علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔قسط دوم

    علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔قسط دوم         مرتب: سید آصف جلال            
    قسط اول یہاں ملاحضہ کیجئے۔
    ڈاکٹر شفلر shefflerkکہتا ہے کہ روح مادہ ہی کی ایک قوت کا نام ہے جو اعصاب سے پیدا ہوتی ہے،
    ویرشو کا قول ہےکہ"روح ایک قسم کی میکانکل حرکت ہے"۔ بوشنرBchnerکہتا ہے کہ "انسان صرف مادہ کا ایک نتیجہ ہے"۔ دویمواریمون Sumobois Reymondکہتا ہے کہ "تمام اعصاب میں ایک کہربائی تموج پایا جاتا ہے، اس جس کو فکر کہتے ہیں، وہ مادہ اسی ہی ایک حرکت کا نام ہے ۔دو ترشیہ Duoutrochetجو فریکل سائنس کا ایک بہت بڑا عالم ہے کہتا ہے کہ "زندگی فطرت کا کوئی اصل قائدہ

    نہیں۔ بلکہ ایک اتفاقی استثنا ہے جو مادہ کے عام اصولوں کے مخالف ہے ۔ فرانس کے ایک مشہور میگزین نے ایک مضمون میں بیان کیا تھا کہ دماغ میں جو فاسفورس ہے فکر اسی کا ایک نتیجہ ہے اور جس چیز کو اخلاص ، شجاعت اور فضلیت کہتے ہیں وہ اعضائے جسمانی کی کہربائی موجیں ہیں"۔
    کیا یہ رائیں قطعیات میں شمار ہو سکتی ہیں؟ کیا ان کی بنا پر یہ دعوٰ کیا جا سکتا ہے کہ علوم جدیدہ نے روح بالکل کو ثابت کر دیا ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ مذہب اور سائنس کے حدودبالکل الگ الگ ہیں۔ سائنس کو جو موضوع ہے مذہب کو اس کے واسطہ نہیں۔ اور مذہب کو جن چیزوں سے بحث ہے، سائنس کو ان سے کچھ غرض ہیں۔ فلسفہ البتہ کہیں کہیں مذہب سے ٹکرا جاتا ہے۔ لیکن قطعیات اور یقنینیات میں اس کا شمار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کے مختلف سکول ہیں اور ان اسکولوں میں باہم نہایت سخت مخالف ہے ان میں سے بعض خدا کے منکر ہیں تو بہت سے خدا کے قائل بھی ہیں وجود روح کے مقر بھی ہیں اور منکر بھی۔ اخلاق کے اصول ایک فرقہ کے نزدیک کچھ ہیں اور دوسرے کے نزدیک کچھ اس حالت میں مذہب اس لحاط سے مطمئن رہتا ہے کہ 
    چوددیدی کہ دردشمن افتاد جنگ
    خلط مبحث اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سائنس اور مذہب دونوں میں کوئی اپنی حد سے بڑھ کر دوسرے کی حد میں قدم رکھتا ہے اور یہی خلط مبحث تھا جس نے ملاحدہ اور منکرین مذہب کے خیالات کو قوت دی۔بلکہ درحقیقت اس خلط مبحچ نے الحاد اور بے دینی کے خیالات پیدا کر دیئے ۔ یورپ میں پہلے مذہب کو اس قدروسیع کر دیا گیا تھا کہ کسی قسم کا کوئی علمی مسئلہ مذہب کے دست اندازی سے نہیں بچ سکتا تھا ، چنانچہ حاص اس مقصد کی غرض سے سپین Spainمیں مجلس انکویزیشن قائم ہوئی تھی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مذہب کے خلاف کچھ کہتے ہون ان کی تحقیقات کرے اور ان پر کفر اور ارتداد کا الزام لگائے ، چنانچہ اٹھارہ برس میں یعنی 1480ء سے لے کر 1498دس ہزار دو سو بائیس 10222 آدمی ارتداد کے الزام میں زندہ جلا دیئے گئے اس مجلس نے ابتدائے قیام سے اخیر زمانہ تک تین لاکھ چالیس ہزار آدمیوں کو کافر و ملحد قرار دیا جس میں سے ایک لاکھ آگ میں جلا دیئے گئے۔
    جس قسم کی باتوں پر کفر کا الزام لگا یا جاتا تھا اس کا اندازہ ذیل کے واقعات سے ہوگا، کوپر نیکس نے نظام بطلیموسی سے انکار کر کے یہ ثابت کیا کہ زمین اور چاند وغیرہ آفتاب کے گرد گھومتے ہیں۔ اس پر مجلس انکویزیشن نے فتویٰ نافذ کیا کہ یہ رائے کتاب مقدس کی مخالف ہے اور اس بنا پر کوپر نیکس مرتد اور کافر ہے۔
    گلیلوؔ  نے جو دوربین کا موجد گزرا ہے ، ایک کتاب کوپرنیکس کی حمات میں لکھی جس میں ثابت کیا کہ زمین آفتاب کے گرد گھومتی ہے ۔ اس پر مجلس انکویزیشن نے فتویٰ دیا کہ وہ  مستوجب سزا ہے چنانچہ اس کو گھٹنوں نے بل کھڑا کر کے اس مسئلہ پر انکار کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن وہ اپنے عقیدے پر قائم رہا تو قید خانہ بھیج دیا۔ اور دس سال تک محبوس رہا 
    کولمبس نے جب کسی نئے جزیرہ کے دریافت ہونے کی امید پر سفر کرنا چاہا تو کلیسا نے فتویٰ دیا کہ اس قسم کا ارادہ مذہب کے خلا ف ہے۔ زمین کے کروی ہونے کا خیال جب اول اول ظاہر کیا گیا تو پادریوں نے سخت مخالفت کی کہ یہ اعتقاد کتاب مقدس کے خلاف ہے۔
    غرض ہر قسم کی علمی ایجادات اور اکتشافات پر پادریوں نے کفر و ارتدار کے الزام لگائے تاہم چونکہ علمی ترقی کا اٹھان تھا ا ن کی کوششیں بے کار گئیں اور علوم و جنون تکفیروں کے سایہ میں پھولے اور پھلے۔
    پادریوں کے تعصبات اور وہم پرستی اگرچہ علم کو دبانہ سکے لیکن اس کا نتیجہ ہوا کہ علمی گروہ نے پادریوں ہی کے خیالات اور اوہام کو مذہب سمجھا اور اس بنا پر نہایت مضبوطی سے ان کی رائےقائم ہو گئی مذہب جس چیز کا نام ہے۔ وہ علم اور حقیقت کے خلاف ہے۔ یہی ابتدائی خیال ہے جس کی آواز باز گشت آج تک یورپ میں گونج رہی ہے۔
    بے شبہ اگر مذہب اسی چیز کا نام ہے تو سائنس کے مقابلہ میں کس طرح نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن اسلام  نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ انتم اعلم باموردنیاکم یعنی تم لوگ دنیا کی باتیں خود خوب جانتے ہو"۔ یہ ظاہر ہے کہ سائنس اور تمام علوم جدیدہ اسی دنیا سے متعلق ہیں اور آخرت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
    اس موقع پر یہ نکتہ لحاظ کے قابل ہے کہ اسلام میں سینکڑوں فرقے پیدا ہوئے اور ان میں اس قدر اختلاف رہا کہ اس نے دوسرے کی تکفیر کی، یہ تکفیر بڑے بڑے مسائل پر محدود نہ تھی بلکہ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خارج کر دیتا تھا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن علمی تحقیقات اور اکتشافات کی بنا پر کبھی کسی شخص کی تکفیر نہیں کی گئی۔ قدمائے مفسرین کا خیال تھا کہ پانی آسمان سے آتا ہے یعنی آسمان پر ایک دریا ہے ، بادل اسی سے پانی لیتے ہیں اور برساتے ہیں آفتاب ، پانی کے ایک چشمہ میں غروب ہوتا ہے ۔زمین مسطح ہے کروی نہیں، ستارے جو ٹوٹتے ہیں شیاطین کے شعلہ ہائے آتشیں ہیں، مفسرین  ان تمام باتوں کو قرآن کے نصوص سے ثآبت سمجھتے تھے۔ چنانچہ امام رازی نے مفسرین قدیم کے یہ تمام اقوال تفسیر کبیر میں نقل کیے ہیں۔
    لیکن جب عباسیوں کاعلمی دور آیا اور فلسفہ اور طبیعات نے ترقی کی تولوگوں نے ان خیالات کی مخالفت کی۔ باوجود اس کے خود مفسرین کے گروہ میں سے ایک شخص نے بھی ان لوگوں کو کافر و منکرِ قرآن نہیں کہا، معتزلہ کو محدثین اس بنا پر کافر کہتے تھے کہ وہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں، لیکن اس بنا پر کوئی ان کو کافر نہیں کہتا کہ وہ جادو کی حقیقت سے منکر ہیں، غرض جس حد تک تحقیق و تفشیش کی جائے۔ عموماً یہ ثابت ہو گا کہ مسلمانوں نے علمی تحقیقات اور ایجادات کو کھبی مذہب کا حریف و مقابل نہیں سمجھتا بلکہ محققین نے صاف تصریح کر دی کہ اسبابِ کائنات اور مسائل ہییت وغیرہ نبوت کی سرحد سے بالکل الگ ہیں اورانبیاء علیہ السلام کو تہذیب اخلاق کے سوا کسی چیز سے غرض نہیں۔
    شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ البالغہ میں لکھتے ہیں:۔
    "انبیاء کا ایک اصول یہ ہے کہ جو امور تہذیب نفس اور قوم کی سیاست سے تعلق نہیں رکھتے ام مین مشغول نہیں ہوتے، مثلاً بارش، گرہن اور ہالہ کے اسباب بیان کرنا یا نباتات اور حیوانات کے عجائبات یا چاند سورج کی رفتار یاروزانہ حوادث کے اسباب یا انبیاء و سلاطین کے قصے یا شہرون کے حالات بیان کرنا، ان چیزوں سے وہ بحث نہیں کرتے ۔ اگر ہاں چند معمولی باتیں جن سے لوگوں کے کان آشنا ہو چکے ہیں ان کی عقلوں نے ان باتوں کو قبول کر لیا ہے، ان باتوں کو بھی انبیاء علیہم اجمعین خدا کی شان اور قدرت کے ذکر میں ضمنی طور پر اجمالاً بیان کرتے ہیں، اور اسمیں مجاز اور استعارہ سے کام لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب لوگون نے آپ ﷺ سے چاند کے بڑھنے اور گٹھنے کی علت دریافت کی تو خدا نے ان کے جواب س اعراض کیا، اور اس کے بجائے مہینوں کی تعین کا فائدہ بیان کیا کر دیا"۔
    شاہ صاحب نے انبیاء کی تعلیم کا جو اصول بتایا ہے اس کے بعد کون کر سکتا ہے کہ مذہب اسلام کر سائنس اور علوم جدیدہ سے کسی قسم کے خطرہ پہنچنے کا احتمال ہے۔ 
    ختم شدہ
    *۔*۔*۔*۔*۔*۔*
    ماخذ:۔ علم الکلام و الکلام، علامہ شبلی نعمانی۔


    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment