مرکز کائنات کے بجائے انسان مرکز کائنات ہے اس لیے جدید تہذیب نے اس خیال کو عام کیا ہے کہ مذہب تہذیب اور کلچر کو پیدا نہیں کرتا بلکہ تہذیب اور کلچر مذہب کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح جدید مغربی تہذیب نے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھ دیا اور چاند سے سورج کے روشن ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب اور کلچر لازم و ملزوم کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کلچر مذہب کے ”معلوم“ کو ”محسوس“‘ ”مجرد“ کو ”ٹھوس“‘ ”غیب“ کو ”حضور“ بنانے کا عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کتاب اور نبی کا تعلق ہے۔ کتاب معلوم ہی‘ نبی کی ذات محسوس ہی.... کتاب مجرد ہے‘ نبی کی ذات ٹھوس ہی.... کتاب غیب ہے‘ نبی کی ذات حضور ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں معجزے کی روایت ہے‘ معلوم کو محسوس اور عقلی تجربے کو حسی تجربہ بنانے کی دوسری بڑی مثال ہے۔ مذاہب کے دائرے میں معلوم کو محسوس بنانا اس لیے ضروری ہے تاکہ معلوم پست سے پست ذہنی سطح رکھنے والے شخص کی بھی سمجھ میں آسکے اور وہ اس سے گہرا اور بامعنی رشتہ استوار کرسکے۔ مذہب اگر صرف معلوم رہے‘ مجرد رہے اور غیب رہے تو چند لوگوں ہی کی اس تک رسائی ہوگی اور انسانوں کی عظیم اکثریت مذہب کے آبِِ حیات سے محروم رہ جائے گی۔ ادب بالخصوص شاعری کلچر کا سب سے بڑا مظہر ہی‘ اور بڑے ادب کا وظیفہ ہے کہ وہ ”قطرے“ میں ”دریا“ دکھاتا ہے اور ”معمولی“ کو ”جمیل“ بنا دیتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں کلچر کا سب سے بڑا مظہر نعت نگاری کی روایت تھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ¿ مبارک میں پیدا ہوئی اور اس نے حیرت انگیز طور پر فروغ پایا۔ بعدازاں مسلمانوں نے شاعری‘ داستان اور فنِ تعمیر کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ شاعری بالخصوص غزل کی روایت میں حقیقت اور مجاز یا عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے تصورات سامنے آئے۔ ان تصورات کا باہمی تعلق یہ تھا کہ شاعر مجاز کے آئینے میں حقیقت کا جلوہ دکھاتا تھا۔ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کا زینہ تھا‘ اور تیسری سطح پر مجاز حقیقت کو ثقافت میں ڈھالنے یا اس کی Culturalization کا عمل تھا۔ مسلمانوں نے داستان کی بے مثال روایت تخلیق کی‘ اور داستان میں کہانی کی دو سطحیں تھیں۔ ایک سطح پر کہانی انسانوں یا حیوانوں کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کا بیان تھی اور دوسری سطح پر کہانی انسان کے روحانی سفر کی داستان بیان کرتی تھی۔ اس طرح یہاں بھی مجاز حقیقت کے آئینے کا کردار ادا کرتی تھی۔ بعض لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے بڑی بڑی عمارتیں بنوانے پر خوامخواہ وسائل ضائع کیے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ مسلمانوں میں تصویرکشی حرام تھی‘ چنانچہ مسلمانوں نے تصویر کشی سے متعلق بے پناہ تخلیقی توانائی اور شعورِ جمال کو فنِ تعمیر پر صرف کرڈالا‘ چنانچہ انھوں نے کہیں الحمرا تخلیق کیا‘ کہیں تاج محل بنایا۔ انھوں نے سیکڑوں حسین و جمیل مساجد تعمیر کیں۔ یہ تمام چیزیں اسلام کے معلوم کو محسوس‘ اسلام کے مجرد کو ٹھوس اور اسلام کے غیب کو حضور بنانے کے عمل کا حصہ تھیں۔ مسلم معاشروں میں تہواروں اور شادی بیاہ کی تقریبات کی معنویت بھی یہی ہے۔ مسلمانوں کے تہوار صرف دو ہیں‘ یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ عیدالفطر کے تہوار میں رمضان کے روزے اور عید کی ”نماز“ حقیقت ہے اور اس کا تقریباتی پہلو اس حقیقت کا ”مجاز“ ہے۔ عید الاضحی میں حج اور قربانی تہوار کی
قرطبہ مسجد ۔۔۔۔ مسلمانوں کی ثقافت کا مظہر |
دیوالی |
تاج محل آگرہ۔۔۔ بھارت |
تحریر: شاہنواز فاروقی ماخد: جسارت
بذریعہ جی میل تبصرہ
بذریعہ فیس بک تبصرہ