شاہ مردان شاہ المعروف پیر پگاڑا کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

تحریر: ریاض سہیل (بی بی سی نمائندہ)     زمرہ: سیاسیات

شاہ مردان شاہ المعروف پیر پگاڑا کی سیاسی زندگی پر ایک نظر
پاکستان کے سینئیر سیاست دان، مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر تراسی سال تھی۔
سندھ حکومت نے پیر پگارا کے انتقال پر صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جب کہ جمعرات کو ان کی آخری رسومات کے موقع پر صوبہ سندھ میں عام تعطیل ہو گی۔پیر پگارا کے اہلخانہ کے مطابق ان کی میت جمعرات کو کراچی پہنچے گی جہاں سے اس کو بذریعہ جہاز کراچی پہنچایا جائے گا اور ضلع خیرپور میں واقع ان کے آبائی گاؤں پیرجو کوٹ میں دفنایا جائے گا۔پیر پگارا پھپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا تھےجس کے باعث انہیں کراچی کے نجی ہپستال میں داخل کیا گیا مگر وہاں طبیعت میں بہتری نہ ہونے کی وجہ سے انہیں جمعرات کو خصوصی طیارے کے ذریعے لندن روانہ کیا گیا جہاں وہ منگل کو انتقال کر گئے ہیں۔پیر صاحب پگارا کا اصل نام

شاہ مردان شاہ تھا۔ وہ بائیس نومبر انیس سو اٹھائیس میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دن تھے جب پیر پگارا کے والد پیر صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سورہیہ بادشاہ نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر رکھا تھا۔
برطانوی راج میں انیس سو بیالیس میں حُر ایکٹ نافذ کر کے حروں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ بعد میں پیر
صبغت اللہ شاہ کو بغاوت کی پاداش میں گرفتار کر کے بیس مارچ انیس سو تینتالیس کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی گئی اور اس کے ساتھ ہی گدی کو معطل کردیا۔ اس کے باوجود ان کے ساتھیوں نے گوریلا کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
انیس سو چھالیس میں پیر صبغت اللہ شاہ کے فرزند شاہ مردان شاہ کو برطانوی حکومت نے پہلے علی گڑھ کے سکول میں داخل کرایا بعد میں لندن میں نظر بند کردیا اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ تاہم لندن میں ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔
پاکستان میں حالیہ سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کے دوران آخری سالگرہ کے دن ان سے پوچھا گیا کہ کیا انتخابات ہوں گے؟ تو ان کا جواب تھا کم سے کم ان کی زندگی میں تو نہیں ہوں گےانیس سو انچاس میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لندن میں پیر پگارا سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں تو ان کی گدی بحال کردی جائےگی۔ اس یقین دہانی کے باوجود وہ لیاقت علی خان کی ہلاکت کے بعد سنہ انیس سو باون میں وطن واپس آئے جس کے بعد گرفتار حروں کو رہائی ملی۔نو سال بارہ دن کے بعد چار فروری سنہ انیس سو باون میں پیر پگارا کی گدی بحال کی گئی۔ اس بابت خیرپور کے علاقے پیر جو گوٹھ میں ایک باضابطہ تقریب رکھی گئی جس میں شاہ مردان شاہ کی پیر پگارا کی حیثیت سے تاج پوشی کی گئی۔سنہ انیس سو پینسٹھ میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف مہم شروع کی تو پیر پگارا نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔سنہ انیس سو اکانوے میں مسلم لیگ میں اختلافات کے بعد مسلم لیگ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور پیر پگارا نے مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے اپنی جماعت بنا لی تھی۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت بھی پیر پگارا نے اپنی جماعت کو اس میں ضم ہونے نہیں دیا۔پیر پگارا منفرد سٹائل کے مالک تھے۔ وہ سگار پیتے اور گھوڑوں کی دوڑ اور شکار کا شوق رکھتے تھے۔اس کے علاوہ انہیں علم فلکیات سے بھی رغبت تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے میکاؤ طوطا بھی پال رکھا تھا جس سے وہ ایک نجومی کا روپ لگتے تھے۔
وہ لبرل خیالات رکھتے تھے۔ روحانی پیشوا ہونے کے باوجود وہ مذہبی تبلیغ نہیں کرتے تھے اور سال میں ایک دو بار پیر جو گوٹھ میں اپنی حویلی کی محراب سے اپنے مریدوں کو دیدار کرایا کرتے تھے۔پیر پگارا پاکستانی فوج کے قریب تصور کیے جاتے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے اور اکثر ان سے یہ سنا گیا کہ ’میں جی ایچ کیو کا آدمی ہوں۔ان کی حر جماعت پاکستانی فوج کے ساتھ سنہ انیس سو پینٹسھ اور اکہتر کی جنگوں میں شریک تھی۔ حر جماعت آج بھی ایک ریزرو فورس تصور کی جاتی ہے جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہے۔پیر پگارا اکثر ذو معنی بات کیا کرتے۔ حکومت کے مستقبل کے بارے میں جب بھی ان سے سوال کیا جاتا تو ان سے ہمیشہ یہ جواب سننے کو ملتا تھا کہ مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا یا ستمبر ستمگر ثابت ہوگا۔پاکستان میں حالیہ سیاسی غیر یقینی کی صورت حال کے دوران آخری سالگرہ کے دن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انتخابات ہوں گے؟ تو ان کا جواب تھا کم سے کم ان کی زندگی میں تو نہیں ہوں گے۔
پیر پگارا اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ابتدا میں دوستی رہی مگر بعد میں دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ جنرل ضیاءالحق کی ہلاکت کے بعد جب سنہ انیس سو اٹھاسی میں انتخابات ہوئے تو پیر پگارا کو پیپلز پارٹی کے امیدوار سید پرویز علی شاہ نے شکست دی جس کے بعد وہ کبھی بطور امیدوار سامنے نہیں آئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو وہ یہ کہہ کر چھیڑتے تھے کہ بلاول بھٹو ان کی جماعت میں شامل ہوں گے اور یہ وہ اس وقت سے کہہ رہے تھے جب بلاول کی پیدائش ہوئی تھی۔پیر پگارا نے دو شادیاں کیں اور ان کے چار بیٹے ہیں جن میں پیر صبغت اللہ شاہ راشدی، علی گوہر شاہ اور صدر الدین شاہ سگے بھائی ہیں۔ پیر پگارا کی پہلی بیوی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے پھوپھی تھیں جنہیں انہوں نے طلاق دے دی بعد میں دوسری شادی کی۔
پیر شاہ مردان شاہ کے انتقال کے بعد پیر پگارا کون بنے گا؟ اس کا فیصلہ جماعت کے سولہ خلیفے وصیت اور مشاورت سے کریں گے۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ