مسئلہ تقدیر کے بارے میں ایک سوال

 مسئلہ تقدیر کے بارے میں ایک سوال
سوال : اﷲ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دْنیا میں جا کر یہ کام کے گا ۔ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ‘جنتی ہوگا یا جہنمی۔ تو ہمارا کیا قصور ہے جب کوئی کسی کے مقدر میںلکھا ہے تو اْسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔

جواب: مسئلئہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیونکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلئہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اِس قدر غْصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اِس کا حکم دیئے گئے ہو یا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ اﷲکے قرآن کی بعض کے سا تھ ٹکراتے ہو ؟ اِسی وجہ سے پہلی اْمتیں ہلاک ہوگئیں۔‘‘(ابن ماجہ (۸۵) ۱/ ۲۳ مصنف عبدالرزاق (۶۰۳۲۷) ۱۱ / ۲۱۶' مسند احمد ۲ / ۱۷۸'۱۸۵'۱۹۵)


اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر وشر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چا ہے اختیار کر لے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ہم نے اْس کو راستہ دکھادیا ہےخواہ وہ شکرگزار بنے یا نا شکرا۔‘‘(الدھر : ۳)

ایک اور مقام پر فرمایا:

’’ہم نے اْسے دونوں راستے دکھا دیئے۔" (البلد : ۱۰)

اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو خیروشرکے دونوں راستے دکھا دئیےہیں اور اْسے عقل وشعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو ا ختیار کرے گا جہنم کے درد ناک عزاب سے اپنے آپ کو بچالے گا اور اگر راہِراست کو ترک کرکے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پرگامزن ہوگاتوجہنم کی آگ میںداخل ہوگا۔ اﷲتعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اْس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اْس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ کیا کرے گا؟ اْس کا انجام کیا ہوگا؟ اِس لیے اللہ نے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اْس کا عِلم و اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اْس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اْس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے۔ اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اْس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اِس لیے یہ بات کہنا صحیح نہیں ہوگی کہ زانی و شرابی ،چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے؟ کیونکہ اْن کے مقدر میں ہی زنا کرنا ،شراب پینا ، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اِس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اْستاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی وعلمی صلاحیتوں اوراْنکےلکھنے پڑھنے سے دلچسپی وعدم دلچسپی سے اچھّی طرح واقف ہے اپنے عِلم کی بنا پر کسی ذہین و محنتی طالب عِلم کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب عِلم اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور غبی و کند ذہن طالب عِلم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوگا اور کند ذہن و لائق طالب عِلم دونوں کو کلاس میں برابر محنت کرائے اور اکٹھا اْنہیں سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین و لائق طالب عِلم اچھّے نمبر حاصل کر کے اوّل پوزیشن حاصل کرلے اور کند ذہن طالب عِلم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ لائق طالب عِلم اِس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اْس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اوّل پوزیشن حاصل کرلے گا اور کند ذہن اِس لیے فیل ہوا کہ اْس کے متعلق اْستاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہوگا ۔ لہٰذا اِس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے؟ یقینا سمجھدارانسان یہ نہیں کہےگا کہ اِس میں اْستاد کا قصور ہے۔ اِس لیے کہ اِس میں اْستاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھتا رہا کہ امتحان قریب ہیں، محنت کرلو ورنہ فیل ہو جاؤ گے۔ اْستاد کی ہدایت کے مطا بق لائق و ذہین طالب عِلم نے محنت کی اور نا لا ئق و شریر طالب عِلم اپنی بْری عادات میں مشغول رہا اور اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کردیا۔
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جس کا عِلم بلاشبہ پوری کائنات سے ذیادہ اکمل و اتم ہے،اْس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اْس نے کامل عِلم کی بنا ء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیا ہے کہ یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت؟ جنتی ہوگا یا جہنمی؟ مگر اِن سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا البتہ اْن کی راہنمائی کرتے ہوئے اچھّے اور بْرے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رْسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلئہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد ورثعۃالانبیاء صالح علماء کے ذریعے کا ئنات میں اْنہیں ایمان و اعتقاد اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے۔ کفروشرک، معصیت اور گناہ سے منع کرتا ہے۔ جہنم کے عذاب اور حساب و کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرتا ہے۔اِن تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اْس کے اِن برْے اعمال پر اگر اﷲتعالیٰ اْس کو سزا دے تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اِس کے بر خلاف نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و نا انصافی ہے ۔

بشکریہ:
http://difaehadees.com/Masail/1/3.htm[/size]


مسئلہ تقدیر پر شبیر احمد عثمانی کی کتاب کا مطالعہ کریں۔۔


گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ