مروجہ بینکاری نظام کا تنقیدی جائزہ

     مروجہ بینکاری نظام کا تنقیدی جائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری طالب حسین۔

    موجودہ اسلامی بنکاری کے خلاف ایک فتویٰ بعنوان"متفقہ فتویٰ" ٢٩ اگست ٢٠٠٨ کو شائع ہوا ،اور پھر دو تین ماہ بعد جامعتہ العلوم السلامیہ علامہ محمّد یوسف بنوری ٹاون(کراچی) سے حرمت(ربا ) پر ایک کتاب چھپی ،اس کے بعد اس مو ضوع پر لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا جو کسی نہ کسی انداز میں اب بھی جاری ہے ۔یہ ایک اقتباس ہے " اسلامی بنکاری اور علماء"--طبع اگست ٢٠٠٩ -الافنان کراچی. یہ کتاب جس کا ذکر گیا "
    مروجہ اسلامی بنکاری-تجزیاتی رپورٹ" کے نام سے چھا پی گئی - اور شائد ماہنامہ بینات کراچی سے ملتی ہے. اول الذکر کتاب جس کا تعلق مولا نا محمّد تقی عثمانی اور انکے رفقاء سے ہے ، دوسری کتاب کے رد عمل میں لکھی گئی . ناقدین نے لکھا ہے کہ "اسلام اور بنکاری اپنی بنیادی خصوصیات اور ہدف کی وجہ سے دو متضاد حقیقتیں ہیں ،اس لیے اس معنی میں نہ تو بنکاری کا اسلامی تصور قابل قبول ہے اور نہ اسلام اور بنکنگ کو جمع کرنا ممکن ہے (ص-١٥)----صفحہ ١٦ پر اس اصول کی وضاحت کی گئی ہے -لہٰذہ امت مسلمہ تمام علماء کو "اسلامی بنکاری" کی ہر کوشش سے توبہ کر لینی چاہے ۔۔۔صفحہ ٣٤ پر مقدمے میں لکھا ہے-" اگر غور فرمایا جاۓ تو بنکاری کس اسلامی تصور شرکت و مضاربت کے منصوص و منقول احکام میں منحصر ہے، اگر کسی مصلحت و حکمت یا علت کو بنیاد بناتے ہونے اسلامی سرمایہ کار کسی اور بنیاد پر بنکنگ کے لیے چل نکلے تو یقیناً اس میں مذکورہ خرابی آئے گی۔
    ناقدین نےصفحہ ٣٤ پر لکھا ہے کہ " ہماری معلومات کے مطابق مروجہ اسلامی بنکوں میں اجارہ اور مرا بحہ وغیرہ ہ کے نام سے سرمایہ کاری کے جو طریقے سودی بنکوں کے طرز پر اختیار کی گنے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ شرکت و مضاربت کی شرعی بنیادوں پر بنکنگ کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بلکہ سودی نظام کے ساتھ مشابہت اور سودی حیلے کا کا م دینے کی وجہ سے اسلامی سرمایہ نظام کی ناقص اور مسخ شدہ تصویر بھی پیش کر رہے ہیں، اس لیے ان مسخ شدہ صورتوں کو مروجہ اسلامی بنکاری سے جدا کیے بغیر اتفاقِ رائے مشکل ہےٗٗٗ۔
    صفحہ ٤٤ پر ناقدین لکھتے ہیں- مروجہ اسلامی بنکوں کے غالب عنصر کی رعایت کرتے ہونے مروجہ اسلامی بنکوں کو "اسلامی بنک" کی بجائے "حیلہ بنک" کہنا انصاف اور دیانت کا تقاضا ہو گا۔
    صفحہ -٧٤،٧٥ پر ہے-- یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ پاکستان میں مروجہ اسلامی بنکاری کے موجد حضرت مولا نا مدظلھم(تقی عثمانی صاحب)ہیں. اس سلسلے میں ملکی سطح پر ارباب فقہ و فتاویٰ اور اہل علم کی باقاعدہ متفقہ مشاورت تو نہیں ہو سکی تھی. البتہ مولانا کی شخصیت اور آپ کی امانت و دیانت پر اعتماد کرتے ہونےعوام الناس مروجہ اسلامی بنکاری کی طرف راغب ہونے اور اس نظام کا حصہ بننا شروع ہو گنے-
    صفحہ ٨٣ پر ہے. مروجہ اسلامی بینکوں کو "اسلامی" کا نام دینے میں ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے حامی اور مخلف تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان بینکوں کے معاملات سو فیصد اسلامی ہرگز نہیں ہیں.۔۔۔۔۔۔ پاس جو ادارہ اسلام کی چند جزئیات لے کر (وہ بھی قطع و برید اور کانٹ چھانٹ کے ساتھ) اپنے اوپر پورے اسلام کا"لیبل" ظاہر کرے تو عملا ایسا کرنا بد ترین خینت اور دھوکہ دہی کہلائے گا۔
    یہ تھے اقتباسات جو ناقدین اسلامی بنک( بلکہ ناقدین مولنا تقی عثمانی اور انکے ساتھ کام کرنے والے قابل قدر حضرات) نے مندرجہ بآلا کتاب میں لکھے تھے -- مجوزین نے بھی بہت سے علماے کرام کی آرو ں اور فتویٰ کا اہتمام کیا اور اس کے رد عمل میں کچھ اپنے اپنے خیالات کا اظہآر کیا۔
    مجوزیں "اسلامی بنک " اور حامیان مولنا محمّد تقی عثمانی کتاب" اسلامی بینکاری اور علماء"-الافنان کراچی --میں لکھتے ہیں-----اس وقت دنیا میں کچھ علماء اسلامی بنکاری اور تکافل وغیرہ کے ساتھ عملا وابستہ ہیں اور کچھ علماءان پر اعتماد کر رہے ہیں،بعض علماء مخالف بن گئے -مخالفین کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ مروجہ اسلامی بنکاری کو قطعی غیرشرعی اور غیر اسلامی کہہ دیا، جس کی وجہ سے ہر طرف ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی. یہ فتویٰ صادر کرنے والوں میں ایسے مفتی بھی شامل ہیں جن کو نفس بنکنگ اور اسلامک بنکنگ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، صرف چند حضرات کی تحقیق پر اعتماد کر کے فتویٰ پر دستخط کر دییے ہیں، حالانکہ ایسا کرنا علم اور دیانت کے خلاف ہے. اور فتویٰ لکھنے والوں نے بھی بے احتیاطی کے ساتھ حرمت کا فتویٰ صادر کر دیا، حالانکہ ایک ماہر،تجربہ کار،وسیع النظر،دور اندیش اور صاحب بصیرت مفتی بعض نازک اور عالمگیر مسا ئل میں ایسا نہیں کرتا ، بہت احتیاط کرتا ہے.(ص-٤٧-٤٨)
    صفحہ ٤٩ پر لکھتے ہیں شیخ الاسلام مولنا مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب نے معیشت کے میدان میں علمی سطح پر بہت کام کیا ہے، لیکن لاہور کے ڈاکٹر مفتی عبدلواحد صاحب کا کام حضرت مو صوف کی محنت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کے میدان میں فقہی کام کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کر کے اس کو آگے بڑھائیں ،غلطی نظر آئے تو اصلاح کریں یا متبادل جائز صورت بتایں ، گزشتہ فقہاء نے ایسا ہی کیا. لیکن لاہور کے مفتی صاحب اپنی تنقیدی کتاب کے "پیش لفظ" میں لکھتے ہیں" ہمارے پاس نہ اتنے وسائل ہیں نہ اصحاب کار ہیں، نہ اتنا حوصلہ ہے اور نہ حکومت سے منوانے کی توقع ہے" --یہ بڑی عجیب بات ہے کہ خود بھی ایک کام نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی کرنے نہیں دیتے، اور اس سے عجیب تر ہے کہ خود اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ اتنا حوصلہ ہے ، یعنی متبادل جائز نظام پیش نہیں کر سکتے.
    صفہ ٥٢ پر ہے.غیر سودی بنکاری کے سلسلے میں مولانا نے جو بھی کام کیا ہے وہ تنہا اپنی انفرادی راۓ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ، مجلس تحقیق مسئل حاضرہ کی تحریر ، مجمعالفقه الاسلامی"اقرار دادوں اور المجلس الشرعی کے صادر کیے ہونے معاییرکی بنیاد پر کیا ہے. پھر بھی یقینا اس طریق کار کو غلطیوں سے پاک نہیں کہا جا سکتا اور اگر کسی غلطی کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو اس کے تدراک کی پوری کوشش کی جاتی ہے ،نیز اگر اب بھی اہل علم کو اس کے طریق کار میں اشکال ہو تو یہ دروازہ ھر وقت کھلا ہے کہ وہ اشکال سامنے آے اور اس پر فقہی نقطہ نظر سے غور کیا جاۓ.

    صفحہ ٥٧ پر لکھا ہے کہ-(میزان بنک کے عملے کی وضع قطع، اسلامی بنکنگ کے لیے اسلامی تعلیم اور مہارت کا نہ ہونا وغیرہ) کے بارے میں جو باتیں ذکر کی جاتی ہیں وہ واقعتہ قا بل اعتراض ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ مولنا تقی عثمانی صاحب یا شریعہ بورڈ کا کوئی رکن بنک کا نہ مالک ہے نہ بنک کا حصہ دار ہے، نہ بنک کے انتظامی معاملات اور عملے کے تقرر سے مولانا تقی صاحب کا کوئی تعلق ہے، ان کا کام تجارتی عقود و معاملات کے بارے میں یہ دیکھنے کی حد تک محدود ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں ،اس کے باوجود مولانا تقی صاحب وقتا فوقتا اس بارے میں بنک کی انتظامیہ کو متنبہ کرتے رہتے ہیں،اس کا کچھ اثر بھی ظاہر ہوا ہے لیکن یہ خرابی بہر حال ابھی تک موجود ہے اور اس کے ازالے کی ممکنہ کوشش بھی ہو رہی ہی، لیکن ظاہر ہے کہ محض عملے کی وضع قطع کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو تجارتی معا ملات بنک میں ہو رہے ہیں وہ حرام ہیں.
    صفحہ ٥٩ پر ہے. ا ن تمام باتوں کے باوجود ا ن اداروں کو خامیوں اور غلطیوں سے پاک نہیں کہا جا سکتا،بلخصوص جبکہ یہ نظام اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، اس لیے موزوں رجال کار کی فراہمی ایک مستقل مسلہء ہے، اور اسے ھر قدم پر سودی نظام کی پیدا کی ہوئی مشکلات سے سابقہ پیش آتا ہے، ہماری کوشش یہ ہونی چاہے کہ حتی الامکان ان خامیوں اور غلطیوں کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی جاۓ.نہ یہ کہ ان خامیوں کی وجہ سے غیر سودی بنکاری کے اس سارے کام کو بیک جنبش قلم رائیگاں اور نہ جائز قرار دے کر ان سے بالکل قطع تعلق کر لیا جاۓ. اس سے بظاھر یہ ادارے ختم نہیں ہونگے لیکن اول تو ا ن کی خامیوں میں اور اضافہ ہو گا اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان خلفشار بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں دراصل سودی نظام اور ا ن لا دین طاقتوں کے ہاتھ مظبوط ہوں گے جو ا ن کوششوں کے دشمن ہیں اور جن کا عین مفاد یہ ہے کہ غیر سودی بنک ناکام ہوں اور ا ن کے اس پروپیگنڈے کو تقویت حاصل ہو کہ سود کے بغیر تجارت و معیشت چل نہیں سکتی.
    In his book "Islamic Banking"DR. Maulana Ejaz Ahmed Samdani- Lecturer Jamia Darul Uloom Karachi ,writes."The current Islamic Banking methods are not ideal but are indeed permissible"--page 14.
    In the same book at page-7 - Mahmood Ashraf, relating to the said Darul Ulom Karachi writes---One of the links of this chain of Jurists is Sheikh-ul-Islam Hazrat Maulana Muhammad Taqi Usmani Sahib..,who after studying and understanding the depths of interest based banking utilized his efforts tirelessly in giving a form of reality to practical Islamic Banking based on the Shariah ruling of the Quraan and Sunnah. It is due to his endeavors and gallant efforts that the practical form of Islamic Banking is present before all Muslims.
    ہم نے ایک ہی دین،مذہب، مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء --مگر دو مدراس جامعتہ العلوم اسلامیہ کرا چی اور دارالعلوم کراچی اور انکے حا میان کی آراؤں کو کچھ اختصار سے لکھا ہے اور وہ بھی انہی کے ماخذوں سے ---جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک فریق کا کہنا ہے کہ اسلامی بنکنگ اسلام میں ممکن ہی نہیں ہے ،یہ جو بنکنگ ہے یہ یا تو غیر اسلامی ہے اور یا حیلوں کی تعمیرپر براجمان ہے -- ان حضرات نے مروجہ اسلامی بنکاری کو مردود کہا ہے -- لیکن دوسری طرف کے حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ اس کام میں عثمانی برادران نے سخت محنت کی ہے اور یہ بنکاری اپنی موجودہ نوعیت میں اسلامی بنکاری ہے ،اگرچہ ابھی یہ آئیڈیل نہیں ہے لیکن حرام بھی نہیں ہے . اگر اس میں خرابیاں ہیں تو انکو دور کرنا چاہے نہ کہ اس میدان کو غیر اسلامی معیشت کے لیے کھلا چھوڑ دینا چاہے . ان حضرات کا بہت سا مواد اسلامی معاشیات پر ملتا ہے -لیکن لکھنے والے عملی طور پر بنکنگ میں نا تجربہ کر بتایے جاتے ہیں.   
    Mentioning About the practices in Islamic banking our young Research Scholar (for P.H.D) Islamic economy writes----------------------------Finally, Islamic banks had been providing liquidity to the conventional banks using commodity Murabaha. Through this, they have been able to invest their surplus liquidity. But, the investment with conventional banks leads to some very unfortunate outcomes. Islamic banks take deposits of customers after convincing them about Islamic banking. But, when they pass on these deposits to conventional banks, the conventional banks provide interest based loans from these funds. Hence, this is an unfortunate state of affairs". Such practices are totally against the Islamic Laws. 
     mazeed yeh keh. سود کے متعلقہ کیس "وفاقی شرعی عدالت" اسلام آباد میں پینڈنگ (زیر سماعت) ہے. اور سکالرز دو گروہوں میں بٹے ہوتے ہیں بلکہ اس بھی زیادہ تین کہہ لیں تو زیادہ بہتر ہے . اور سود کی تعریف اپنے اپنے طریق سے کرتے ہیں - اور اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی اب جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں کہا جا رہا ہے سود کی تعریف عربوں کے دور جہا لت کو مد نظر رکھ کر کی جاۓ، کیونکہ طلوع اسلام کے وقت عربوں کی رسوم کو بھی تشریعی مادہ تصور کیا گیا تھا. لیکن اس بات پر پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ سود اسلام میں نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کی وعید بھی بہت سخت ہے . اس مو ضوع پر بھی لکھا جا رہا ہے.
    "بیسویں صدی میں ربا کی تعبیرات"ہمارا نوٹ ہے اس فورم میں بھی اور مزید بھی لکھ رہے ہیں.۔
    (دوستوں یہ مضمون ہمارے فیس بک کے "حلال اکانومی فورم" پر ایک صاحب کے سوال "کہ اسلامی بینکاری کے متعلق اپ کی رائے ہے" کے جواب میں جناب طالب صاحب نے رقم کیا ہے۔۔۔۔۔ مذکورہ پوسٹ کر جانے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔ )

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment