مغرب کے ساتھ نظریاتی کشمکش اور اسلام کا مقدمہ

مغرب کے ساتھ نظریاتی کشمکش اور اسلام کا مقدمہ
مغربی ذرائع ابلاغ اور مختلف فورموں کے ذریعے سےیہ تأثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے بس کچھ مجرد قسم کی پابندیوں اور رسوم و رواج کا مجموعہ ہے اور موجودہ نظریاتی دور میں اس کا کوئی کردار اس کے علاوہ نہیں ہے کہ یہ مغرب کی پھیلائی ہوئی روشن خیالی میں غیر ضروری قسم کی رکاوٹیں پیدا کرے۔
اس سلسلے میں مغرب کی طرف سے کئی ایک اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ مثلاً مغرب کا اسلام پر ایک معروف اعتراض یہ ہے کہ اسلام آزادی کے خلاف ہے اور اسلام میں انسانوں کے درمیان تفریق کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کو زیادہ مسئلہ خصوصاً مساوات مرد وزن اور عورتوں کی آزادی کے بارے میں ہے۔
ان اعتراضات کے رد عمل میں مسلمانوں کے مختلف مؤقف سامنے آتے ہیں۔ ایک فریق تو اس بات پر پورازور دیتا نظر آتا ہے کہ اسلام میں مساوات اور آزادی نہ صرف موجود ہے بلکہ اسلام ہی مساوات او ر آزادی کا علمبردار ہے۔ بلکہ اِس فریق کی جانب سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اسلام ہی تھا جس نے مغرب کو ’مساوات‘ اور ’آزادی‘ کا سبق دیا۔ایک دوسرا فریق جس کی خواہش تو یہی نظر آتی ہے کہ نظریاتی بحث میں پڑنے اورمغرب سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلام کے مؤقف کو ایک دبنگ انداز میں سامنے لے کر آئے، کوئی لحاظ کئے بغیر اعلان کر دیتا ہے کہ اسلام نہ مساوات کو تسلیم کرتا ہے نہ ہی اسلام آزادی کا علمبردار ہے، بلکہ اسلام نام ہی پابندی اور عدل کا ہے۔ یعنی اسلام آزادی کے مقابلے میں پابندی کا قائل ہے اور مساوات کے مقابلے میں عدل کا۔ فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ مؤقف شرعی اعتبار سے صحیح ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اہل علم کی اہم ترین ذمہ داری یہی ہے کہ بلا کسی لحاظ کے ہر ہر مسئلے میں اسلامی مؤقف کی وضاحت کر دے چاہے اکثریت اس کے بارے میں جو چاہے رائے قائم کرے!
لیکن تمدن کے معرکے اس دور میں جبکہ دنیا میں ایک آسمانی حقیقت اور ایک زمینی حقیقت ایک دوسرے کے دو بدو ہے صرف شرعی مؤقف پیش کرنا مسئلے کا اصل حل نہیں ہے۔ ا گر ہمیں اس معرکے میں نظریاتی فتح حاصل کرنا ہے بلکہ اگر ہمیں اپنے دور کے قابل ترین انسانی جوہر کو اسلام پر اطمینان کی نعمت سے بہرہ ور کرانا ہے اور اس معرکے میں اسلام کا حریف بننے سے بچانا ہے تو بہرحال ثابت بھی کرنا پڑے گا کہ اسلام اِس ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ سے مستغنی و بے نیاز ہے تو کس معنیٰ میں اور کیوں؟ مزید برآں پہلا فریق جو کہ یہ دعوی کررہا ہے کہ اسلام آزادی اور مساوات کا علمبردار ہے اس کی بات مطلق طور پر خالی از علت نہیں ہے اور نہ ہی وہ دین سے غیر مخلص ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے کو اسلام اگر ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ کا دین نظر آتا ہے تو پھر اسلام کے کئی احکامات ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ کے اصول سے کیوں ٹکراتے ہیں؟

مذید پڑھیئے
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ