آزادیِ اظہار اور مغرب کا دوہرا معیار

    آزادیِ اظہار اور مغرب کا دوہرا معیار

    گذشتہ ماہ امریکا میں اسلام مخالف مہم کی رہنما پامیلا گیلر اور ان کے ساتھی رابرٹ سپنسر کی جانب سے ریاست ٹیکساس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں پر مبنی نمایش کے موقعے پر ہونے والے فائرنگ کے واقعے نے مغرب اور مسلم دنیا میں ایک دفعہ پھر آزادیِ اظہار کی حدود اور توہین مذہب سے متعلق بحث کو تازہ کردیا ہے ۔پامیلاگیلر اور ان کے ساتھی رابرٹ سپنسر اس سے پہلے بھی اپنے اسلام مخالف خیالات اور نفرت انگیز مہم کی وجہ سے خود مغرب میں بھی متنازع سمجھے جاتے ہیں۔

    یہی پامیلا گیلر اور ان کے ساتھی اسلام مخالف تنظیم ’ سٹاپ اسلامائزیشن آف امریکا‘ کے بانی بھی ہیں ۔ ۲۰۱۳ء میں برطانوی محکمہ داخلہ کی طرف سے ان دونوں کے نفرت انگیز بیانات اور مسلم دشمنی پر مبنی سرگرمیوں کے باعث ’برطانوی معاشرے کے لیے نامناسب‘کہتے ہوئے ان دونوں کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
    مذکورہ واقعے سے چند ماہ قبل بھی فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو پر ہونے والے حملے کے بعد بھی دنیا بھر میں آزادیِ اظہار اور توہین مذہب سے متعلق بحث نے شدت اختیار کرلی تھی۔واقعے کے بعد دنیا بھر میں پیدا ہونے والے ردعمل میں جہاں افسوس اور غم کا اظہار کیا گیا وہیں دو طرح کے رجحانات جوکہ ایک دوسرے کے متضاد بھی ہیں سامنے آئے ۔
    پہلا رجحان جو کہ مغرب میں جاری ’اسلام فوبیا‘ کی منظم مہم کی وجہ سے پھیلایا گیا، اسلام مخالف منفی پروپیگنڈا ہے، جہاں مسلمان قوم کو بحیثیت مجموعی دہشت گرد کہا اور سمجھا جاتا ہے اور ہرواقعے کی وجہ اسلام کو قرار دے کر خود کو تمام تر ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی یک طرفہ بیانیے کی وجہ سے مغرب میں اسلام مخالف جذبات کو بڑھاوا ملا ہے، جس کا نتیجہ مسلمانوں کی املا ک کو نقصان پہنچانے،تشدد اور ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اس کے بالمقابل دوسرا رجحان جو کہ مسلم دنیا کے بنیادی موقف کی ترجمانی کرتا ہے ،آزادیِ اظہار اور توہین مذہب کے مابین حدود و قیود کا تعین اور تمام مذاہب عالم کے لیے احترام کا مطالبہ کرتے ہوئے مذہب سے جڑے پر تشدد واقعات کومغرب کے دوہرے معیارات اور اشتعال انگیزی کے خلاف ایک ردعمل سے تعبیر کرتا ہے۔
    ان دونوں بیانیوں کے درمیان ایک تیسرا موقف خودمغرب میں موجودہ وہ معتبر آوازیں ہیں جو تواتر سے مغرب کی غلط پالیسیوں پر تنقید اور خود ان کے اپنے درمیان پائے جانے والے تضادات کی نشان دہی کرتے ہوئے غلطیوں کی اصلاح کی صورت تجویز کرتی ہیں۔

    ذیل میں حالیہ واقعات کے تناظر میں بطور مثال مشہور مغربی جرائد میں اس موضوع پر شائع ہونے والی آرا کو شامل کیا جارہا ہے، جو کہ آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق سے متعلق مغرب کے دوہرے معیارات اور تضادات کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ آرا اس قسم کے واقعات کا غیرجانب داری سے جائزہ لیتے ہوئے ہر دو طرف ایک متوازن راے رکھنے اور پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
    اگر مغربی دنیا میں موجود اُن قوانین کا جائزہ لیا جائے، جو آزادیِ اظہار پر قدغن لگاتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورپ بھر میں ایسے کسی بھی قسم کے اظہار پر پابندی عائد ہے جو کہ نازیوں کے جرائم کو کم کرکے پیش کرے اور اس حوالے سے ہنگری، جرمنی، پولینڈ، اورچیک ری پبلک میں پانچ سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
    آزادیِ اظہارسے متعلق مشہور مفکر نوم چومسکی نے بھی ۲۰جنوری۲۰۱۵ء کو سی این این پر مغرب کی دوغلی پالیسیوں کی مذمت کی اورمغرب کے دوہرے معیارات کو ہی پر تشدد ردعمل کا ذمہ دار ٹھیرایا۔آخر میں آزادیِ اظہار سے متعلق پوپ کا بیان بھی خود مغرب کے لیے اپنی بے مہار آزادی کے حوالے سے مقام فکر ہے۔
    ۱۵جنوری ۲۰۱۵ء کو بی بی سی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پوپ فرانذک نے کہا کہ آزادیِ اظہار کی حدود ہونی چاہییں اور یہ کہ آزادیِ اظہار کے حق کے تحت آپ دوسروں کے عقائد کی توہین نہیں کرسکتے اور نہ ان کا مذاق ہی اُڑا سکتے ہیں۔
    مندرجہ بالا مثالیں جو کہ خود مغرب کے موقر جرائد اور لکھنے والوں کی آرا سے اخذ شدہ ہیں، سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خود مغرب نے آزادیِ اظہار سے متعلق دو الگ الگ اور باہم متضاد معیارات اپنائے ہوئے ہیں۔مغربی ممالک میں خود حکومت کی جانب سے میڈیا پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے صرفِ نظر اور تشدد کے واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر ردعمل اور منفی پروپیگنڈا، خود مغربی معاشرے میں انتشار، بے چینی اور ایک بڑھتی ہوئی تقسیم کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
    دوسری چیز جو ان حوالہ جات میں سامنے آتی ہے، وہ مغرب میں مذہب کے حوالے سے اپنایا جانے والا ایک منفی، جارحانہ اور بے رحم رویہ ہے۔ جس میں مذہب کے علاوہ ہر چیز کو تحفظ اور وقار حاصل ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مغرب مذہب کے حوالے سے شاید اتنا حساس نہ ہو جتنا کہ باقی دنیا کے خطوں کے لوگ بالخصوص مسلمان ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جانا چاہیے کہ دوسروں کے مذاہب کی تضحیک کی جائے اور ان کے ماننے والوں کے جذبات و احساسات کی پروا نہ کرتے ہوئے انھیں تمسخر کا نشانہ بنایا جائے۔
    آج کی دنیا کو بقاے باہمی اور احترام کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے برابری کی سطح پر بلاامتیاز قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مذاہب کا احترام تمام اقوام پر یکساں لاگو ہو۔

    _______________

    محمد عبداللہ فیضی

    اسسٹنٹ ریسرچ کوآرڈی نیٹر ،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد
    ماخذ: ترجمان القرآن
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment