اسلام اور ازواجی زندگی



      اسلام اور ازواجی زندگی۔۔۔۔۔  مضمون نگار: مولانا محمد شاہد جانپوری           
    اگر غور کیا جائے تو دنیا میں دو چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو اس عالم کی بقا اور تعمیر وترقی میں عمود اور بنیادی کردار کا درجہ رکھتی ہیں ، ایک عورت ، دوسری دولت ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہی دونوں چیزیں دنیا میں فساد وخون ریزی اور طرح طرح کے فتنوں کا سبب بھی ہیں ، جب کہ یہ دونوں چیزیں دنیاوی تعمیر وترقی اور اس کی رونق کا ذریعہ ہیں ، لیکن جب کبھی ان کو ان کے اصلی مقام وموقف سے اِدھر اُدھر کر دیا جاتا ہے تو یہی چیزیں دنیا میں سب سے زیادہ مہلک بھی بن جاتی ہیں، قرآن نے انسانوں کو جو نظام زندگی
    دیا ہے اس میں ان دونوں چیزوں کو اپنے اپنے صحیح مقام پر رکھا گیا ہے، تاکہ ان کے فوائد وثمرات زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور فتنہ وفساد کا نام ونشان مٹ جائے۔
    شریعت اسلام مکمل اور پاکیزہ نظام حیات کا نام ہے ، اس میں نکاح کو صرف ایک معاملہ یا معاہدہ نہیں بلکہ ”النکاح من سنتی، فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ کہہ کر کہ ”نکاح میری سنت ہے، جو اس سنت سے اعراض کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ۔“ ایک گونہ عبادت کی حیثیت بخشی ہے ، جس میں خالق کائنات کی طرف سے انسانی فطرت میں رکھے ہوئے شہوانی جذبات کی تسکین کی ایک مقرر کردہ حد اور ضابطے میں بہترین پاکیزہ سامان بھی ہے اور ازادواجی تعلقات سے جو عمرانی مسائل ابقائے نسل اور تربیت اولاد کے متعلق ہیں ان کا بھی معتدلانہ اور حکیمانہ بہترین نظام ہے۔

    نکاح ایک عربی لفظ ہے، اس کا مادہٴ اصلی ن، ک، ح، ہے، کہا جاتا ہے کہ ”نکح المرأة“ عورت سے شادی کرنا، ” نکح المطر الارض“ بارش کا زمین میں جذب ہو جانا، ”نکح الدواءُ فلانا“ دوا کا کسی کے اندر اثر کرنا، ”نکح النعاس عینہ“ آنکھوں میں نیند کا غالب آجانا، یعنی کہ مشترک معنیٰ ایک کا دوسرے میں ضم ہو جانا ہے۔
    چناں چہ شریعت نے اس من تو شدم تو من شدی کے مفہوم کو بہت ہی بلیغ اسلوب میں بیان کیا ہے کہ جس میں نکاح کے معنی کی بھی رعایت ہے اور نکاح سے شرعی مطلوب واقعی کا بھی بیان ہے، قرآن کا ارشاد ہے ﴿ ھن لباس لکم وانتم لباس لھن﴾ گویا جسم اور سایہ کے رشتہ کی تعبیر ہے کہ وہ عورتیں تمہارے لیے بطور لباس کے ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔ منافع مشترک ہو گئے، اتحاد باہمی خاندانی اشتراک کا عنوان بن گیا، چناں چہ زوجین میں محبت ومودت ایسی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس سے پہلے اتنی محبت نہ دیکھی جاتی ہے اور نہ دیکھی گئی اور کیوں نہ ہو یہ تو الله کی قدرت کی نشانی ہے، الله کی رحمتوں میں سے یہ ایک آیت رحمت ہے، اس کی غرض وغایت میں وحدت باہمی اور سکون باہمی ودیعت ہے ،چناں چہ ارشاد خدا وندی ہے:﴿ ومن اٰیتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودةً ورحمة﴾․
    ” الله کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑوں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو او رتمہارے درمیان محبت ومودت پیداہو۔“
    عربی میں آیت قدرت کی نشانی کو کہتے ہیں کہ خدا ہی کر سکے، کوئی دوسرا نہ کر سکے ، زمین، سورج، چاند کو بھی آیت کہا گیا ہے ، یہ رات اور اس کی تاریکی بھی الله کی ایک نشانی ہے کہ تاریکی ایسی پھیلا دی کہ مصنوعی بلب، راڈ اور قمقمے لاکھوں کی تعداد میں جلیں تو جلیں، لیکن رات بدستور قائم رہی اور ایک سورج کی آمد آمد ہوئی کہ رات غائب ہوئی ، اسی طرح نکاح کو قدرت کی ایک نشانی کہا گیا ہے ، ایجاب وقبول کے دو بول کے بعد جو انقلاب عظیم برپا ہوتا ہے۔ یہ الله کے سوا کون کرسکتا ہے؟ ابھی اجنبیت تھی، یکسانیت ہو گئی، ابھی بے تعلقی تھی، منٹ بھی نہیں گزرا کہ تعلق پیدا ہو گیا” نشانی، آیت“ کا یہی معنی ہے کہ دلوں میں ، روحوں میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اس نعمت کی، عظمت کی یہ کتنی بڑی نشانی ہے غور وفکر کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔
    آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”حبب الی من دنیا کم ثلث…“․
    ”تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں مجھے پسند ہیں ، ان میں سے ایک چیز عورت ہے، اس لیے نہیں کہ معاذ الله وہ شہوت رانی کا ذریعہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ تعلق ومحبت قائم ہونے کا ذریعہ ہے۔“
    ارشاد نبوی ہے کہ ”تم میں سے سب سے زیادہ قابل تکریم وہ مسلمان ہے جس کے اخلاق پاکیزہ ہوں اور بیویوں کے ساتھ لطف ومحبت اور لطافت کا برتاؤ کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بعض اوقات ایسی چیزیں عمل میں لاتے تھے جن سے محبت بڑھے، زمانہٴ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ حیض کے دنوں میں عورت کے سایہ تک سے بچتے تھے ، الگ کوٹھری میں بٹھا دیتے ، اچھوت کا معاملہ کیا جاتا کہ عورت نجس ہو گئی، حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایسے دنوں میں بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے ساتھ بیٹھ کر ایک برتن میں کھانا تناول فرماتے ۔یہی نہیں بلکہ حضرت صدیقہ رضی الله عنہا سے لقمہ لے لیتے اور خود تناول فرما لیتے۔ ایک پیالہ میں پانی نوش فرماتے او رجہاں سے حضرت عائشہ پانی پیتیں اسی جگہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم بھی پانی نوش فرماتے۔ تاکہ امت کو بتلا دیں کہ عورت کی ذات میں کوئی نجاست نہیں آئی، اس سے محبت قطع کر دینا اسے اچھوت قرار دینا یہ انسانیت کے خلاف ہے۔
    شریعت کا مقصد یہ ہے کہ خاوند اور بیوی میں مدارات کا برتاؤ ہو، اس سے خانگی زندگی بہتر بن جائے گی ، جس گھر کے اندر خاوند وبیوی ایک دل ایک جان ہوں تو اولاد میں بھی محبت پیدا ہو گی، عزیزوں میں محبت پیدا ہو گی اور گھر جنت نشان تبھی بنے گا جب کہ ایک کو دیکھ کر دوسرا خوش ہو۔
    حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کی خوش نصیبی اور سعادت کی تین علامتیں ہیں، پہلا یہ کہ اس کا رزق اسی کے وطن میں ہو ، دوسری علامت یہ ہے کہ اس کاگھر وسیع ہو اور تیسری خوش نصیبی یہ ہے کہ ایسی نیک بخت بیوی ملے کہ جب اس کی صورت دیکھے تو دل کے اندر خوشی بھر جائے، جب اسے گھر پر چھوڑ کر چلا جائے تو مرد کی عزت وناموس کی حفاظت کرے، الله تعالیٰ اور خاوند کے حقوق کی ادائیگی کرنے والی ہو۔
    واقعی وہ خوش نصیب ہے، اسے بڑی دولت حاصل ہے ، بیوی اگر صالح ہو او رحسین وجمیل بھی ہو تو دونوں کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر خوش ہے اور وہ اس سے راضی ہے تو نکاح سے شریعت کا مقصود ومحبت باہمی ہے۔
    اسلامی تعلیمات اور اصول کا اصلی رخ یہ ہے کہ مرد وعورت میں اسلامی اصول کے مطابق ازدواجی زندگی قائم ہو اور عمر بھر کے لیے پائیدار رشتہ قائم ہو ، اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے ، کیوں کہ اس معاملے کے توڑنے او رختم کرنے کا اثر صرف فریقین ہی پر نہیں پڑتا، بلکہ نسل واولاد کی تباہی وبربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ کبھی تو جان وجائیداد کے تلف، عزت وآبرو کی ہتک کا ذریعہ بن جاتی ہے ، پورا معاشرہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، چوں کہ ازدواجی معاملات ہی کی درستگی پر عام نسل انسانی کی درستگی موقوف ہے، اس لیے قرآن میں ان مسائل کو دوسرے تمام مسائل سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ، قرآن کریم کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ دنیا کے عام معاشی مسائل میں سب سے اہم تجارت، شرکت ، اجارہ، اعارہ وغیرہ ہیں، قرآن نے صرف ان کے اصول بتلانے پر اکتفا کیا ہے، ان کے فروعی مسائل قرآن میں شاذو نادر ہیں، بخلاف نکاح وطلاق کے ، کہ ان کے صرف اصول بتلانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان کے اکثر وبیشتر فروع وجزئیات کو بھی براہ راست حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرمایا ہے۔ یہ مسائل قرآن کی اکثر سورتوں میں متفرق اور سورہٴ نساء میں کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے ہیں ، دنیا کے ہر مذہب وملت کے پیروہمیشہ سے اس پر متفق ہیں کہ نکاح او راس کے معاملات کو ایک خاص مذہبی تقدس حاصل ہے، اسی کی ہدایات کے تحت یہ کام سرانجام پانا چاہیے ، اہل کتاب ، یہود ونصاریٰ سینکڑوں تحریفات کے باوجود بھی ان حدود وقیود پر عمل پیرا ہیں ،ان کی پابندی کو لازم سمجھتے ہیں او رانہیں اصول ورسوم پر تمام مذاہب کے عائلی قوانین چلتے ہیں۔
    زوجین کی ازدواجی زندگی کے ہر معاملہ اور ہر حال کی جو ہدایتیں قرآن وسنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے اور ٹوٹنے نہ پائے، چناں چہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک وصاف رکھنے کی ہدایت ہے ، اگر کبھی رنجش پیدا ہو جائے تو اس کے ازالے کی پوری کوشش کی گئی ہے اور شریعت نے دونوں کو اپنے اپنے فرائض کا احساس دلاتے ہوئے مردوں سے کہا کہ عورت تیری باندی ، محکومہ نہیں ہے، وہ تیری برابر کی شریک زندگی ہے ، جو تیرا حق ہے وہی اس کا بھی حق ہے ، تمہارے ہی جیسی ایک انسان ہے ، ایک ہی جان سے پیدا ہوئی ہے ، چناں چہ فرمایا گیا:
    ﴿عاشروھن بالمعروف﴾ ”یعنی عورت کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو“ اسی کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا:﴿ ولھن مثل الذین علیھن بالمعروف﴾․
    ”کہ جس طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں کہ جن کی ادائیگی ضروری ہے، اسی طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں کہ جن کی ادائیگی ضروری ہے۔“
    یہ آیت حقوق باہمی کی ادائیگی پر شرعی ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے، ارشاد خداوندی ہے:﴿ وللرجال علیھن درجة﴾․
    ” عورتوں پر مردوں کو ایک گونہ فضیلت حاصل ہے ، مردوعورت میں درجہ کا تفوق دنیوی معاملات میں ہے، آخرت کی فضیلت میں اس کا کوئی اثر نہیں۔
    حکم ربانی ہے:﴿ ان اکرمکم عندالله اتقاکم﴾․
    ”کہ الله کے نزدیک آخرت میں سب سے زیادہ مکرم تم میں سے بڑے متقی ہیں۔“
    تومعلوم یہ ہوا کہ آخرت کی فضیلت کا مدار تقوی پر ہے، مرد وعورت پر نہیں ، یہ اور بات ہے کہ مردوں کی بنسبت عورتیں زیادہ جہنم میں جائیں گی، حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ عید کے موقعہ پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم عورتوں کے مجمع کے پاس سے گزرے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عورتو! صدقہ کیا کرو، کیوں کہ لیلة المعراج میں میں نے جہنم کو دیکھا تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے پوچھا یا رسول الله! اس کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت کی ذات میں ناشکری بہت ہوتی ہے۔
    چالیس پچاس ساٹھ برس تک شوہر اس کو اچھا سے اچھا کھلاتا رہے اچھا سے اچھا پہناتا رہے، اگر ایک دن ذرا تنگی آجائے تو فوراً کہہ اٹھتی ہے کہ میں نے تمہارے یہاں کبھی کوئی آرام نہیں دیکھا اور مردوں کو برتری جو عورتوں پر ہے تو وہ محض آمریت واستبداد کی حکومت نہیں، بلکہ مرد بھی قانون شرع او رمشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضے سے کوئی کام نہیں کر سکتا او رپھر یہ کہ دنیا میں الله نے خاص مصلحت وحکمت کے تحت ایک کو ایک پر بڑائی دی ہے کہ کسی کو افضل او رکسی کو مفضول بنایا ہے، جیسا کہ الله نے ایک خاص گھر کو بیت الله اور قبلہ قرار دیا، بیت المقد س کو خاص فضیلت دی ، اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خداداد فضیلت ہے ،اس میں مردوں کی سعی وکوشش و عمل یا عورتوں کی کوتاہی وبے عملی کا کوئی دخل نہیں ۔ مردوں کی افضیلت کے بیان میں قرآن کریم کا عجیب اسلوب بیان ہے، قرآن نے ”بعضھم علی بعض“ کے الفاظ اختیار کیے ہیں، اس اسلوب میں حکمت یہ ہے کہ عورتوں او رمردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جز قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا ہے، اگر کسی چیز میں مردوں کی برتری اور فوقیت ثابت ہوتی ہے تو بھی اس کی مثال ایسی ہے کہ انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل ہے، یا یہ کہ انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے تو جس طرح سر کا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام او راس کی اہمیت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح مرد کا حاکم ہونا، عورت کے درجے کو نہیں گھٹاتا، کیوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مثل اعضا واجزا کے ہیں، گو مرد سر ہے تو عورت بدن ہے، انسانی جسم اسی وقت خوش وخرم اور زندگی کا حقیقی سکون حاصل کرتا ہے جب کہ جسم کے سارے اعضا توانا وتن درست ہوں، نیک بیویاں مرد کی سعادت کی علامت ہیں ، حدیث میں ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابع دار، مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے پرندے ہوا میں، مچھلیاں دریا میں، فرشتے آسمانوں میں، درندے جنگلوں میں ،استغفار کرتے ہیں، اس لیے کہ بیوی کی سرکشی ونافرمانی بڑے بڑے فتنہ کا پیش خیمہ بنتی ہے اورگھر جہنم کدہ بن جاتا ہے۔
    شوہر اور بیوی کے تعلقات انتہائی نازک ہوتے ہیں، وہ فرشتے تو نہیں انسان ہی تو ہیں ، بعض دفعہ خاوند ناخوش ہو جاتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ دیتا ہے، بعض دفعہ بیوی بھی ناخوش ہو جاتی ہے ،اسے بھی ناز ہوتا ہے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خاوند وبیوی میں جھڑپ ہو جاتی ہے تو اس میں ہدایت یہ کی گئی ہے کہ عورت کی پیدائش آدم علیہ السلام کی سب سے نچلی والی پسلی سے ہوئی ہے، جو کہ تمام پسلیوں میں سے نسبتاً زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اس لیے اس کے مزاج میں تھوڑی سی کجی رہے گی ، ارشاد فرمایا کہ نہ تو اس کو بالکل ویسا ہی چھوڑ دو، ورنہ اور ٹیڑھی بن جائے گی اور نہ بالکل سیدھی کرنے کی فکر میں رہو، ورنہ ٹوٹ جائے گی، گویا کچھ نرمی، کچھ گرمی، کچھ مدارات، کچھ ڈانٹ ڈپٹ، اعتدال کا معاملہ رکھنا چاہیے، یہ ایک مسلم خاوند کا فرض ہے۔
    زوجین کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے جیسا کہ قرآنی ہدایات او ر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوا کہ زوجین ایک جان دو قلب کی تصویر وتعبیر ہوں ، تاہم ان میں اگر اتفاق سے کوئی ناچاقی پیدا ہو جائے ، مردو کو عورت کی طرف رجوع کرکے سکون حاصل نہ ہو رہا ہو اور عورت کو مرد کی خدمت کرکے سکون نہ مل رہا ہو تو جانبین کو ذرا صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے، مردوں کو خطاب کرکے سمجھایا گیا ہے کہ اگر عورت سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس ہو تو سب سے پہلے سمجھا بجھا کر اس کی ذہنی اصلاح کرو، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہو گیا ، عورت ہمیشہ کے لیے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے گویا دونوں رنج وغم سے بچ گئے ، اگر فہمائش سے کام نہ چلا تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس کی تنبیہ کرو اور اس سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے خود علیحدہ بستر پر سووٴ،یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے کہ وہ سمجھے گی کہ خاوند کی نگاہ پھر گئی ہے، ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی بیزار ہو جائیں ، صرف جدائی بسترمیں ہو ، یہ رعایت ضروری ہے کہ عورت کو مکان میں تنہا نہ چھوڑ دے، اگر اس سے عورت متنبہ ہو گئی تو جھگڑا یہیں ختم ہو گیا اور اگر وہ شریفانہ سزا پر بھی اپنی کجروی سے باز نہ آئے، تیسرے درجے میں معمولی مار مار نے کی اجازت دے دی گئی، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا زخم اور اثر نہ ہو۔
    ائمہ فرماتے ہیں کہ صرف اس قدر مارنے کی اجازت ہے کہ اس کے ڈوپٹے میں چند گرہیں لگا کر دو چار مرتبہ مار دیں، کیوں کہ وہ اس سے سمجھ لے گی کہ کل کو اگر اس کے ہاتھ ڈنڈا آگیا تو کیا ہو گا؟ تو اگر اس سے معاملات درست ہو گئے تب بھی مقصود پورا ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اس کے بعد اطاعت اختیار کر لے تو اب اس کا راستہ چھوڑ دو ، الزام تراشی میں مت لگو ، اسے تنگ مت کرو، مقصد پورا ہو گیا۔ یہ تھا وہ نظام کہ جس کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھرہی میں ختم ہو جائے، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑ لیتا ہے، خواہ اس کی وجہ عورت کی نافرمانی وسرکشی ہو یا اس بنا پر کہ مرد ہی قصور وار ہو، اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہوتی رہی ہو تو ان حالات میں جانبین سے ایک اشتعال پیدا ہوتا ہے او رپھر دو شخصیتوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہے، قرآن عظیم نے اس فساد عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لیے ایک ایسا پاکیزہ طریقہ بتلایا کہ جس سے فریقین کے اشتعال والزام تراشی کے راستے بھی بند ہو جائیں اور مصالحت کی راہ بھی نکل آئے ، عدالت میں مقدمہ کی صورت میں کوچہ وبازار میں یہ جھگڑا نہ چلے، وہ یہ کہ ” حکم“ بنالیں اور ایک حکم عورت کی طرف سے آئے او رایک حکم مردکی طرف سے آئے، دونوں طرف سے ایک ایک ثالث مقرر ہو، اب ان دونوں کے اختیارات کیا کیا ہیں تو قرآن نے اس کو متعین نہیں فرمایا ہے، البتہ ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ ”اگر یہ دونوں حکم اصلاح حال اور باہمی مصالحت کا ارادہ کریں گے تو الله تعالیٰ ان کے کام میں امداد فرمائیں گے اور دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دیں گے ۔ صلح وصفائی ہو جائے گی تو جو کدورت بیٹھ گئی تھی وہ نکل جائے گی۔“ یہ ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ معاملہ خاندان سے آگے بڑھ گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں زیادہ بُعد پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔
    لیکن بعض اوقات ایسی صورتیں پیش آتی ہیں کہ اصلاح حال کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں او رنکاح راحت بخش ہونے کی بجائے طرفین کے لیے آپس میں مل کر رہنا ایک سوہان روح بن جاتا ہے ،ایسی حالت میں ازدواجی تعلق کو ختم کر دینا ہی طرفین کے لیے راحت وسلامتی کی راہ ہو جاتی ہے، اس ازواجی تعلق کو ختم کر دینے کو ”طلاق“ کہتے ہیں، جن مذاہب میں طلاق کا اصول نہیں ،ان میں ایسے اوقات میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے او ربعض اوقات بہت برے نتائج سامنے آتے ہیں ،اس لیے اسلام نے قوانین نکاح کی طرح طلاق کے بھی اصول وقواعد مقرر کیے ہیں ،بلکہ اس کے لیے ایک حکیمانہ قانون بنایا ہے، بعض دوسرے مذاہب کی طرح یہ نہیں کیا کہ یہ رشتہٴ ازدواج ہر حال میں ناقابل فسخ ہی رہے، بلکہ طلاق فسخ نکاح کا قانون بنایا۔
    طلاق کا اختیار تو صرف مرد کو دیا، جس میں عادةً فکر وتدبر او رتحمل کا مادہ عورت سے زیادہ ہوتا ہے ، عورت کے ہاتھ میں یہ آزادا نہ اختیار نہیں دیا، کیوں کہ وہ وقتی تاثرات سے مغلوب ہو جاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تاثر اکثر طلاق کا سبب بنتا رہے۔ لیکن عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کے ظلم وستم سہنے پر مجبور ہو جائے ، اس کو یہ حق دیا کہ حاکم شرع کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرے او رشکایات کا ثبوت دے کر نکاح فسخ کراسکے یا پھر طلاق حاصل کر سکے۔
    اسلام نے طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی، بلکہ تابمقدور اس سے روکا ہے، لیکن بعض ضرورت کے مواقع پر اس کی اجازت دی ہے تو اس کے لیے کچھ اصول وقواعد بنا کر اجازت دی ہے، صرف بحالت مجبوری اجازت دی ہے اور ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی دی ہے کہ طلاق الله کے نزدیک نہایت مبغوض کام ہے، جہاں تک ممکن ہو سکے اس سے پرہیز کرے۔
    احادیث میں موجود ہے کہ ”حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ الله کے نزدیک طلاق ہے۔“ ارشاد ہے کہ ”نکاح کرو اور طلاق نہ دو، کیوں کہ طلاق سے رحمن کا عرش ہل جاتا ہے۔“
    ان ارشادات کا حاصل یہ ہے کہ اس رشتہٴ ازدواج کو ختم کرنا ہی ضروری ہو جائے تو وہ بھی خوب صورت اور خوش اسلوبی سے انجام پائے، محض غصہ نکالنے اور انتقامی جذبات کا کھیل بننے کی صورت نہ بن جائے ، چناں چہ اس سلسلہ میں احادیث کے ذخیرہ اور قرآنی آیات کا جائزہ لینے سے مندرجہ ذیل ہدایات سامنے آتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت نے طلاق کی اجازت اور اس کی ممانعت کے بارے میں اول ہی مرحلہ سے کس قدر حکیمانہ او رمعتدل راہ اختیار کی ہے۔

    شریعت نے نکاح سے قبل اپنی منگیتر کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، تاکہ نکاح دیکھ بھال کر ہو ، محض صورت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے جدائی نہ پڑ جائے۔
    شوہر کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیوی کی غلطی اور زیادتیوں پر ہی صرف نگاہ نہ رکھے، بلکہ چاہیے کہ اس کی اچھائیوں پر نظر رکھے، اس کی خوبیوں کی وجہ سے اس کے بے ڈھنگے پن پر صبر کرے، الله کاارشاد ہے:﴿فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئاً ویجعل الله فیہ خیراً کثیراً﴾․
    ”تو اگر تم ناپسند کرنے لگو تو کیا عجب ہے کہ کسی چیز کو تم ناپسند کرو اور الله اس میں بہت سی بھلائی ودیعت رکھ دے۔“
    حدیث میں آیا کہ کوئی مومن شوہر اپنی مومنہ بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی خصلت پسند نہ آئی تو اس کی دوسری باتوں سے راضی ہو جائے گا۔ ( مسلم شریف)
    شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ اپنی بیوی سے کوئی ایسی بات دیکھے کہ جسے وہ برداشت نہ کرسکتا ہو تو بھی پہلی مرتبہ میں طلاق دینے میں جلدی نہ کرے، بلکہ ممکن حد تک اس کی اصلاح کی کوشش کرے
    الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ واللاتی تخافوھن نشوزھن فعظوھن…﴾․
    اگر دونوں حکم کی بھی کوشش بار آور نہ ہو سکی اور آپسی اختلاف قائم رہے تو اس وقت شریعت نے شوہر کو طلاق دینا مباح قرار دیا، یہ کہتے ہوئے کہ ” ان ابغض المباح الی الله الطلاق“․ (اخرجہ ابوداؤد)
    پھر شریعت نے اس کی بھی تنبیہ کی کہ بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق نہ دے، اس حکم میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ طلاق کا سبب کوئی وقتی کراہت کا نتیجہ نہ ہو۔
    پھر شریعت اسلامیہ نے اسے ناپسند کیا کہ طلاق دینے والا اپنی بیوی کو ایک ہی مرتبہ میں تین طلاق دے دے ، بلکہ کہا کہ اپنی بیوی کو ایک ہی طلاق دے، پھر قطع تعلق کر لے، یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہو جائے۔ فقہاء کی اصطلاح میں یہ طلاق حسن ہے، ایسا اس لیے کہ عدت کے دوران شوہر کو رجوع کا حق حاصل رہے اور عدت گزر جانے کی صورت میں بھی حالات ہموار ہونے کی صورت میں نکاح کی تجدید ممکن رہ سکے۔
    او راگر زوج یہ چاہے وہ عورت اب کبھی بھی اس کی طرف نہ لوٹ سکے تو بھی شریعت اسے ایک ہی کلمہ میں تین طلاق دینے سے منع کرتی ہے ،بلکہ اس کے لیے ” طلاق سنت“ مشروع کی گئی، وہ یہ کہ ہر طہر میں بیوی کو ایک طلاق دے، یہاں تک کہ تین طہر میں تین طلاقیں پوری ہو جائیں، تاکہ عورت یکبارگی اس کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے، بلکہ دو طہر یعنی دو مہینہ تک اسے اختیار حاصل رہے، تاکہ معاملہ میں غوروفکر کر لے اور اپنے طلاق کے نتائج کو دیکھ لے، اگر عورت اپنے حقوق واجبات کو پہچاننے لگے تو تین طلاق پوری ہونے سے پہلے اس سے رجوع کر لے۔
    پھر شریعت نے طلاق کو شوہر کا حق رکھا، عام حالات میں عورت کے ہاتھ نہیں دیا، اس لیے کہ عورت فطری طور پر معاملات میں جلد بازی کرتی ہے تو اگر طلاق کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہوتا تو پھر فرقت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہو جایا کرتی۔
    لیکن شریعت نے عورت کی جانب سے فرقت کے مطالبہ کو بالکل بند نہیں کر دیا، بلکہ خاص حالات میں عورت کو بھی اس کی اجازت ہے ، خلع کی بھی اجازت ہے، نیز اگر شوہر حقوق کی ادائیگی سے قاصر ہے تو پھر قاضی سے فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
    ان ہدایات کو دیکھتے ہوئے آپ نے اندازہ کیا کہ شریعت نے کتنی نگہداشت کی ہے کہ اگر اس رشتے کو ختم کرنا ہی ہے تو وہ بھی خوب صورتی سے انجام پائے، محض غصہ نکالنے، لا ابالی پن، یا پھر انتقامی جذبات کا کھیل نہ بننے پائے۔
    الله تعالیٰ ہم لوگوں کو عقل سلیم سے نوازے اور صراطِ مستقیم پر گام زن فرمائے۔ آمین!
    مضمون نگار: مولانا محمد شاہد جانپوری                ماخذ: جامعہ فاروقیہ کراچی

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment