فلسفہ اخلاقیات ۔۔

    اخلاقیات ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:  ادریس آزاد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ طبیعات بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
    پہلی بات تو یہ ہے کہ اخلاقیات کی اقسام ہیں۔ باقی اقسام جن میں ہمدردی وغیرہ شامل ہیں،بعد میں چھیڑونگا۔ سب سے پہلے سب سے بڑی قسم کا ذکر کرتاہوں۔ یہ ہے وہ اخلاقیات جو محض تحفظ ِ ذات و خویش کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اسی اخلاق کی حقیقت سے متعلق وحی پا کر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،۔
    المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
    مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
    اخلاق کی اس قسم کے بارے میں میں اکثر کہا کرتاہوں کہ یہ ایک ڈھال یا ہتھیار کی طرح سے ہے۔ جیسے جانوروں کو سینگ عطا ہوئے ہیں یا پنجے۔ اسی طرح کمزور کو اخلاقیات عطا ہوئی ہے۔ میں آپ کی عزت اس لیے کرتاہوں کہ آپ میری عزت کرتے ہیں۔ آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے ہمہ وقت تھریٹ ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ہرانسان کو ہر انسان سے، ہمہ وقت تھریٹ ہے، اس بات کی کہ کہیں سامنے والا کسی طرح کا حملہ نہ کردے۔ اس سے بچنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ اور مجھے آپ کے ساتھ مہذب رہنا پڑتاہے۔
    اخلاقیات ایک ہتھیار ہے جو ہم اپنے آپ کو دوسروں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ کچھ جانور دوسروں کے سامنے جھُک جاتے ہیں۔ کچھ لڑ پڑتے ہیں۔
    یہ اخلاقیات بچوں میں بھی ہوتی ہے۔ یہ پڑوسی کی پڑوسی کے ساتھ بے حد ضروری ہے۔ اگر اسلام والا پڑوسی کا تصور دنیا میں پھیل جائے تو ہر گھر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے۔ کسی کے گھر چور نہ داخل ہوں کہ اڑوس پڑوس مین محافظ سورہے ہیں۔
    چنانچہ اس قسم کی اخلاقیات جس قدر بھی ہے (اگرچہ یہ مقدار مین سب سے زیادہ ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام کی تمام، ہر انسان میں جسمانی، عقلی اور تہذیبی ارتقأ کی بدولت آئی ہے۔ اور ابھی بھی ارتقأ پذیر ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسانی زندگی میں ارتقأ کا اگلا قدم انسان کا اخلاقی طور پر بہتر ہوجانا ہے ۔ کیونکہ ارتقأ کا ایک اصول ہے کہ،
    بیرونی ماحول میں موجود خدشات و خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے اندر ایک نئی توانائی ڈیولپ کرلینا ارتقأ ہے"
    اور موجودہ دور کا انسان جسمانی ارتقأ میں نرم، گداز، کاہل، آرام پسند، گورا، کم محنت سے تھکنے والا وغیرہ وغیرہ بنتا جارہا ہے جبکہ ذہنی ارتقأ کی صورتحال اور بھی دگرگوں ہے۔تمام انسانیت ٹینشن کا شکار ہے۔ قبل ازیں زمیں پر انسانی ذہن پر پریشر کا ایسا کوئی دور نہیں گزرا۔ اگرچہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا دور بھی بہت پریشر والا تھا لیکن اس وقت مجموعی انسانیت کی یہ حالت بھی نہ تھی اور مجموعی انسانیت صورتحال کو سمجھ بھی نہ پارہی تھی۔ اس کے بعد سے یہ ڈولپ ہوا اور اب تک یہ صورتحال ہے کہ انسانی ذہن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کے فنا کے چانسز بھی ہیں کیونکہ مجموعی آبادیاں ڈفر ہوئی ہیں گزشتہ عرصہ میں۔
    تو اصول کے مطابق ذہن کو بیرونی ماحول میں خدشات و خطرات سے نمٹنا اور اپنے اندر نئی توانائی پیدا کرنا ہے۔ اصول ِ ارتقأ کو مدنظر رکھتے ہوئے لازمی ہے کہ انسانی ذہن اس مصیبت سے چھٹکارا پائے گا۔ اب اگر قضیات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس عذاب سے تب ہی چھٹکارا پا سکتا ہے جب اخلاقی طور پر بہتر ہوجائے۔ اگر یہ ایسا نہیں کرتا تو یقیناً انسانیت کا خاتمہ ہوجائیگا۔
    سو یہ جو قسم ہے اخلاقیات کی یعنی تحفظ ِ خویش، اسی کو ارتقأ کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے ماضی میں مذہب اِس کی بہت رہنمائی کرتا رہا ہے۔ لیکن مذاہب میں تبدیلیاں ہوجانے کے بعد انسان نے اس کی تشکیل کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اب اقوامِ متحدہ کا چارٹر اس کا بہترین نمائندہ ہے۔ انسانی حقوق، نسوانی حقوق، بچوں کے حقوق، حیوانوں کے حقوق، ماحول کے حقوق۔۔۔۔۔ غرض سب کچھ وہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا لیکن اب مذہب کے نام سے نہیں ہے۔

    مذہب سے مزید اخلاقی رہنمائی کی اُمید بھی بہت کم ہے کہ بٹوارہ اس حد تک بڑھ چکا ہے جس کا تدارک ممکن نہیں۔ مزید برآں انسان اس قدر انٹلکچول ہوچکا ہے کہ نئے نبی کو قبول کرنے کے لیے بھی ہرگز تیار نہیں۔ فلہذا مذہب کے لیے اپنے بقأ کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جو حل ہوسکتا ہے تو پھر اسی طرح کہ مذہب اپنے عقائد کا پرچار یکلخت بند کردے اور محض اپنی اپنی اخلاقیات کا پرزور پرچار شروع کردے۔
    انسان کو اخلاقی طور پر بہتر ہونے کی شدید ضرورت ہے کہ ایسا نہیں کرتا تو سیارۂ زمین کسی صورت نہیں بچ سکتا۔ تمام سائنسی قضیات اسی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
    اخلاقیات کی دوسری قسم بھی فطری اور جبلی ہے۔ جسے میں وقتی طور احسن اخلاق کہتا ہوں۔ ایک شخص جب کسی کی مدد کرتاہے، کسی سے ہمدری کا اظہار کرتاہے تو وہ کیا جذبہ ہے جو اُسے مجبور کرتاہے کہ وہ ایسا کرے؟
    ایک شخص سڑک پر جارہا ہے۔ راستے میں ایک مینڈک پتھر کے نیچے دبا پڑا ہے اور رہائی چاہتا ہے۔ وہ انسان جلدی میں ہونے کے باوجود اُس مینڈک کو پتھر سے رہائی دلاتا ہے ۔ یہ کیا ہے؟ کیا یہ بھی فطری ہے؟ آیا یہ محض انسانی فطرت ہے یا دیگر جانوروں کی بھی ہے؟ بندروں کی تمام قسموں، بعض پرندوں،کُتوں اور دیگر کئی جانداروں میں ہمدردی کا جذبہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن انسانوں میں یہ بہت منفرد سطح پر موجود ہے۔ جیسا کہ اپنی نوع کے علاوہ بھی دیگر انواع کی مدد کرنا۔ یہ ارتقأ یافتہ شکل ہے۔ اصل میں انسان کے پاس امیجینیشن آگئی ہے۔ جسے بوعلی سیناؒ نے قوتِ متخیلہ کہا ہے۔ اسی امیجنیشن کی بدولت وہ اپنے اوپر قیاس کرتاہے۔ وہ سوچتاہے کہ ۔۔۔۔۔۔ "اگر اس مینڈک کی طرح میں پھنسا ہوتا اس پتھر کے نیچے تو؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو یہ متخیلہ کا وہ کمال ہے جو اسے خود پر لاگو کرکے پھر تحفظ ذات اور خویش کی سطح تک لے جاتاہے۔ جن لوگوں کی متخیلہ کمزور ہوتی ہے وہ اس قسم کی اخلاقیات میں بھی کمزور ہوتے ہیں۔
    غرض اخلاقیات جبلی اور فطری ہے اور نہ صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے بلکہ دیگر جانوروں میں بھی اس کے ثبوت موجود ہیں۔
    تصریحاتِ بالا سے ثابت ہوا کہ اخلاقیات مذہب کی پروڈکشن نہیں ہے۔ بلکہ مذہب اخلاقیات کی پروڈکشن ہے۔ اخلاقیات انسانوں میں مذہب سے کہیں پہلے موجود تھی۔
    فرض کریں غاروں کا زمانہ ہے۔ ایک نوجوان لڑکی باغ میں گھوم رہی ہے۔ کہیں سے ایک لڑکا نمودار ہوتاہے اور اس لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کردیتاہے۔ لڑکی کے قبیلہ والے اسے دیکھ لیتے اور مار دیتے ہیں۔ لڑکے کے مرنے پر لڑکے کے قبیلہ والے پورے قبیلہ سمیت حملہ آور ہوتے اور ان کے قبیلہ کے مرودوں کو مار دیتے ہیں۔
    اس طرح اگر کئی ہزار سال ہوتا رہا ہے تو ضروری تھا کہ اب لڑکے یہ جان جائیں کہ اکیلی لڑکی کے ساتھ بغیر اجازت کے بات بھی نہیں کرنا ہوتی ورنہ بہت نقصان ہوتاہے۔
    آخری بات کہ علم سے طبیعت میں حلم آتاہے اور غم سے برداشت۔ ان دو چیزوں کی مدد سے کوئی بھی انسان اخلاقی طور پر بہتر ہوسکتاہے۔ اخلاقی طور پر بہتر ہونے کا صاف مطلب ہے عمل میں بہتر ہوجانا۔
    یعنی بڑا مصور بن جانے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ اچھا انسان بن جائے۔ رسول ِ اطھر صلی اللہ علیہ وسلم مکام ِ اخلاق کی بلندیوں پر فائز تھے ۔ کیوں؟ کیونکہ عالم ِ فطرت کی آنکھ جانتی تھی کہ آخری نبی اخلاقیات کا نبی ہوگا۔ عمل کا نبی ہوگا ۔ عقائد کا نہیں۔

    عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نُوری ہے نہ ناری ہے (اقبالؒ)
    عمل میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ دماغ، بدن کو کامیابی کے ساتھ کچھ سنگلز پاس کرے۔ حرام مغز کے سگنلز سے پٹھوں میں جو حرکتِ عمل پیدا ہوتی ہے وہ عمل میں تبدیلی کی نہیں بلکہ عمل میں یکسانیت کی مثال ہے۔ عمل میں تبدیلی کی فقط مثال وہی ہے کہ دماغ کسی مخصوص کام کے لیے بدن کو مائل اور عمل پیرا کردینے کی پوری صلاحیت رکھتاہو۔ یہ بات کہنا آسان ہے لیکن کسی دماغ کے لیے اتنی قابلیت حاصل کرلینا کافی مشکل کام ہے۔ جو محض کسی عقیدے کی بنا پر ممکن نہیں۔اس کے لیے خاصی لمبی چوڑی مشق اور آموزش بسعی و خطا کے طریقۂ کار پر اکتساب درکار ہوتاہے۔ چونکہ اعلیٰ اخلاقی اعمال کے لیے آموزش بسعی و خطا کے درجہ تک اکتساب کرلینا بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ اس قدر مشکل کہ اس کی براہ  راست تربیت تک ممکن نہیں فلہذا پہلے بعض ایسے طریقہ ہائے کار اختیار کیے جاسکتے ہیں، جو قدرے آسان ہوں ۔ جب دماغ اس قابل ہوجائے کہ اُن آسان تبدیلیوں کے لیے خود کو اس قدر تربیت دے دے کہ وہ بدن سے اپنا حکم منوا سکے تو پھر اُس سے مشکل تبدیلی کی طرف دماغ کو مائل کیا جانا چاہیے و علی ھذالقیاس ۔
    وہ آسان طریقۂ ہائے کار کیا ہوسکتے ہیں؟ مثلاً یہ فرض کرلیتے ہیں کہ کیا آپ اپنی سانسوں کو اپنے دماغ کی سوچوں کے ذریعے ایک خاص ردھم کے ساتھ چلا سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جیسے نیند میں متواتر اور مناسب وقفوں سے سانسیں آتی جاتی ہیں۔ بالکل ویسے عالمِ بیداری میں اپنی سانسوں پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ قدرے آسان ہے۔ کسی کنجِ تنہائی میں آنکھیں بند کرکے، برابر وقفوں کے ساتھ آہستہ (سلو) سانسیں لینے کی مشق، چند دن میں اور بعضوں کے لیے ایک دو ماہ میں قابلِ اکتساب ہے۔ لیکن ایسی کسی بھی مہارت کو برقرار اور قائم رکھنے کے لیے اُس کی گاہے بگاہے مشق ضروری ہوتی ہے۔ اِسی طرح کی بعض مشقیں اختیار کرنے کے بعد عمل میں اخلاقی تبدیلی کی مشقوں کو بھی بتدریج آسان سے مشکل کی طرف اختیار کیا جاسکتاہے۔ مثلاً ابتدأ میں مجض تھوڑے وقت کے لیے جھوٹ کو ترک کردیا جائے۔ چھ سے سات بجے تک چھوٹ نہیں۔ فقط خود کو معلوم ہو۔ اپنے دل میں اور بس۔ اور ایک منٹ کا وقت ہرروز اس میں اضافہ کرتے جانے سے یہ وقت ایک لمبے عرصہ کے بعد چوبیس گھنٹوں پر آسانی کے ساتھ محیط ہوسکتاہے۔
    مشکل اخلاقی اعمال کی مشقوں میں دوسروں سے تعاون اور ہمدردی یا پڑوسی کے بچوں سے محبت جیسے بہت سے دیگر اعمال کی باری آتی ہے۔
    مختصر مدعا یہ ہے کہ عمل میں تبدیلی محض عقائد یا علم یا عبادات کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ دماغ جب تک بدن کو بااختیار حکم دینے کی صلاحیت نہ حاصل کرپائے متواتر اور مسلسل عملِ خیر ناممکن ہے۔
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment