قتلِ ناحق کاشرعی حکم

قتلِ ناحق کاشرعی حکم                         پروفیسر منیب الرحمان صاحب
تمام مسلمان محفوظ الدم ہیں، فقہی اصطلاح میں اسے ”محفوظ الدم“ اور ”مصون الدم“ بھی کہتے ہیں، یعنی بغیر کسی وجہ شرعی کے ان کا خون بہانا حرام ہے اوروہ شرعی وجوہ، جن کے سبب کسی مسلمان کا خون مباح ہوجاتا ہے، یہ ہیں:(الف) یہ کہ کوئی مسلمان العیاذباللہ مرتدہوجائے ۔(ب) کسی کوناحق قتل کرے ۔(ج) شادی شدہ زانی ہو۔
ان وجوہات کے سوا مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے۔ اورجومسلمان ان وجوہ میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرلے، تو وہ پھر”محفوظ الدم“ نہیں رہتا، بلکہ ”مباح الدم“ ہوجاتا ہے، یعنی اس کی جان کی حرمت باقی نہیں رہتی، لیکن اس کے باوجوداس کو قصاص یا حدِشرعی میں قتل کرنا عوام کا کام نہیں ہے ،بلکہ یہ اسلامی حکومت کا منصب اور اس کی ذمہ داری ہے،قرآن مجید میں ہے:
ومَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللہ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَاباً عَظِیْمًا o
ترجمہ: ”جوشخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اوراس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اور(اللہ تعالیٰ نے) اس کیلئے عذابِ عظیم تیارکررکھا ہے“۔ (سورۃ النساء:93)
اس آیت کے تحت مومن کے قاتلِ عامد (یعنی دانستہ کسی ایسی جان کو ارادۂ قتل سے تلف کرنے والا ، جسے شریعت نے حرام و محفوظ قرار دیا ہے) کو آخرت میں جہنم کی دائمی سزا، اللہ تعالیٰ کے غضب اورعذابِ عظیم کا سزاوارقرار دیا گیا ہے۔ پھر اس پر مفسرین و فقہاء نے بحث کی ہے کہ آیا ”قتلِ عمد“کا مرتکب ابدی اوردائمی جہنم کی سزا کا حق دار ہے یا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے، کیونکہ اگر یہ حکم مطلق اورقطعی ہے توبظاہر یہ قرآن کی اس آیت سے متعارض ہے کہ :
اِنَّ اللہ لَایَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ط
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ شریک ٹھہرانے کو تو(ہرگز) معاف نہیں فرماتا اور اس کے علاوہ دیگرگناہوں کو جس کیلئے چاہے معاف فرمادیتا ہے“۔ (النساء:48)

تو اس استثناء کے عموم میں تو”قتلِ عمد“ بھی آتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں آیات میں تطبیق کرتے ہوئے سورۂ النساء آیت نمبر93کی تفسیری بحث میں علامہ محمود آلوسی نے تفسیر ”روح المعانی“ میں لکھا ہے:اگراس آیت کو اپنے ظاہری مفہوم پر قائم رکھا جائے تو پھرمومن کے ”قاتلِ عامد“ سے مراد وہ قاتل ہوگا، جواسے حلال سمجھ کرقتل کرے، تو پھر تو ایسے شخص کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے اور نہ یہ پھرمحلِ نزاع ہی ہے( کہ وہ دائمی طور پرجہنمی ہی ہے)، انہوں نے مزید لکھا کہ عکرمہ ، ابن جریج اورمفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت میں ”متعمدًا“ کی تفسیر میں ”مستحلًا“کی قید لگائی ہے یعنی جو حلال جان کر”قتلِ عمد“کا ارتکاب کرے“،(روح المعانی،جلد:5،ص:117مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)۔

عن عبداللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لایحل دم امری مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللہ وانی رسول اللہ، الاباحدیٰ ثلث النفس بالنفس، والثیّب الزانی، والمارق لدینہ التارک للجماعۃ
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جومسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی جان لینا سوائے تین وجوہ کے حلال نہیں ہے، (ایک) جان کے بدلے میں جان(یعنی اس نے ناحق کسی کوقتل کیا ہو اورقصاص میں اس کی جان لی جائے)، (دوسری) شادی شدہ زانی اور(تیسری) جماعت (کی متفق علیہ راہ) کو چھوڑ کردین سے نکلنے والا(یعنی جومرتد ہوجائے)“،( مشکوٰۃبحوالہ صحیح بخاری وصحیح مسلم)۔

صحیح مسلم کتاب الایمان میں ہے:
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سباب المسلم فسق وقتالہ کفر۔
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا :مسلمان کوگالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے“،(صحیح البخاری رقم الحدیث:48، صحیح مسلم، رقم الحدیث:64)۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ محی الدین ابوزکریا یحییٰ بن شرف الدین نووی لکھتے ہیں:
ترجمہ:” کسی کو ناحق قتل کرنے سے اہلِ حق کے نزدیک ایسا کفر لازم نہیں آتا، جس کے باعث وہ ملت اسلام سے خارج ہوجائے ، جیسا کہ ہم نے متعدد مقامات پر پہلے بھی بیان کیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ قتلِ ناحق کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کرے، تو کہا گیا ہے کہ حدیث کی تاویل میں کئی اقوال ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ (اگر کفرکو اپنے حقیقی اصطلاحی معنی پر محمول کیا جائے تو) اس سے مرادوہ شخص ہے،جوحلال جان کرقتلِ ناحق کا ارتکاب کرے“،(شرح نووی، جلد:1، ص:54)۔
لہٰذا شرعی طور پر کسی ”محفوظ الدم“ مسلمان کی جان کو حلال جان کر یا اِسے کارِثواب اورذریعۂ دخولِ جنت سمجھ کر(بغیر کسی شرعی جواز کے)قتل کرنا، تمام ائمہ کے نزدیک کفر ہے۔
علامہ نظام الدین رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”ویقتل المسلم بالذمی“
ترجمہ: ”اور مسلمان کو ذمی (غیر حربی)کے بدلے میں قصاصاً قتل کیا جائے گا،(فتاویٰ عالمگیری جلدنمبر6، ص :3، مکتبۂ رشیدیہ کوئٹہ)۔

امام ابوحنیفہ کے نزدیک غیرمسلم (ذمی)کی جان ومال بھی محفوظ ہے اور اگر کسی مسلمان نے اس کو بغیر کسی وجہ شرعی کے قتل کردیا تو وہ مسلمان بھی واجب القتل ہے، اور اس سے قصاص لیا جائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام ایسے پابندِآئین وقانون غیرمسلم(جو پاکستان کے مستقل شہری ہیں یا بذریعہ ویزا آنے کی وجہ سے قانونی طورپرحکومت پاکستان کی امان میں ہیں اور جنہوں نے کسی ایسے فعل کاارتکاب نہیں کیا، جس سے وہ ”مباح الدم“ ہوگئے ہوں) کی جان ومال بھی محفوظ ہے اور ان کو کسی وجہ شرعی کے بغیرحلال جان کریا کارِ ثواب سمجھ کرناحق قتل کرنا حرام ہے اورشدید ترین گناہ ہے اور اس پرحدیث میں سخت وعید آئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:الا من قتل نفساً معاہدۃ لہ ذمۃ اللہ ورسولہ فقد اخفر بذمۃ اللہ فلا یرح رائحۃ الجنۃ۔
ترجمہ:”یاد رکھو جو شخص مسلمان ریاست کے کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کرے ، جس کا ریاست سے معاہدہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے اس کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، تو وہ اللہ کی ذمہ داری کی بے حرمتی کرتا ہے، ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا“۔ (ترمذی ابواب الدیات ج 1، ص:391)

اما م علی بن عمر دارقطنی متوفیٰ 385ھ روایت کرتے ہیں:
عن ابن عمر اٴن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل مسلماً بمعاہد، وقال: اٴنا اٴکرم من وفی بذمتہ۔
”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کو ایک معاہد (جس کافر سے معاہدہ ہوا ہو) کے بدلے میں قتل کردیا اورفرمایا: جو لوگ اپنے معاہدے کو پورا کرتے ہیں ، میں ان میں سب سے بڑھ کر کریم ہوں“۔ (سنن دار قطنی، ج 3، رقم الحدیث:3232، سنن کبریٰ للبیھقی، ج8، ص:30)۔

عن عبدالرحمن بن البیلمانی یرفعہ: اٴن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اٴقاد مسلماً قتل یہودیاً، وقال الرمادی: اٴقاد مسلماً بذمی ، وقال: اٴنا اٴحق من اوفی بذمتہ۔
ترجمہ:”عبدالرحمن بن البیلمانی مرفوعاًبیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان سے قصاص لیا، جس نے ایک یہودی کو قتل کردیا تھا، رمادی نے کہا مسلمان سے ذمی کا قصاص لیا اور فرمایا: میں سب لوگوں کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ حق دارہوں کہ اپنے عہدکوپورا کروں“،(سنن دارقطنی ،ج3،رقم الحدیث:3233)۔

عن عبدالرحمن بن البیلمانی قال: قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلاً من اٴھل القبلۃ برجل من اٴھل الذمۃ،وقال اٴنا اٴحق من اٴوفی بذمتہ۔
ترجمہ:”عبدالرحمن بن البیلمانی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ذمی کے بدلے میں اہلِ قبلہ (یعنی مسلمانوں )کے ایک شخص کو قتل کردیا اور فرمایا: میں سب لوگوں کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ حق دارہوں کہ اپنے عہدکوپورا کروں“۔(سنن دارقطنی ج:3رقم الحدیث:3234)۔

ہر چند کہ ان احادیث کی اسانید ضعیف ہیں، لیکن تعدد ِاسانیدکی وجہ سے یہ احادیث حسن لغیرہ ہیں اورلائقِ استدلال ہیں، جب کہ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا استدلال قرآنِ مجید سے ہے، اور یہ احادیث تائید کے مرتبہ میں ہیں۔

علامہ نظام الدین رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”القصاص واجب بکل محقون الدم علی التابیداذا قتل عمدا کذا فی الہدایۃ“۔
ترجمہ:”جس جان کو شریعت نے ہمیشہ کیلئے محفوظ ومحترم قرار دیا ہے، اسے عمدًا قتل کردیا جائے، تو قصاص واجب ہے، ہدایہ میں اسی طرح ہے“۔ (فتاویٰ عالمگیری جلدنمبر6ص :3،مکتبۂ رشیدیہ کوئٹہ)۔

لہٰذا جہادسمجھ کرخودکش حملے کرنا، بمب بلاسٹ کرنااورفائرنگ کرکے مساجد اور عوامی اجتماعات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنا صرف حرام ہی نہیں ہے بلکہ حلال، جائز اورکارثواب سمجھ کریہ کام کرنا کفرصریح ہے۔اور اگر وہ قتل کرنے کوشرعی طور پرحرام سمجھتے ہوئے مغلوب الغضب ہوکر ذاتی دشمنی کے تحت انتقام یا کسی اورنفسانی وجہ سے کسی مسلمان یا غیر مسلم شہری کو قتل کردے تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔

حدیث پاک میں ہے:
عن عبداللہ بن عمروقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:الکبائرالاشراک باللہ وعقوق الوالدین وقتل النفس والیمین الغموس۔
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، (ناحق)انسانی جان کو قتل کرنااور (ماضی کے بارے میں قصداً ) جھوٹی قسم کھانا (سب کے سب) کبیرہ گناہ ہیں“۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ، باب الکبائر)

یہ مسئلہ ہم نے پاکستان کے تناظر میں لکھا ہے،جہاں حاکم بھی مسلمان ہیں، عوام کی غالب اکثریت بھی مسلمان ہے اورملک آئینی طورپر ایک اسلامی جمہوری مملکت ہے اور جہاں وقتاً فوقتاً افراد اور بعض صورتوں میں اجتماعات(عبادت گاہوں اورپبلک مقامات) پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں، بمب بلاسٹ کئے جاتے ہیں اور تاثریہ دیا جاتا رہا ہے کہ اس کے پیچھے دینی اورمذہبی محرکات کار فرما ہیں۔ اور بعض عناصر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ دینی اورمذہبی رہنما یا تنظیمیں اپنے جذباتی کارکنوں کواس قسم کی کارروائیوں پر ان کی ذہنی تطہیر(Brain washing)کرکے ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ بمب بلاسٹ یا حملہ کرکے انسانوں کی جانیں لیں۔ انہیں آج کل عرفِ عام میں ”خودکش حملے“(Suicidal Attacks)کہا جاتا ہے اور یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کارِخیراورجنت کا راستہ ہے اور یہ بات اسلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہے، لہٰذا ہم نے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے شرعی حکم بیان کیا ہے ،تاکہ اسلام کی پوزیشن واضح ہوجائے۔

البتہ وہ ممالک ،جہاں غیرملکی ظالمانہ اور جابرانہ قوتوں کا تسلط ہے اور کھلے میدان میں مظلوم اور مجبور عوام بے پناہ وسائل اور اسلحہ سے لیس ان غاصب طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا جہاں مسلمانوں کو ان کے اپنے وطن میں ان کے مسلّمہ انسانی ،قومی، دینی ،ملّی اور ملکی حقوق سے محروم کرکے انہیں محکوم اورغلام قوم کی حیثیت سے رہنے پر مجبور کیا گیاہے، ان کے معروضی حالات اوراحکام کی نوعیت الگ ہے ، کیونکہ مسلّمہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی وطنی، قومی ،ملکی و ملّی آزادی کیلئے غاصب وقابض قوتوں سے برسرِپیکار ہوناکبھی بھی جرم نہیں گردانا گیا، امریکا اورافریقہ کے بیشتر ممالک کی جدوجہدِ آزادی اور ہندوستان کی تحریکِ آزادی اس کی نمایاں مثال ہے۔ لہٰذا پاکستان اور ان مقبوضہ خطوں (جیسے کشمیرو فلسطین وغیرہ) کی معروضی صورتِ حال اور اس کے شرعی اور فقہی احکام کو باہم خلط ملط نہ کیا جائے۔
یہ مضمون اس سوال کے ذیل میں پروفیسر مفتی منیب الرحمان صاحب نے دیا تھا۔
 پاکستان میں متعدد مقامات (مساجد ، امام بارگاہیں اورپبلک مقامات وغیرہ) پراندھا دھندفائرنگ کرکے یا بمب بلاسٹ کرکے اجتماعی قتل کے واقعات ہوتے رہے ہیں، اسی طرح بعض اشخاص پر خصوصی ہدف بناکرحملے کئے جاتے رہے ہیں، جنہیں عرفِ عام میں (Target killing)کہا جاتا ہے، بعض علمی، سماجی، ملی اور قومی شخصیات بھی اس کا ہدف بنتی رہی ہیں۔ اب ایک عرصے سے فکری ونظریاتی طور پرسیکولر، لیبرل اوراسلام کو ناپسند کرنے والے افراد اس کا سارا ملبہ اسلام پر ڈال رہے ہیں اور ان کی رائے میں یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہا ہے۔ اور اسلام کے نام پرجذباتی نوجوانوں کوایسی کارروائیوں پرآمادہ کیا جاتا ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کردیا جاتا ہے کہ گویا یہ ”جہاد فی سبیل اللہ“ہے، تو جب تک اس مسئلے کے بارے میں اسلام کے شرعی احکام کوواضح نہیں کیا جائے گا،موجودہ دور میں اس کا ذمہ داراسلام اورعلماءِ اسلام ہی کو گردانا جاتا رہے گا، لہٰذا ازراہِ کرم ایسی کارروائیوں کا شرعی حکم بیان فرمائیں تاکہ عام مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی تصورواضح ہو،(مولانامحمد نصیر اللہ نقشبندی، نیریاں شریف، آزاد کشمیر)‘‘۔
نوٹ:پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے جید اور ممتاز علماءِ کرام نے اس فتویٰ کی تصدیق و تصویب کی اور اپنے توثیقی دستخط ثبت فرمائے.
(از: پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ)


گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ