بیداری شعور

تحریر: حسنین ملک       زمرہ : ہمارا معاشرہ

موضوع:بیداری شعور

نیا سال آگیا ہے۔ ہر سال ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ یہ سال پاکستانی عوام کے لیے خوشیوں بھراہو۔محروم و متوسط طبقے کے لوگوں کے چہروں پر بھی حقیقی خوشی ہو۔مُلک میں اس وقت جو آنے والے الیکشن کی تیاریاں ابھی سے شروع دکھائی دیتی ہیں۔پھر سے اُمیدیں،وعدوں اور خوابوں کے حصار میں یہ قوم ایک سہانے مستقبل کے لیے دیکھ رہی ہے۔عمران خان جس اِنقلاب کے لیے قوم کو نوید دے رہے ہیں خُدا کرئے اس مُلک سے کرپشن ،رشوت ،بے روزگاری ،غربت ،مہنگائی دُور ہو جائے ،فوری اور سستا انصاف ہر ایک کی دسترس میں ہو۔قومیں انقلاب کے راستے پر تب ہی کامیابی سے سفر کرتی ہیں جب قوم کا ہر فرد بیداری شعور سے اپنے آپ کو بدلے۔قائداعظم محمد علی جناعؒ نے پاکستان بنانے کے لیے اپنی آواز پر پوری قوم کو ایک نعرہ ،’’پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الااللہ ‘‘ پر اکٹھا کر کے ایک بڑامقصد حاصل کر لیا
۔آج اس قوم اس مُلک کے روشن مستقبل کے لیے پھرسے ایک ہونا ہوگا ۔نظام بدلنا ہے تو اس کی ابتدا ء ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنی ہوگی کیونکہ قوموں میں انقلا ب تب ہی کامیابی کی منزل تک پہنچتے ہیں جب ہرایک دل و دماغ سے اس نظام کا نہ صرف حامی ہو بلکہ بدلنے کے لیے اپنا کردار ادا کر ئے ۔آج اپنے آپ کو ہر ایک کو بدلنا ہوگا۔ایک ایسی تحریک کی اس قوم کو ضرورت ہے جس میں بلاتعصب پارٹی ایک ہی ہر ایک کا نعرہ ہو کہ نظام کو بدلناہے تو ہر ظلم ناانصافی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار پہلے خود بننا ہوگا اور رشوت ،سفارش،کرپشن سے اپنے آپ کو ہر لمحہ دُور رکھناہوگا۔کرپٹ نظام کا ختم کرنا تب ہی ممکن ہو گا جب ہم خود اس کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ہم نے کبھی بھی بحثیت فرد یہ دل سے تسلیم نہیں کیا کہ ہم بھی اس نظام کا وہ حصہ ہیں خود تونظریہ ضرورت کے تحت اپنے آپ کو جب ضرورت ہوتی ہے اس نظام کا حصہ سمجھتے ہوئے شامل کر دیتے ہیں ۔ہم یہ تو کہتے ہیں کہ یہاں میرٹ نہیں ہے ۔حقدار کو میرٹ پر نوکری نہیں ملتی ہے مگر کہیں کوئی سرکاری اشتہارنظر آجائے اور اپلائی کرنا ہو تو ہم سب سے پہلے سفارش کے لیے دِن رات ایک کرکے یہ نوکری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمار ا کہیں کوئی جائزکا م سرکار میں رُکا ہوا ہو توہم رشوت دینے کو مجبوری کا نام دے کراللہ کو بھی ناراض کرتے ہیں اور اس سسٹم کا خود حصہ بن جاتے ہیں۔ہم ہی ہیں جو بیرون ممالک میں جایں تو ٹریفک قوانین اور ایک مہذب قوم کے افراد کی طرح لائن میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا اِنتظار کرتے ہیں مگر اپنے دیس میںآکر یہ سارے قانون بھول جاتے ہیں۔کیایہ لمحہ فکریہ ہم سب کے لیے نہیں ہے کہ ہم ہر بُرائی کا قصور وار حکومت اور اس سسٹم کو سمجھتے ہیں جس کا ہم بھی حصہ ہیں مگر کبھی ہم نے اس کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔آج علمائے کرام اور مساجد اما م،خانقاہوں کے گدی نشین افراد کو بھی تعمیر معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔اساتذہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔آج مثب فکر اور سوچ کے ساتھ آگے چلنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تب ہی ہم ایک خوشحال و روشن پاکستان کی جانب اپنے قدم بڑھا سکتے ہیں۔خدا نے اُس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا نہ ہو۔ہمارا بھی آج یہی حال ہے ہم کو آج اسلام و پاکستان سے محبت کو اپنی زندگیوں میں شامل کرناہے تو پھر ایک ایسے پاکستانی مسلمان کا کردار اس معاشرے میں ادا کرناہوگا جس سے اوروں کو چہروں پر بھی مسکراہٹ آسکے ۔آج پاکستان کا متوسط و غربت سے پسا ہو ا طبقہ اس سسٹم سے مایوس دکھائی دیتاہے ۔ہر کوئی اس اُمید پر اگلے الیکشن میں ایسی قیادت کی کامیابی کے لیے بے قرار ہے جو اس مُلک سے غربت ،بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کر سکے ۔اس ملک کے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کا مکمل نٖفاذہے ۔آج ہم سُود جیسی لعنت سے ہر طرف معاشرہ میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔روزی میں برکت اس لیے نہیں ہوتی ہے کہ ہم نے رب کے شکر وصبرجیسی نعمتوں کو بھی بھلا دیا ہے اورلفظ قناعت سے بھی ہم کوسوں دور ہیں ۔ہم اپنی بینادی اساس و نظریہ پاکستان کی سوچ و ویزن سے بھی دُور ہیں۔نوجوان نسل اس وقت سب سے زیادہ ڈپریشن کا شکا رہے۔ہم میں سے ہر ایک کو سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلناہوگا اور ایمانی طاقت سے ہم کو خدا کی ذات پر مکمل یقین کامل سے اپنے لیے وہ راستے چنننے ہوں گے جو ایک مسلم کی پہچان ہوتے ہیں جن کی منزل استحکام پاکستان ہو ۔گذشتہ چند سالوں سے ہر آنے والا سال پاکستان کے لیے بھاری وبھرکم اورمشکلات لے کر آیا ہے ۔بہت سارے منجومین و ستاروں کاعلم جاننے والے و روحانی شخصیات کہتی ہیں کہ منگل کا گوشت کا ناغہ دور کرنے سے اس سرزمین پر بہت ساری مشکلات دور ہوجائیں گی اور بہت ساری شیطانی بلائیں ٹل جائیں گی ۔حکومت کو کسی اور دن یہ ناغہ بھی کرکے دیکھ لینا چاہیے کیا معلوم کہ اس سے بہت فرق آجائے۔ہمارا سارامالیاتی نظام بھی سُود پر ہے تو پھر کیسے اللہ ہم سے راضی ہوسکتاہے ۔ہم اپنی معیشت کی تبائی سے ناجانے کیوں منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں جب کوئی کہتاہے کہ اسلامی بنکاری سے اس معاشرے کے معاشتی نظام میں رحمتوں کا نیا دور شروع ہوجائیگا۔ہم کو خداپر بھروسہ کرکے اس سودی نظام کو ختم کردینا چاہیے۔انقلاب کے راستے پر آج ہر ایک کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے اپنے آپ کوبدل کرہم اپنے حصے کا تو کام کریں اور اپنی زندگیوں میں لفظ شکر کا شامل کرلیں تو بہت سے مسائل کا حل ہوسکتاہے۔حضرت شیح سعدی ایک دفعہ کہیں جارہے تھے راستے میں ایک دوست ملا اور کہنے لگا کہ حضرت آپ کا کیسا حال ہے ؟۔آپ نے عجیب بات ارشاد فرمائی کہ اس (اللہ) کی نعمتیں کھا کھا کر دانت ٹو ٹ گئے ہیں لیکن زبان اس کی ناشکری سے باز نہیںآتی ہے ۔آج یہی حال ہمارا بھی ہے۔۔۔۔اللہ اکبر۔اورانقلاب کے لیے کیا خوب ہمارے قائداعظم کا فلسفہ تھا جس سے ہم نے بحثیت قوم کبھی راہنمائی نہیں لی ۔آپ نے کوئٹہ میونسپلٹی کے 15 جون 1948ء کے استقبالیہ میں فرمایا۔۔’’اگر ہر شخص اپنا محاسبہ کریگا اورخود کو مجبور کر کے اپنے آپ پر اور دوسروں پر بھی ایمانداری کا اُصول لاگوکرنے کا عادی ہوجائیگا تو میں دیکھ رہاہوں کہ پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن اور شاندار ہے’’۔۔۔
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی اک شمع جلائے جاتے








گوگل پلس پر شئیر کریں

Unknown

    بذریعہ جی میل تبصرہ
    بذریعہ فیس بک تبصرہ