اقبال کا تصور قدر

تحریر: سید آصف جلال زمرہ: اردو ادب‘ ہمارا معاشرہ

اقبال کا تصور قدر

محترم قارئین ! السلام علیکم! تصور قدر کے بارے مین آج علامہ اقبال ؒ کے نظریے کی مختصر وضاحت پیش ہے۔
قارئین،تقدیر کا لفظ قدر سے نکلا ہے جس کے معنی ہے اندازہ لگا نا۔معاملات زندگی کا ‘مدارج زندگی کا‘ کائنات کا اندازہ۔۔۔تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اندازہ کہ فلاں شخص اس ماحول اور حالات میں یہی کچھ کر سکے گا تصور تقدیر ہے۔۔۔تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا گیا وہ پورا ہو گا۔۔۔تقدیر نہیں۔۔۔ بلکہ جو زندگی اور موجودہ

حالات و ماحول میں رہتے ہوئے انسان کر سکتا ہے اس کے اندازے ک نام تقدیر ہے ۔
ملت اسلامیہ میں اس کے دو نظریات معروف ہیں۔۔۔ایک تو جبری نظریہ۔۔۔اور دوسرا قدرتی نظریہ۔ جبری نظریے کے مطابق تقدیر کا لکھا ہی پورا ہونا ہے۔۔۔انسان مجبور محض ہے۔۔۔جو قسمت میں ہو وہی ہوتا ہے۔۔۔قرآن کی نقطے نظر سے ایات استدلال یہ ہیں کہ ’’ترجمہ: اللہ جیسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے‘ اور جیسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے‘‘۔
قدرتی نظریے کے مطابق انسان خودمختار ہے اور مختار کل ہے ۔۔۔وہ اسے وہی ملتا ہے جس کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔انسان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جس کا یہ مستحق ہو۔۔۔یہ تقدیر کا محتاج نہیں بلکہ تقدیر خود بناتا ہے۔۔۔ایات استدلال یہ ہے کہ ’’ترجمہ: انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ‘‘۔ ارشاد باری تعالیٰ عمل کے اعتبار سے انسانوں کے درجات ہیں۔۔۔(جو عزت لینا چاہے۔۔۔اس کو عزت ملتی ہے۔۔۔جو ذلت لینا چاہے اسے ذلت ملتی ہے)۔
اقبال کا تصور قدر ان دونوں نظریات کے بین بین ہے، اقبال کے مطابق انسان نہ تو مجبور محض ہے اورنہ مختارِکل ۔۔۔نہ ہی تقدیر کا پابند ہے ۔۔۔اور نہ کسی چیز پر قادر۔۔۔انسان عمل اور ارادے میں خودمختار ہے ۔۔۔جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی صلہ پاتا ہے۔۔۔جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے۔۔۔اعمال صالحہ کی جزا اور اعمال بد کی سزا پاتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ