حُسن کی حقیقت اور ماہیت

    نصیر احمد ناصر کی کتاب  "جمالیات (قرآن و حدیث کی روشنی میں) سے اقتباس۔
    اس عالم رنگ و بو کی ہر شے انسان کے لئے دلکشی و جاذبیت اور حیرت و استعجاب کا موجب ہے۔ رنگ و نور اور صور و اشکال کے اس طلسم کدے میں وہ اپنے آہ کو نظر افرورزی و جاذبیت کے ایک بحر نا پیداکنار میں مستغرق دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ مگر اسے اس بات کا پتا نہیں چلتا کہ اس کائنات کی نظر افروزی اور جاذبیت کی وجہء حقیقی کیا ہے؟ وہ سجیلی صورت، سریلی آواز،کیف پرور خوشبو،لذت آفریں شے  اور نشاط انگیز لمس میں ،کسی ایسی شے کو چھپا ہوا محسوس تو کرتا ہےجو اس کے

    حواس اور تکین کا سبب ہے ،مگر اس شے کی ماہیت سے وہ بے خبر ہے۔ اس مخفی شے کی طلب و آرزو کو وہ اپنے قلب میں جاگزیں پاتا اور اور اس سے تشفی کے لئے جان بھی دیتا ہے ۔ ۔۔ مگر بھی اس کی حقیقیت سے کم آگاہ ہےٗکہ اس کی اس طلب و جستجو کا مقصودِ حقیقی کیا ہے؟ چنانچہ اس راز کو معلوم کرنے کی اسے ہمیشہ طلب و جستجو رہی ہے اور اس سلسلے میں اس نے اپنی نظر و فکر سے جو کام لیا ہے اس کا حاصل فلسفے کی جدیدفلسفے کی جدید اصطلاح میں جمالیات کے نام سے موسوم ہے۔

    ظاہر ہے جمالیاتکا تمام سرمایہ جو اس وقت ہمارے  پاس محفوظ ہے، ہر عہد کے اہل فکر و نظر کی ذہنی کاوشوں کا حاصل ہے۔چونکہ یہ مختلف اذہانِ انسانی کی متاعِ فکر ہے،اس لئے اس میں اختلاف و تضاد کا پایا جانا فطری ہے اور یہ کوئی حوصلہ فرسا واقعیت نہیں،بلکہ اس کے برعکس یہ حریتِ فکر و نظر کی دلیل ہے اور اہل نظر جانتے ہیں کہ حریت فکر و نظر پر ارتقائے انسانیت کا کس حد تک انحصار ہے۔

    حریت فکر و نظر بے شک حیاتِ انسانی کی امتیازی خصوصیت ہے اور میں اس کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم بھی کرتا ہوں مگر اس کی مطلق حیثیت کا قائل نہیں ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کائنا ت کی ہر شے حتیٰ  کہ خود انسان کی آزادی و خود مختاری تک نوامیسِ فطرت کے تابع ہونے کیوجہ سے محدود ہے اور اس کی حقیقت اضافی ہے،اس طرح فکرِ انسانی کی آزادی کا محدود ہونا بھی اس کی فطرت کا مقتضیٰ ہے ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فطرت نے ہر عہد میں انسان کی فکر و نظر کو جوا پنی مطلق آزادی کی وجہ سے گمراہ ہوئی ،وحی و تنزل کے ذریعےراہِ راست پر لانا چاہا۔ فکر انسانی پر یہ قیود جنھیں ظاہر میں وحی و عائد تنزل کرتی ہے،حقیقت میں فکرِ انسانی کی تقدیر کے قیود ہیں،جن کے اندر رہ کر وہ آوارگی و گمراہی سے بچ سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ  فکر انسانی کے یہ قیود   رکاوٹیں نہیں بلکہ اس کی سلامتی و راست وری کے فطری حفاظتی حصارہیں۔

    میں نہ تو انسان کی فکری کاوشوں کی مثبت قدروں کا منکر ہوں اور نہ ہی مجھے اس کے دل و دماغ کی انفعالی و فعلی قوتوں میں کوئی شک و شبہ ہے لیکن جب تقدیرِ فکر و نظر یہی ہے کہ ہر زمان و مکان میں اور زندگی کے ہر گوشے میں اس نور و ہدایت  کی روشنی میں اپنی راہ و منزل کا سراغ لگائے جیسے مذہب کی اصطلاح میں وحی و تنزیل  کہتے ہیں تو میرے لئے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ میں منشائے فطرت کے مطابق وحی و تنزیلکی روشنی میں حُسن کے ان مسائل کو حل تلاش کروں ،جن کے بارے میں اہل فکر و نظر ہمیشہ سے اختلاف رائے رکھتے چلے آ رہے ہیں۔

    وہ علمائے دین یا دوسری قسم کے اہل علم حضرات جو قرآن مجید پڑھتے ہوئےتو  ہیں مگر تدبر و تحقیق کی لذت سے ناآشنا ہیں، حیرت و استعجابسے پوچھنے ہیں "کیا قرآن حکیم میں جمالیات کے متعلق کچھ لکھا ہواہے؟؟" یہ سوال میرے دل پر تِیر و نَشتر کی طرح چرکے لگاتا ہے۔ وہ شخص جس کی نظر میں قرآن حکیم کا ہر گوشہ رموزِ حُسن کا خزینہ ہو، جو حسن کو حقیقت اور قرآن کو ترجمانِ حقیقت سمجھتا ہو، اس کا دل کس طرح اس سوال کی اذیتوں کی تاب لاتا ہوگا؟ اس کا حال تو کچھ ہی صاحبِ دل انسان جانتے ہیں جو محرم اسرار ہوئے ہوئے جہلا کی تضحیک و استہزاء کے صدمات اٹھارے ہیں ۔ یہ سوال اس واقعیت کی بھی غمازی کرتا ہے ہے کہ ہمارے نام و نہاد علمائے دین اور دوسرے اہل علم زموز قرآنی سے اسی طرح نابلد ہین ، جس طرح جہلا ۔۔اور انہوں نے اسی طرح قرآن کو چھوڑ رکھا ہے جس طرح عوام نے۔ وہ قران کو پڑھتے تو ہیں مگر بیگانہ نظروں سے،یعنی ایسی نظر وں سے جن پر تعصب و عصبیت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انہیں قرآن حکیم میں جو رموزِ حُسن کا گنجینہ ہے ۔ حسن کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔

    میں اس موقع پر ہر ملت و دین کے متلاشیان حق و صداقت سے پرخلوص دل کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جس سے میں  سالہا سال لگے تحقیق و جستجو کی بدولت آگاہ ہوا ہوں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم زندگی کے ہر گوشے میں رہنمائی کرتا ہے، کیونکہ اس میں بنیادی مسئلہء حیات کا حل موجود ہے۔ لیکن معارف قرآنی سے آگاہ ہونے کے لئے اس پر قلب کے ساتھ غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ جو اپنے حسن فطری سے منور ہو۔

    اس سے بیشتر کہ نفسِ مضمون پر بحث کا  آغاز کیا جائے میں اس واقعیت کا اظہار کر دینا چاہتاضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم نے آج سے تقریباً چودہ سو برس قبل حیات انسانی  کے اس اساسی مسئلےپر جیسے جمالیات کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ، روشنی ڈالی ہے  اور اسے اس اندازِ بیاں سے حل کیا ہے جو ذہن انسانی کے ارتقائے مدام کے باوجود ہر زمان و مکان میں اس کی جمالیاتیحسن کے اس بنیادی جذبے کی تشفی کرتا رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے ججمالیات کے اس اساسی مسئلے کا ایسا حل بتایا ہے ، جو زمان و مکان کی اضافیت میں مطلق حیثیت رکھتا ہے۔

    رنگ و نور کے اس جنت نگاہِ نگار خانہ میں اگرچہ ہر شے اپنے حسن کی دل آویزی کے ساتھ ذوق نظر کی تسکین کا سامان ہے لیکن حسن کی قیامت سامانیوں کا کچھ اور ہی رنگ ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انسان اپنے قد و قامت کی موزونیت و جاذبیت  اور شکل و شباہت کی نظر افروزی و دلکشی کے اعتبار سے حسن تمام کے پیکر بے مثال ہے ۔ انسان پر حسن کی یہ ارزانی ، اس کے عز وشرف کی وجہ اور فضل ربانی کی دلیل ہے۔ چنانچہ اس واقعت کی طرف باری تعالیٰ نے کئی مرتبہ انسان کی توجہ کو منعطف کیا ہے۔

    وَصَوَّرَكُمۡ فَأَحۡسَنَ صُوَرَكُمۡ‌ۖ 
    اور تمھاری صورتیں بنائیں تو کیا ہی حسین صورتیں بنائیں۔     (سورة التّغَابُن - ایت 3)
    یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ انسان اس عالم انفس و آفاق میں حسن ونظر افروزی میں آپ اپنی مثال ہے، ہمیں پہلے اس بات کا سراغ لگانا ہوگا کہ اس کے حسن کی وجہء حقیقی کیا ہے؟ ماہیتِ حسن کا راز سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے میرے نزدیک جستجو کی یہ راہ نسبتاً زیادہ آسان اور موزوں ہے۔ بہر کیف وجودِ انسانی میں کس طرح حسنِ نظر افروزی پیداہوتی ہے ؟ اس راز کو باری تعالیٰ پانے مخصوص نلیغانہ انداز میں نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کرتا ہے ۔
    ٱلَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّٮٰكَ فَعَدَلَكَ   0    فِىٓ أَىِّ صُورَةٍ۬ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ   0  ۔
    اس (باری تعالیٰ ) نے تیری تخلیق کی (یعنی تیرا ہیولیٰ تیار کیا) پھر تیرے (عناصر) میں مناسبت و ہم آہنگی حدِ کمال تک پیدا کی،پھر ان میں تناسب و اعتدال پیدا کیا، اس کے بعد جیسی شکل و صورت بنانا چاہی ، اس کے مطابق ترکیب دے دی۔ (سورۃ الانفطار۔ ایت 7-8)

    ایت محولہ بالا میں وجودِ انسانی کی تخلیق سے لے کر اس کی صورت گری تک جن چار ارتقائی مرحلوں کا ذکر کیا  گیا ہے،وہ یہ ہیں:

    اول --- تخلیق : اس سے مراد وجود انسانی کا خاکہ بنانا یا اس کا ھیولیٰ تیار کرنا ہے۔
    دوم---  تسویہ:  کسی کے عناصر ترکیبی میں مطلق اور اضافی ہر حیثیت میں اس طرح ہم آہنگی پیدا کرنا کہ وہ موزونی و کمال کا مطہر بن جائے۔
    سوئم---  تعدیل:  انفرادی اور مجموعی ،جزوی اور کلی مطلق اور اضافی ، ہر حیثیت میں کسی شے کے مختلف اجزاء میں تناسب و اعتدال روا رکھنا۔
    چہارم--- ترکیب صوری:  شکل و صورت بنانا، نوک پلک نکالنا وغیرہ۔ اس میں ڈیزائن بنانے کا بھی مفہوم مضمر ہے۔

    تخلیقی فعلیت کے متذکرہ بالا چاروں ارتقائی مرحلوں پرغور کرنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ نہ تو تخلیق اور نہ ہی ترکیب صوری کے عمل سے وجود انسانی میں حسن پیدا ہوتا ہے بلکہ حسن آفرینی کا راز تسویہ و تعدیل کے عمل میں مضمر ہے۔ ان آیات پر مکرر و غور کریں تو حقیقت کے اس پہلو پر بھی نظر پڑتی ہے کہ باری تعالیٰ کی تخلیقی فعلیت کے اس سلسلے کی چاروں کڑیاں اس طرح مربوط و منضبط ہیں کہ ان کے نظم و ضبط نے وحدت کی صورت اختیار کر لی ہے اور یہ وحدت ہی فن کاری یا حسن آفرینی کی علت تامہ ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی فنی تخلیق میں وحدت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ فن کی یہ مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ فنی تخلیقات میں وحدت ،تناسب وہم آہنگی کے کمال سے پیدا ہوتی ہے ، جس کے لئے قرآن حکیم نے تسویہ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس امر کی تصدیق متعدد آیات قرآنی سے ہوتی ہے ، مثلاً:

    إِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةِ إِنِّى خَـٰلِقُۢ بَشَرً۬ا مِّن طِينٍ۬ 0 فَإِذَا سَوَّيۡتُهُ ۥ وَنَفَخۡتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُ ۥ سَـٰجِدِينَ 0
    "جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں، چنانچہ جب اس( کے عناصر ترکیبی) میں مناسبت و ہم آہنگی حد کمال تک پیدا کردوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں ، تو اس کے سامنے سجدے میں گر جانا۔(سورۃ  ص ایت 71۔72)

    تسویہ سے چونکہ وجود انسانی میں حسن پیدا ہوتا ہے اس لئے بلاغتِ قرآنی نے خوبصورت مرد کے لئے بشراً سَوِیا کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
    فَأَرۡسَلۡنَآ إِلَيۡهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرً۬ا سَوِيًّ۬ا0
    چنانچہ ہم نے اپنی روح کو اس کی طرف بھیجا،تو وہ ایک خوبصورت مرد کے روپ میں ظاہر ہوا۔ سورۃ  المریم ایت 17)
    اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ حسن انسانی ،تسویہ کا مرہونِ منت ہے کیونکہ اس سے وحدت فن پیدا ہوتی ہے۔

    اس مقام پر بعض تشکیک پسند طبائع میں چونکہ یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ تسویہ صرف حسن انسانی کا منبیٰ ہے اور دیگر فنی تخلیقات مین اس سے حسن پیدا نہیں ہوتا ،قرآن حکیم نے نہایت واضح اور جامع الفاظ میں اس امر کی صراحت کر دی کہ تخلیقی فعلیت میں تسویہ کی حیثیت مطلق ہے، لہذا کوئی فنی تخلیق اس کے بغیر حسین نہیں بن سکتی۔ 

    ٱلَّذِى خَلَقَ فَسَوَّىٰ۔
    اس نے ہرشے کو پیدا کیا اور اس میں مناسبت و ہم آہنگی حد کمال تک پیدا کی۔ سورۃ الاعلیٰ ایت 2)
    اور اس تسویہ کا اعجاز ہے کہ خالق حقیقی کی ہر شے حسن و نظر افروزی کی آئینہ دار ہے۔

     ٱلَّذِىٓ أَحۡسَنَ كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقَهُ "اس نے جو چیز بنائی حسین بنائی"  سورہ السجدہ   ایت 7
    اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ تعدیل و تسویہ حسن کی وہ اہم قدریں ہیں، جنہیں اصطلاح میں جمالیاتی قدریں کہتے ہیں اور ان میں سے تسویہ ایسی قدرہے جو بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ لہذا وہ اساسی جمالیاتی قدر ہوئی اور اس کے اعجاز ہی ہر عالم ورنگ و نور جمیل و جلیل صورتوں کا مرقع دل آویز ہے۔

    جب یہ ثابت ہو گیا کہ اشیاء کا حسن تسویہ کی اساسی جمالیاتی قدر کا مرہونِ منت ہے تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ اشیاء میں وہ اساسی جمالیاتی قدر ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظو ں میں حسن کو معلوم کرنے کا معیار یا اس کو پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے؟ غور سے دیکھیں تو تسویہ بذاتِ خود حسن کو پرکھنے کا معروضی معیار یا کسوٹی ہے ، جسے صاحبِ فن اور اہل ذوق کی نظر خوب پہچانتی ہے۔ میں صاحب فن اور اہل ذوق کی تخصیص اس لئے کی ہے کیونکہ ان کی نگاہوں میں تسویہ یا مناسبت و ہم آہنگی درجہء کمال تک پائی جاتی ہے،مگر اس کے برعکس عام انسانوں کی نظروں میں تسویہ کم پایا جاتا ہے ، لہذا وہ حسن کے معروضی معیار سے واقف نہیں ہوتے۔ اہل ذوق و فن میں اس معیار ِ حسن کو معلوم کرنے کی استعداد یا بصیرت دو طرح سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک تو مشق و مزاولت  سے جسے کسبی کہتے ہیں، دوسرے فطری طور پر جس کا نام وہبی ہے۔ چنانچہ یہ بصیرت اس شخص میں درجہء کمال تک پہنچی ہوگی جس کی وھبی اور کسبی بصیرتوں میں تسویہ ہوگا۔ اسی طرح جس قدر ان دو قسم کی بصیرتوں میں ہم آہنگی کم ہوگی اسی نسبت سے اس شخص میں حسن کو معلوم کرنے کی استعداد یا بصیرت کم ہوگی۔ اصل یہ ہے کہ یہ بصیرت حسن کا موضوعی معیار ہے اور اس سے ہر شخص بہرہ مند ہے۔

    لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَـٰنَ فِىٓ أَحۡسَنِ تَقۡوِيمٍ۬
    "بلاشبہ ہم نے انسان کی فطرت کو بہت حسین بنایا ہے" سورۃالتین ایت  4
    یہ حسن تقویم ہے جسے میں نے بصیرت کے نام سے تعبیر کیا ہے  اور اسی لفظ کو جمالیاتی حسن یا حس جمال کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور اب یہ نفسیاتِ انسانی کی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس جمالیاتی حس کی وجہ سے ہی انسان خوب صورت چیزوں سے حظ اٹھاتا اور مسرور ہوتا ہے۔ اس سے نتیجہ نکلا کہ سرور انگیزی حسن کا خاصہ ہے ، لہذا ثابت ہوا کہ جو شے سرور انگیز ہوگی۔ وہ حسین  بھی ضرور ہوگی۔بالفاظِ دیگر وہ شے تسویہ کی اساسی جمالیاتی قدرکی ضرور حامل ہوگی۔ چنانچہ حقیقت کے اس پہلو کی قرآن حکیم اس طرح نقاب کشائی کرتا ہے۔
     لَّوۡنُهَا تَسُرُّ ٱلنَّـٰظِرِينَ
    "اس کا رنگ دیکھنے والوں کو خوشی بخشتا ہے" سورۃ البقرہ ایت 69


    میرے نزدیک یہ آیت بلاغت قرآنی کی حسین ترین مثال ہے ، اس میں رنگ اور اس کی صفت سرور انگیزی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ صفت رنگ کی ذاتی نہیں بلکہ اضافی ہے اس کا منبیٰ حسن  ہے جو اس ایت میں مضمرحقیقی ہے اور سرور انگیزی اس کی ذاتی صفت ہے اور اس کی حیثیت مطلق ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہجو شے سرور انگیز ہوگی وہ حسین بھی یقیناً ہو گی۔


    اس ایت میں ایک نکتہ اور قابلِ غور ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں حسن کے لفظ کو محذوف کرے کے اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے کہ حسن کی صفت مطلق سے ہر دل آشنا ہے اور اسے فطری طور پر محسوس کرتا اور پہچانتا ہے اور دل کی یہ انفعالی قوت جسے وجدان بھی کہتے ہیں حسن کی اس صفت سرورانگیز کو معلوم کرنے کی موضوعی معیار ہے۔


    ایت محولہ بالا میں حسن کے لفظ کو محذوف کرکے اس کی صفت سرور انگیزی کو بیان کیا گیا ہے ، لیکن دوسری جگہ اس کی اس صفت کا بظاہر کوئی ذکر نہیں لیکن لفظ "جمال" کو اس انداز سے فقرے میں استعمال  کیا گیا ہے کہ جمال کی حقیقت سرورانگیزی خود بخود آشکارا ہو گئی ہے۔
    وَلَكُمۡ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسۡرَحُونَ
    "اور تمھارے لئے چوپائیوں میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور صبح کو لے جاتے ہو ، جمال ہے۔ سورۃ  النحل ایت 6۔
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment