ایک وصیت ۔۔ ایک حقیقت

ایک وصیت ۔۔ ایک حقیقت
گبریل گارسیا مارکیز مشہور ناول نگار ہے، مارکیز کولمبیا کو رہنے والا تھا 40ء کی دھائی میں اس نے اپنے کئیرئر کا آغاز صحافت سے کیا، بعد میں یہ عظیم ناول نگار صحآفت کو خیر باد کہہ کر ادب کی وادی میں کود پڑا، مارکیز کا مشہور عظیم ناول "ہنڈرڈ ئیرز کا سالیچیوڈ" یعنی "تنہائی کے سو سال" ہے۔۔اس ناول کا شمار دنیا کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبل پرائز ملا۔۔ مارکیز کینسر کا مرض میں مبتلا
تھا۔۔۔ اس زندگی اور موت کی کشمکش میں مارکیز نے اپنے چاہنے والوں کے نام ایک وصیت لکھی ہے جو صدائے مسلم کے قارئین کے پیش ہے
"اے میرے خدا! مجھے ایک لمحے کے لئے بے حس اور گڈا سا انسان بنا دے، ایک جیتا جاگتا انسان۔۔۔ مجھے قسم ہے تمھاری میں پھر بھی وہ نہیں کہو نگا جو میں سوچتا رہتا ہوں۔۔ میں صرف اور صرف سوچوں گا۔۔۔ اس بارے میں سوچوں گا جو میں کہتا رہتا ہوں۔۔یا پھرمیں کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ اے میرے خدا! تو مجھے ایک بار حرکت دے دیں۔۔ مجھے تمھاری قسم مین کھبی زندگی میں چیزوں کی قیمت نہیں دیکھوں گا۔۔ میں ان کی اہمیت دیکھوں گا۔۔۔ ان کی قدر کرونگا۔۔ اے میرے خدا! میں کم سووں گا اور زیادہ خواب دیکھوں گا۔۔۔ کہ میں جان چکا ہوں کہ ایک منٹ کے لئے اگر آنکھیں بند ہو تو ہم روشنی کے کتنے سیکنڈ کھو دیتے ہیں۔۔ اے میرےخدا! تو اگر مجھے ایک لمحے کے لئے زندگی بخش دے ۔۔تو میں اس وقت چلوں گا جب لوگ رک جائینگے ۔۔۔۔ میں اس وقت جاگو گا جب لوگ سو جائینگے۔۔اے میرے خدا! میں چاکلیٹ کھاوں گا۔۔۔ آئس کریم کھاوں گا۔۔ایے میرے خدا!۔۔۔۔۔۔ تو ااگر مجھے تھوڑی سی زندگی دے دیں۔۔ میں ہمیشہ سادہ کپڑے پہنوں گا۔۔۔اپنا جسم اور اپنی روح سورج کے سامنے کھول دونگا۔۔۔۔۔۔ اے میرے خدا! اگر تو مجھے تھوڑی دیر کے لئے میرا دل دے دیں۔۔۔۔۔ تو میں اپنی نفرت برف پر رکھ دونگا۔۔۔ اور اسے سورج کی تمازت میں بھاپ بننے اور بھاپ بنتے اڑتے دیکھوں گا۔۔۔۔اے میرے خدا! مین ستاروں پہ "وین گاف" کے خواب پینٹ کرونگا۔۔۔ چاند کے لئے ایک بینی ڈیٹی نظم "سیرات" ---نغمہ-- لکھونگا۔۔ میں سرخ گلاب چوموں گا۔۔۔۔ اور اپنے آنکھوں اور اپنے آنسوں سے پھولوں کے وہ تمام درد چن لوں گا ۔۔ جو کانٹوں نے انہیں دئے ہیں۔۔اے میرے خدا! تو اگر مجھے ٹھوڑی سی زندگی دے دیں۔۔۔ تو میں کوئی ایسا دن نہیں گزرنے دونگا جب میں لوگوں کو اپنی محبت کا یقین نہ دلا سکوں۔
میں دنیا کے ہر مرد ، ہر عورت کو سمجھاوں گا۔۔ مجھے ان سے محبت ہے۔۔۔ میں محبت سے ساتھ محبت میں رہو نگا۔اور لوگون کو بتاوں گا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں بوڑھے ہو کر وہ محبت کے قابل نہیں رہتے ۔۔ وہ بے وقوف ہے۔۔ انسان تو بوڑھا ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ محبت ترک دیتا ہے۔۔ میں بچوں کو پرلگاں گا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انہیں اپنی اڑآن خود لینے کا موقع دونگا۔۔ میں بوڑھوں کو بتاوں گا کہ موت سے بڑھاپے سے نہیں آتی فراموشی سے آتی ہے۔۔۔۔۔بے حسی سے آتی ہے۔۔۔ اور اے انسان اے میرے پڑھنے والے انسان ! میں نے تم سے سیکھا تھا کہ پر انسان چوٹی پہ پہنچنا چاہتا ہے۔۔ یہ جانے بغیر کہ چوٹی کچھ نہیں ۔۔ اصل چیز تو مسافت ہے ۔۔ وہ مشقت ہے جو پہاڑ کو سر کرنے کے بعد کی جاتی ہے۔۔ میں نے سیکھا کہ جو بچہ باپ کی انگلی تھام لے وہ سہارے کا عادی ہو جاتا ہے۔۔ میں نے سیکھا کہ نفرت کا حق اسی کو حاصل ہے۔۔ جس نے زندگی بھر لوگوں کو سہارا دیا ہو۔ اورجس نے لوگوں کو کھڑا ہونے میں مدد کی ہو۔۔اے لوگو!! میں نے آپ سے اور بہت کچھ سیکھا ہے۔۔ لیکن اس وقت موت جب میری پاینتی کھڑی ہے تو میرا دل اداس ہے۔۔ میں اداس ہو کہ میں کچھ آپ کو نہیں سونپ پایا جو مجھے سونپنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔ اور افسوس میں زندگی کی اصل حقیقتیں اپنے سینے میں دفن کر کے جارہا ہوں۔۔۔ افسوس میں وہ سب نہیں کہہ پایا جو میں کہنا چاہتا تھا اور جو مجھے آپ کو بتانا چاہئے تھا".


گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ