مقصد انسانی

مقصد انسانی
موضوع : مقصد انسانی                           مصنف: سید آصف جلال
مذہب کسی بھی فرد کی دنیوی و اخروی زندگی کا محافظ ہوتا ہے، انسانی زندگی جب تک مذہب کے زیر اثر شاہراہِ زندگی پر گامزن ہوتی ہے تومعاملات زندگی اپنے بہترین ڈگر پر رواں دواں ہوتے ہیں، اور جیسے ہی مذہبی تعلیمات کی پیروی حیات انسانی سے نکل جاتی ہے تو زندگی ایک اسی شاہراہ پر بھٹکتی ہے جس کی کوئی منزل نہیں، ایک ایسے پتے کی مثل جو درخت کی شاخ سے الگ ہوکر ہواوں اور اندھیوں کی نذر ہوجاتا ہے، جب انسان معاملات و معمولات کو مذہب کے زیر اثر گزارتا ہے تو زندگی ایک روحانی ، باطنی اور جسمانی طور پر پرکیف مراحل سے گزرتی ہے۔


اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت فضل و رحمت و لطف و کرم کہ ہمیں انسان بنایا، اور انسانوں میں بھی ایک احسان ہم پر اور فرمایا کہ ہمیں کلمہ طیبہ کی دولت سے مالامال کیا۔ انسانی مجبور محض ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات مختار کل۔۔ اللہ تعالیٰ اگر چاھتے تو ہمیں غیر مسلموں کے کسی گروہ میں پیدا فرما دیتے،اس احسان پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، اور اس سے بڑھ کہ یہ کہ ہمیں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا، آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ؐ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو انسانی رہنمائی و بھلائی کے لئے ایک کتاب عطا کی۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ، اور نبی ؐ کی امت آخری امت اور یہ قرآن آخری کتاب اور بنی آخری نبی۔
ذات باری تعالیٰ قرآن کریم میں امت محمدیہ کی بعثت کے مقصد کو یوں بیان فرماتی ہے۔
ترجمہ: ’’ اور نہیں پیدا کیا ہم نے جنوں اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت کے لئے۔‘‘ (سورۃ الذٰریٰت:ایت54)
مندرجہ بالا ایت کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے حیات انسانی کی تشکیل نوکا مقصد عبادت الہیہ ہے،علماء اکرام فرماتے ہیں کہ ایمان کے ستر(۷۰) یا ستّر(۷۷) درجے ہیں اور عبادات کی حثیث ایک درجہ کی ہے اور باقی معاملات دنیہ جیسے حقوق العباد یعنی معاشرے کے افراد کے ایک دوسرے پر حقوق، جسمیں والدین کے حقوق ، بہن بھائیوں ، عزیزوں دوستوں ‘رشتہ داروں ، مسکیینوں ، حاجت مندوں ، یتیموں اور دیگر معاشرے کے افراد کے حقوق ہے جن کو ادا کرنا ایک کلمہ گومسلمان کا فرض ہے۔مسلماں اپنے اصل معنوں میں مسلمان تب کہلاتا ہے جب اس کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ احکامات اور بنی اکرم ؐ کے مبارک طریقے ہوں۔ جب انسان کلمہ کی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ماننا اس کااس پر فرض ہو جاتے ہیں، اور پھر یہ اس کی ذات پہ منحصر ہے کہ وہ احکامات الٰہیہ کو کیسے پورا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے نفاذکے ساتھ ساتھ ہمیں دو راستوں کا پتا بھی بتایا ۔ کہ یہ میرا راستہ اور یہ شیطان کا راستہ۔۔۔ رحمان کا راستہ جنت کا راستہ، جبکہ شیطان کا راستہ جہنم کا راستہ ہے۔


اسی طرح اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
ترجمہ: ’’تم بہترین امت ہو لوگوں کی نفع رسانی کی لئے نکالی گئی ہو، تم بھلی باتوں کا حکم کرتی ہو اور بری باتوں سے روکتی ہو، اور اپنے اللہ پر ایمان رکھتی ہو‘‘۔
امت محمدیہ کا مقصد ناصرف حقوق اللہ کی پیروی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ یہ کام بھی لگا یا کہ وہ لوگوں کے نفع رسانی اور اپنے مسلماں بھائی کے دکھ درد میں بھی شریک ہوں۔ اور انہیں نیک باتوں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے۔ یہ ایت مسلمان کی معاشرتی زندگی کو ایک تحفظ فراہم کرتی ہے۔معاشرتی ڈھانچہ کو برقرار رکھنے کے لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایسے اصول و مبادی عطا کئے جس پر چل معاشرہ اعلی اقدار کا علمبردار بنتا ہے۔
محترم قارئین صدائے مسلم! اگلے مضمون میں اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کی کوشش کرئنگے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے امت محمدیہ میں تفرقوں کو ختم کر کے انہیں ایک مقصد کے تحت اتفاق و اتحاک کی دولت سے مالا مال کر دے۔ (امین)

(اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازئے گا)



گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ