ہم جنس پرستی : 113/ ممالک میں قانونی اور 76/ میں غیر قانونی ہے


ہم جنس پرستی : 113/ ممالک میں قانونی اور 76/ میں غیر قانونی ہے
کئی برسوں کے بعد آخرکار دنیا کے113 ممالک نے ہم جنس پرستی کی حقیقت کو کلی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے جب کہ76 ممالک نے اس کو نامنظور کرتے ہوئے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن اور سوڈان میں تو اس فعل کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے تاہم مالی، اردن، انڈونیشیا، قازغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا ہرزے گوینا اور آذربائیجان وہ مسلم ممالک ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے۔26 جون2011ء کو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں مردوں اور خواتین ہم جنس پرستوں کی منعقدہ تقریب پر پاکستان کے مذہبی حلقوں اور اراکین پارلیمنٹ نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ 31 مئی2011ء کو امریکی صدر کی تقریر میں سب کے لئے جنس و صنف سے بالاتر ہو کر مساوی حقوق کا اعلان کیا گیا تھا لہٰذا اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اگر پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو خصوصی اہمیت دے کر نشر کرنا شروع کر دیا تو آنے والے دنوں میں امریکا کے خلاف تنقید میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ہم جنس پرستی کے بارے میں معلومات اور حقائق اقوام متحدہ کی مختلف دستاویزات سے حاصل کئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوبی صومالیہ اور نائیجریا کی12 ریاستوں میں ہم جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں افغانستان میں طالبان کے دورحکومت اور 2001ء میں صدام حسین نے عراق میں ایک حکم کے ذریعے ہم جنس پرستوں کے لئے سزائے موت تجویز کی تھی۔ سوڈان میں اگر کوئی فرد تین مرتبہ اس فعل کا مرتکب پایا جائے تو اسے یا تو سنگسار کیا جاتا ہے یا پھر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ بہرکیف سوڈان میں پہلی یا دوسری مرتبہ ہم جنسی کے فعل پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ ایران دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو ہم جنس پرستی کے ارتکاب پر سب سے زیادہ سزائیں دی ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی حکومت نے چار ہزار ہم جنس پرستوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔ انٹرنیشنل لیزبین، گے، بائی سیکسوئل، ٹرانس اور انٹر سیکس ایسوسی ایشن کا پتہ 1978ء میں ہوا اب تک110 ممالک کی سات سو تنظیمیں اس کی رکنیت حاصل کر چکی ہیں۔ تنظیم کی انتھک کوششوں کے بعد اسے اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب18 دسمبر2008ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے66 ممالک کے تعاون سے گے اور لیزبین افراد کے حقوق کو تسلیم کیا۔ 19 ویں صدی کے آخر تک تمام مغرب میں ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں جن کا مقصد ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرنا تھا اور ان کے حقوق مثال کے طور پر شادی، اولاد کی تحویل کا حق، روزگار اور صحت سے متعلق تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ دو سال قبل امریکی حکومت کے دستخطوں کے ساتھ2009ء میں67 ممالک کے تعاون سے اقوام متحدہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ اس دستاویز پر تمام یورپی اور مغربی اقوام نے اپنے اپنے دستخط ثبت کئے تاہم دوسری جانب57 مسلمان ممالک نے اقوام متحدہ کے اس اعلامیے کے خلاف اعتراضی بیانات بھی داخل کئے۔ اس سال تقریباً 85 ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے روبرو ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سزائیں دیئے جانے کی پرزور مذمت کی ہے۔ ہم جنس پرست عورتوں کے لئے ”لیزبین“ اور مردوں کے لئے ”گے“ کی خاص اصطلاحات رائج ہیں حالانکہ ”گے“ عام طور پر ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ دی نیوز انٹرنیشنل کی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں دہلی ہائی کورٹ نے2 جولائی2009ء کو ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا ہے جب کہ امریکا میں2003ء میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا گیا تھا تاہم امریکا نے ہم جنس پرست مردوں پر اس بات کی پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ اپنا خون بطور عطیہ نہیں دے سکتے کیونکہ ان میں ایڈز لاحق ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں … برطانیہ اور بیشتر یورپی ممالک میں بھی ہم جنس پرست افراد اپنا خون عطیہ نہیں کر سکتے… افریقا کے38 ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو ہم جنس پرستی کو ایک جرم تصور کرتے ہیں جب کہ بعض ممالک میں اس کی سزا موت ہے اور بعض ملکوں میں سزائے قید دی جاتی ہے۔ ایشیا میں23 ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سے4 ایسے ہیں جہاں اس جرم کی سزا موت ہے۔بہرنوع سماجی سائنس اور کردار کے علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانوں کے جنسی عمل کا ہی ایک نارمل اور مثبت اظہار ہے … ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جس نے ہم جنس پرستی کو ایک ذہنی خلل اور عارضہ قرار دے رکھا تھا 1977ء میں اپنا یہ اعتراض واپس لے لیا۔ چین نے بھی2001ء میں اسے ایک ذہنی بیماری تصور کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرنوع تمام آسمانی مذاہب نے جن میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت شامل ہیں، لواطت کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے ایک ایسا گناہ قرار دیا ہے جو قدرت کے فطری نظام اور اصولوں کے خلاف ہے۔
>
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ