جہاد کا تصور

    جہاد کا تصور۔۔۔۔۔ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی کتاب "جنگ اور اسلام کا تصورِ جہاد" سے اقتباس
    بنیادی طور پر جہاد کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش اور جانفشانی سے کام کرنا ہے۔ لغوی اعتبار سے جہاد کا مطلب جدوجہد یا جاری رہنے والی سخت کوشش ہے۔ جو لوگ عربی زبان سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہوں گے کہ اس زبان میں مختلف ابواب ہوتے ہیں۔ ایک ہی باب کے الفاظ کے مطالب میں تو تسلسل ہوتا ہے لیکن ہر ایک کامفہوم یا مدعامختلف ہوتاہے۔ مشتقات کے اعتبار سے ، جہاد کے لفظ کے باب میں قتال (لڑائی)نزال (جھگڑا)، نصاب (متعین مقدار) وغیرہ شامل ہیں۔ دو متماثل اصطلاحیں جو جہاد کے تصور سے
    متعلقہ ہیں اور جن کا مادّہ ایک ہی ہے، ایک ’مجاہدہ ‘جس کا مطلب ہے مشترکہ جدّوجہد اور دوسرا لفظ ایک مشتق ’اجتہاد‘ ہے جس کا مطلب ہے مرتکز کوشش۔ اگر یہ کوشش علمی ہے تو یہ اجتہاد ہے، اگر یہ روحانی ہے تو مجاہدہ ہے ، اور اگر یہ جسمانی ہے تو یہ جہاد ہے۔
    مجاہدہ اور اجتہاد کے حوالے کے بغیر جہاد کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ، جہاد کے بنیادی فلسفے کا اسلام کی آفاقیت کے ساتھ بڑا گہرا اور ناقابلِ جُداتعلق ہے۔ اس تعلق کا اعتراف ’’انسائیکلو پیڈیا آف سلام‘‘ کے مصنفین نے بھی کیا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ ’’اسلام کی آفاقیت اس کی تعلیمات کا جزوِ لاینفک ہے اور یہ جہاد کے فلسفے کے لیے بنیادی اور مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلام کی آفاقیت کی مرکزیت بالخصوص جہاد اور بالعموم اسلامی تعلیمات کے لیے بہت اہم ہے‘‘ ۔ جہاد اور اسلامی تعلیمات کی آفاقیت کے مابین ناگزیرتعلق کو قرانِ پاک کی سورۃ الحج میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورۃ ، جو کہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی، اس میں پہلی مرتبہ ایک ایسی آیت شامل تھی جس میں دفاعی جنگ اور طاقت کے استعمال کا ذکر تھا۔ اس کے الفاظ ہیں: ’’ جن لوگوں پر ظلم ہوا ہے، انہیں اجازت دے دی گئی ہے۔ اللہ یقیناًان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکالا گیا ہے۔‘‘ اس آیت کے ذریعے مدینہ کے مسلمانوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کا دفاع کریں اور ان لوگوں سے جنگ کریں جنہوں نے انہیں ان کے گھر وں سے نکالا اور ان پر ظلم کیا۔ اسلامی اصطلاح میں یہ آیت ’’اجازت کی آیت‘‘ یا آیت الاِذن کے نام سے معروف ہے۔
    قرآن کے کچھ مفسرین نے اس آیت کو ایسی سورت میں رکھنے کی معنی خیزی پر متوجہ کیا ہے جو حج سے متعلق ہے۔حج ، یعنی اسلامی سفرِ زیارت جو کہ د نیا کے مختلف حصوں کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ کرتے ہیں۔ حج کے موقع پر حجّاج کرام یا زائرین ، مکّہ اور اس شہر کے گردونواح میں جمع ہوتے ہیں۔ مختلف نسلوں اور مختلف قوموں کا یہ اجتماع اسلام کی آفاقیت اور مسلمانوں کے اتحاد و یگانگت کا مظہر ہے۔ سورۃ الحج کاآغاز یومِ آخرت کی قرآنی تصویر کشی سے ہوتا ہے جب تمام انسان اپنے خالق کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ اس کے بعد حج کے متعلق گفتگو کی گئی ہے اوردرمیان میں جہاد کی اجازت کا ذکر ہے۔ سورۃ کا اختتام جہاد کے مختصر حوالے ، حضرت ابراہیمؑ اور مسلمانوں کے آفاقی کردار کے حوالے سے ہوتاہے۔ان تمام مرکزی خیالات میں بڑالطیف سا تعلق ہے، ان میں سے ہر ایک کا تعلق اسلام اورانسانیت کی آفاقیت سے ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن تمام انسانوں کا اکٹھا کیا جانا، مسلم امت کی آفاقیت اوراس کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی وحدت کی علامت ہے۔ حج ایک چھوٹے پیمانے پر اسلام کی آفاقیت ، انسان دوستی کی علامت اوراس کا مظہرہے۔اسی طرح جہاد مسلم امت کی وحدانیت اوراس کے پیغام کی آفاقیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ جہاد کا مقصد لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کروانا نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک کی آیت سے اچھی طرح واضح ہوتاہے: ’’ دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ اس کی بجائے ، جہاد کا مقصد افرادِ انسانی اورمعاشروں میں ہمہ گیر ، ہم آہنگ اورمکمل تبدیلی لانا ہے۔ افراد اورمعاشروں کی مکمل اورہم جہت تبدیلی، حتمی مقصد ہے جو مختصر وقت میں حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک دو دن حتیٰ کہ دس یا بیس سال میں بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ ہر ہر مسلمان کا مستقل اورزندگی بھر کا مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جب بھی جہاد کی جانب اشارہ کرتا ہے تو یہ افواج، حکمرانوں اورحکومتوں کا حوالہ نہیں دیتا بلکہ یہ افراد کا حوالہ دیتاہے۔
    قرآن پاک میں بہت سی آیات ایسی ہیں جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہیں’’ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اورجہاد کرتے ہیں‘‘ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جونہی کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتاہے اورالہامی کتاب یعنی قرآن پاک میں مذکور پیغام کی آفاقیت کو تسلیم کرلیتا ہے تو انسانی معاشرے کی فلاح کے لیے کی جانے والی مسلسل اورہمہ جہت کوششوں کا حصہ بننا اس پر فرض ہوجاتاہے۔انسانی معاشرے کی بہتری کی کوشش محض جسمانی بہتری ، مادی خوشحالی یا انسانی زندگی کے ظاہری حسن تک محدود نہیں ہے، اگرچہ اسلام ترکِ دنیا کا درس نہیں دیتا اورایک متوازن زندگی میں مادی خوشحالی کے کردار کوتسلیم کرتاہے اورایسی خوشحالی کو وہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ، نہ کہ انسانی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ اس لیے جہاد یا اصلاح اوربہتری کی کوشش کا آغاز انسانی روح اورجسم کے اندر سے ہوتاہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ اسلام ، کچھ متضاد یا چند مخصوص رجحانات کے تحت انسان کو تقسیم کرنے کے تصورکا حامی نہیں ہے۔ انسان اللہ کی بڑی پیچیدہ مخلوق ہے ، اس قدرپیچیدہ جتنی کہ یہ ساری کائنات ہے۔ قرآن ایک انسان کی تخلیق کو پورے آفاق اورکائنات کی تخلیق سے تشبیہہ دیتاہے۔ ایک انسان اپنی صلاحیتوں اورامکانات کے اعتبار سے اتنا ہی لامحدود ہے جتنی یہ ساری کائنات۔ اس قابلیت کو سامنے لانے ، اس کو عمل میں بدلنے اورہر قدم پر اس صلاحیت کو عمل میں ڈھالنے کے کام کو یقینی بنانے کے لیے ایک مسلسل کوشش درکار ہے۔ یہ مسلسل کوشش جہاد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ اگر تو دل پاکیزہ ہے، ساری زندگی بھی پاکیزہ ہوگی۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد نے فرمایا ’’جان لو کہ انسان کے جسم میں (گوشت کا) ایک ٹکڑا ہے۔ جب تک یہ ٹکڑا درست رہتاہے، ساراجسم درست رہتاہے اورجب یہ ٹکڑاآلودہ ہوجاتاہے تو سارا جسم آلودہ ہوجاتاہے۔ یہ ٹکڑا دل ہے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب نمبر۳۹، حدیث نمبر ۵۲)۔‘‘ چنانچہ اس کوشش میں روح اوردل کی پاکیزگی پہلا قدم بن جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص باطنی طورپر متحرک نہیں ہے تو وہ ظاہری طور پر بھی متحرک نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جہاد بالنفس یا اپنے نفس کے خلاف کوشش جہاد کا پہلا مرحلہ بن جاتی ہے۔
    بعض اسلامی اورخاص طورپر صوفی ادب میں جہاد بالنفس کو جہادِ اکبر(یہ ایک حدیث پر مبنی ہے جسے ضعیف سمجھا جاتا ہے اوراسے بیہقی نے روایت کیا ہے، کتاب الزہد الکبیر، حدیث نمبر ۳۸۴)یابڑا جہاد کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جہاد کی یہ قسم زیادہ قدروقیمت کی حامل ہے یا اپنی اہمیت اورذرائع کے اعتبار سے افضل ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک مسلسل کوشش ہے جو انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ جہاد کی اس قسم میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہو جب وہ یومِ آخرت ، جہاں وہ صرف اپنے خالق کو جوابدہ ہوگا، میں اپنی کامیابی کے لیے کسی قسم کی اندرونی مشق میں مصروف نہ ہو۔ نبی کریمؐ نے اس سلسلے میں مثالی رویے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراس کے احکامات کو اس طرح بجالانا چاہیے گویاکہ تم اسے دیکھ رہے ہو اوراگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ بہرحال تمہیں دیکھ رہاہے‘‘(الصحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بیان الایمان، حدیث نمبر ۸)۔اس حدیث کا عام فہم مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان کو خدا کی موجود گی کا جیتا جاگتا احساس اوراس بات کی مستقل آگاہی ہونی چاہیے ۔ اس لیے ہر شخص کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے اعمال اورکردار کے لیے قیامت کے دن جوابدہ ہے۔
    اگر آگاہی کا یہ درجہ حاصل ہوجاتاہے تو جہاد کا پہلا مرحلہ سر ہوجاتاہے۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات اوراس کے ساتھ ساتھ نبی کریمؐ کی بہت سی احادیث ایسی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا( طبرانی، المعجم الاوسط، جلد پنجم، دارالحرمین، قاہرہ، ۱۹۹۵ء، حدیث نمبر ۴۸۷۵، ص ۹۶)۔ یہ صرف ان معنوں میں جاری رہے گا کہ ہر ہر مسلمان پریہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اپنے نفس کو مسلسل پاک کرتا رہے اوربرائی کی طاقتوں کے خلاف پیہم برسر پیکار رہے۔ یہ مسلسل کوشش دینی و اخروی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے ۔
    شاہ ولی اللہ دہلوی جو ہندوستان میں اٹھارویں صدی عیسوی کے دوران، مسلمان فلسفے اورمذہبیات کے عظیم ترین مبلغ سمجھے جاتے تھے(ان کی زندگی اورکارناموں کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، غازی ، ۲۰۰۲ء،) انہوں نے جہاد کو الہامی پیغام کی آفاقیت اوراس کی ابدیت کے معنوں میں واضح کیا ہے۔ ان کے خیال میں الہامی پیغام کی اکملیت اورکاملیت اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ ایک پائیدار، قابل عمل اورعملی پیغام ہو۔ اس پیغام کو قابلِ عمل، عملی اورپائیدار بنانے نیز اس کی مستقل حیثیت اوراکملیت کو قائم رکھنے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت جہاد کے ذریعے پوری ہوتی ہے ( ولی اللہ، ۲۰۰۴ء ، ص ۲۹۸۔)
    جہاد کی کامیابی کے لیے نہ صرف طویل جدوجہد بلکہ استقامت کے پائیدار جذبے اورصبر، جس کا مطلب ہے نہ صرف استقامت بلکہ اپنے مقصدسے لازوال وابستگی، کی ضرورت ہے۔ جب تک بے خطر اوربلاتوقف، استقامت اورمسلسل جدوجہد نہ ہو، یہ مشق جاری نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں جہاد اورصبر کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے(مثال کے طورپر دیکھیے: القرآن ، ۱۶:۱۱۰؛ ۲ : ۲۴۹؛ ۳ :۱۲۰، ۱۲۵، ۱۴۲، ۲۰۰؛ ۸ : ۴۶ اور۴۷ : ۳۱)۔ اسی طرح محدثین نے صبر سے متعلقہ احادیث کو اپنی کتب میں جہاد سے متعلق ابواب میں شامل کیا ہے(بخاری، مسلم ، ابوداؤد وغیرہ میں جہاد کے ابواب ملاحظہ کیجیے مثلاً ، بخاری ، کتاب الجہاد، باب نمبر ۳۲ اور ابوداؤد، کتاب الجہاد ، ص ۴۹۔) صبر اورجہاد سے متعلق آیات و احادیث کا ساتھ ساتھ ہونا، اس بات کی جانب اشارہ کرتاہے کہ صبر، جو کہ بنیادی طورپر ایک روحانی اوراخلاقی صفت ہے، بیرونی جدو جہد کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے۔ اندرونی صفات کے بغیر، بیرونی جدوجہد بیکارِ محض ہے۔
    روحانی جہاد کے مرحلے کے بعد، ایک دوسرا مرحلہ آتا ہے جس کا نام ہے جہاد بالقرآن یا قرآن کے ذریعے کوشش ۔ جہاد کی یہ شکل یا مرحلہ خود قرآن میں بیان ہواہے، خاص طورپر ایک سورۃ میں جو کہ مکہ میں نازل ہوئی۔ ارشاہوتاہے:
    ’’وَجَاھِدْھُمْ بہٖ جِھَاداً کَبِیْرا‘‘ ’’(اے نبیؐ) (کفار کے خلاف) (قرآن) کے ذریعے مسلسل اوربڑی کوشش کرو‘‘(القرآن ، الفرقان، ۲۵: ۵۲۔) بالفاظ دیگر، قرآن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ کوشش جاری رہے یہاں تک کہ یہ پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جائے اورہر شخص قرآن کے پیغام سے واقف ہوجائے۔ اس کوشش کا مقصد کبھی بھی لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرنا نہیں رہا۔جہاد بالقرآن کا سادہ سا مقصد یہ ہے کہ خدا کے پیغام کو قرآن کی زبان میں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ ’’تاکہ جو لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں وہ دلیل کی بنیاد پر زندہ رہیں اور جنہیں ختم ہونا ہے وہ دلیل کی بنیاد ہر ختم ہوں‘‘( القرآن، الانفال، ۸: ۴۲۔) یہ فیصلہ افراد پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ آیا اس پیغام کو قبول کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں حرفِ آخر وہ خود ہی ہیں۔ آیا وہ قرآن میں بیان کردہ الہامی ہدایت کی روشنی میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔

    جہاد بالقرآن ، جہاد باللسان یا لغوی معنوں میں زبان کے ذریعے جہاد، سے قریبی تعلق رکھتاہے۔ جہاد باللسان کا مطلب ہے۔ تقریر، ابلاغی طاقت یا کوئی بھی مہارت جو انسان کو دوسروں کے ساتھ گفتگو کرنے کے قابل بناتی ہے اوران تک قرآن کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ کو استعمال میں لانا۔ یہ مسلسل مکالمے کی ایک شکل ہے جو کہ دوسروں کو الہامی ہدایت میں حصہ داربنانے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کی جانی چاہیے۔ جہاد بالقلم یا قلم کے ذریعے جہاد، جہاد باللسان کی ایک اورشکل ہے۔
    جہاد بالمال یا مال کے ذریعے کوشش ، کو قرآن میں باربار بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر : ’’(اچھے اوربہترین) مسلمان وہ ہیں جو ....اپنے مالوں اورجانوں کے ذریعے جہاد کرتے ہیں....‘‘۔ مثلاً ، القرآن، ۸: ۷۲ اور ۹: ۲۰
    مندرجہ بالاآیات جہاد کی عام اورجامع فطرت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
    انجام کار، قرآن جہاد کے آخری مرحلے ۔جہاد بالسیف (تلوار کے ذریعے جہاد) یا قتال یا بیرونی جہاد کی جانب اشارہ کرتاہے۔ جہاد کے اس مرحلے کی آخری تدبیر کے طور پر اجازت دی گئی ہے۔ یہاں بھی جہاد کی اس قسم کے مختلف درجے ہیں۔ ایک مفسرِ قرآن نے بیرونی جہا دکی مندرجہ ذیل تین اقسام میں درجہ بندی کی ہے۔
    (i اعلانیہ دشمن کے خلاف جہاد
    (ii شیطان کے خلاف یعنی برائی کی طاقتوں کے خلاف جہاد اور
    (iii خود مسلمانوں میں موجود شر کی طاقتوں کے خلاف جہاد( راغب الاصفہانی، ص ۱۰۱
    ایک دشمن اس وقت کھُلا دشمن بن جاتا ہے جب:
    1۔ وہ مسلمانوں پر حملہ کرے، ان کے خلاف ننگی جارحیت کا مرتکب ہو اوراخلاق و قوانین کی مسلمہ اقدار کو پامال کرے۔
    2۔ وہ کسی ایسے ملک میں، جو کہ مسلمان حکومت کی پہنچ میں ہو۔ مسلمان اقلیت کو آزار پہنچائے، بین الاقوامی معیارات یا ایسی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے رائج اقدار کو پامال کرے اوریہ اقلتیں مسلمانوں سے ان کے خلاف مدد اورسہارے کی طالب ہوں؛ اور
      یہ ہمسائے میں انتشار اوربدنظمی پیدا کرے۔
    غور کرنے کی بات یہ ہے کہ طاقت کے استعمال سے متعلق اسلامی قوانین، اسلام کے جنگی قوانین کا حصہ ہیں جو کہ اسلام کے وسیع تر بین الاقوامی قانون کا اہم اورنمایاں حصہ ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ اسلام کے بین الاقوامی قانونی رتبے یا جواز کے متعلق کبھی سوالات نہیں اٹھائے گئے۔ اسلامی قانون میں شہری اوربین الاقوامی قوانین کے مابین کوئی فرق یا امتیاز نہیں ہے کیونکہ دونوں قسم کے قوانین کا سرچشمہ قرآنِ پاک اورنبی کریمؐ کی ہدایتِ مبارکہ ہے اس لیے شہری و بین الاقوامی قوانین ایک ہی قانونی نظام کا جزوِ لاینفک ہیں۔ چنانچہ اسلام میں جنگ کے قانون اوربین الاقوامی تعلقات کے قوانین کو وہی حرمت، طاقت اورحمایت حاصل ہے جو دوسرے مذہبی عقائد اوراسلامی قانونی نظام کے دوسرے قوانین کوحاصل ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ بھی کیا جاسکتاہے کہ مغرب کے بین الاقوامی قانون کی بنیاد زیادہ تر رسوم و روایات رہی ہے جسے شریعت نے بھی بین الاقوامی قانون کے مستند ماخذ کے طورپر تسلیم کیاہے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ شرعی قوانین، اسلام کے بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہیں جو رسوم کو منضبط کرتے اورتشکیل دیتے ہیں۔

    اس امرکااعادہ کیاجاسکتاہے کہ عصر ی بین الاقوامی قانون میں طاقت کے استعمال کی جن بنیادوں کو تسلیم کیا گیا ہے، اُن میں ذاتی دفاع، ہمسایہ ملک میں خانہ جنگی، جوابی کارروائی، کسی ملک کے باشندوں کا تحفظ، انسانی فلاحی بنیادوں پر مداخلت، آزادی کی قومی تحریکیں،اورسرگرم تعاقب(Hot pursuit) شامل ہیں۔سرگرم تعاقب کے علاوہ باقی تمام کی تمام وجوہات قرآنِ پاک میں صاف اور واضح انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
    ذاتی دفاع میں لڑنے کے متعلق آیت الاذن بڑی واضح ہے: ’’ان لوگوں کو (جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن پر ظلم کیا گیا ہے ۔۔۔ اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے ان پر ظلم کیا ہے القرآن، .۲۲:۳۹۔۴۰۔‘‘
    جہاں تک ہمسایہ ملک میں خانہ جنگی کا تعلق ہے، اگر تو مسلمان حکومت کو کسی منصفانہ مقصد کے لیے حصہ لینے کی دعوت دی جاتی ہے تو اسے الہامی کتاب کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم ایک اہم شرط ہے جو قرآن اور نبی کریم ﷺ نے عائد کی ہے اور اسے تمام فقہاء نے ملحوظ رکھا ہے۔ یہ شرط خود قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’’اِلّا عَلَیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیْثَاقُ ٗ   القرآن، ۸:۷۲ ‘‘ جس کا مطلب ہے ’’جب تک یہ ان لوگوں کے خلاف نہ ہوجن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ایک مسلمان آبادی پر کوئی ہمسایہ حملہ آور ہوتا ہے اور یہ آبادی اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے مسلمان ملک سے مدد چاہتی ہے تو مسلمان ملک کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ سوائے اس کے کہ مسلمان ملک اور حملہ آور غیر مسلم ملک کے مابین کوئی معاہدہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس مسلمان اقلیت پر حملہ کیا گیا ہو، ان کی مدد اور اعانت کرنے کے لیے بھی، بین الاقوامی معاہدوں اوروعدوں کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ۔ ہمیں خود نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں انہوں نے مظلوم مسلمان اقلیت کی مدد کرنے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ وہ ایسے عرب ملک سے تعلق رکھتے تھے جن کے ساتھ اُن کا معاہدہ ہوچکا تھا(ایک قابلِ ذکر مثال، نبی کریمؐ کی، دومکّی نوجوان مسلمانوں حضرت ابو حندلؓ اور ابو بصیرؓ کی کفارِ مکّہ کو حوالگی ہے تاکہ صلح حدیبیہ میں طے پا جانے والے معاہدے کی لاج رکھی جاسکے۔۔)
    بین الاقوامی قانون کی زبان میں جس چیز کو جوابی کارروائی کہا جاتا ہے، قرآن اس کی اجازت جو ابی کارروائی یا مجازہ کی حد تک ہی دیتا ہے۔ جوابی حملے کی صورت میں بھی اخلاقی حدود، اس کے ساتھ ساتھ شریعت کے عام قوانین یا مسلم بین الاقوامی قانون کی رُوح کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ دوسری دوبنیادیں ذاتی دفاع اورستم زدہ اقلیت کے ساتھ معاملہ کرنے کی شرائط کے زمرے میں آجاتی ہیں۔
    بہت سے مسلمان فقہا ء کے مطابق، جہاد کا مقصد بڑا سادہ ہے: مسلمان حکومت اور مسلمان ریاست کوسلامتی و تحفظ فراہم کرنانیز انہیں دنیاوی اوراُخروی زندگی کے مقاصد کو پورا کرنے کے قابل بنانا(سر خسی، ص۳۔) بالفاط دیگر جہاد کا واحد مقصد، مادی معنوں کے لحاظ سے اس زندگی کی ترقی و فلاح اور روحانی اعتبار سے بھی ترقی و فلاح ہے۔ یہ بنیادیں، جنہیں قبولِ عام حاصل ہے اور جنہیں جدید بین الاقوامی قانون نے بھی تسلیم کیا ہے، قرآنِ پاک میں بیان ہوئی ہیں۔
    جہاں تک جہاد بالسیف یا طاقت کے استعمال کا تعلق ہے تو نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جنگ کا مقصد دشمن کا جسمانی طور پر خاتمہ کرنا نہیں ہے۔ جدید بین الاقوامی انسانی فلاحی قوانین بھی یہ کہہ کر کہ جنگ کا مقصد دشمن کی جنگی طاقت اور جنگی استعداد کو کمزور کرنا ہونا چاہیے۔ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو نہی دشمن کی جنگی استعداد کمزور ہو جائے، حملوں کو روک دینا چاہیے۔
    طاقت کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی یہی فکر، جنگ سے پہلے کے مرتبے کی بحالی کے اسلامی قوانین کی تہہ میں کارفرما نظر آتی ہے۔ جنگ سے پہلے کے مرتبے کی بحالی کا جو اصول قرآن نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے:’’جو نہی جنگ ختم ہوجائے یا قیدیوں کو احسان کرکے آزاد کردو یا ان کے بدلے فدیہ لے لو القرآن، ۴۷:۴۔‘‘ چنانچہ مسلمان فوج اپنے جنگی قیدیوں کے بدلے دشمن کے جنگی قیدیوں کا تبادلہ کر سکتی ہے یا ان کے بدلے فدیہ قبول کر سکتی ہے اور معاملہ تمام ہوجاتا ہے۔
    اس بارے میں ایک شافعی فقیہ کی رائے بھی قابلِ ذکر ہے: وجوب الجھاد وجوب الوسائل لا وجوب المقاصد‘‘ جس کا مطلب ہے کہ ’’جہاد کی فرضیت ذرائع و وسائل کے طورپر ہے نہ کہ مقصد کے طور پر‘‘ ( الشربینی، ص۲۱۰،) چنانچہ ایک عظیم فقیہ کی رائے میں جہاد یا جنگ بذاتِ خود ایک مقصد نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ اور عظیم تر مقاصد کے حصول کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اگر دوسرے ذرائع سے وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے، تو ان دیگر ذرائع کو استعمال کیا جانا چاہیے۔ اصل مقصد ہر شخص ، خاص طور پر اسلامی ریاست کو امن و سلامتی کی فراہمی ہونا چاہیے(سرخسی، بحوالہ گذشتہ، نیز دیکھیے فتح القدیر، جلد چہارم، ص۲۷۷۔)
    اسلام کا بین الاقوامی قانون نہ صرف ان مقاصد کو محدود کرکے، جن کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے، اسے محدود کرتا ہے بلکہ یہ طاقت کے استعمال کو سخت قسم کے قوانین کا پابند بھی بناتا ہے۔یہ بات کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ان قوانین کو مذہبی اعتبار سے بھی لاگو کیا جاتا ہے کیونکہ یہ مذہبی قوانین کا ہی حصہ ہیں اور دوسرے مذہبی اصولوں کی مانند ان کا جواز بھی مذہبی تعلیمات ہی سے ملتا ہے۔
    جنگ کے اصول و قوانین میں اسلام نے جو بنیادی اصلاح کی ہے وہ یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کو صرف شریک جنگ تک محدود کیا ہے  ( سرخسی، بحوالہ گذشتہ، ص ۳۔)یہ انتہائی بنیادی قانون ہے جو نہ صرف قرآن بلکہ احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ طاقت کااستعمال ان لوگوں تک محدود ہونا چاہیے جو میدانِ جنگ میں جنگی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہوں۔ آج، میدانِ جنگ کو محدود کرنا یا اس کی حدود کو بیان کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس کے باوجودمسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حقیقی جنگ میں شریک افراد کو نشانہ بنائیں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ جو لوگ شریک جنگ نہیں ہیں وہ محفوظ و مامون رہیں عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جاسکتا (قرآن صرف ان کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے جو جارحیت کا آغاز کریں (القرآن، ۲:۱۹۰، وغیرہ)۔ مذہبی افراد کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا تارک الدنیا افراد اور درویشوں کونہیں چھیڑا جا سکتا (حضرت ابوبکرؓ کی اپنے سپہ سالار کو دی گئی ہدایات ملاحظہ کیجیے، جنہیں دوسرے مؤرخین کے علاوہ طبرانی نے تاریخ الامم و المُلوک میں نقل کیا ہے۔۔) یہ سب افراد اور لڑائی میں حصّہ نہ لینے والے دیگر افراد کو ۔جب تک وہ حقیقی جنگ کے مدار سے باہر رہیں۔ حملوں کانشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ عام آبادی کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ شہری آبادی اور شہری تنصیبات کو تباہ نہیں کیا جاسکتا ( الحمید،۲۰۰۰ء،صفحات۲۸۷۔۳۰۶۔) یہ سب باتیں ان ہدایات میں سے چند ہیں جو نبی کریمؐ اپنے مجاہد ین کو دیا کرتے تھے۔ جب کبھی وہ کوئی فوج روانہ کرتے، وہ ان کے لیے ضابطۂ اخلاق بناتے اور حکم دیتے کہ یہ ضابطہ تمام فوجیوں کو پڑھ کر سُنایا جائے( ان ہدایات کا متن، انگریزی ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، حمید اللہ،۱۹۷۳ء، ص ص۳۱۰۔۳۲۳۔)اس رواج پر اولین خلفاء اور بعد میں بہت سے مسلمان حکمران بھی عامل رہے( ان میں سے چند دستاویزات کا ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے " Les Documents Sur la Diplomatie del Islam" اور یہ۱۹۳۴ء میں پیرس سے شائع ہوا۔)۔ایسے بہت سے اعلانات ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی کتاب ’’الوثائق السیاسیۃ‘‘ میں شامل کیے ہیں۔ اس کتاب میں نبی کریمؐ اور ان کے خلفاء کے دور کی سیاسی دستاویزات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں نبی کریمؐ نے اپنے فوجیوں اورسپہ سالاروں کو ہدایات دی ہیں۔ مثلاً وہ دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں، دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کریں اور کبھی بچے یا عورت کو قتل نہ کریں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، مسند احمد، حدیث نمبر۲۶۴۸؛ صحیح مسلم، کتاب الجہاد ، حدیث نمبر۳۳۴۸۔) ان ہدایات اور صحابہ کرامؓ اور تابعین وغیرہ کی ان سے ملتی جلتی بہت سی ہدایات کی بنیاد پر اسلام کا جامع قانونِ جنگ بنایا گیا ہے( اسلام کے قانونِ جنگ کی جدید اور تفصیلی وضاحت کے لیے دیکھیے: زحیلی،۱۹۸۱ء،صفحات۷۸۸۔۷۹۸۔) یہ قانون اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتا ہے کہ طاقت کے استعمال کو عملی طور پر جنگ میں حصہ لینے والوں یا شریک جنگ افراد تک ہی محدود ہونا چاہیے۔
    اسلام کے قانون جنگ کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانونی طور پر تسلیم شدہ سیاسی حکومت کی اجازت کے بغیر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ قانونی طور پر جائز مسلمان حکومت کی اجازت کے بغیر۔ اگر ایسی حکومت کا وجود موجود ہوتو کسی بھی ہمسایہ یا ملحقہ ملک کے خلاف حملہ یا جنگی نوعیت کی کارروائیاں نہیں کی جاسکتیں۔ ایک معروف حنفی فقیہہ اور حنفی طبقہ فکر کے بانیوں میں سے ایک امام ابویوسف نے اس اصول کو اس پیرائے میں بیان کیا ہے: لاتسری سریۃ بغیر اذن الامام جس کا مطلب ہے’’حکومت کی اجازت کے بغیر کسی (جنگی) مہم کو روانہ نہیں کیا جاسکتا( یوسف ، ص ۲۱۵.، ابنِ ابی شیبہ ،المصنف، کتاب الجہاد، حدیث نمبر۳۲۵۸۱۔‘‘) دوسرے فقہاء کا بھی یہی خیال ہے کہ جہاد، ریاست کے امور میں سے ایک ہے۔ جب بھی مناسب سمجھا جائے گا، ریاست جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی ( مثلاً ، ماوردی، ۱۹۹۹ء، جہاد کو امام کے بنیادی فرائض میں سے ایک بتاتے ہیں،صفحات۵۱۔۵۲۔)خلاصہ کلام یہ کہ جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کر سکتے۔ ایک شیعہ فقیہہ ، امام کو لینی (وفات ۹۴۱)، جنہیں شیعہ فقہ کے چار بڑے علماء میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ جہاد کو امام یا امام کے نائب کی موجودگی کے بغیر منعقد نہیں کیا جا سکتاابو جعفر کُلینی، الکافی، جلد اوّل، ص۲۱۳۔
    اسلام کے قانونِ جنگ کا تیسرا اصول، عملی طور پر جنگ میں حصّہ نہ لینے والے افراد سے متعلق ہے۔ طبی امداد دینے والے اور اسی قبیل کے دوسرے افراد۔ حتیٰ کہ اگر وہ جنگجوؤں اور حملہ آوروں کو مدد بھی فراہم کررہے ہوں۔انہیں جنگ میں شریک افراد کا حصہ نہیں سمجھا جاتا (سرخسی ، شرح السیر الکبیر، جلد چہارم، اشاعت حیدر آباد،صفحات ۱۱۲۔۱۱۳۔)یہ رعایت نہ صرف طب سے متعلقہ لوگوں کو دی گئی ہے، بلکہ دوسرا امدادی عملہ جن میں نرسیں، خدمت گار، کھانا پکانے والے، شہری ضروریات کی فراہمی کرنے والے، بہت عمر رسیدہ سپاہی اور وہ بوڑھے افراد جو جنگ میں حصہ نہ لے رہے ہوں۔ بھی اس رعایت میں شامل ہیں۔۔۔۔ حمید اللہ، ۱۹۷۳ء،صفحات۲۱۲۔۲۱۵۔ ان سب افراد کو قتل اور طاقت کے استعمال سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔ فقہاء کے لیے ایک سوال پیدا ہوا: اگر ایک بہت بوڑھا شخص جو بڑا ماہرِ جنگ ہو، دشمن کے جنگجوؤں کو ،جسمانی طور پر جنگ میں شامل ہوئے بغیر ۔ہدایت اور رہنمائی دے رہاہو، تو کیا وہ بھی مستثنیٰ ہوگا یا نہیں، کچھ فقہا ء کے خیال میں ایسا ہی ہوگا جبکہ بعض کے خیال میں اس کے لیے استشنٰی نہیں ہے۔ تاہم اس بحث کی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ کے الفاظ مبارک کی کس حد تک تعبیر کی جاسکتی ہے اور اس کے معنی و مقاصد کو کہاں تک وسعت دی جاسکتی ہے۔

    چوتھا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس میں دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہو۔ اس بات کو قرآنِ پاک کی دلیل حاصل ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات ہیں جن میں دھوکہ دہی اور کسی چیزکو۔ حتٰی کہ دشمن کے سامنے بھی ۔ غلط انداز میں پیش کرنے سے منع کیا گیا ہے (مثال کے طور پر دیکھیے: القرآن۸:۵۶۔۵۸اور۹:۴ اور۷۔)دومثالوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد کے زمانے میں، مسلمانوں اور ایرانیوں کے مابین جنگ ہورہی تھی۔ ایک ایرانی درخت پر چڑھ گیا اور اسکی چوٹی پر پناہ لے لی۔ ایک مسلمان سپاہی نے اسے پالیا اورفارسی میں اسے کہنے لگا ’’ماترس‘‘ یعنی مت ڈرو۔ ایرانی فوجی یہ سمجھا کہ شاید اسے پناہ اور تحفظ دے دیا گیا ہے، چنانچہ وہ نیچے اُتر آیا۔ تاہم مسلمان فوجی نے اُسے قتل کر ڈالا۔ حضرت عمرؓ کو اس معاملے کی خبر دی گئی۔ انہوں نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے یہی فارسی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص دشمن فوجی کو ’’ماترس‘‘ اور بعد میں اسے قتل کرتے پایا گیا تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا اور وہ سزائے موت کا حق دار ہوگا( بدرالدین العینی، عمدۃ القاری، جلد۱۵، ص۹۴)۔ ایسے عمل کو دوسرے خلیفۂ راشد نے قتل کے برابر گردانا صرف اس وجہ سے کہ ارادے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ یہاں دھوکہ دہی کو اس کے لغوی معنوں سے کہیں زیادہ وسیع کر کے منع کردیا گیا۔
    دوسری مثال اس سے بھی شاندار ہے۔ مسلمان حکومت نے جدید ترکی اور مصر کی سرحدوں کے قریب کہیں آبادغیر مسلم لوگوں سے معاہد ہ کر لیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر وہ تجارتی قافلے جو عرب اور یورپ کے درمیان سفر کرتے تھے، یہ انہیں لُوٹ لیا کرتے۔ سلطنتِ اُمیّہ کے بانی حضرت امیر معاویہؓ نے ان کے خلاف قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم مسلمانوں نے ان سے جو معاہدہ کررکھا تھا اس میں وقت کی پاسداری ضروری تھی اور اس معاہدے میں ہرسال توسیع کردی جاتی تھی۔ ان کے خلاف قدم اُٹھانے کے لیے خلیفہ نے انتظار کیا یہاں تک کہ یہ معاہدہ ختم ہونے کو آگیا۔ اس معاہدے کے ختم ہونے سے ایک ماہ قبل، انہوں نے تیاری کی اور اپنی کمان میں فوج کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے کی جانب سے پیش قدمی کریں جہاں یہ مشکلات پیدا کرنے والے لوگ رہائش پذیر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ معاہدے کی آخری تاریخ تک انتظار کریں گے اور پھر معاہدے میں توسیع کرنے کے بجائے ، اگلی ہی صبح ان لوگوں کو سزا دیں گے۔ تکنیکی لحاظ سے، قانونی، آئینی اور آج کی زبان میں بین الاقوامی قانون کی رُو سے ان کا یہ قدم جائز ہوتا۔ وہ اپنے ہی علاقے میں نقل و حرکت کر رہے تھے اور معاہدے کے عرصے میں ان کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اُٹھا رہے تھے۔ لیکن یہ خلیفہ کی ذاتی رائے تھی اور اس پر دوسروں سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ ایک صحابی رسولؐ عَمر بن انباسہ اس موقع پر موجود تھے جو اس طرزِ عمل کو معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتے تھے یہ کہانی اور اس کے ڈر امائی اختتام کوصحیح مسلم میں بیان کیا گیا ہے(ابو داؤد، السنن، کتاب الجہاد، دارالسلام، ریاض، حدیث نمبر۲۷۵۹۔) عَمر بن انباسہ گھوڑے پر سوار ہو کر تیزی سے اس جانب بڑھے جس سمت میں مسلمان فوج پیش قدمی کر رہی تھی۔ خلیفہ کو خبر دی گئی کہ کوئی شخص نزدیک آرہا ہے، جب وہ قریب آئے تو دیکھا گیا کہ وہ صحابی رسولؐ عَمربن انباسہؓ ہیں۔ جب حضرت عَمرؓ نے مسلمان فوج کو جالیا وہ زور وشورسے چلا رہے تھے ’’وفاء لاغدر‘‘ ’’اپنا وعدہ پورا کرو، دھوکہ دہی کے مرتکب نہ ہو!‘‘۔
    خلیفہ تک پہنچنے کے بعد انہوں نے معاہدے کے متعلق اپنے فہم اور تعبیر کو واضح کیا اور یہ کہ خلیفہ کا یہ قدم کیسے دھوکہ دہی میں شامل ہے۔ حضرت عَمرؓ نے کہا کہ جب ایک مسلمان ریاست کچھ افراد کے ساتھ کوئی معاہدہ کر بیٹھتی ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے ارادے دشمنی کی جانب مائل ہوں،  پُر امن رہا جائے۔ طرفین کو جذباتی طور پر پُر امن رہنا چاہیے۔ یہ حقیقت کہ ایک مسلمان حکمران نے معاہد قوم کے خلاف فوجی کارروائی کا سوچا اور اس ارادے کے ساتھ اپنی فوجوں کو حرکت بھی دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ معاہدے کی اصل روح یعنی معاہدے کے عرصے میں پُر امن رہنے کے عزم کے خلاف ایک حرکت کے مرتکب ہوئے۔
    اس سیاق میں عَمرؓ بن انباسہ نے قرآنی آیت کا حوالہ دیا جس میں ارشاد ہوتا ہے ’’اگر تمہیں ان لوگوں کی جانب سے (جن کے ساتھ تمہارا میثاق ہے)دھوکہ دہی کا خدشہ ہوا تو اعلانیہ طور پر ان کا میثاق ان کے منہ پر دے مارو۔ اللہ دھوکہ دینے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘  القرآن ، ۸:۵۹۔
    چنانچہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ معاہدے کو ختم کرنا چاہیں تو انہیں اپنے ارادے کا اعلانیہ اظہار کرنا چاہیے تاکہ دشمن معاہدے کی موجودہ حالت کے بارے میں آگاہ ہو جائے اور اسے پتہ چل جائے کہ مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں چنانچہ وہ بھی اسی طرح تیار رہے۔ صرف اسی صورت میں مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اُٹھاسکتے ہیں جن کے ساتھ ان کا امن کا معاہدہ تھا ۔ خلیفہ حضرت معاویہؓ(۶۰۲ء۔۶۸۰ء)سمیت مسلمان فوج نے اس تشریح کو قبول کیا اور فوراً ہی اپنے اقدامات کو ختم کرکے، دمشق واپس روانہ ہوگئے۔
    آخر میں، اسلام کے بین الاقوامی قانون کا ایک اور گوشہ ہے جو قانون جنگ سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ یہ غیر جانبداری کے قوانین پر مشتمل ہے جو قرآن پاک میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ ان قوانین کو، قانون سازی کی تاریخ میں، باقاعدہ رسمی طور پر پہلی مرتبہ مسلمانوں نے پیش کیا تھا۔ وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین تعلقات کی نوعیت، کم ازکم نظری طور پر ہی، مستقل جنگ کی ہے یہ مفروضہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کاقانون مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین غیر جانبداری کی حالت کا تصور ہی نہیں کرتا۔
    سچ یہ ہے کہ مسلمان مختلف ممالک اور مختلف طاقتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے تعلقات رکھتے رہے ہیں۔ ابتدائی مسلم تاریخ میں کم ازکم درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ارمینیا، قبرص اور حبشہ(ایتھوپیا) کی مثالیں تو بہت معروف ہیں اور ان خطوں میں بعض دوسرے ممالک کے ساتھ بھی مسلمانوں کے ایسے ہی معاہدات تھے۔ ان میں سے کچھ معاہدے مسلمانوں نے چھے سوسال، بعض سات سوسال تک قائم رکھے اور حبشہ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ چودہ سوسال سے زائد عرصہ گزر نے کے باوجود جاری ہے بلکہ یہ آج بھی قائم ہے۔
    درحقیقت اسلام نے انسانیت کو ایسا قانونِ جنگ عطاکیا ہے جو جنگ کی آفت کے ان انسانی فلاحی پہلوؤں کا احاطہ کر تا ہے، جن سے جدید دُنیا پچھلی صدی تک ناواقف تھی۔ بین الاقوامی قانونِ جنگ و امن اور خاص طور پر بین الاقوامی انسانی فلاحی قانون کے بہت سے شعبے ایسے ہیں، جہاں عصری دنیا کو الہامی ہدایت سے ۔جو کہ قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہے اور بہت سی مسلمان حکومتیں جس پر عمل پیرا رہی ہیں۔ فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      تبصرہ بذریعہ گوگل اکاؤنٹ
      تبصرہ بذریعہ فیس بک

    1 تبصروں کی تعداد:

    1. Keep dreaming. Fools paradise. It will take triple the lives taken before communism was enforced, for a religion to control people's minds, bodies and properties.

      ReplyDelete