اسلام کا نظامِ حیات

    اسلام کا نظامِ حیات
      انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دوسری صفات کو ناپسند کرتی ہے۔ یہ حِس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم و بیش ہو مگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر برائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے۔ سچائی، انصاف، پاس عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے اور کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب جھوٹ،
      ظلم، بدعہدی اور خیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہمدردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاق و بردباری، اُولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھور پن، تلون مزاجی، پست حوصلگی اور بزدلی پر کبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خود داری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگیٔ نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفاشعاری، مستعدی اور احساسِ ذمہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض نا شناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذمہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور بُرے اوصاف کے معاملہ میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم و انضباط ہو، تعاون اور امداد باہمی ہو، آپس کی محبت اور خیرخواہی ہو، اجتماعی انصاف اور معاشرتی مساوات ہو، تفرقہ، انتشار، بدنظمی، بے ضابطگی، نا اتفاقی، آپس کی بد خواہی ، ظلم اور ناہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ کردار کی نیکی و بدی کا بھی ہے۔ چوری، زنا، قتل،ڈاکہ، جعل سازی اور رشوت خوری کبھی اچھے افعال نہیں سمجھے گئے۔ بدزبانی، مردم آزاری، غیبت، چغل خوری ، حسد، بہتان تراشی، اور فساد انگیزی کو کبھی نیکی نہیں سمجھا گیا۔ مکار، متکبر، ریاکار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد ،ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبرگیری، مریضوں کی تیمار داری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔ پاک دامن، خوش گفتار، نرم مزاج اور خیراندیش لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں ۔ انسانیت اپنا اچھا عنصر انہی لوگوں کو سمجھتی رہی ہے جو راست باز اور کھرے ہوں ۔ جن پر ہر معاملہ میں اعتبار کیا جا سکے۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں اور قول و فعل مطابق ہو۔ جو اپنے حق پر قانع اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں فراخ دل ہوں ، جو امن سے رہیں اور دوسروں کو امن دیں ، جن کی ذات سے ہر ایک کو خیر کی امید ہو اور کسی کو برائی کا اندیشہ نہ ہو۔
      اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالمگیر حقیقتیں ہیں جن کو سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں ۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیزیں نہیں ہیں کہ انہیں کہیں سے ڈھونڈھ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں جن کا شعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بھلا جانتے ہیں اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
      فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸)
      یعنی نفسِ انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔
      اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں ؟
      اب سوال یہ ہے کہ اگر اخلاق کی برائی اور بھلائی جانی اور پہچانی چیزیں ہیں اور دنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے نیک اور بعض کے بد ہونے پر متفق رہی ہے، تو پھر دنیا میں یہ مختلف اخلاقی نظام کیسے ہیں ؟ ان کے درمیان فرق کس بنا پر ہے؟ کیا چیز ہے جس کے باعث ہم کہتے ہیں کہ اسلام اپنا ایک مستقل اخلاقی نظام رکھتا ہے؟ اور اخلاق کے معاملہ میں آخر اسلام کا وہ خاص عطیہ (Contribution)کیا ہے جسے اس کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکے۔
      اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے جب ہم دنیا کے مختلف اخلاقی نظاموں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پہلی نظر میں جو فرق ہمارے سامنے آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ مختلف اخلاقی صفات کو زندگی کے مجموعی نظام میں سمونے اور ان کی حد، ان کا مقام اور ان کا مصرف تجویز کرنے اور ان کے درمیان تناسب قائم کرنے میں یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ پھر زیادہ گہری نگاہ سے دیکھنے پر اس فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دراصل وہ اخلاقی حسن و قبح کا معیار تجویز کرنے اور خیر و شر کے علم کا ذریعہ متعین کرنے میں مختلف ہیں ۔ اور ان کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ قانون کے پیچھے قوتِ نافذہ(Sanction)کون سی ہے جس کے زور سے وہ جاری ہو اور وہ کیا محرکات ہیں ، جو انسان کو اس قانون کی پابندی پر آمادہ کریں ۔ لیکن جب ہم اس اختلاف کی کھوج لگاتے ہیں تو آخرکار یہ حقیقت ہم پر کھلتی ہے کہ وہ اصلی چیز جس نے ان سب اخلاقی نظاموں کے راستے الگ کر دیئے ہیں ، یہ ہے کہ ان کے درمیان کائنات کے تصور، کائنات کے اندر انسان کی حیثیت، اور انسانی زندگی کے مقصد میں اختلاف ہے او ر اسی اختلاف نے جڑ سے لے کر شاخوں تک ان کی روح، ان کے مزاج اور ان کی شکل کو ایک دوسرے سے مختلف کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی میں اصل فیصلہ کن سوالات یہ ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں ؟ ہے تو وہ ایک ہے یا بہت سے ہیں ؟ جس کی خدائی مانی جائے اس کی صفات کیا ہیں ؟ ہمارے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ اس نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں ؟ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں ؟ جواب دہ ہیں تو کس چیز کی جواب دہی ہمیں کرنی ہے؟ اور ہماری زندگی کا مقصد اور انجام کیا ہے جسے پیشِ نظر رکھ کر ہم کام کریں ؟ ان سوالات کا جواب جس نوعیت کا ہو گا۔ اسی کے مطابق نظامِ زندگی بنے گا اور اسی کے مناسبِ حال نظامِ اخلاق ہو گا۔
      اس مختصر گفتگو میں میرے لیے یہ مشکل ہے کہ دنیا کے نظام ہائے حیات کا جائزہ لے کر یہ بتا سکوں کہ ان میں سے کس کس نے ان سوالات کا کیا جواب اختیار کیا ہے اور اس جواب نے اس کی شکل اور راستے کے تعین پر کیا اثر ڈالا ہے۔ میں صرف اسلام کے متعلق عرض کروں گا کہ وہ ان سوالات کا کیا جواب اختیار کرتا ہے اور اس کی بنا پر کس مخصوص قسم کا نظامِ اخلاق وجود میں آتا ہے۔

      • اسلام کا اخلاقی نظام      
      • اسلام کا سیاسی نظام
      • اسلام کا معاشرتی نظام
      • اسلام کا اقتصادی نظام
      •  اسلام کا روحانی نظام 
      • اِسلام کا اخلاقی نظام
      اسلام کا نظریۂ زندگی و اخلاق
      اسلام کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے وہ ایک ہی خدا ہے۔ اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس کا لاشریک مالک ، حاکم اور پروردگار ہے۔ اور اسی کی اطاعت پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ وہ حکیم ہے، قادرِ مطلق ہے، کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، سبوح و قدوس ہے (یعنی عیب ، خطا ، کمزوری اور نقص سے پاک ہے) اور اس کی خدائی ایسے طریقے پر قائم ہے جس میں لاگ لپیٹ اور ٹیڑھ نہیں ہے۔ انسان اس کا پیدائشی بندہ ہے اس کا کام یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت کرے۔ اس کی زندگی کے لیے کوئی صورت بجز اس کے صحیح نہیں ہے کہ وہ سراسر خدا کی بندگی ہو۔ اس کی بندگی کا طریقہ تجویز کرنا انسان کا اپنا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ خدا نے اس کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اور کتابیں نازل کی ہیں ۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اس سرچشمۂ ہدایت سے اخذ کرے۔ انسان اپنی زندگی کے پورے کارنامے کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور یہ جوابدہی اسے اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کرنی ہے۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی مہلت ہے۔ اور یہاں انسان کی تمام سعی و کوشش اس مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے کہ وہ آخرت کی جواب دہی میں اپنے خدا کے حضور کامیاب ہو۔ اس امتحان میں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہے۔ اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کا امتحان ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کا امتحان ہے، پوری کائنات میں جس جس چیز سے جیسا کچھ بھی اس کو سابقہ پیش آتا ہے اس کی بے لاگ جانچ ہونی ہے کہ انسان نے اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا اور یہ جانچ وہ ہستی کرنے والی ہے جس نے زمین کے ذروں پر، ہوا پر اور پانی پر، کائناتی لہروں پر اور خود انسان کے اپنے دل و دماغ اور دست و پا پر اس کی حرکات و سکنات ہی کا نہیں ، اس کے خیالات اور ارادوں تک کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔
      اخلاقی جدوجہد کا مقصود
      یہ ہے وہ جواب جو اسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصورِ کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کر دیتا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے۔ اور وہ ہے خدا کی رضا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے۔ اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں ۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں ، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہو جاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ ثابت و قائم رہ سکیں ۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقاء کے امکانات لامتناہی ہو سکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اس کو ملوث نہیں کر سکتیں ۔
      معیار دینے کے ساتھ اسلام اپنے اسی تصور کائنات و انسان سے ہم کو اخلاقی حسن و قبح کے علم کا ایک مستقل ذریعہ بھی دیتا ہے۔ اس نے ہمارے علم اخلاق کو محض عقل یا خواہشات یا تجربے یا علوم انسانی پر منحصر نہیں کر دیا کہ ہمیشہ ان کے بدلتے ہوئے فیصلوں سے ہمارے اخلاقی احکام بھی بدلتے رہیں اور انہیں کوئی پائیداری نصیب ہی نہ ہو سکے۔ بلکہ وہ ہمیں ایک متعین ماخذ دیتا ہے یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت، جس سے ہم کو ہر حال اور ہر زمانے میں اخلاقی ہدایات ملتی ہیں ۔ اور یہ ہدایات ایسی ہیں کہ خانگی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات سے لے کر بین الاقوامی سیاست کے بڑے بڑے مسائل تک زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں وہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں ۔ ان کے اندر معاملاتِ زندگی پر اخلاق کے اصولوں کا وہ وسیع ترین انطباق (Widest Application) پایا جاتا ہے جو کسی مرحلہ پر کسی دوسرے ذریعۂ علم کی احتیاج ہمیں محسوس نہیں ہونے دیتا۔

      اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ
      پھر اسلام کے اسی تصور کائنات و انسان میں وہ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانونِ اخلاق کی پشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی باز پُرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اسلام ایک ایسی طاقتور رائے عام بھی تیار کرنا چاہتا ہے جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور گروہوں کو اصولِ اخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو۔ اور ایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اقتدار اخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دباؤ پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دباؤ پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔اخلاقی احکام دینے سے پہلے اسلام ،آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہر وقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگر اس سے نہیں چھپ سکتا۔ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے مگر اسے نہیں دے سکتا ۔دنیا بھر سے بھاگ سکتا ہے مگر اس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ دنیا محض تیرے ظاہر کو دیکھتی ہے۔ مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کو دیکھ لیتا ہے۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں وکالت، رشوت، سفارش، جھوٹی شہادت ،دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اس کو حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس، عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اسلام کے قانونِ اخلاق کی پشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عام اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نورٌ  علیٰ نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیں ہو۔
      اسلام کا یہ تصور کائنات و انسان وہ محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اخلاق کے مطابق عمل کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں ۔ انسان کا اس بات پر راضی ہو جانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصدِ زندگی ٹھہرائے، یہ اس بات کے لیے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکام الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کے لیے ابدی زندگی میں ایک شاندار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات ، نقصانات اور تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑے اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنی پڑے گی، چاہے دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ امید اور یہ خوف اگر کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوتِ محرکہ موجود ہوتی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی اسے نیکی پر ابھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دنیا میں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہے اور ان مواقع پر بھی بدی سے دور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پُر لطف اور نفع بخش ہو۔
      اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنا تصور کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا ماخذِ علم اخلاق، اپنی قوت نافذہ اور اپنی قوت محرکہ الگ رکھتا ہے اور انہی چیزوں کے ذریعہ سے معروف اخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اخلاقی نظام رکھتا ہے۔
      اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں مگر ان میں تین سب سے نمایاں ہیں جنہیں اس کا خاص عطیہ کہا جا سکتا ہے۔
      پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اخلاق کے لیے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقاء کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ ایک ماخذ علم مقرر کر کے اخلاق کو وہ پائیداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلون اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ خوفِ خدا کے ذریعہ سے اخلاق کو وہ قوتِ نافذہ دیتا ہے جو خارجی دباؤ کے بغیر انسان کے اندر خودبخود قانونِ اخلاق پر عمل کرنے کی رغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔
      دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اُپج سے کام لے کر کچھ نرالے اخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انہی اخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی، ملکی سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت، پولیس لائن، چھاؤنی، میدان جنگ، صلح کانفرنس، غرض زندگی کا کوئی پہلو، اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے ہر جگہ، ہر شعبہ زندگی میں وہ اخلاق کو حکمران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملاتِ زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اخلاق کے ہاتھوں میں ہوں ۔۔
      تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانیت سے ایک ایسے نظامِ زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آؤ انہیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن برائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے بُرا سمجھتی چلی آئی ہے، آؤ انہیں دبائیں اور مٹائیں ۔ اس دعوت پر جنہوں نے لبیک کہا انہی کو جمع کر کے اس نے ایک امت بنائی جس کا نام ’’مسلم‘‘ تھا۔ اور ان کو ایک امّت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کو جاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کے لیے منظم سعی کرے۔ اب اگر اسی امت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے، خود اس امت کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی۔

      (یہ تقریر ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)

      اسلام کا سیاسی نظام

      اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انہی کی مختصر تشریح کروں گا۔
      توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے، حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و طاعت بلا شرکت غیر ے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن پر ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے، اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اس خدا کا کام ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا کی بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں ۔ توحید کا یہ اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان، یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم، یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان، حاکمیت کا حق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم ’’قانون‘‘ ہے۔
      خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام ’’رسالت‘‘ ہے اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں ۔ ایک ’’کتاب‘‘ جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسرے کتاب کی مستند تشریح جو رسولؐ نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول و عمل میں پیش کی ہے۔ خدا کی کتاب میں وہ تمام اصول بیان کر دیئے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ اور رسول نے کتاب کے اس منشاء کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔ انہی دو چیزوں کے مجموعے کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
      اب خلافت کو لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیئے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشاء پورا کرنا ہو گا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خودبخود انسان کے ذہن میں آجاتی ہیں ۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کر گیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اسلام انسان کو خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصور میں یہی چار شرطیں شامل ہیں ۔ اسلامی نظریۂ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہو گی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہو گی جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کر کے اس کا منشاء پورا کرنا ہو گا۔
      خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریۂ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کر کے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی حامل ہے اور یہ خلافت اس کے ہر ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے اسلام میں ’’جمہوریت‘‘ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں ۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہی حق پہنچتا ہے کہ انہیں ان حقوق و اختیارات سے محروم کر سکے۔ ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انہی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہو گی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے، اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہو سکتی ہے۔ البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریۂ سیاسی ’’جمہوری حاکمیت‘‘ کا قائل ہے اور اسلام ’’جمہوری خلافت‘‘ کا۔ وہاں اپنی شریعت، جمہور آپ بناتے ہیں ۔ یہاں ان کو اس شریعت کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پور ا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِ آئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔
      اب میں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔
      اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خداوند عالم انسانی زندگی کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوند عالم کو پسند نہیں ہے۔ اسلام میں ریاست کا مقصد محض انتظام ملکی ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس کے بجائے اسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنے تمام وسائل و ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہئیں ، اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حسن، جو خیر و صلاح، جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رونما ہو، اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کا سد باب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنے والی ہیں ۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اسلام ہمارے سامنے خیر و شر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہر ماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بنا سکتی ہے۔
      اسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کر دیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف، بے لوث سچائی اور کھری ایمانداری پر قائم ہو، وہ ملکی، یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعایا کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو، وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو، اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بناؤ۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھو اور اس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمہیں اپنے خدا کو دینا ہے۔
      اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے، مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے، اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہویا برسرِ جنگ ہو۔ انسانی خون ہر حالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جا سکتا۔ عورت، بچے، بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں ۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے، اور اسے بے آبرو نہیں کیا جا سکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا، زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمار داری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقو ق اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں ان کو بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اسلام صرف انہی لوگوں کو نہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں پیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے ۱؂، اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہو گی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں ذمہ داری کے کسی بڑے سے بڑے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
      غیر مسلموں کے لیے، جو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں ، اسلام نے چند حقوق معین کر دئیے ہیں اور وہ لازماً دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو ’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے ،یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمی کی جان و مال اور آبرُو بالکل مسلمان کی جان و مال اور آبرو کی طرح محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ ذمیوں کے پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گی۔ ذمیوں کو ضمیر و اعتقاد اور مذہبی رسوم و عبادات میں پوری آزادی حاصل ہو گی۔ ذمی اپنے مذہب کی تبلیغ ہی نہیں بلکہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے اسلام پر بھی تنقید کر سکتا ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیرمسلم رعایا کو دیئے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنہیں اس وقت تک سلب نہیں کیا جا سکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہو جائیں ۔ کوئی غیرمسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں ۔ حتیٰ کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کر دیئے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذمی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔
      اسلامی ریاست کے انتظام کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کا حق ہو گا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں ۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہو گی کہ روحِ اسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خدا ترسی اورتدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے مجلس شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کی منتخب کردہ ہو گی۔ امیر کے لیے لازم ہو گا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکمران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدم اعتماد کی صورت میں اسے جگہ خالی کرنی ہو گی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اُسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔
      امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہو گا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہو گی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں ۔ خدا اور رسول کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں ۔ کوئی مجلسِ قانون ساز ان میں رد و بدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشاء معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں ۔ اس لیے ایسے معاملات مجلس شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علماء پر مشتمل ہو گی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان ان معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلسِ شوریٰ قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔
      اسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہے بلکہ براہِ راست خدا کی نمائندہ اور اس کو جواب دہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد سے خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتیٰ کہ خود حکومت کے رئیسِ اعلیٰ کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضر ہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے۔

      (یہ تقریر ۲۰ جنوری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
      اسلام کا معاشرتی نظام
      اسلام کے معاشرتی نظام کا سنگ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں ۔ خدا نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا تھا، پھر اسی جوڑے سے وہ سارے لوگ پیدا ہوئے جو دنیا میں آباد ہیں ۔ ابتدا میں ایک مدت تک اس جوڑے کی اولاد ایک ہی امت بنی رہی ہے۔ ایک ہی اس کا دین تھا۔ ایک ہی اس کی زبان تھی۔ کوئی اختلاف اس کے درمیان نہ تھا مگر جُوں جُوں ان کی تعداد بڑھتی گئی، وہ زمین پر پھیلتے چلے گئے اور اس پھیلاؤ کی وجہ سے قدرتی طور پر مختلف نسلوں ، قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان کی زبانیں الگ ہو گئیں ، ان کے لباس الگ ہو گئے، رہن سہن کے طریقے الگ ہو گئے اور جگہ جگہ کی آب و ہوا نے ان کے رنگ روپ اور خدوخال تک بدل دیئے۔ یہ سب اختلافات فطری اختلافات ہیں ۔ واقعات کی دنیا میں موجود ہیں ۔ اس لیے اسلام ان کو بطور ایک واقعے کے تسلیم کرتا ہے۔ وہ ان کو مٹانا نہیں چاہتا، بلکہ ان کا یہ فائدہ مانتا ہے کہ انسان کا باہمی تعارف اور تعاون اسی صورت سے ممکن ہے۔ لیکن اختلافات کی بنا پر انسانوں میں نسل، رنگ، زبان، قومیت اور وطنیت کے جو تعصبات پیدا ہو گئے ہیں ، ان سب کو اسلام غلط قرار دیتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اُونچ نیچ، شریف اور کمین، اپنے اور غیر کے جتنے فرق پیدائش کی بنیاد پر کر لیے گئے ہیں اسلام کے نزدیک یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں ۔ وہ تمام دنیا کے انسانوں سے کہتا ہے کہ تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو لہٰذا ایک دوسرے کے بھائی ہو اور انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہو۔
      انسانیت کا یہ تصور اختیار کرنے کے بعد اسلام کہتا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان اصلی فرق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ نسل، رنگ، وطن اور زبان کا نہیں بلکہ خیالات، اخلاق اور اصولوں کا ہو سکتا ہے۔ ایک ماں کے دو بچے اپنے نسب کے لحاظ سے چاہے ایک ہوں لیکن اگر ان کے خیالات اور اخلاق ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو زندگی میں دونوں کی راہیں الگ ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس مشرق اور مغرب کے انتہائی فاصلے پر رہنے والے دو انسان اگرچہ ظاہر میں کتنے ہی ایک دوسرے سے دور ہوں ، لیکن اگران کے خیالات متفق ہیں اور اخلاق ملتے جلتے ہیں تو ان کی زندگی کا راستہ ایک ہو گا ۔اس نظرئیے کی بنیاد پر اسلام دنیا کے تمام نسلی، وطنی اور قومی معاشروں کے برعکس ایک فکری، اخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے، جس میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اور ہر وہ شخص جو ایک خدا کو اپنا مالک و معبود مانے اور پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا قانونِ زندگی تسلیم کرے، اس معاشرے میں شامل ہو سکتا ہے خواہ وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ کا، خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریہ نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ ہندی بولتا ہو یا عربی۔ جو انسان بھی اس معاشرے میں شامل ہوں گے، ان سب کے حقوق اور معاشرتی مرتبے یکساں ہوں گے۔ کسی قسم کے نسلی قومی یا طبقاتی امتیازات ان کے درمیان نہ ہوں گے۔ کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہ ہو گا۔ کوئی چُھوت چھات ان میں نہ ہو گی۔ کسی کا ہاتھ لگنے سے کوئی ناپاک نہ ہو گا۔ شادی بیاہ اور کھانے پینے اور مجلسی میل جول میں ان کے درمیان کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ہوں گی۔ کوئی اپنی پیدائش یا اپنے پیشے کے لحاظ سے ذلیل یا کمین نہ ہو گا۔ کسی کو اپنی ذات برادری یا حسب نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہو سکیں گے۔ آدمی کی بزرگی اس کے خاندان یا اس کے مال کی وجہ سے نہ ہو گی بلکہ صرف اس وجہ سے ہو گی کہ اس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں اور وہ خدا ترسی میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
      یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو نسل و رنگ اور زبان کی حد بندیوں اور جغرافی سرحدوں کو توڑ کر روئے زمین کے تمام خطوں پرپھیل سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم ہو سکتی ہے۔ نسلی اور وطنی معاشروں میں تو صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو کسی نسل یا وطن میں پیدا ہوئے ہوں ، اس سے باہر کے لوگوں پر ایسے معاشرے کا دروازہ بند ہوتا ہے مگر اس فکری اور اصولی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے جو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔ رہے وہ لوگ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانیں تو یہ معاشرہ انہیں اپنے دائرے میں تو نہیں لیتا، مگر انسانی برادری کا تعلق ان کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق انہیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک ماں کے دو بچے اگر خیالات میں مختلف ہیں تو ان کے طریقِ زندگی بہرحال مختلف ہوں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں رہے۔ بالکل اسی طرح نسلِ انسانی کے دو گروہ یا ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بھی اگر عقیدے اور اصول میں اختلاف رکھتے ہیں تو ان کے معاشرے یقیناً الگ ہوں گے، مگر انسانیت بہرحال ان میں مشترک رہے گی۔ اس مشترک انسانیت کی بنا پر زیادہ سے زیادہ جن حقوق کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے نے غیر اسلامی معاشروں کے لیے تسلیم کیے ہیں ۔
      اسلامی نظامِ معاشرت کی ان بنیادوں کو سمجھ لینے کے بعد آئیے اب ہم دیکھیں کہ وہ کیا اصول اور طریقے ہیں جو اسلام نے انسانی میل ملاپ کی مختلف صورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں ۔
      انسانی معاشرت کا اولین اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ خاندان کی بنا ایک مرد اور ایک عورت کے ملنے سے پڑتی ہے۔ اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔ پھر اس سے رشتے اور کنبے اور برادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر یہی چیز پھیلتے پھیلتے ایک وسیع معاشرے تک جا پہنچتی ہے۔ پھر خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو انسانی تمدن کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لیے نہایت محبت، ایثار، دلسوزی اور خیرخواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے۔ یہ ادارہ تمدنِ انسانی کے بقا اور نشوونما کے لیے صرف رنگروٹ ہی بھرتی نہیں کرتا، بلکہ اس کے کارکن دل سے اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ لینے والے خود ان سے بہتر ہوں ۔ اس بناء پر یہ ایک حقیقت ہے کہ خاندان ہی انسانی تمدن کی جڑ ہے اور اس جڑ کی صحت و طاقت پر خود تمدن کی صحت و طاقت کا مدار ہے۔ اسی لیے اسلام معاشرتی مسائل میں سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو صحیح ترین بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
      اسلام کے نزدیک مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح صورت صرف وہ ہے جس کے ساتھ معاشرتی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہوں اور جس کے نتیجے میں ایک خاندان کی بنا پڑے۔ آزادانہ اور غیر ذمہ دارانہ تعلق کو وہ محض ایک معصوم سی تفریح یا ایک معمولی سی بے راہ روی سمجھ کر ٹال نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی نگاہ میں یہ انسانی تمدن کی جڑ کاٹ دینے والا فعل ہے۔ اس لیے ایسے تعلق کو وہ حرام اور قانوناً جرم قرار دیتا ہے۔ اس کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تاکہ سوسائٹی میں ایسے تمدن کش تعلقات رائج نہ ہونے پائیں ، اور معاشرت کو ان اسباب سے پاک کر دینا چاہتا ہے جو اس غیر ذمہ دارانہ تعلق کے لیے محرک ہوتے ہوں یا اس کے مواقع پیدا کرتے ہوں ۔ پردے کے احکام، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت، موسیقی اور تصاویر پر پابندیاں اور فواحش کی اشاعت کے خلاف رکاوٹیں سب اسی کی روک تھام کے لیے ہیں اور ان کا مرکزی مقصد خاندان کے ادارے کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔ دوسری طرف ذمہ دارانہ تعلق یعنی نکاح کو اسلام محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے ایک نیکی، ایک کارِ ثواب، ایک عبادت قرار دیتا ہے۔ سنِ بلوغ کے بعد مرد اور عورت کے مجرد رہنے کو ناپسند کرتا ہے۔ ہر نوجوان کو اس بات پر اُکساتا ہے کہ تمدن کی جن ذمہ داریوں کا بار اس کے ماں باپ نے اُٹھایا تھا، اپنی باری آنے پروہ بھی انہیں اٹھائے۔ اسلام رہبانیت کو نیکی نہیں سمجھتا بلکہ اسے فطرت اللہ کے خلاف ایک بدعت ٹھہراتا ہے۔ وہ ان تمام رسموں اور رواجوں کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے جن کی وجہ سے نکاح ایک مشکل اور بھاری کام بن جاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان ترین اور زنا کو مشکل ترین فعل ہونا چاہیے، نہ کہ نکاح مشکل اور زنا آسان ہو۔ اسی لیے اس نے چند مخصوص رشتوں کو حرام ٹھہرانے کے بعد تمام دُور و نزدیک کے رشتہ داروں میں ازدواجی تعلق کو جائز کر دیا ہے۔ ذات اور برادری کی تفریقیں اڑا کر تمام مسلمانوں میں آپس کے شادی بیاہ کی کھلی اجازت دے دی ہے۔ مہر اور جہیز اس قدر ہلکے رکھنے کا حکم دیا ہے جنہیں فریقین آسانی سے برداشت کر سکیں ۔ اور رسم نکاح ادا کرنے کے لیے کسی خاص قاضی، پنڈت، پروہت یا دفتر و رجسٹر کی کوئی ضرورت نہیں رکھی۔ اسلامی معاشرے کا نکاح ایک ایسی سادہ سی رسم ہے جو ہر کہیں دو گواہوں کے سامنے بالغ زوجین کے ایجاب و قبول سے انجام پا سکتی ہے مگر لازم ہے کہ یہ ایجاب و قبول خفیہ نہ ہو بلکہ بستی میں اعلان کے ساتھ ہو۔
      خاندان کے اندر اسلام نے مرد کو ناظم کی حیثیت دی ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں ضبط قائم رکھے۔ بیوی کو شوہر کی اور اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا ہے۔ ایسے ڈھیلے ڈھالے نظام خاندانی کو اسلام پسند نہیں کرتا، جس میں کوئی انضباط نہ ہو، اور گھر والوں کے اخلاق و معاملات درست رکھنے کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ نظم بہرحال ایک ذمہ دار ناظم ہی سے قائم ہو سکتا ہے اور اسلام کے نزدیک اس ذمہ داری کے لیے خاندان کا باپ ہی فطرۃً موزوں ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مرد گھر کا ایک جابر و قاہر فرماں روا بنا دیا گیا ہے اور عورت ایک بے بس لونڈی کی حیثیت سے اس کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اسلام کے نزدیک ازدواجی زندگی کی اصل روح محبت و رحمت ہے۔ عورت کا فرض اگر شوہر کی اطاعت ہے تو مرد کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو اصلاح کے لیے استعمال کرے نہ کہ زیادتی کے لیے۔ اسلام ایک ازدواجی تعلق کو اسی وقت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جب تک اس میں محبت کی شیرینی یا کم از کم رفاقت کا امکان باقی ہو۔ جہاں یہ امکان باقی نہ رہے وہاں وہ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسلامی عدالت کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ وہ ایسے نکاح کو توڑ دے جو رحمت کے بجائے زحمت بن گیا ہو۔
      خاندان کے محدود دائرے سے باہر قریب ترین سرحد رشتہ داری کی ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہوتا ہے جو لوگ ماں باپ کے تعلق سے یا بھائی اور بہنوں کے تعلق سے یا  سُسرالی تعلق سے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوں ، اسلام ان سب کو ایک دوسرے کا ہمدرد، مددگار اور غمگسار دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ذوی القربیٰ یعنی رشتہ داروں سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں صلۂ رحمی کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور اسے بڑی نیکی شمار کیا گیا ہے۔ وہ شخص اسلام کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے جو اپنے رشتہ داروں سے سرد مہری اور طوطا چشمی کا معاملہ کرے۔ مگر اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ رشتہ داروں کی بے جا طرفداری کوئی اسلامی کام ہے۔ اپنے کنبے قبیلے کی ایسی حمایت جو حق کے خلاف ہو، اسلام کے نزدیک جاہلیت ہے۔ اسی طرح اگر حکومت کا کوئی افسر پبلک کے خرچ پر اقرباپروری کرنے لگے یا اپنے فیصلوں میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بے جا رعایت کرنے لگے تو یہ بھی کوئی اسلامی کام نہیں ہے بلکہ ایک شیطانی حرکت ہے۔ اسلام جس صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے وہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے اور حق و انصاف کی حد کے اندر ہونی چاہیے۔
      رشتہ داری کے تعلق کے بعد دوسرا قریب ترین تعلق ہمسائیگی کا ہے۔ قرآن کی رُو سے ہمسایوں کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک رشتہ دار ہمسایہ، دوسرا اجنبی ہمسایہ، تیسرا وہ عارضی ہمسایہ جس کے پاس بیٹھنے یا ساتھ چلنے کا آدمی کو اتفاق ہو۔ یہ سب اسلامی احکام کی رُو سے رفاقت، ہمدردی اور نیک سلوک کے مستحق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ہمسائے کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ میں خیال کرنے لگا کہ شاید اب اسے وراثت میں حصہ دار بنایا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھُوکا رہ جائے۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐ سے عرض کیا گیا کہ ایک عورت بہت نمازیں پڑھتی ہے، اکثر روزے رکھتی ہے، خوب خیرات کرتی ہے مگر اس کی بدزبانی سے اس کے پڑوسی عاجز ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا وہ دوزخی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ایک دوسری عورت ہے جس میں یہ خوبیاں تو نہیں ہیں مگر وہ پڑوسیوں کو تکلیف بھی نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنتی ہے۔ آنحضرتؐ نے لوگوں کو یہاں تک تاکید فرمائی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے اگر پھل لاؤ تو یا تو ہمسائے کے گھر میں بھیجو ورنہ چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہمسائے کا دل نہ دُکھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا کہتے ہیں تو واقعی تو اچھا ہے اور اگر ہمسائے کی رائے تیرے بارے میں خراب ہے تو تو ایک برا آدمی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام ان سب لوگوں کو جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں آپس میں ہمدرد، مددگار اور شریک رنج و راحت دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پر بھروسہ کریں اور ایک دوسرے کے پہلو میں اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ سمجھیں ۔ رہی وہ معاشرت جس میں ایک دیوار بیچ رہنے والے دو آدمی برسوں ایک دوسرے سے نا آشنا رہیں اور جس میں ایک محلے کے رہنے والے باہم کوئی دلچسپی، کوئی ہمدردی اور کوئی اعتماد نہ رکھتے ہوں تو ایسی معاشرت ہر گز اسلامی معاشرت نہیں ہو سکتی۔
      ان قریبی رابطوں کے بعد تعلقات کا وہ وسیع دائرہ سامنے آتا ہے جو پورے معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرے میں اسلام ہماری اجتماعی زندگی کو جن بڑے بڑے اصولوں پر قائم کرتا ہے وہ مختصراً یہ ہیں :
      ۱۔ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔(قرآن)
      ۲۔ تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے، جو کچھ دو اس لیے دو کہ خدا اس کا دینا پسند کرتا ہے، اور جو کچھ روکو اس لیے روکو کہ خدا کو اس کا دینا پسند نہیں ہے۔ (حدیث)
      ۳۔ تم تو وہ بہترین امت ہو جسے دنیا والوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی کو روکنا ہے۔(قرآن)
      ۴۔ آپس میں بدگمانی نہ کرو، ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اُکساؤ، آپس کے حسد اور بُغض سے بچو، ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ پڑو، اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔(حدیث)
      ۵۔ کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ نہ دو۔(حدیث)
      ۶۔ غیرحق میں اپنی قوم کی حمایت کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنوئیں میں گرنے لگا تو تم بھی اُس کی دُم پکڑ کر اُس کے ساتھ ہی جا گرے۔(حدیث)
      ۷۔ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو تم خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(حدیث)

      (یہ تقریر ۱۰ فروی ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
      اسلام کا اقتصادی نظام

      انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے چند اصول اور چند حدود مقرر کر دیئے ہیں تاکہ دولت کی پیدائش، استعمال اور گردش کا سارا نظام انہی خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دیئے گئے ہیں ۔ دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں ؟ اسلام کو اس سوال سے کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشوونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں ۔ ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خودبخود ہو جاتا ہے اسلام جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمانوں اور حالات میں انسان کے معاشی معاملات جو شکلیں بھی اختیار کریں ان میں یہ اصول مستقل طور پر قائم رہیں اور ان حدود کی لازماً پابندی کی جائے۔
      اسلامی نقطۂ نظرسے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوعِ انسانی کے لیے بنائی ہیں ، اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس حق میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں ، کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ کسی شخص یا نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عائد نہیں ہو سکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حق دار ہی نہ رہے، یا بعض پیشوں کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا جائے اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہو سکتے جن کی بنا پر کوئی ذریعۂ معاش یا وسیلۂ رزق کسی مخصوص طبقے یا نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کیے ہوئے وسائلِ رزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کھلے ہونے چاہئیں ۔
      قدرت کی جن نعمتوں کو تیار کرنے یا کارآمد بنانے میں کسی کی محنت و قابلیت کا کوئی دخل نہ ہو وہ سب انسانوں کے لیے مباح عام ہیں ۔ ہر شخص کو حق ہے کہ اپنی ضرورت بھر ان سے فائدہ اٹھائے۔ دریاؤں اور چشموں کا پانی، جنگل کی لکڑی، قدرتی درختوں کے پھل، خود ر و گھاس اور چارہ، ہو ا اور پانی اور صحرا کے جانور، سطح زمین پر کھلی ہوئی کانیں ، اس قسم کی چیزوں پر نہ تو کسی کی اجارہ داری قائم ہو سکتی ہے اور نہ ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں کہ بندگان خدا کچھ دیئے بغیر ان سے اپنی ضرورتیں پوری نہ کر سکیں ۔ ہاں جو لوگ تجارتی اغراض کے لیے بڑے پیمانے پر ان میں سے کسی چیز کو استعمال کرنا چاہیں ان پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔
      خدا نے جو چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں انہیں لے کر بیکار ڈال رکھنا صحیح نہیں ہے یا تو ان سے خود فائدہ اٹھاؤ، ورنہ چھوڑ دو تاکہ دوسرے ان سے متمتع ہوں ۔ اسی اصول کی بناء پر اسلامی قانون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو تین سال سے زیادہ مدت تک افتادہ حالت میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ اس کو زراعت یا عمارت یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرے تو تین سال گزر جانے کے بعد وہ متروکہ زمین سمجھی جائے گی، کوئی دوسرا شخص اسے کام میں لے آئے تو اس پر دعویٰ نہ کیا جا سکے گا اور اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ اس زمین کو کسی کے حوالے کر دے۔
      جو شخص براہ راست قدرت کے خزانے میں سے کوئی چیز لے اور اپنی محنت و قابلیت سے اس کو کارآمد بنائے وہ اس چیز کا مالک ہے۔ مثلاً کسی افتادہ زمین کو جس پر کسی کے حقوق ملکیت ثابت نہ ہوں ، اگر کوئی شخص اپنے قبضے میں لے لے اور کسی مفید کام میں استعمال کرنا شروع کر دے تو اس کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی نظریے کے مطابق دنیا میں تمام مالکانہ حقوق کی ابتداء اسی طرح ہوئی ہے۔ پہلے پہل جب زمین پر انسانی آبادی شروع ہوئی تو سب چیزیں سب انسانوں کے لیے مباح عام تھیں ۔ پھر جس جس شخص نے جس مباح چیز کو اپنے قبضے میں لے کر کسی طور پر کارآمد بنا لیا وہ اس کا مالک ہو گیا، یعنی اسے یہ حق حاصل ہو گیا کہ اس کا استعمال اپنے لیے مخصوص کر لے اور دوسرے اسے استعمال کرنا چاہیں تو ان سے اس کا معاوضہ لے۔ یہ چیز انسان کے سارے معاشی معاملات کی فطری بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہیے۔
      جائز شرعی طریقوں سے جو مالکانہ حقوق کسی کو دنیا میں حاصل ہوں وہ بہرحال احترام کے مستحق ہیں ۔ کلام اگر ہو سکتا ہے تو اس امر میں ہو سکتا ہے کہ کوئی ملکیت شرعاً صحیح ہے یا نہیں ۔ جو ملکیتیں ازروئے شرع ناجائز ہوں انہیں بے شک ختم ہو جانا چاہیے، مگر جو ملکیتیں شرعاً صحیح ہوں ، کسی حکومت اور کسی مجلس قانون ساز کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں سلب کر لے یا ان کے مالکوں کے شرعی حقوق میں کسی قسم کی کمی بیشی کرے اجتماعی بہتری کا نام لے کر کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا جو شریعت کے دیے ہوئے حقوق کو پامال کرنے والا ہو۔ جماعت کے مفاد کے لیے افراد کی ملکیتوں پر جو پابندیاں شریعت نے خود لگا دی ہیں ان میں کمی کرنا جتنا بڑا ظلم ہے اتنا ہی بڑا ظلم ان پر اضافہ کرنا بھی ہے۔ یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ افراد کے شرعی حقوق کی حفاظت کرے اور ان سے جماعت کے وہ حقوق وصول کر لے جو شریعت نے ان پر عاید کیے ہیں ۔
      خدا نے اپنی نعمتوں کی تقسیم میں مساوات ملحوظ نہیں رکھی ہے بلکہ اپنی حکمت کی بنا پر بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حُسن، خوش آوازی، تندرستی، جسمانی طاقتیں ، دماغی قابلیتیں ، پیدائشی ماحول اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب انسانوں کو یکساں نہیں ملیں ۔ ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو، لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطۂ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں ۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصولِ رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدوجہد نہ کر سکتا ہو۔ اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں ، نسلوں اور خاندانوں کی پیدائشی خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کر دیتے ہوں ۔ یہ دونوں طریقے فطری نا مساوات کی جگہ زبردستی ایک مصنوعی مساوات قائم کرتے ہیں ۔ اس لیے اسلام انہیں مٹا کر سوسائٹی کے معاشی نظام کو ایسی فطری حالت پر لے آنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں ۔ مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے ذرائع اور نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کر دیا جائے، اسلام ان سے متفق نہیں ہے کیونکہ وہ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتداء اسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے، جو صرف دو پاؤں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے، اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگرا کر ہی چلنا شروع کر دے۔ سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر قائم کر دے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول ناممکن بنا دے، اور نہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ سب کی دوڑ زبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت سے شروع ہو اور آگے تک انہیں لازماً ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا جائے۔ برعکس اس کے قوانین ایسے ہونے چاہئیں جن میں اس امر کا کھُلا امکان موجود رہے کہ جس نے اپنی دوڑ لنگڑا کر شروع کی تھی وہ اپنی محنت و قابلیت سے موٹر پا سکتا ہو تو ضرور پائے، اور جو ابتداء میں موٹر پر چلا تھا وہ بعد میں اپنی نا اہلی سے لنگڑا ہو کر رہ جائے تو رہ جائے۔
      اسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں یہ معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو، بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگار ہوں ۔ وہ ایک طرف اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ اپنے درماندہ اور پسماندہ بھائیوں کو سہارا دیں ۔ دوسری طرف وہ تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کا ضامن ہو۔ جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں ۔ جو لوگ اتفاقاتِ زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انہیں یہ ادارہ اٹھا کر پھر چلنے کے قابل بنائے۔ اور جن لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اُترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو انہیں اس ادارے سے سہارا ملے۔ اس مقصد کے لیے اسلام نے ازروئے قانون یہ طے کیا ہے کہ ملک کی تمام جمع شدہ دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ اور اسی طرح پورے تجارتی سرمائے پر بھی ڈھائی فی صدی سالانہ زکوٰۃ وصول کی جائے۔ تمام عُشری زمینوں کی زرعی پیداوار کا دس فی صدی یا پانچ فی صدی حصہ لیا جائے، بعض معدنیات کی پیداوار کا دس فی صدی یا پانچ فیصدی حصہ لیا جائے، بعض معدنیات کی پیداوار کا بیس فی صدی حصہ لیا جائے۔ مویشیوں کی ایک خاص تناسب سے سالانہ زکوٰۃ لگائی جائے اور یہ تمام سرمایہ غریبوں ، یتیموں اور محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک ایسا اجتماعی انشورنس ہے جس کی موجودگی میں اسلامی سوسائٹی کے اندر کوئی شخص زندگی کی ناگزیر ضروریات سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا۔ کوئی محنت کش آدمی کبھی اتنا مجبور نہیں ہو سکتا کہ فاقے کے ڈر سے خدمت کی وہی شرائط منظور کرے جو کارخانہ دار یا زمیندار پیش کر رہا ہو۔ کسی شخص کی طاقت اس کم سے کم معیار سے کبھی نیچے نہیں گر سکتی جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
      فرد اور جماعت کے درمیان اسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فرد کی شخصیت اور اس کی آزادی بھی برقرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لیے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو، بلکہ لازمی طور پر مفید ہو۔ اسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کے لیے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کسی ملک کے تمام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام افراد جماعتی شکنجہ میں جکڑ جائیں ۔ اس حالت میں ان کی انفرادیت کا بقا و ارتقاء سخت مشکِل بلکہ غیر ممکن ہے۔ انفرادیت کے لیے جس طرح سیاسی اور معاشرتی آزادی ضروری ہے اسی طرح معاشی آزادی بھی بہت بڑی حد تک ضروری ہے۔ اگر ہم آدمیت کا بالکل استیصال نہیں کر دینا چاہتے تو ہماری اجتماعی زندگی میں اتنی گنجائش ضرور رہنی چاہیے کہ ایک بندۂ خدا اپنی روزی آزادانہ پیدا کر کے اپنے ضمیر کا استقلال برقرار رکھ سکے اور اپنی ذہنی و اخلاقی قوتوں کو اپنے رجحانات کے مطابق نشوونما دے سکے۔ راتب بندی کا رزق، جس کی کنجیاں دوسروں کے ہاتھ میں ہوں ، اگر فراواں بھی ہو تو خوش گوار نہیں ، کیوں کہ اس سے پرواز میں جو کوتاہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی نہیں کر سکتی۔
      جس طرح اسلام ایسے نظام کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انہیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات یا اپنے مفاد کی خاطر جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور ذمہ داریوں کا پابند بنایا جائے، پھر اسے اپنے معاملات میں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ ان حدود اور ذمہ داریوں کی ساری تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ، میں ان کا صرف ایک مختصر سا نقشہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
      پہلے کسبِ معاش کو لیجیے۔ دولت کمانے کے ذرائع میں اسلام نے جتنی باریک بینی کے ساتھ جائز و ناجائز کی تفریق کی ہے دنیا کے کسی قانون نے نہیں کی۔ وہ چُن چُن کر ان تمام ذرائع کو حرام قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے اشخاص کو یا بحیثیتِ مجموعی پوری سوسائٹی کو اخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ شراب اور نشہ آور چیزوں کا بنانا اور بیچنا، فحش کاری اور رقص و سرود کا پیشہ، جوا، سٹہ، لاٹری، سود، قیاس اور دھوکے اور جھگڑے کے سودے، ایسے تجارتی طریقے جن میں ایک فریق کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا مشتبہ ہو، ضرورت کی چیزوں کو روک کران کی قیمتیں چڑھانا، اور اسی طرح کے بہت سے وہ کاروبار جو اجتماعی طور پر ضرر رساں ہیں اسلامی قانون میں قطعی طور پر حرام کر دیئے گئے ہیں ۔ اس معاملے میں اگر آپ اسلام کے معاشی قانون کا جائزہ لیں تو حرام طریقوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے آئے گی اور ان میں بہت سے وہ طریقے آپ کو ملیں گے جنہیں استعمال کر کے ہی موجودہ سرمایہ داری نظام میں لوگ کروڑ پتی بنتے ہیں ۔ اسلام ان سب طریقوں کو ازروئے قانون بند کرتا ہے اور آدمی کو صرف ان طریقوں سے دولت کمانے کی آزادی دیتا ہے جن سے وہ دوسروں کی کوئی حقیقی اور مفید خدمت انجام دے کر انصاف کے ساتھ اس کا معاوضہ حاصل کرے۔
      حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر اسلام آدمی کے حقوق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ مگر یہ حقوق بھی غیر محدود نہیں ہیں ۔ وہ آدمی کو پابند کرتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کو خرچ بھی جائز ذرائع سے جائز راستوں ہی میں کرے۔ خرچ پر اس نے ایسی قیود لگا دی ہیں جن سے آدمی ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی تو بسر کر سکتا ہے مگر عیاشیوں میں دولت اڑا نہیں سکتا، نہ شان و شوکت کے اظہار میں اس قدر حد سے گزر سکتا ہے کہ دوسروں پر اس کی خدائی کا سکہ جمنے لگے۔ بے جا خرچ کی بعض صورتوں کو تو اسلامی قانون میں صراحتاً ممنوع ٹھہرایا گیا ہے اور بعض دوسری صورتوں کی اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کو یہ اختیار ات حاصل ہیں کہ اپنی دولت میں ناروا تصرفات کرنے سے لوگوں کو حکماً روک دے۔
      جائز اور معقول اخراجات سے جو دولت آدمی کے پاس بچے اسے وہ جمع بھی کر سکتا ہے اور مزید دولت پیدا کرنے میں بھی لگا سکتا ہے۔ مگر ان دونوں حقوق پر پابندیاں ہیں ۔ جمع کرنے کی صورت میں اسے نصاب سے زائد دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ زکوٰۃ دینی ہو گی۔ کاروبار میں لگانا چاہے تو صرف جائز کاروبار ہی میں لگا سکتا ہے۔ جائز کاروبار خواہ آدمی خود کرے یا کسی دوسرے کو اپنا سرمایہ روپئے،زمین یا آلات و اسباب کی صورت میں دے کر نفع و نقصان کا شریک ہو جائے، یہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ ان حدود کے اندر کام کر کے اگر کوئی شخص کروڑ پتی بھی بن جائے تو اسلام کی نگاہ میں یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ہے، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ لیکن جماعتی مفاد کے لیے وہ اس پر دو شرطیں عاید کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تجارتی مال پر زکوٰۃ اور زرعی پیداوار پر عُشر ادا کرے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت میں جن لوگوں کے ساتھ شرکت، یا اُجرت کا معاملہ کرے ان سے انصاف کرے۔ یہ انصاف اگر وہ خود نہ کرے گا تو اسلامی حکومت اسے انصاف پر مجبور کرے گی۔
      پھر جو دولت ان جائز حدود کے اندر فراہم ہو اس کو بھی اسلام زیادہ دیر تک سمٹا نہیں رہنے دیتا بلکہ اپنے قانونِ وراثت کے ذریعے سے ہر پشت کے بعد دوسری پشت میں اسے پھیلا دیتا ہے۔ اس معاملے میں اسلامی قانون کا رُجحان دنیا کے تمام دوسرے قوانین کے رُجحانات سے مختلف ہے۔ دوسرے قوانین کوشش کرتے ہیں کہ جو دولت ایک دفعہ سمٹ چکی ہے وہ پُشت در پُشت سمٹی رہے۔ برعکس اس کے اسلام ایسا قانون بناتا ہے کہ جو دولت ایک شخص نے اپنی زندگی میں فراہم کی ہو وہ اس کے مرتے ہی اس کے قریبی عزیزوں میں بانٹ دی جائے۔ قریبی عزیز نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار بحصۂ رسدی اس کے وارث ہوں ۔ اور اگر کوئی دُور پرے کا رشتہ دار بھی نہ ہو تو پھر پوری مسلم سوسائٹی اس کی حق دار ہے۔ یہ قانون کسی بڑی سرمایہ داری و زمینداری کو مستقل اور دائم نہیں رہنے دیتا۔ پچھلی ساری پابندیوں کے باوجود اگر دولت کے سمٹاؤ سے کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو یہ آخری ضرب اس کا ازالہ کر دیتی ہے۔

      (یہ تقریر ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)

      اسلام کا رُوحانی نظام

      اسلام کا روحانی نظام کیا ہے، اور زندگی کے پُورے نظام سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اس سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اُس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں جو روحانیت کے اسلامی تصور اور دوسرے مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کے تصورات میں پایا جاتا ہے۔ یہ فرق ذہن نشین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسلام کے رُوحانی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے آدمی کے دماغ میں بلا ارادہ بہت سے تصورات گھومنے لگتے ہیں جو عموماً ’’روحانیت‘‘ کے لفظ سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ پھر اس الجھن میں پڑ کر آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کس قسم کا روحانی نظام ہے جو رُوح کے جانے پہچانے دائرے سے گزر کر مادہ و جسم کے دائرے میں دخل دیتا ہے اور صرف دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔
      فلسفۂ و مذہب کی دنیا میں عام طور پر جو تخیل کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ دونوں کا عالم جُدا ہے۔ دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مخالف ہیں ۔ ان دونوں کی ترقی ایک ساتھ ممکن نہیں ہے۔ روح کے لیے جسم اور مادے کی دنیا ایک قید خانہ ہے۔ دنیوی زندگی کے تعلقات اور دلچسپیاں وہ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ہیں جن میں روح جکڑی جاتی ہے۔ دنیا کے کاروبار اور معاملات وہ دلدل ہیں جس میں پھنس کر روح کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ اس تخیل کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ روحانیت اور دنیاداری کے راستے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو گئے جن لوگوں نے دنیا داری اختیار کی وہ اول ہی قدم پر مایوس ہو گئے کہ یہاں رُوحانیت ان کے ساتھ نہ چل سکے گی۔ اس چیز نے ان کو مادہ پرستی میں غرق کر دیا۔ معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبے روحانیت کے نُور سے خالی ہو گئے، اور بالآخر زمین ظلم سے بھر گئی۔ دوسری طرف جو لوگ رُوحانیت کے طلب گار ہوئے، انہوں نے اپنی رُوح کی ترقی کے لیے ایسے راستے تلاش کیے جو دنیا کے باہر ہی باہر نکل جاتے ہیں ، کیونکہ ان کے نقطۂ نظر سے رُوحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ تو ممکن ہی نہ تھا جو دنیا کے اندر سے ہو کر گزرتا ہو۔ ان کے نزدیک رُوح کو پروان چڑھانے کے لیے جسم کو مضمحل  کرنا ضروری تھا۔ اس لیے انہوں نے ایسی ریاضتیں ایجاد کیں جو نفس کو مارنے والی اور جسم کو بے حِس و بیکار کر دینے والی ہوں ۔ روحانی تربیت کے لیے جنگلوں ، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کو انہوں نے موزوں ترین مقامات سمجھا، تاکہ تمدن کا ہنگامہ گیان دھیان کے مشغلوں میں خلل نہ ڈالنے پائے۔ رُوح کے نشوونما کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا ممکن نظر نہ آئی کہ دنیا اور اس کے دھندوں سے دستکش ہو جائیں اور ان سارے رشتوں کو کاٹ پھینکیں جو اسے مادّیات کے عالم سے وابستہ رکھتے ہیں ۔
      پھر جسم و روح کے اس تضاد نے انسان کے لیے کمال کے بھی دو مختلف مفہوم اور نصب العین پیدا کر دئیے۔ ایک طرف دنیوی زندگی کا کمال، جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان صرف مادی نعمتوں سے مالا مال ہو، اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا پرندہ، ایک بہترین مگرمچھ، ایک عمدہ گھوڑا اور ایک کامیاب بھیڑیا بن جائے۔ دوسری طرف رُوحانی زندگی کا کمال، جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان کچھ فوق الفطری طاقتوں کا مالک ہو جائے۔ اور اس کی انتہاء یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا ریڈیو سیٹ، ایک طاقتور دوربین اور ایک نازک خوردبین بن جائے یا اس کی نگاہ اور اس کے الفاظ ایک پُورے دوا خانے کا کام دینے لگیں ۔
      اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی رُوح کو خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔ کچھ اختیارات ، کچھ فرائض اور کچھ ذمہ داریاں اس کے سپرد کی ہیں اور انہیں ادا کرنے کے لیے ایک بہترین اور موزوں ترین ساخت کا جسم اسے عطا کیا ہے۔ یہ جسم اس کو عطا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال اور اپنی متعلقہ خدمات انجام دینے میں اس سے کام لے۔ لہٰذا یہ جسم اس روح کا قید خانہ نہیں بلکہ اس کا کارخانہ ہے اور اس روح کے لیے کوئی ترقی اگر ممکن ہے تو اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اس کارخانے کے آلات اور طاقتوں کو استعمال کر کے اپنی قابلیتوں کا اظہار کرے۔ پھر یہ دنیا کوئی دار العذاب نہیں ہے جس میں انسانی رُوح کسی طرح آ کر پھنس گئی ہو، بلکہ یہ تو وہ کار گاہ ہے جس میں کام کرنے کے لیے خدا نے اسے بھیجا ہے۔ یہاں کی بے شمار چیزیں اس کے تصرف میں دی گئی ہیں ۔ یہاں دوسرے بہت سے انسان اسی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اس کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہاں فطرت کے تقاضوں سے تمدن، معاشرت، معیشت، سیاست اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی اُس کے لیے وجود میں آئے ہیں ۔ یہاں اگر کوئی روحانی ترقی ممکن ہے تو اس کی صورت یہ نہیں ہے کہ آدمی اس کار گاہ سے منہ موڑ کر کسی گوشے میں جا بیٹھے، بلکہ اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اس کے اندر کام کر کے اپنی قابلیت کا ثبوت دے۔ یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ زندگی کا ہر پہلو اور ہر شعبہ گویا امتحان کا ایک پرچہ ہے، گھر ، محلہ، بازار، منڈی، دفتر، کارخانہ، مدرسہ، کچہری، تھانہ، چھاؤنی ، پارلیمنٹ، صلح کانفرنس اور میدانِ جنگ، سب مختلف مضمونوں کے پرچے ہیں جو اسے کرنے کے لیے دیئے گئے ہیں ۔ وہ اگر ان میں سے کوئی پرچہ بھی نہ کرے یا اکثر پرچوں کو سادہ ہی چھوڑ دے تو نتیجے میں آخر صفر کے سوا اور کیا پا سکتا ہے۔ کامیابی اور ترقی کا امکان اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توجہ امتحان دینے میں صرف کرے اور جتنے پرچے بھی اسے دیئے جائیں ان سب پرکچھ نہ کچھ کر کے دکھائے۔
      اس طرح اسلام زندگی کے راہبانہ تصور کو رد کر دیتا ہے اور انسان کے لیے روحانی ترقی کا راستہ دنیا کے باہر سے نہیں بلکہ اس کے اندر سے نکالتا ہے۔ رُوح کے نشوونما اور بالیدگی اور فلاح و کامرانی کی اصل جگہ اس کے نزدیک کارگاہِ حیات کے عین منجدھار میں واقع ہے نہ کہ اس کے کنارے پر۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے رُوح کی ترقی و تنزل کا کیا معیار پیش کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب اسی خلافت کے تصور میں موجود ہے جس کا ابھی میں ذکر کر چکا ہوں ۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان اپنے پورے کارنامۂ حیات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ زمین میں جو اختیارات اور ذرائع اسے دیے گئے ہیں انہیں خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ جو قابلیتیں اور طاقتیں اسے بخشی گئی ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ خدا کی رضا حاصل کرنے میں صرف کرے۔ جن مختلف قسم کے تعلقات میں دوسرے انسانوں کے ساتھ اسے وابستہ کیا گیا ہے ان میں ایسا رویہ اختیار کرے جو خدا کو پسند ہے اور فی الجملہ اپنی تمام کوششیں اور محنتیں اس راہ میں صرف کر دے کہ زمین اور اس کی زندگی کا انتظام اتنا بہتر ہو جتنا اس کا خدا اسے بہتر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس خدمت کو انسان جس قدر زیادہ احساسِ ذمہ داری، فرض شناسی، طاعت و فرمانبرداری اور مالک کی رضا جوئی کے ساتھ انجام دے گا اسی قدر زیادہ خدا سے قریب ہو گا اور خدا کا قُرب ہی اسلام کی نگاہ میں روحانی ترقی ہے۔ اس کے برعکس وہ جتنا سست ، کام چور اور فرض نا شناس ہو گا، یا جس قدر سرکش، باغی اور نافرمان ہو گا اتنا ہی وہ خدا سے دور رہے گا اور خدا سے دُوری کا نام اسلام کی زبان میں رُوحانی تنزل ہے۔
      اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے دیندار اور دنیا دار دونوں کا دائرہ عمل ایک ہی ہے۔ ایک ہی کار گاہ ہے جس میں دونوں کام کریں گے۔ بلکہ دین دار آدمی دنیا دار سے بھی زیادہ انہماک کے ساتھ مشغول ہو گا۔ گھر کی چار دیواری سے لے کر بین الاقوامی کانفرنس کے چوراہے تک جتنے بھی زندگی کے معاملات ہیں ان سب کی ذمہ داریاں دیندار بھی دنیا دار کے برابر بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہی اپنے ہاتھ میں لے گا۔ البتہ جو چیز ان دونوں کے راستے ایک دوسرے سے الگ کر دے گی وہ خدا کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت ہے۔ دیندار جو کچھ کرے گا اس احساس کے ساتھ کرے گا کہ وہ خدا کے سامنے ذمہ دار ہے، اس غرض سے کرے گا کہ اسے خدا کی خوشنودی حاصل ہو، اور اُس قانون کے مطابق کرے گا جو خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس کے برعکس دنیا دار جو کچھ کرے گا غیر ذمہ دارانہ کرے گا۔ خدا سے بے نیاز ہو کر کرے گا، اور اپنے من مانے طریقے سے کرے گا۔ یہی فرق دیندار کی پوری مادی زندگی کو سراسر روحانی زندگی بنا دیتا ہے اور دنیا دار کی ساری زندگی کو روحانیت کے نور سے محروم کر دیتا ہے۔
      اَب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ اسلام دنیوی زندگی کے اس منجدھار میں انسانی کے روحانی ارتقاء کا راستہ کس طرح بناتا ہے۔
      اس راستے کا پہلا قدم ایمان ہے، یعنی آدمی کے دل و دماغ میں اس خیال کا بس جانا کہ خدا ہی اس کا مالک، حاکم اور معبود ہے، خدا ہی کی رضا اس کی تمام کوششوں کا مقصود ہے، اور خدا ہی کا حکم اس کی زندگی کا قانون ہے۔ یہ خیال جس قدر زیادہ پختہ اور راسخ ہو گا اتنی ہی زیادہ مکمل اسلامی ذہنیت بنے گی اور اسی قدر زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ انسان روحانی ترقی کی راہ پر چل سکے گا۔
      اس راہ کی دوسری منزل طاعت ہے، یعنی آدمی کا بالفعل اپنی خودمختاری سے دست بردار ہو جانا اور عملاً اس خدا کی بندگی اختیار کر لینا جسے وہ عقیدۃً اپنا خدا تسلیم کر چکا ہے۔ اسی اطاعت کا نام قرآن کی اصطلاح میں اسلام ہے۔
      تیسری منزل تقویٰ کی ہے جسے ہم عام فہم زبان میں فرض شناسی اور احساسِ ذمہ داری سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں یہ سمجھتے ہوئے کام کرے کہ اسے اپنے افکار، اقوال اور افعال کا خدا کو حساب دینا ہے، ہر اس کام سے رُک جائے جس سے خدا نے منع کیا ہے، ہر اس خدمت پر کمر بستہ ہو جائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے، اور پوری ہوش مندی کے ساتھ حلال و حرام، صحیح و غلط اور خیر و شر کے درمیان تمیز کرتا ہوا چلے۔
      آخری اور سب سے اونچی منزل احسان کی ہے۔ احسان کے معنی یہ ہیں کہ بندے کی مرضی خدا کی مرضی کے ساتھ متحد ہو جائے۔ جو کچھ خدا کو پسند ہے، بندے کی اپنی پسند بھی وہی ہو، اور جو کچھ خد اکو ناپسند ہے بندے کا اپنا دل بھی اسے ناپسند کرے۔ خدا جن بُرائیوں کو اپنی زمین میں دیکھنا نہیں چاہتا، بندہ صرف خود ہی ان سے نہ بچے بلکہ انہیں دنیا سے مٹا دینے کے لیے اپنی ساری قوتیں اور اپنے تمام ذرائع صرف کر دے اور خدا جن بھلائیوں سے اپنی زمین کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے، بندہ صرف اپنی ہی زندگی کو ان سے مزین کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنی جان لڑا کر دُنیا بھر میں انہیں پھیلانے اور قائم کرنے کی کوشش کرے۔ اس مقام پر پہنچ کر بندے کو اپنے خدا کا انتہائی قرب نصیب ہوتا ہے اور اسی لیے یہ انسان کے روحانی ارتقاء کی بلند ترین منزل ہے۔
      رُوحانی ترقی کا یہ راستہ صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ جماعتوں اور قوموں کے لیے بھی ہے۔ ایک فرد کی طرح ایک قوم بھی ایمان، اطاعت اور تقویٰ کی منزلوں سے گزر کر احسان کی انتہائی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ اور ایک ریاست بھی اپنے پُورے نظام کے ساتھ مومن، مسلم، متقی اور محسن بن سکتی ہے۔ بلکہ درحقیقت اسلام کا منشا مکمل طور پر تو پورا ہی اس وقت ہوتا ہے کہ ایک پوری قوم کی قوم اس راہ پر گامزن ہو، اور دنیا میں ایک متقی اور محسن ریاست قائم ہو جائے۔
      اب رُوحانی تربیت کے اس نظام پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے جو افراد اور سوسائٹی کو اس طرز پر تیار کرنے کے لیے اسلام نے تجویز کیا ہے۔ اس نظام کے چار ارکان ہیں :۔
      پہلا رُکن نماز ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت آدمی کے ذہن میں خدا کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اُس کا خوف دلاتی ہے، اس کی محبت پیدا کرتی ہے اس کے احکام بار بار سامنے لاتی ہے اور اس کی طاعت کی مشق کراتی ہے۔ یہ نماز محض انفرادی نہیں ہے بلکہ اسے جماعت کے ساتھ فرض کیا گیا ہے تاکہ پوری سوسائٹی مجموعی طور پر روحانی ترقی کی اس راہ پر سفر کرنے کے لیے تیار ہو۔
      دُوسرا رکن روزہ ہے جو ہر سال پُورے ایک مہینے تک مسلمان افراد کو فرداً فرداً اور مسلم سوسائٹی کو بحیثیت مجموعی تقویٰ کی تربیت دیتا رہتا ہے۔
      تیسرا رکن زکوٰۃ ہے جو مسلمان افراد میں مالی ایثار، آپس کی ہمدردی اور تعاون کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ آج کل کے لوگ غلطی سے زکوٰۃ کو ’’ٹیکس‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ، حالانکہ زکوٰۃ کی رُوح ٹیکس کی اسپرٹ سے بالکل مختلف ہے۔ زکوٰۃ کے اصل معنی نشوونما اور پاکیزگی کے ہیں ۔ اس لفظ سے اسلام یہ حقیقت آدمی کے ذہن نشین کرتا ہے کہ خدا کی محبت میں اپنے بھائیوں کی جو مالی امداد تم کرو گے اس سے تمہاری رُوح کو بالیدگی اور تمہارے اخلاق کو پاکیزگی نصیب ہو گی۔
      چوتھا رکن حج ہے۔ یہ خُدا پرستی کے محور پر اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری بناتا ہے اور ایک ایسی بین الاقوامی تحریک چلاتا ہے جو دنیا میں صدیوں سے دعوتِ حق پر لبیک کہہ رہی ہے اور انشاء اللہ ابد تک کہتی رہے گی۔
      (یہ تقریر ۱۶ مارچ ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
      ٭٭٭
      ابو الاعلیٰ مودودی مولانا مودودی کی کتاب 'اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ کا ایک حصہ
      ناشر کی اجازت سے، تشکر، ٹائپنگ: ایم بلالپروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
      گوگل پلس پر شئیر کریں

      Unknown

        بذریعہ جی میل تبصرہ
        بذریعہ فیس بک تبصرہ