نیاز سواتی۔۔۔۔ کلام و تعارف

نیاز سواتی۔۔۔۔ کلام و تعارف
تحریر: سید آصف جلال      زمرہ: اردو ادب
السلام علیکم قارئین۔۔۔ ۔ ہزارہ کے گلشن ادب کے مہکتے پھولوں میں سے آج میں جس گل کا ذکر کرنے جا رہا ہوں اہل ادب انہیں ادب میں طنز و مزاغ کا بادشاہ تصور کرتے ہیں۔قارئین نیاز ؔ سواتی کا اصل نام نیاز محمد خان تھا ، آپ کا تعلق وادی کونش کے ایک گاؤں بھوگڑمنگ تھا، تاریخ پیدائش ہے 29اپریل1941 ؁ء ہے۔ آپ خداداد وزیر صحت مغربی پاکستان کے بھتیجے ہیں، آ پ نے ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی۔اے
کیا۔اور1964میں لاء کالج پشاور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ ابیٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ افیسر کا کرتے رہے، ادب میں صنف شاعری میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے، ہزارہ کے مشاعروں کے روح رواں تھے۔ مجلس شعر جہاں کہیں بھی ہو بڑی چاہت سے شریک ہوتے تھے، علم و ادب و بزم ادب انہیں اپنی تقریبات میں مدعو کرتے تھے۔ آپ نے اردو کے علاوہ علاقائی زبان ہندکو میں بھی کلام لکھے۔اہل ادب کا دعوی ہے کہ آپ طنز و مزاح میں آپ کا ہم عصر کوئی نہ تھا۔آپ کا انتقال 13اگست 1995ء کو ہوا۔
نمونہ کلام پیش خدمت ہے.

*********
معرکے رشوت کے ہم ہر روز سر کرتے رہے
اور ہماری جیب خالی ڈاکٹر کرتے رہے
خدمت علم و ہنر ہم عمر بھر کرتے رہے
اور سب اعزاز حاصل بے ہنر کرتے رہے
ہم نے سوچا تھا بنینگے ‘پائلٹ ‘لیکن حضور
زندگی بھر بیل گاڑی میں سفر کرتے رہے
دوپہر تک وہ ادھر آرام سے سوتا رہا
انتظار یار شب ہم رات بھر کرتے رہے
دردجو ہم کو تھاوہ ویسے کا ویسے ہی رہا
یک پیسہ بھی نہین ہم نے ہلایا جیب سے
اور باتیں خوب میرے ہمسفر کرتے رہے
درد تو محسوس کرتا تھا میں اپنے پاؤں میں
ڈاکٹر لیکن‘علاجِ درد سر کرتے رہے
ہم نے جن کی راہ سے ہر اک رکاوٹ دور کی
پر وہ کانٹو ں سے ہماری رہگذر کرتے رہے
مشغلہ غیبت ہے اپنا دوست اور احباب کی
کام یہ کرنا نہ تھا جسکو مگر کرتے رہے
مجھ سے پہلے مر گئے وہ میرے وارث اے نیازؔ
میرے مرنے کی دعا جو عمر بھر کرتے رہے
**********


غلط سمجھے ہو ان کے زخم خنجر یاد آتے ہیں
ہمیں احباب کے طعنوں کے نشتر یادآتے ہیں
ارادہ جب بھی کرتا ہوں میں کے پاس جانے کی
جو میرے سر پہ برسے تھے وہ پتھر یاد آتے ہیں
ہمارے لیڈروں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے
الیکشن جب قریب آئیں تو ووٹر یاد آتے ہیں
پڑا ہے جب سے پالا سخت خو خاوند سے میڈم کو
تو سارے سابقہ مظلوم شوہر یاد آتے ہیں
جو خدمت آنریری طور پر دن رات کرتے تھے
ہمیں اب سابقہ اپنے وہ نوکر یاد آتے ہیں
بقائے کا تقاضا جو نہ کرتے تھے کنڈیکٹر سے
کنڈیکٹر کو وہ سب ایسے پسنجر یاد آتے ہیں
ذرا سی بھی اگر رکھتے ہیں پاوں ایکسی لیٹر پر
ہمیں فی الفور سب ٹائر کے پنچر یاد آتے ہیں
وہ روتی ہے چیک شوہر سے فارن کیوں نہیں بھیجا
غلط سمجھے ہو تم! میڈم کو مسٹر یاد آتے ہیں
دیا کرتے تھے پٹوار ی جو ان کا تحفۃً لا کر
وہ افسر مال کو گھی کے کنستر یاد آتے ہیں
بدست خود جو ہم کو امتحاں میں نقل دیتے تھے
نیازؔ ! اب بھی ہمیں وہ اپنے ٹیچر یاد آتے ہیں۔

*********
مٹھائي اگر تجھ کو پياري نہ ہوتي
تري توند پھر اتني بھاري نہ ہوتي

نہ ہوتا اگر کام درپيش تم سے
تو يوں روز تيمارداري نہ ہوتي

اگر ٹيم ميں اک بھي ہوتا کھلاڑي
تو ٹيم اپني ہر بار ہاري نہ ہوتي

قطر سے نہ لاتے اگر مال و دولت
محملے ميں عزت تمہاري نہ ہوتي

اگر چھوڑ کر وہ نہ مرتا وراثت
پس مرگ يوں آہ و زاري نہ ہوتي

اگر گرم کرتے نہ بابو کي مٹھي
تو آسان مشکل تمہاري نہ ہوتي
 *******
اگر چہ کھا کے رشوت بڑھ گئي ہے اس کي موٹائي
مگر چہرے پہ اب باقي نہيں پہلے سي رعنائي
غلط سمجھے ہو ليڈر قوم کے ہمدرد ہيں
کوئي دولت کا رسيا ہے کوئي کرسي کا شيدائي
ہمارے عہد ميں توقير کا معيار دولت ہے
شرافت کام آتي ہے ، نہ کام آتي ہے وانائي
کوئي ہم کو دلا دے کاش ايسي نوکري
برائے نام ہو تنخواہ پر انکم ہو بالائي
نہيں آتا ہے ان کو تيرنا چھوٹي سي ريا میں
سمندر کي مگر وہ ناپنے نکلے ہے گہرائي
گذشتہ روز ارجنٹ کال بک کروائي تھي ہم نے
برائے گفتگو نوبت مگر اب تک نہيں آئي
بہت مہنگا پڑا ہم کو نياز آنکھوں کا اپريشن
اسے بھي ہم گنوا بيٹھے جو تھي تھوڑي سي بينائي
********
کھٹملوں کا نام مچھر کا نشاں کوئي نہ ہو
معرکے رشوت کے ہم ہر روز سر کرتے رہے

خدمت علم و ہنر ہم عمر بھر کرتے رہے
اور سب اعزاز حاصل بے ہنر کرتے رہے

دوپہر تک وہ ادھر آرام سے سوتا رہا
انتظار يار شب بھر ہم ادھر کرتے رہے

درد تو محسوس کرتا تھا ميں اپنے پائوں ميں
ڈاکٹر ليکن علاج درد سر کرتے رہے

ہم نے سوچا تھا بنيں گے پائلٹ ہم کبھي مگر
زندگي بھر بيل گاڑي ميں سفر کرتے رہے
*********

شاعري کا مشغل گو ہر آن ہونا چاھيے
گھر ميں کھانے کا بھي کچھ سامان ہونا چاھيئے
ميرا بيٹا بات سچي کوئي بھي کرتا نہيں
ميرے بيٹے کو سياستدان ہونا چاھئيے
دفتري عملے کو رشوت دے چکا ہون بار ہا
اب تو ميرے کام کو آسان ہونا چائيے
جو غزل پر لاد کر لائے پچاس اشعار کو
ايسے شاعر کا بھي اب چالان ہونا چاھيئے
نام اس کوٹھي کا کيوں رکھا ہے کٹيا شيخ جي
نام جس کا قصر عالي شان ہونا چائيے
*********
سرجن سے تب ميڈيکل کا بوگس بل بنوايا ہے
ہم نے اس کے ہاتھ ميں پورے سو کا نوٹ تھمايا ہے
کپڑوں ميں اک بھڑ نے گھس کر ناک ميں دم کر رکھا تھا
يہ مت سمجھو ہم نے تم کو ڈسکو ناچ دکھايا ہے
ہم سے بڑھ کر اہل محلہ فيض اٹھاتے ہيں
ہم نے اپنے گھر ميں ٹيلي فون عبث لگوايا ہے
چور ہوئے جب گھر ميں داخل ہم نے شور مچايا تھا
اور ہمسائے سمجھے ہم نے انگلش گانا گايا تھا
ہم نے جب نذرانہ دے کر اس کے دل کو موم کيا
دفتر کے چپڑاسي نے تب صاحب سے ملوايا ہے
ميڈم نے بازار کو شايد شاپنگ کرنے جانا ہے
اس لئے ميک اپ سے اس نے چہرے کو چمکايا ہے




گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ