملی سراسر اپنے ہم عصر فرموں سے دشمنی(Rivelry) پر مبنی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ایک مسلمان تاجر کی حکمت عملی صارف کو گمراہ کرکے منافع حاصل کرنے کی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح اس کی حکمت عملی میں سچائی ، امانتداری،ایثار،پورا ناپ تول اور دوسروں کی خیر خواہی، جیسے اچھے اخلاق اس لئے شامل ہوگے کہ انہی اوصاف کی موجودگی ہی اس کی تجارت کو عبادت کا درجہ دیتی ہے، ورنہ یہی تجارت اس کے لیے دنیا و آخرت کے خسارے کا باعث بن سکتی ہے۔
    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہماری تجارت ،ہمارے دین سے الگ نہیں ہے،بلکہ دین کا ایک حصہ ہے کیوں کہ ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ …روزانہ تقریبا 8 سے 10 گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ…کسب حلال کی تگ و دو میں صرف ہو تا ہے۔اگر ہم نے اسے عبادت نہ بنایا تو ہمارے لیے بڑے ہی خسارے کی بات ہے۔ہم نبوی اخلاق، اسلامی تعلیمات کو اپناکر اپنی زندگی کے اس اہم شعبہ کو عبادت بنا سکتے ہیں جس میں ہماری دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیا بی بھی اسی سے جڑی ہے۔یا د رکھیں! مسلمان کو اللہ تعالی نے دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ ہم اس بات کو سمجھیں اور دوسروں تک پہنچائیں تاکہ یہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہوجائے۔

    مولانا شیخ نعمان ۔۔۔۔ استفادہ از ماہنامہ شریعی اینڈبزنس
    مولاناشیخ نعمانمو
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment