کیا ایک مضبوط شخصیت ملک تبدیل کرسکتی ہے؟

    .اصلاً امریکی جریدے ’’دی اٹلانٹک‘‘ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں شادی حامد نے اس نکتے پر بحث کی ہے کہ تاریخ اور روایات کے اعتبار سے اہم سمجھے جانے والے کسی بھی ملک کی ہیئت تبدیل کرنے میں طاقتور شخصیات کا کیا کردار ہوا کرتا ہے اور کیا ایسا کردار ادا کرنا اب بھی ممکن ہے۔


    سیاست دانوں، اور خاص طور پر نظریاتی سیاست دانوں، کو جلد یا بدیر ’’اب آگے کیا؟‘‘ کے سوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپریل میں منعقدہ ایک ریفرنڈم میں ترک صدر رجب طیب ایردوان کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اب صدر ایردوان ترک سیاست پر ۲۰۲۹ء تک چھائے رہیں گے۔ ترک سیاست، معاشرت اور معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لیے ان کے پاس ایک عشرے سے زیادہ وقت ہے۔
    اقتدار کے پہلے عشرے کے دوران رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے قومی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ آزاد منڈی کی معیشت سے متعلق تمام اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کو بھی، جو جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دے رہی تھی، سیاسی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے غیر موثر کردیا گیا۔
    اب سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کا خواب اے کے پی نے دیکھا تھا؟ ایسا الگتا ہے کہ اے کے پی اب اپنی ہی کامیابی کے دام میں گرفتار ہوچکی ہے۔ ملک میں جس قدر آزادی عوام کو ملنی چاہیے تھی، وہ اب تک نہیں ملی۔ جمہوریت کے تحت اداروں کو جس قدر آزادی دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔ صدر ایردوان چاہتے ہیں کہ انہیں صرف قومی معیشت و سیاست تبدیل کرنے کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ دیگر حوالوں سے بھی یاد رکھا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان میں اتنی بصیرت ہے کہ ترکی کا فکری و عملی ڈھانچا ہی تبدیل کردیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ایردوان ٹیکنو کریٹ ہیں اور کسی بھی ملک کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہوا کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایردوان کسی اور کو ابھرنے دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنے سامنے کسی اور کا بھرپور وجود برداشت نہیں کرسکتے۔ وزیر اعظم احمد داؤ اوغلو کا جانا اس نکتے کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ احمد داؤ اوغلو نے اے کے پی کی پالیسیاں تیار کرنے اور انہیں عمل کی دنیا میں رکھنے کے قابل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
    سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ کیا شخصیات معاشروں کو تبدیل کرسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی حتمی رائے دینا ہمیشہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ تاریخ، روایات اور اقدار کے اعتبار سے مضبوط معاشرہ کبھی کسی ایک آدھ شخصیت کے ہاتھوں تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ ترکی بھی ایک ایسا ہی معاشرہ ہے، جس کا پورا ڈھانچا تبدیل کرنے میں کوئی ایک شخصیت کبھی بھرپور کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ کوئی بھی شخصیت طاقت کے ذریعے تھوڑی بہت تبدیلیاں ضرور لاسکتی ہے مگر حقیقی معنوں میں دیرپا، مثبت تبدیلیاں یقینی بنانا کسی ایک شخصیت کے بس کی بات نہیں۔ حقیقی اور غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کار کبھی اس نکتے کی وکالت نہیں کرتے کہ شخصیات کو رول ماڈل کی حیثیت سے قبول کیا جائے اور ان کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہا جائے۔
    ۲۰۰۱ء کے ایک مضمون میں ڈین بائمین اور کین پولاک نے اس نکتے پر بحث کی تھی کہ اداروں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شخصیات کو بچایا جائے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ بہت سی انتہائی غیر معمولی شخصیات بھی اداروں کی طاقت کے سامنے بجھ سی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ ایسا بہت کچھ نہیں کر پاتیں جو وہ بخوبی کرسکتی ہیں۔ مگر خیر، یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سی سیاسی اور عسکری شخصیات اپنی طاقت میں اضافے کے لیے اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کرتی جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو وہ اداروں کو تحلیل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ ڈین بائمین اور کین پولاک نے لکھا تھا کہ انتہائی غیر معمولی، طلسماتی شخصیت اداروں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوسکتی ہے اور بہت سی مثبت تبدیلیاں بھی لاسکتی ہے۔ رجب طیب ایردوان میں بھی ایسا کرنے کی صلاحیت تھی۔ انہیں ایسی قوتوں کا سامنا تھا جو کھل کر سامنے تھیں بھی اور نہیں بھی تھیں۔ ترکی ایک زمانے تک فوج، عدلیہ اور سکیورٹی کے اداروں کے چنگل میں پھنسا رہا۔ کئی عشروں تک عوامی اداروں کے پنپنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔ فوج نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور عدلیہ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ عوام کی خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے اندرونی سلامتی کے نیٹ ورک سے بھرپور مدد لی گئی۔
    رجب طیب ایردوان نے متعدد مواقع پر اپنے آپ کو مصطفی کمال اتا ترک کے پائے کا رہنما بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں ایک کلیدی پریس کانفرنس سے قبل اے کے پی نے ایردوان کو ترکی کے نئے معمار کی حیثیت سے پیش کیا اور پھر ایک وڈیو میں ایردوان نے کہا کہ وہ ترکی کی دوسری جنگ آزادی کی قیادت کر رہے ہیں۔
    میں نے اپنی ایک کتاب کی تیاری کے سلسلے میں ایردوان اور دیگر شخصیات کی صلاحیت و سکت کے حوالے سے بہت سوچا ہے۔ عبداللہ گل ہی کی مثال لیجیے۔ وہ ایردوان کے لیے ایک بڑے حریف کی شکل میں ابھر سکتے تھے اور ابھر رہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایردوان کی جگہ عبداللہ گل جیسا نرم خو معاشیات کا پروفیسر اے کے پی کا سربراہ بن جاتا تو کیا ہوتا؟ عبداللہ گل کے سابق مشیر نے مجھے بتایا کہ عبداللہ گل کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ تھا۔ وہ غیر معمولی حد تک حقیقت پسند تھے۔ انہیں یہ پسند نہ تھا کہ عوام کے بپھرے ہوئے جذبات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ اگر انہیں کسی اقدام کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے کچھ زیادہ امید نہ ہوتی تو وہ اس معاملے میں آگے بڑھنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ عبداللہ گل اس بات کے بھی سخت خلاف تھے کہ بڑھک آمیز باتیں کرکے لوگوں کو تقسیم کیا جائے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر وہ ہوتے تو مذہبی اور سماجی رجعت پسندی کو بنیاد بناکر معاشرے میں کسی حقیقی بنیادی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے۔
    مذہبی رجعت پسندی اجتماعی ہی نہیں انفرادی سطح پر بھی بہت اہم ہے۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کم ہی شک ہے کہ ایردوان بھی عام ترکوں کو مذہبی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء کے بعد سے ان کی سوچ میں واضح تبدیلی رونما ہوئی۔ ۲۰۱۱ء میں ایردوان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد سے انہوں نے موت کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ ہر مسلمان کی طرح ان کے ذہن میں بھی یہ نکتہ موجود ہے کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اور ایردوان کو صرف اپنا ذاتی حساب نہیں دینا بلکہ قومی لیڈر کی حیثیت سے عام ترکوں کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا حساب بھی دینا ہے۔ اور اس سے ایک قدم آگے جاکر اسلامی دنیا میں ترکی کے بڑھتے ہوئے قائدانہ کردار کے حوالے سے بھی ان پر شدید جوابدہی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک حدیث بھی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی حوالے سے ذمہ دار بنایا گیا ہے‘‘ یعنی کچھ لوگوں کی ذمہ داری ہمارے سروں پر ڈالی گئی ہے اور آخرت میں ہم سے اس ذمہ داری کے حوالے سے سوال کیا جائے گا۔
    ایردوان نے ریاستی قوت کے ذریعے لوگوں میں تقوٰی کی طرف مائل ہونے کا رجحان پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ عمل بالواسطہ رہا ہے۔ انہوں نے کسی پر اسلامی قوانین مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ عوام کو تحریک دی ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں اور اس معاملے میں اللہ سے ڈریں۔ شراب پر پابندی عائد کرنا ایک دشوار فیصلہ ہوتا۔ اور آئین میں بھی مذہبی بنیاد پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی گنجائش نہیں۔ ایردوان انتظامیہ نے شراب پر ٹیکس بڑھا دیے اور رات دس بجے کے بعد شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔ ترک معاشرے میں جلد شادی کرنے کا رجحان نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہو رہی تھی۔ ایردوان نے جلد شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے مالی اعانت کا اعلان کیا۔ آبادی میں اضافے کے لیے بھی فیصلہ کیا گیا کہ تین بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کی مالی اعانت کی جائے۔
    اسقاطِ حمل کے حوالے سے بھی ایردوان کے ہاں کم ہی لچک ہے۔ ان کی پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ بعض اوقات ایردوان کا رویہ باپ کا سا ہوتا ہے۔ ان کا کہا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ تو نہیں رکھتا مگر وہ معاشرے کی حقیقی اصلاح چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل بری عادتیں ترک کردے۔ کئی مواقع پر ایردوان بالکل واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ کسی انسان کو ختم کرنا اور رحمِ مادر میں پلنے والے بچے کو ختم کرنا دونوں ہی قتل ہیں۔
    ایردوان اسلام سے متعلق اپنے نظریات کو باضابطہ شکل میں پیش کرکے نافذ کرنے کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی رجعت پسندانہ سوچ تھوپی نہ جائے بلکہ مرحلہ وار متعارف کرائی جائے۔ اگر عوام قبول کریں تو ٹھیک، ورنہ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اور موزوں وقت کا انتظار کیا جائے۔ ترکی میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو اسلامی بنیادیں رکھتی ہے۔ ایسی جماعت اگر ترک آئین کے خلاف جائے تو حیرت کی بات کیا ہے۔ ترک آئین میں سیکولراِزم کو باضابطہ نام کے ساتھ احترام بخشا گیا ہے اور مذہبی نظریات کا سرعام اظہار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور اے کے پی کی کلیدی شخصیت اسماعیل کہرمان نے تجویز پیش کی تھی کہ ترک آئین سے سیکولرازم کے احترام کا اہتمام ختم کردیا جائے مگر ایردوان نے ان کی رائے سے خود کو فوراً الگ کرلیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے حوالے سے فی الحال کوئی مہم جوئی نہیں کی جاسکتی۔
    ایردوان کے پاس معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک وژن ہے مگر یہ وژن ہر اعتبار سے درست اور بہترین نہیں۔ اے کے پی کے پاس حقیقی علماء شاذ و نادر ہی رہے ہیں۔ اسلامی علوم پر گہری نظر اور دسترس رکھنے والے علماء کی اس پارٹی میں کمی رہی ہے۔ ابراہیم کلین اس حوالے سے استثناء کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ ایردوان کے مشیر اور دستِ راست رہے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھایا ہے۔ تمام اسلامی علوم پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔ انہوں نے معاملات کو درست انداز سے چلانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ انہوں نے معروف شیعہ عالم ملا صدر کی سوانح بھی لکھی۔ میں نے ایک بار ابراہیم کلین سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ اسلامی علوم پر غیر معمولی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایردوان کے لیے غیر معمولی احترام کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ اندازہ بھی ہوا کہ ایردوان کو وہ ایک خاص حد تک ہی قائل کر پائے ہیں۔ یعنی اس حد سے آگے جانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ گفتگو کے دوران وہ کہیں کہیں جذبات میں اس قدر بہہ گئے کہ مجھ سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ سے بھی باتیں کرنے لگے۔ ابراہم کلین سے گفتگو کے دوران میں نے کئی بار یہ اندازہ لگایا کہ اگر وہ سیاست میں نہ آتے تو پروفیسر کی حیثیت سے زیادہ پرسکون اور بارآور زندگی بسر کرتے۔
    اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایردوان کے ذہن میں بہت کچھ رہا ہے۔ وہ معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور اسلامی اقدار کا فروغ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے مگر یہ سب کچھ جبلّی یا فطری سطح پر ہے، علمی اور عقلی سطح پر نہیں۔ ایردوان کے ذہن میں جو کچھ ہے وہ ان کے اپنے تجربات کی روشنی میں پروان چڑھا ہے۔ وہ ایک خاص حد سے آگے جاکر نہیں سوچ سکتے۔ اگر وہ معاشرے کی اصلاح اور اسلامی اقدار کے فروغ کے حوالے سے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ مستند علماء کے ساتھ بیٹھیں، انہیں اپنی رائے اور ارادوں سے آگاہ کریں اور پھر ان سے رائے طلب کریں۔ اسی صورت کسی مستند نظام کے حوالے سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔
    ایردوان نے مذہبی امور سے متعلق وزارت دیانت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اس وزارت کے تحت مساجد کا نظم و نسق بھی ہے اور ائمہ کی تربیت بھی۔ مذہبی اسکول یا مدارس بھی اسی وزارت کے ماتحت ہیں۔ ایردوان کی واضح ہدایات کی روشنی میں اب اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کی کلاسیں لازم کردی گئی ہیں۔ ۲۰۱۵ء کی ایک تقریر میں ایردوان نے اس بات کو بہت فخریہ انداز سے بیان کیا کہ ہائی اسکول کی سطح کے سرکاری مدارس میں انرولمنٹ ۶۵ ہزار سے بڑھ کر ۱۰ لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ترکی کی نئی نسل اپنی روایت اور ثقافتی ورثے کو زیادہ عمدگی سے سمجھنے کے قابل ہوسکے گی۔
    ایردوان نے ’’نیا ترکی‘‘ کا نعرہ بھی دیا ہے۔ یہ نعرہ اب محض نعرہ نہیں رہا، منصوبہ بن چکا ہے۔ ترکی میں بہت سوں کی نظر میں ایردوان ایک روحانی لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور بات کچھ غلط بھی نہیں۔ انہوں نے اب تک متعدد مواقع پر یہ جتایا ہے کہ وہ ترکی کے لیے محض مادّی نہیں، روحانی اور معاشرتی ترقی بھی چاہتے ہیں یعنی معاشرے میں صرف دولت کی ریل پیل نہ ہو بلکہ اخلاقی اقدار بھی تیزی سے پروان چڑھیں، لوگ پوری دیانت کے ساتھ جئیں، ان کے ضمیر پر کوئی غیر ضروری بوجھ نہ ہو، وہ گناہوں سے آلودہ ہوئے بغیر پرسکون زندگی بسر کریں۔ ایردوان کے طریقوں سے، سوچ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ پورے معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے غیر اسلامی نظریات اور تصورات کو ختم کرنے کے حوالے سے اچھی تیاری کی ہے مگر اس حوالے سے عوام پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام پر کوئی بھی رائے تھوپی نہ جائے بلکہ وہ اپنے طور پر آگے بڑھیں اور وہ کر گزریں جو ان کے لیے بہتر اور ضروری ہو۔ ترکی میں اسلام پسند عناصر کسی بھی معاملے میں مرحلہ وار تبدیلی یقینی بنانے کے عمل کے لیے لفظ project استعمال کرتے ہیں۔ ایردوان بھی چاہتے ہیں کہ معاشرہ مرحلہ وار تبدیل ہو۔ کوئی بھی تبدیلی اگر راتوں رات رونما ہو تو صرف خرابیاں پیدا کرتی ہے۔
    اے کے پی اگر طویل مدت تک حکومت کرنے کی تیاری کر رہی ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ جو کچھ وہ کرنا چاہتی ہے اس کے لیے طویل مدت درکار ہے۔ معاشرے کو مکمل طور پر اور کسی واضح خرابی کے بغیر تبدیل کرنے کے لیے طویل مدت درکار ہوا کرتی ہے۔ ایردوان اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ ’’اے کے پی ایک نسل کی تحریک کی صورت میں نمودار ہوئی مگر یہ کسی ایک نسل تک محدود نہیں‘‘۔ یعنی جو کچھ اے کے پی کرنا چاہتی ہے وہ کئی نسلوں کا کام ہے اور یہ کام کئی نسلیں مل کر ہی کرسکتی ہیں۔
    سیمیوئل ہنٹنگنٹن نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’دی کلیش آف سویلائزیشنز‘‘ میں ترکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اگرچہ نظریاتی اعتبار سے ایک منتشر ملک ہے لیکن اگر اتا ترک کی وراثت کو نظر انداز کرے تو متحد ہوکر اسلامی دنیا کا رہبر بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اتا ترک کی وراثت کو اس جذبے سے بڑھ کر نظر انداز کرے جس جذبے سے روس نے لینن ازم کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی کے لیے ایک نئے انداز سے ابھرنا اور ایک نئی شناخت کے تحت عالمی سطح پر کام کرنا انتہائی ممکن ہے۔ اور شاید اب یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ ایردوان اور ان کی پارٹی نے ترکی کو ایک نئی شکل میں دنیا کے سامنے لانا شروع کردیا ہے۔
    یورپی یونین نے ترکی کو رکنیت دینے سے اب تک گریز کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اُسے ایسا ترکی کسی حال میں قبول نہیں جو اسلامی روایت اور شناخت کا حامل ہو۔ ایسے میں ایردوان اور ان کے رفقاء کے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ مل کر ترکی کو ایک نئی شناخت دیں، اسلامی دنیا میں نمایاں مقام دلائیں اور یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق اپنی تمام امیدوں کا گلا گھونٹ کر خود کو اسلامی دنیا کے لیڈر کے طور پر آگے لائیں۔
    ایردوان سے اختلاف کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں۔ پانچ سال پہلے تک ترک ماڈل کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اب بہت سے لوگ ترک ماڈل کے ذکر کو زیادہ فخر سے برداشت نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ ایردوان حکومت نے صحافت کے ہاتھ پیر باندھنے کی کوشش بھی کی ہے اور چند ایک معاملات میں شہری آزادیوں کو بھی حدود میں رکھنے پر بضد رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اختلاف کرنے والے بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک خطرناک رجحان یہ ہے کہ اسلام پسند عناصر مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق چلتا رہے۔ یہ خطرناک ہے۔ جو لوگ کسی بھی حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں ان کے اطمینان کے لیے ان کی بات سننا لازم ہے۔ ایسا کرنے ہی سے معاملات کو درست رکھنے میں خاطر خواہ حد تک مدد مل سکتی ہے۔ احمد داؤ اوغلو کے ایک مشیر نے ایک بار مجھ سے کہا کہ ’’کچھ لوگ اب تک اتا ترک کی لاش کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہمیں اتا ترک کی لاش کو قبر میں واپس ڈالنا ہی پڑے گا‘‘۔
    اتا ترک نے ترکی کو تبدیل کردیا تھا مگر یہ سب کچھ طاقت کے ذریعے تھا۔ اس نے ساری طاقت اپنی ذات میں مرتکز کرکے ترک معاشرے کی بنیاد ہی بدل ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پسندوں کے لیے ذرا بھی گنجائش نہ رہی کہ اپنی بات پیش کرسکیں، منواسکیں۔ اتا ترک نے جو کچھ کیا تھا وہ طاقت کے ذریعے تھا اس لیے سات عشروں کے بعد سب کچھ بدل گیا اور جیسے ہی گنجائش پیدا ہوئی، اسلام پسندوں نے اپنی بات منوائی اور خوب منوائی۔ اب اسلام پسند بھی چاہتے ہیں کہ اپنی حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ سیکولرازم کی بات کرنے والوں کو ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ فطری سا معاملہ ہے۔ ترکی معاشرے کا ڈھانچا ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ایک ڈیڑھ عشرے میں سیکولراِزم کی بات کرنے والوں کے لیے مشکلات اتنی بڑھ جائیں گی کہ وہ کسی بھی معاملے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار بھی نہیں کرسکیں گے۔
    اتا ترک نے جو کچھ کیا تھا اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے اب ایردوان اور ان کے رفقاء غیر محسوس انداز سے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ترک عوام کے لیے ایک نئی زندگی بسر کرنے کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ سیکولراِزم کو دیس نکالا دینے کی تیاری کی جارہی ہے مگر یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ایردوان اور ان کے رفقاء چاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں طاقت غیر ضروری طور پر بروئے کار نہ لائی جائے۔ سوشل انجینئرنگ غیر محسوس طریقے سے کی جارہی ہے۔ سب کچھ مرحلہ وار ہو رہا ہے۔ کسی بھی معاملے میں پورے معاشرے سے ٹکرانے کی تیاری نہیں کی گئی اور نہ ہی اب بھی ایسا کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ ہیڈ اسکارف کے معاملے میں بھی اے کے پی نے غیر لچک دار رویہ نہیں دکھایا۔ سب کچھ عوام کی مرضی سے ہوا ہے۔ اے کے پی کے رجعت پسند رہنماؤں کو رام کرنے پر توجہ دی گئی ہے تاکہ وہ بپھر کر کچھ ایسا نہ کر بیٹھیں کہ کیے کرائے پر پانی پھر جائے۔
    (ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ