اُردو ہماری ہماری پہچان

اُردو ہماری ہماری پہچان
تحریر: حسنین ملک کالم نگار نوائے وقت 

بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے ایک موقع پر کہاکہ ’’کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک وہ اپنی قومی زبان کو تدریسی اور مِلی طور پر نافذ نہ کرئے‘‘۔دُنیا میں کسی نے آج تک اپنی زبان کو پس پشت ڈال کرترقی نہیں کی ہے ۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم انگلش بطور زبان نہیں سیکھتے بلکہ اپنے معاشرے اور روزمرہ استعمال میں اُس کے کچھ الفاظ بول کر اپنے لیے باعث طمانینت اور اپنے آپ کو
اعلی ٰ و برتر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگلش فوبیا سے نکل کر ہی ہم ایک قوم کی شکل میں ترقی کرسکتے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے کسی انگریز کو دیکھا ہے یاکسی اور مُلک کے باشندے کو جو کہ اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہوئے کچھ الفاظ انگلش کے بولتے ہوئے نظر آئے؟مگر یہاں ہمارے ہاں یہ ایک فیشن بن گیاہے اور بہت
مولوی عبدالحق
اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو بھی ایسے بولتے ہوئے دیکھا ہے اس کو ہم ایک قومی تحریک کی صورت میں روک سکتے ہیں کہ جب بھی کوئی شخص اُردو میں بات کرتے ہوئے انگلش کے اَلفاظ بیچ میں بولے فوراََ اُسکو روکیں کہ انگلش نہیں صرف اور صرف قومی زبان میں ایک دُوسرے سے بات کرنی ہے۔
گذشتہ دَنوں ایران ‘پاکستانی اور افغانستان کے صدور اِسلا م آباد میں اکٹھے ہوئے ۔ایرانی صدر نے اپنی قومی زبان ‘فارسی میں تقریر کی مگر افغانستان صدر کرزئی اور ہمارے صدر پاکستان جناب آصف علی زارداری نے انگریزی میں تقریر کی ۔بھارتی لوک سبھا کی سپیکر میراکمار اِسلا م آباد آئیں ۔میراکمار نے شفاف اُردو میں تقریر کی مگر ہماری سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے انگریزی میں تقریر کی ۔کیاہماری پارلیمنٹ اور ہمارے حکمران جب بیرون ممالک اور یہاں مملکت کے معاملات کے حوالے سے بولیں تو اپنی قومی زبان کی ترویج کے لیے اُردو میں بولنے کا آغاز نہیں کرسکتے ؟۔کیا ہمارے دفاتر میں اُردو میں تمام دفتری کا م نہیں ممکن ہو سکتے ہیں؟ ۔عام پبلک کو کس قد ر اذیت کا سامنا ہوتا ہے جب وہ سرکاری دفاتر میں کسی بھی معاملے کے لیے جاتے ہیں توسارے دفتری کاغذات کے فارم انگلش میں ہوتے ہیں۔ اَب تو کمپوٹر پر اُردو کی ترویج کا نظام موجود ہے تو پھر ہم کیوں نہیں اُس زبان کو اپنی روزمرہ کاموں میں استعمال کرسکتے جس کو قائد اعظم محمد علی جناع ؒ نے پاکستا ن کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ ابھی چند ماہ پہلے معلوم ہوا ہے کہ حکومت سندھ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ اگلے سال 2013ء سے سندہ کے تمام سکولوں میں کلاس ششم سے لے کر میٹرک تک تمام تعلیمی اداروں میں بشمول کیڈٹ کالج پٹارو‘ چائنیز زبان بطور لازمی مضمون پڑھائی جائے گی ۔یہ فیصلہ وزیر اعلی سندہ کے وزیر اعلی ٰ ہاوس میں وزیر اعلی ٰ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں کیا گیا۔وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ اس سے مستقل قریب میںیہ بچے چائنیز زبان سیکھ کر آنے والے وقت میں چائنا میں تعلیم ،تجارت کے شعبے میں اِ ن کو وسیع تر مواقع ملیں گے اور چائنا ء سے کاروبار کاذریعہ زبان جاننے کی وجہ سے بڑے گا۔یہ زبان سیکھنے سے ہم اُس مُلکی ثقافت سے شناسائی حاصل کرلیں گے۔چائنا والے اس وقت دُنیا بھر میں اپنی زبان کی ترویج کے لیے بے پناہ کام کررہے ہیں اس وقت ایک اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اکاون کروڑ افراد چینی زبان استعمال کر رہے ہیں جو کہ انگریزی گے بعد پوری دُنیا میں دُوسرے نمبر پر ہے ۔اس کے علاوہ اس وقت امریکہ بھر کے کالجوں اور درسگاہوں میں پچاس ہزار سے زائد طالب علم چینی زبان سیکھ رہے ہیں جبکہ برطانیہ کے سو سے زائد سکول چینی زبان کی تعلیم بھی دے رہے ہیں۔آپ نے سکول کی سطح پر اگر نوجوانوں کو چائنیز زبان سکھانی ہی ہے توخُدارااس کو آپ لازمی مضمون نہ بنایں بلکہ میٹرک کے بعد سرٹیفیکیٹ کی شکل میں چھ ماہ کا چائنیز زبان سیکھنے کا ایک سرٹیفیکیٹ کورس کا اجرا ء مفت کر سکتے ہیں تاکہ جو نوجوان مستقبل قریب میں چائنا ء میں کاروبار کے لیے راہیں تلاش کرنا چاہتے ہوں اُن کے لیے یہ بہترین ثابت ہو مگر اس کے ساتھ ہمارے درآمد کے ادارے کواِن نوجوانوں کو دُنیا بھر میں ہمارے مُلک سے درآمد کرنے والی اشیاء کے بارے میں بھی ایک کورس بھی کروانے سے ‘راہنمائی مل سکتی ہے اور ہمیں ترقی کی منازل پر لے کر جاسکتاہے۔ چائنا ء ہمارا سب سے زیادہ ہمدرد ومخلص دوست ہے ہمیں چائنیز زبان سیکھنے پر اعتراض نہیں ہے ۔چائنیززبان کو ضرور نوجوان نسل کو سکھائیں تاکہ آنے والے وقت میں ہم چائنا ء کے ساتھ تجارت کرکے اپنے مُلک کی معیشت کو بہت آگے لے جایں۔مگر کسی بھی مُلک کی زبان کو اپنے تعلیمی نظام میں بطور لازمی مضمون شامل نہیں کرنا چاہیے ۔دُنیا میں کیا کبھی کسی مُلک نے ایساکیا ہے؟۔چائنا زبان سیکھنے کے لیے آپ کالجوں اورجامعات کی سطح پر سرٹیفیکیٹ و ڈپلومہ کا اجراء ضرور کریں ۔یہ زبان سیکھنے والوں کو جیسے نمل یونیورسٹی اِسلا م آباد کا شعبہ چائننیز لینگوئج ‘ چائنا ء حکومت کے تعاون سے پاکستانی نوجوانوں کو چائننیز زبان کے مختلف لیول مکمل کرنے پر وظائف دیتاہے۔ اسی طرح کا سلسلہ ہر سیکھنے والے کے لیے پُورے پاکستان کی جامعات میں بھلا ہو مگر ہماری اپنی پہچان ‘ہمار ا قومی تشخص ہماری اپنی زبان اُردوہے ۔پاکستان کے مقتدرہ قومی زبان کے ادارے کو بھی اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور چائنا ء ودیگر ممالک میں اُردو زبان سیکھنے کے مرکز بنانے چاہیں تاکہ ہماری زبان کی ترویج بھی بین الاقوامی سطح پر ہو اوربین الاقوامی تجارت میں لوگوں سے رابطہ ہماری اپنی زبان میں بھی ممکن ہو۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وفاقی اُردو یونیورسٹی کراچی ایک پاکستان کی واحد جامعہ ہے جس کی تمام مراسلت اُردو زبان میں ہوتی ہے۔کیا باقی پاکستان کی پبلک و پرائیویٹ جامعات میں اُردو میں تمام دفتری مراسلا ت ممکن نہیں؟۔ہمارے پارلیمنیٹرین اس حوالے سے قانون ساز ی کریں کہ تمام سرکاری دفاتر میں بولنے اوردفتری مراسلات اُردوزبان میں ہوگی ۔قائداعظمؒ نے 21 مارچ 1948 ء کو ڈھاکا میں اپنے خطاب میں فرمایا’’میںآپ کوواضح طور پر بتادینا چاہتاہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردوہوگی اوراُردو کے سواکوئی زبان نہیں ہوگی۔دیگراقوام کی تاریخ اِس اَمر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی اور کام کرسکتی ہے۔پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اورصرف اُردو ہی ہوگی ‘‘۔۔۔۔


گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ