نیزہ الصباح،جیسیکالینچ اور اب ملالہ یوسف زئی ۔۔۔یورپ کا ایک اور ہتھیار


    نیزہ الصباح،جیسیکا لینچ اور اب ملالہ یوسف زئی ۔۔۔یورپ کا ایک اور ہتھیار
    تحریر و تحقیق: عثمان غازی
    ہل ایک  امریکی صحافی تھا، 1927میں اس نے اپنے ایک دوست ڈونلڈ نوالٹن کے ہمراہ ایک  پبلک ریلشن کمپنی بنائی ، نوالٹن ایک دیوالیہ ہوجانے والے بینک کاڈائریکٹرتھا،1946میں نوالٹن نے کمپنی کے سارے شئیرخرید لیے،ہل اینڈنوالٹن کمپنی  کانام حکومتوں کے مفاد میں کام کرنے والے ادارے  کے طورپر مشہورہوا، یہ کمپنی کسی بھی مہم کومیڈیااورتعلقات عامہ کے ذریعے ایک خاص رنگ  دینے میں مہارت رکھتی ہے، ترکی ، انڈونیشیااورمالدیپ کی حکومتوں کانام بھی ہل اینڈنوالٹن کے ساتھ لیاجاتارہاہے، آج اس کمپنی کے دنیاکے 52ممالک میں 90سے زائددفاترہیں،  1990میں ہل اینڈنوالٹن کمپنی نے ایک مہم چلائی ،یہ مہم 1990کی گلف وارمیں  اتحادیوں  کی حمایت کے لیے تھی، اس جنگ میں ہل اینڈنوالٹن نے   ڈیڑھ ارب روپے کے لگ بھگ پیسے کمائے.
    اس کہانی کاآغازدراصل صدام حسین کے 1990میں کویت کے حملے کے ساتھ ہوا، صدام حسین نے 8سال تک ایران سے ایک بے مقصد جنگ کے بعد تیل کے تنازع پر دواگست 1990کو کویت پر حملہ کردیااورمحض دودنوں میں کویت پر قبضہ کرکے اس کو عراق کا انیسواں صوبہ بنادیا، اگلے سات ماہ تک یہ قبضہ برقراررہااورپھر اس کے بعد 34ممالک کی افواج نے عراق کو تہس نہس کردیا،یہ جنگ عراق اورکویت کامسئلہ تھی، دوممالک کا جھگڑا عالمی مسئلہ کیسے بنا ، یہیں سے ہل اینڈنوالٹن کے کردارکاآغاز ہوتاہے
    نیرہ الصباح  اس وقت صرف 15سال کی معصوم لڑکی تھی، وہ کویت کے ایک اسپتال میں رضاکارانہ طورپر نرس کے فرائض انجام دیتی تھی، عراق کے کویت پر قبضے کے تیسرے ماہ 10اکتوبر1990کو نیرہ نے امریکا میں انسانی حقوق کے ادارے میں ایک


    یادگارتقریرکی، اس تقریرنے گویا کایاہی کلپ کردی، عراق اور کویت کی جنگ عالمی مسئلہ بن گئی، نیرہ نے اپنی تقریرمیں بتایاکہ عراقی فوجی کویت کے اسپتالوں میں نومولود بچوں کوقتل کردیتے ہیں، نیرہ کی تقریرخاصی جذباتی تھی، اس نے بتایاکہ وہ عینی گواہ ہے کہ عراقی فوجی نومولود بچوں کو انکیوبیٹرزسے نکال کر تڑپاتے ہیں اور پھر ان کو پھینک دیتے  ہیں،نیرہ نے بتایاکہ وہ جس اسپتال میں رضاکارانہ طورپر نرس کے فرائض انجام دیتی تھی، اس میں 300انکیوبیٹرز تھے، عراقی فوجیوں نے تمام انکیوبیٹرزسے بچوں کو نکال کر پہلے تڑپایااورپھر ماردیا،  نیرہ کی یہ جذباتی تقریر آناًفاناًپوری دنیامیں پھیل گئی ، اس تقریرکی اثرپذیری کایہ عالم تھاکہ اس وقت کے امریکی صدرسینئربش نے صرف ایک ہفتے میں نیرہ کے بیان کودس سے زائدمرتبہ دہرایا، تمام ٹی وی چینلزاوراخبارات نیرہ کے بیان کی کوریج میں مصروف تھے ،اس وقت کے عراقی وزیرصحت عبدالرحمان نے کہا بھی کہ  یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی ہے، کسی عراقی فوجی نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی، انہوں نے  بتایاکہ کویت کے 14 اسپتالوں کے لیے انہوں نے  ایک ہزارڈاکٹربھی بھیجے ہیں  مگر نقارخانے میں طوطی کی آوازکون سنتاہے، وہ وقت تو نیرہ کاتھا، ہرایک کی زبان پرنیرہ کی بات تھی،  انسانی حقوق کے تمام اداروں نے نیرہ کی بات کو صداقت پرمبنی قراردے دیاتھا،دسمبر1990میں ایمنسٹی  انٹرنیشل کی رپورٹ نے نیرہ کے بیان کی تصدیق کی کہ عراقی فوجیوں نے 300بچے انکیوبیٹرزسے نکال کرمارے ہیں، 34 ممالک کی فوجوں نے نیرہ کی بات کوجوازبناکرعراق کے خلاف لشکرکشی کردی،معصوم شہریوں سمیت تیس ہزارکے لگ بھگ عراقی فوجی قتل کردیئے گئے ، اس جنگ میں 489اتحادی فوجی بھی کام آئے۔

    جنگ کے بعد جان مارٹن نامی صحافی نے عراق کادورہ کیا، اس نے کویت کے اس متنازع اسپتال کابھی وزٹ کیا، وہاں اس کی ملاقات کویت کے ہیلتھ ڈائریکٹرڈاکٹرمطرسے ہوئی، ڈاکٹرمطرنے بتایاکہ کویت میں اتنے انکیوبیٹرزہی دستیاب نہیں ہیں، ایک اسپتال میں تو دورکی بات ہے، پورے کویت کے اسپتالوں میں ملا کر300انکیوبیٹرزنہیں ہیں، ان کاکہناتھاکہ نیرہ کی بات کسی پروپیگنڈے کاحصہ معلوم ہوتی ہے،جنگ کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپناایک وضاحتی بیان جاری کیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہناتھاکہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ کہاگیاتھاکہ عراقی فوجیوں نے نومولود بچوں کوانکیوبیٹرزسے نکال کرقتل کردیاہے تاہم ان واقعات کاکوئی ثبوت نہیں ملا، نیرہ کی بات جھوٹ پر مبنی تھی، اس واقعے کے بعد کئی اورانکشافات ہوئے ، تحقیق کرنے والے صحافیوں کو پتہ چلا کہ نیرہ تو امریکا میں کویت کے سفیر سعود الصباح کی بیٹی ہے،  سعود الصباح کویتی شاہی فیملی کے ممبر بھی تھے ، بعد میں یہ بھی  علم ہواکہ نیرہ کی کہانی کے پیچھے ہل اینڈنوالٹن نامی کمپنی تھی ، جستجو کرنے والوں نے مبینہ طورپر عراقی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے 300بچوں کی قبروں کی تلاش کی بھی بہت کوشش کی مگرانہیں کچھ نہ  ملا۔

    عالمی بساط پر اس طرح کی کہانیاں تو عام ہیں، جنگ کے لیے منصوبہ بندی تو لازمی ہے، یہ منصوبہ بندی کسی کے لیے سازش  اورپروپیگنڈہ ہوتی ہے تو کوئی اس کو تدبیر سے تعبیر کرتاہے، 1997میں امریکامیں آپریشن نارتھ وڈزکی دستاویزات افشا ہوگئیں ، ان دستاویزات کے مطابق امریکی صدرکینڈی کیوباپر حملہ کرناچاہتے تھے ، اس مقصدکے لیے ان کو امریکی عوام کی حمایت درکارتھی، امریکی عوام کی حمایت کے لیے آپریشن نارتھ وڈزپلان کیاگیا، اس آپریشن کے تحت امریکی سی آئی اے نے ایک طیارہ اغواکرکے اس کاالزام کیوباپرلگاناتھا،منظوری نہ ملنے کی وجہ سے  سی آئی اے کے اس پلان پرکبھی عمل نہیں کیاگیا،13مارچ 1962کوجاری کردہ 12صفحوں کی دستاویزدراصل امریکی عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لیے تیارکی گئی  تھی۔



    دوہزارتین میں 19سالہ امریکی  خاتون فوجی اہل کارجیسیکالینچ کے کردارکوخاصی شہرت ملی، پرائیویٹ جیسیکا لینچ امریکی فوج کی پانچ سو ساتویں مینٹیننس کمپنی کے ان پندرہ فوجیوں میں شامل تھی جسے جنوبی عراق کے شہر ناصریہ کے قریب عراقی حملے کے بعد لاپتہ قرار دے دیا گیاتھا، جیسیکاکو امریکی فوجیوں نے بازیاب کرالیا، اس کو ایک جنگی ہیروئن کا درجہ حاصل ہوا، ایک ایسی ہیروئن جس نے بہادری سے لڑائی کی اور بالآخر گرفتارہوئی، دوران قید اس پر بدترین تشدد ہوا اور پھرایک خطرناک مشن کے نتیجے میں اسے آزاد کرالیاگیا.

    اپریل 2007کو جیسیکا نے امریکی  کانگریس کے سامنے بیان دیاکہ اس سے وابستہ تمام کہانیاں جھوٹی ہیں، اس کی ایم 16رائفل

    جام ہوگئی تھی، وہ لڑائی میں حصہ نہیں لے سکی تھی، جیسیکا نے بتایاکہ وہ راکٹ کاگولہ لگنے سے زخمی ہوگئی تھی، عراقی فوجیوں نے انسانیت کامظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسپتال میں داخل کرایاجہاں اس کی بہترین نگہداشت کی گئی، اسی اسپتال سے اسے بازیاب کرایاگیاہے، اس موقع پرجیسیکانے تاریخی الفاظ کہے ، اس نے کہاکہ وہ میں نہیں تھی، میں کسی ایسے عمل کا کریڈٹ نہیں لے سکتی ، جسے  اس  نے نہ کیاہو، یہ توخیرجیسیکاکی ایمانداری تھی، اس کی سچائی تھی مگر تیسری دنیاکے ممالک میں  دنیا کےامن میں خلل ڈالنے والوں کو نیرہ جیسے  بہت سے شکارمل جاتے ہیں ، جن کواستعمال کرکے وہ  اپنے عوام کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں.

    اکتوبر2009سے 12جولائی 2013کو اقوام متحدہ میں  تقریرتک ملالہ یوسف زئی دنیاکے 100بااثر ترین افرادکی فہرست میں شمار ہونے لگی ، اس مختصرسے عرصے میں پاکستان کی اس بیٹی نے جتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں،  معاملات کو مختلف زاویوں سے پرکھنے والے تجزیہ نگار، تحقیق کاراورصحافیوں کے لیے یہ ایک تعجب انگیزامرہے، ملالہ کو نوبل انعام کے لیئے نامزدکیاگیا، امریکی صدراوبامہ سمیت دنیا کی تمام بااثر شخصیات نے ملالہ کوخراج تحسین پیش  کیا،  برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن براؤن نے ملالہ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انتھک محنت کی ، فنکاروں نے ملالہ کے لیے اپنی تخلیقات پیش کیں،  پیرس میں یونیسکوکے تحت اسٹینڈاپ فارملالہ کی مثالی تقریب کا انعقادہوا، یہ تمام اقدامات تعلیم کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے،  جس نے بھی ملالہ کے کردارپر شکوک کااظہارکیا، اس کو انتہاپسندوں  کاحامی ، تنگ نظر، دقیانوسی قراردے دیاگیا، ملالہ کے کردارکو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں  پر پھبتیاں کسی گئیں، کہاگیاکہ ملالہ کے مخالف مذہبی جنونی ہیں، یہ ایک نہتی لڑکی سے ڈرتے ہیں، اس ضمن میں وہ حضرات جو قدرے معتدل  تھے، انہوں نے یہ نظریہ اپنایاکہ اگرچہ ملالہ کاکردارمشکوک ہے مگر اس کے ذریعے سے تعلیم کاجو مشن آگے بڑھایاجارہاہے، اس کو دیکھتے ہوئے ملالہ کی حمایت میں کوئی حرج نہیں، دوسری جانب تنگ نظراور مذہبی انتہاپسندطبقے نے ملالہ کی مخالفت کو جزوایمان سمجھ لیا، ملالہ نے بلاشبہ پاکستان میں نظریاتی تقسیم کو واضح کیاہے، ملالہ کے حامی طالبان مخالف اورملالہ کے مخالف طالبان کے حامی  کہلائے گئے یعنی اس کلیے کے ازخود  طے ہوجانے کے بعدجس



    نے بھی ملالہ کے کردارپرسوال اٹھائے ، وہ انتہاپسندانہ سوچ کا حامل کہلایا ، یہ  عجیب وغریب تھیوری تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے، یہ آزادی اظہارپر قدغن ہے، پاکستان کاایک بہت بڑاطبقہ انتہاپسندانہ سوچ کامخالف ہے مگر وہ ملالہ کاحمایتی بھی نہیں ہے، وہ ملالہ کوایک عالمی سازش کاحصہ سمجھتاہے، 13جولائی کو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ملالہ یوسف زئی کی اقوام متحدہ کی یوتھ اسمبلی میں تقریرسننے کے بعد ایک ٹویٹ کیا، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہاکہ ملالہ کی تقریربہت اچھی تھی، ایسامحسوس ہواکہ یہ تقریر تمام عالمی تقاضوں کے ہم آہنگ تھی،  اس تقریرکو اگرچہ مزید بہتر کیاجاسکتاتھاتاہم  یہ سب کو خوش کرنے کی ایک اچھی کاوش تھی.
    شہبازشریف کے اس ٹویٹ کے بعد تو گویاایک بحث چھڑگئی، مسلم لیگ ن نے شہبازشریف کے اس پرانے اکاؤنٹ سے فوراً برات کااعلان کیا، شہبازشریف ایک دوسرے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرنے لگے، راقم کوٹویٹر کے  مشکوک شہبازشریف کے اس  مبہم ٹویٹ سے عراق کاوہ وزیرصحت یاد آگیاجس نے نیرہ کے واقعے پر دنیاکوسمجھانے کی بہت کوشش کی مگر کسی نے اس کی سنی ہی نہیں اور پھر نتیجہ صرف تباہی نکلا، پاکستانی اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بہت حساس ہیں، ملالہ بھی پاکستان کی بیٹی ہے، اگراس کو استعمال کیاجارہاہے تواس پر احتجاج ہماراحق ہے 


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment