سرمایہ داری اور عیسائیت

    پروٹسٹنٹ اسساسیین ،سیاسیات،اقتصادیات اور آجکل...تحریر: چوہدری طالب حسین          

    یہاں ہم کچھ کیتھولک اصولوں کے بارہ میں اختصار کے ساتھ  روشنی ڈالتے ہیں تاکہ آخر میں نتیجہ اخذ کرتے وقت ان سے استفادہ ہو سکے.......کیتھولک حکماءکے نزدیک  سماجی معاملات ،سیاسی اور اقتصادی تعلقات میں سے ہر شے کے حق و باطل کا فیصلہ اخلاقی اصولوں پر ہونا چاہیے اور یہ اخلاقی اصول خدا اور انسان کے ان نظریات پر مبنی ہیں جن کو فطری الہیات نے وحی کی مدد سے پیش کیا ہے. ان
    نظریات کی رو سے ہر فرد صاحب تکریم ہے اور یہ عظمت و تکریم فقط اس لیے نہیں کہ وہ خدا کی مخلوق میں سے ہے بلکہ خدا کا خلیفہ بھی ہے. ان کے مطابق خاندان اور جنسی اخلاق کی بنیاد بائبل کے مذہبی احکام اور اخلاق اصول پر ہے.برٹ کے مطابق ان کے  ہاں چند اہم اصول اس طرح ہیں .
    ١. کسی فطری عمل کے مناسب استعمال کا تعین کائنات کی عمومی مقصدیت کے تحت ہونا چاہیے . اگر اس مقصدیت کے خلاف کوئی عمل سرزد ہوتا ہے تو وہ گناہ ہے.
    ٢. نفسانی خواہشات کو عقل اور روحانی تقاضوں کے ماتحت رہنا چاہیے.
    ٣. انسانی زندگی کی صحیح  خوشی کا دارمدار  خود غرضی اور نفسانفسی پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دوسروں سے محبت رکھے اور ان کی خدمت کرے .

    تبصرہ:۔ بائبل کے چند بیانات کو جب پہلے اور دوسرے اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو کلیسا کی ضبط تولید کے لیے مصنوعی آلات اور ذرائع استعمال کرنے کا معاملہ ہے، کلیسا نے اس کو غیر اخلاقی کہا ہے کیونکہ جنسی عمل کا صحیح مقصد اولاد کی پیدائش ہے اور آلات کا استعمال اس مقصد کے خلاف جاتا ہے. لیکن جہاں تک بچوں کی تعداد پر پابندی عائد کرنے کا معاملہ ہے، کلیسا نے کبھی بھی اس کو مردود قرار نہیں دیا.  اسی طرح تیسرے اصول کی روشنی میں بائبل کے چند دوسرے بیانات کی تعبیر کرتے ہوئے کلیسا نے ہمیشہ طلاق کے جواز کے خلاف فتویٰ صادر کیا ہے.(فلسفۂ مذہب-از ایڈون اے برٹ -ص،١٣٤- اردوترجمہ از بشیر احمد ڈار-مجلس ترقی ادب لا ہور)


             سرمایہ داری،اشتراکیت  اور مزدوروں کے حقوق کے متعلق بھی کیتھولک نقطۂ نگاہ  کے مطابق فیصلہ کن چیز اخلاقی اور سماجی اصول ہیں. کیتھولک ماہرین اقتصادیات نے افرادی ملکیت کے اصول کو تسلیم کیا ہے اور اس لیے ان کے نزدیک سرمایہ داری ایک جائز اقتصادی نظام ہے،چنانچہ اس سے پیدا شدہ طبقاتی تعلقات بھی اس کے نزدیک قابل اعتراض نہیں. اسکا خیال ہے کہ اکثر حالّات میں معاشرے کی بہبودی کا تقاضا یہی ہے کہ صنعتی کاروبار انفرادی ملکیت میں رہے، لیکن کلیسا کے نزدیک معاشیات یا اس کے قوانین کوئی بینیادی اہمیت نہیں رکھتے . چونکہ معاشی نظام انسانی تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے اس کے اچھا یا برا ہونے کا آخری فیصلہ اخلاقی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے . مزدور انسان ہونے کی حیثیت سے عظمت اور تکریم کے مساوی حصہ دار ہیں اس لیے وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی ضروریات کے مطابق ان کی اجرت مقرر کی جائے اور بے روزگاری،بیماری اور بڑھاپے کے متعلق مناسب انتظامات کیے جائیں. یہ چیزیں خیرات نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا ہیں. مزدور کا استحصال ہر حالت میں ناجائز ہے. صنعتی نظام ایسا ہونا چاہیے جس میں اس استحصال کا امکان کم از کم ہو.

    بعض خصوصی اقتصادی مسائل میں کیتھولک محققین  میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے . مندرجہ ذیل باتوں میں ان میں اتفاق رائے ہے.
    ١.جائداد اور خاص کر زمین کی ملکیت میں وسیع تر تقسیم عمل میں لانی چاہیے تاکہ خاندان ایک اقتصادی وحدت بن سکے .
    ٢. صنعتی کاموں کو اس طرح چلانا چاہیے کہ وہ لوگ جن کی زندگی اس سے وابستہ ہو، اس کے انتظام میں مناسب دخل دے سکیں تاکہ ایسے قوانین نافذ نہ ہو سکیں جو ان کے مفادات کے خلاف ہوں. ان لوگوں میں مالک،ملازم،صارفین  اور بنکر سب شامل ہیں.
    ٣.یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے قوانین نافذ کرے کہ اقتصادی نظام عوام کے فائدے کے لیے ہو. قومی ملکیت کے اصول کو اپنانے سے پرہیز کیا جائے . البتہ اگر امداد باہمی کے اصولوں پر صارفین اور آجرین ایک اجتماعی نظام قائم کر لیں تو ایسی اجتماعیت  Socialization کوئی بری چیز نہیں کیونکہ اس سے افراد اور خاندان کے حقوق کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور ان کے لیے ترقی کے مواقع موجود رہتے ہیں. کیتھولک محققین نے امداد باہمی کے نظام کے متعلق  کافی فائدہ مند تحقیقات کی ہیں.(حوالہ بالا-ص-١٣٥)
    پروٹیسٹنٹ اساسیت :-
    جسے آجکل پروٹسنٹ حلقوں میں(کم از کم امریکہ میں )  "اساسیت" کہا جاتا ہے وہ سولہویں صدی عیسوی میں تحریک اصلاح کلیسا سے پیدا شدہ پروٹسٹنٹ تحریک آزادی کا تہذیبی نام  ہے . مرور زمانہ اس میں کئی دوسرے اجزا شامل ہو گئے ہیں . اس تحریک میں حاصل کی گئی آزادی کا ایک پہلو یہ ہے کہ عیسائی دنیا کی وہ  وحدت جو زمانۂ وسطیٰ کی ایک نمایاں خصوصیت تھی،ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی اور اس کی جگہ مختلف آزاد گروہ وجود میں آگئے جن میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مفاد تھا. سیاسیات میں اس کا نتیجہ مختلف قومی ریاستوں کی تشکیل تھا جن میں مختلف متحارب سیاسی گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے .مذہب میں اس کا نتیجہ مختلف مذہبی قوتوں کی شکل میں نمودار ہوا جن میں ایک دوسرے کا دشمن تھا اور سب مشترک طور پر کیتھولک عقیدے  کے سخت مخالف تھے. ان میں سے مشہور چند فرقے اس طرح ہیں.
    Baptist-Methodist-Lutheran-Episcopalian-Presbyterian and Congregationalist
    پروٹسٹنٹ تحریک کو اس کی ابتدائی حالت میں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے  اقتصادی اور سیاسی انقلاب کو سمجھا جائے . اقتصادی انقلاب نے سرمایہ داری کی شکل اختیار کر لی . زمانۂ وسطی اور جدید دور کے آغاز میں صنعت و حرفت کا نظام چند قواعد کا پابند تھا جن میں سے بعض تو حرفتی انجمنوں سے عائد کیے ہوئے تھے ،بعض کلیسا نے اور بعض سیاسی اداروں نے. یورپی شہروں کے بڑھتے ہوئے درمیانے طبقے کے زیادہ منچلے لوگوں نے اپنے کاروبار اور صنعت و حرفت کو ترقی دینے کے لیے مختلف ملکوں کی سیاحت کی،نئی نئی ایجادوں کو ترقی دینے کے لیے لوگوں کی سرپرستی کی اور اپنے تجارتی اداروں کا انتظام بہتر کرنے کے لیے ان میں مرکزیت پیدا کی. لیکن ان کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور تمناؤں کی تکمیل میں یہ قوائد و ضوابط بڑی رکاوٹ تھے ،اس لیے انہوں نے ان کے خلاف پر جوش احتجاج شروع کیا. آہستہ آہستہ یہ احتجاج  یورپ اور نو آبادیات میں بہت وسیع پیمانے پر پھیلنا شروع ہوا ، حتی کہ اٹھارویں صدی کے آخری حصے میں ان سے بہت سی پابندیاں اور رکاوٹیں ختم ہو گئیں. انہوں نے اپنے پرانے انتظامات میں کافی توسیع اور نئی مہمات میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا. اب انکے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ موجود نہ تھی اور منافع اندوزی انکا مطمع نظر تھا. لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے یہ چیز بھی تھی کہ جو آزادی انہیں میسر ہے،ویسی ہی آزادی دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے. اس طرح اقتصادی میدان میں آزادی کے ساتھ رواداری کا تصور بھی پیدا ہوا . یہی آزاد ماسبقت کا اصل ہے. (حوالہ بالا -ص-١٤٠) جہاں مسابقت میں پوری آزادی تھی تو اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر کوئی صنعت کار اپنے کام میں کامیاب و کامران تھا تو وہ خود اپنی کاروباری صلاحیت کے باعث،اور اگر ناکام ہوتا تھا تو اس لیے کہ اس میدان مسابقت میں وہ موزوں قابلیت نہیں رکھتا تھا.
                 سیاسی میدان میں اس تبدیلی اور انقلاب کے باعث جدید جمہوریت وجود میں آئی. درمیانی طبقے کے لوگوں نے جہاں اقتصادی آزادی کا مطالبہ اس لیے کیا کہ وہ ہر قسم کی بندشوں سے آزاد ہو کر نفع کما سکیں ،وہاں انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس آزادی کو مکمل طور پر حاصل کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی آزادی کی اشد ضرورت ہے . سیاسی قوت ہی وہ قوت ہے جواس دنیا میں قوت قاہرہ کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کی مدد سے ہم لوگوں سے اپنی من مانی کروا سکتے ہیں . مستقل تہذیبی انقلاب پیدا کرنے اوراسے قائم رکھنے کے لیے حکومت پر قبضہ ناگزیر ہے. چنانچہ اس درمیانی طبقے نے پہلےتو بادشاہوں کو شاہنشاہوں،پاپا اور جاگیردار امراء کے خلاف مدد دی اور اس کے بعد ان بادشاہوں سے نمائندہ مجلس کو منظور کروایا... یہی وہ بنیاد تھی جس پر بعد میں نمائندہ جمہوریت کا نقشہ تعمیر ہوا. اس طرح درمیانی طبقے کے افراد قدیم سیاسی پابندیوں سے آزاد ہو گئے. آزادی گفتار، آزادی اجتماع اور آزادی رائے کے ساتھ ساتھ آزادی پریس کے اصول تسلیم کر لیے گئے .
           آجکل یورپ میں مذہب شکست پہ شکشت کھا رہا ہے،پہلے پہل پروٹسٹنٹ حلقوں  کے ہاں آزادی کا یہ تصور نہ تھا جو اب سمجھا جاتا ہے ،لیکن پروٹسٹنٹ تحریک کی اس  یعنی سابقہ صورت میں جو اس وقت اساسیت کی شکل میں موجود ہے، یہ تمام خصوصیات موجود ہیں. برٹ لکھتا ہے .
          پروٹسٹنٹ تحریک سے جو کچھ اثباتی اور سلبی نتائج سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں نظر آئے،وہی اثرات مذہبی دائرۂ عمل میں بھی ظاہر ہوئے.سلبی طور پر مذہبی  آزادی کا مطالبہ کیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں نے کلیسا کے اس کلی اختیار و اقتدار کے خلاف اعلان کر دیا جسکا کیتھولک کلیسا ہر شخص سے مطالبہ کرتا تھا. ایجابی طور پر اس تحریک نے مذہبی رواداری کے اصول کا پرچار کرنا شروع کیا. ان کا خیال تھا کہ ہر شخص کو مذہبی طور پر آزادی حاصل ہونا چاہیے.ممکن ہے کہ لوگ اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ،پھر بھی تقلید اور پابندی کی زندگی کے مقابلے پر آزادی کی زندگی روحانی نقطۂ نگاہ سے بہتر ہے .پروٹسنٹ تحریک کا یہ دعویٰ کہ سیاسی اور اقتصادی زندگی کا انقلاب اس کے باعث ظہور پزیر ہوا ،معروضی طور پر صحیح اور درست ہے. مغرب کی تاریخ میں جو عظیم تہذیبی انقلابات رونما ہوتے رہے ،وہ اکثر مذہبی اصلاح و تجدید کے زیر اثر ہوتے رہے . پروٹسٹنٹ تحریک کو محض اس انقلاب کا مذہبی پہلو نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ اس تہذیبی انقلاب کا باعث بنی. ..اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے اسباب بھی کار فرما ضرور تھے لیکن اس کی اساسی بنیاد آزادی کا وہ مذہبی تصور تھا جو پروٹسٹنٹ مفکرین کی تعبیر سے پیدا ہوا،جو بعد میں مرور زمانہ سے وسیع تر اور گہرے مفہوم کا حاصل ہوتا گیا.
    برٹ ایک جگہ لکھتا ہے کہ:
    ؔ"یہ گروہ  جمہوریت کا پر خلوص حامی تھا اور وہ آزادی ضمیر،تقرر اور اجتماع کے حقوق کا علمبردار تھا . جنگ اور امن کے متعلق انکا مؤقف مبھم ہے. ان کے نزدیک امن ایک پسندیدہ شے ہے . انکا خیال ہے کہ جب مسیح اس دنیا میں دوبارہ آے گا تو اس وقت یہاں پورے طور پر امن ہو گا،لیکن اس وقت تک جنگ اور اس کے خطرات اور خدشات ناگزیر ہیں جیسا کہ بائبل میں مذکور ہے(مثلاّ متی ٢٤-٥-٨) اس کے علاوہ چونکہ ان کے نزدیک جنگ خدا کی طرف سے قوموں پر عذاب کے طور پر مسلط ہوتی ہے، اس لیے انسانی کوششوں سے اس کو ختم کرنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ موجب گناہ بھی ہے. اسی وجہ سے اساسیین نے شاذ و نادر ہی ان بین الاقوامی اداروں کی حمایت کی ہے جن کا مقصد امن کا قیام ہے. اس کے بر عکس عملی طور پرانہوں نے ہمیشہ جارحانہ قومیت پرستی اور حب الوطنی کے شدید جذبات کی حمایت کی. پروٹسٹنٹ گروہ کی فرقہ بندیاں اس رجحان کو تقویت دیتی رہیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عموماّ ایک فرقہ ایک خاص جغرافیائی ملک تک محدود تھا. اس کے باعث پروٹسٹنٹ گروہ نے ہمیشہ اپنا دینی مفاد ایک خاص قومی ریاست کے وجود سے وابستہ سمجھا. یہ رجحان اس لیے بھی اور زیادہ   شدید ہوتا گیا کہ قدامت  پروٹسٹنٹ گروہ سرمایہ داری اور سرمایہ داری سے پیدا شدہ اقتصادی سامراجیت کے ساتھ وابستہ ہو گیا تھا"۔

     اس ضمن میں ایک رخ یہ بھی ہے کہ ،پیوریٹن-Puritan- فرقہ کیلون ازم- Calvinism- کی ایک فطری شکل بتائی جاتی ہے. کیلوں نے یہ تعلیم دی تھی کہ عیسائیت کی نگاہ میں بلند ترین خوبی پاک بازی ہے. اس کے خیال میں پاک بازی سے مراد نہ صرف پرہیزگاری اور ضبط نفس کا اعلیٰ ترین معیار تھا بلکہ دنیاوی عیش و عشرت سے بالکل بے تعلق رہنا بھی تھا ،کیونکہ یہی وہ علت ہے جس کے باعث فضول خرچی،بے عقلی،ہٹ دھرمی اور نفسانی خواہشات جیسے گناہ پیدا ہوتے ہیں. پروٹسٹنٹ ملکوں میں سماجی رسوم اور پیوری فن نظریۂ اخلاق سے بہت متاثر ہوئیں . ناچ ،تھیٹر ،جوا ،شراب نوشی ،تاش کھیلنا اور اس قسم کی بد مستیوں کو شیطانی اعمال و افعال قرار دیا جانے لگا،یوم سبت کی سختی اور  پابندی کے ساتھ تقدیس کی جانے لگی . (فلسفۂ مذہب -ص-١٥٩)
                 پیوریٹن مفکرین کے نزدیک پرہیزگاری کا مفہوم صرف معروف اور منکرات کی پابندی تک محدود نہ تھا بلکہ وہ اپنی  تمام صفات کے ساتھ  اس میں شامل تھا جو سرمایہ دارانہ کاروباری نظام کے تحت پسندیدہ متصور ہوتی تھیں، ایسی صفات جو ایک آزادانہ مسابقت کے اقتصادی نظام میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں.مثلاّ کفایت شعاری،محنت، صحو،ہوشمندی ،وعدوں اور اقررناموں کی پاسداری وغیرہ .لوهر نے دنیا داری کے فرائض اور مشاغل کی انجام دیہی میں پرے انہماک اور محنت کی اہمیت پر اس لیے زور دیا تھا کہ اس طرح انسان دولت کما کر ہی بنی نوع انسان کی خدمت صحیح طور پر کر سکتا ہے (لوتھر کے اہم مقالات). کیلون کے پیرو اس معاملے میں اور بھی شدید تھے . ان کے نزدیک کاروباری سمجھ بوجھ اور کامیابی نیکی میں شمار ہوتے تھے . رچرڈ بیکسٹر نے اس کو مبالغہ آمیز انداز میں یوں بیان کیا تھا" تمہیں محنت اس طرح کرنی چاہے جس سے کامیابی اور جائز منافع حاصل ہو ...اگر تمہارے سامنے ایسا راستہ ہو جس پر چلنے سے تم زیادہ منافع کما سکو(جس میں نہ تم اپنی جان پر نہ دوسروں پر ظلم کرو) تو یہ راستہ دوسرے راستے پر چلنے سے بہتر ہے . اگر تم اس کو چھوڑ کر کم نفع آور راستے پر چلو گے تو تم اپنے فرائض کے مقاصد کے خلاف ورزی کر رہے ہو اور خدا کے قائم کردہ منصب سے روگردانی کے مرتکب ہو گئے (عیسائی ڈائریکٹری-فلسفۂ مذہب -ص-١٦٠)
     اس دور کے  اور انقلابی اقدامات . آئیں ہم دیکھتے ہیں اس دور  کے دوسرے چند انقلابی اقدامات کیا تھے؟
    مصنف "مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ"لکھتا ہے:
    "جب اٹھارویں صدی میں صنعت و حرفت و تجارت کا بازار گرم ہوا اور ہر طرف امن و سکوں قائم ہوا تو اشاعت علم و فنون کے ساتھ"عقلیت" -RATIONALISM- کو بھی ترقی ہوئی ،گوئٹے-GOETE- شیلر -SHILLER- اور کانٹ KANT وغیرہ سینکڑوں شعرا اور فلسفی پیدا ہوئے اور ان سے متاثر ہو کر مذہبی روایت کی عمارت متزلال ہو کر زمین پر آگئی"۔
                    اسی زمانہ میں انگلستان کی طرح فرانس میں بھی آزادی کا دور دورہ شروع ہوا پروٹسٹنٹ جماعت کے قتل عام کے بعد فرقہ یسوعی -JESUITS- ملک سے نکال دیا گیا تھا. لوگ مذہبی فرقوں کے جھگڑوں سے تنگ آ گئے تھے اور ان کا دل مذہب کی طرف سے بیزار تھا. فلسفیوں نے جدید معلومات کی بناء پر بائبل اور مسیحیت پر حملے کرنا شروع کر دئیے ، کلیسا کے کرتا دھرتا سخت برہم ہوئے. اصحاب کلیسا کی برہمی کی وجہ سے والٹیر-VOLTAIRE-زیر عتاب آ گیا اور اسے بھاگ کر ایک نواب کے قلعہ میں پناہ لینا پڑی.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طبقۂ علماء کی رہی سہی وقعت بھی لوگوں کے دلوں سے اٹھ گئی .
     والٹیرکا ہم عصر روشو-ROUSSEAU- بھی موحد تھا .اس نے کہا کہ جس یسوع ناصری کو مسیحی دنیا خدا مان رہی ہے ،وہ خدا کا ایک سیدھا سادھا پرہیز گار بندہ تھا.الغرض یہ عقیدہ تمام فرانس میں پھیل گیا اور وہاں سے ہسپانیہ و جرمنی وغیرہ پہنچا اور اس طرح اکثر بلاد یورپ کا مذہب"والٹریٹ" ہو گیا. ان دونوں کے علاوہ  اس وقت کے تینوں اہل قلم (تیسرا طامس پین- THOMASPAINE) ،خدا پرایمان رکھتے تھے مگر وحی پر یا تو ایمان رکھتے ہی نہیں تھے یا پھر مندجہ بالا وجوہات کی بناء پر منحرف ہو چکے تھے . اسی زمانہ میں یورپ کا اہم ترین واقعہ انقلاب فرانس کا تھا. جس نے اگرچہ قدیم نظام حکومت کو تہ و بالا کردیا ،لیکن سیاسی اور مذہبی آزادی کو اور تقویت پہنچائی .
    اس کے بعد یورپ میں مشککیں- SKEPTICS-کی ایک جدید جماعت پیدا ہوئی  جنہوں نے ایمان یا اللہ (کریم) کے تصور کو بھی بالائے طاق رکھ دیا یہ لوگ ملحد- ATHEIST- یا مادئین -MATERIALIST-کہلائے ان لوگوں میں دیدرو، ہولباش قندورسے اور ہلوی ٹیس شامل ہیں یہ فیلسوفوں کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کی قیادت میں مذہب کے خلاف بغاوت برابر بڑھتی رہی . بعد میں سائنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اصل عبرانی بائبل کا بہت زیادہ غور سے مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور یہ کہا کہ عبرانی عہد نامہ عتیق سےیہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ  قدیم مصحف انبیاء بنی اسرائیل مختلف زمانوں کی تصانیف ہیں جن کو بہت کچھ تحریف و ترمیم کے بعد ایک جگہ مدون کر دیا گیا ہے.(حوالہ بالا  سے ماخوز -ص-٦٩-٧١ناشر  -دوست ایسوسی ایٹس -لاہور )
    برٹ لکھتا ہے:

    "ان تاریخی حقائق کا یہ نتیجہ ہوا کی آج پروٹسٹنٹ اساسیت سرمایہ داری کے اقتصادی نظام کی حمایت پر مجبور ہے (اس معاملے میں مسیح کی امثال اس کی تائید کرتی ہیں ،مثلاّ دیکھیں متی-٢٠-١-٦). اس کی اخلاقیات جہاں تک اس دنیا کے معاملات کا تعلق ہے،اس اقتصادی نظام کے تقاضوں سے مطابق اور ہم آہنگ ہے. وہ مزدوروں کی تحریک سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتی اور اشتراکیت کی ہر شکل کی مخالفت ہے. وہ صحیح طور پر محسوس کرتی ہے کہ اشتراکی اقتصادی نظام ایسی اخلاقی اقتدار کو اہمیت دیتا ہے جو پروٹسٹنٹ اخلاقی اقدار سے بالکل مختلف ہیں ،مثلاّ تعاون،حفاظت ،دنیاوی آسائشوں کو تسلیم کرنا اور باہمی ارتباط کا تصور وغیرہ "۔
    خاندانی مسائل میں اساسیت اور کیتھولک نقطۂ نگاہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں. اساسیین طلاق کے حامی ہیں جہاں ایک ساتھی بدکاری کا مرتکب ہوا ہو .اسی طرح ضبط تولید کی بھی زیادہ مخالفت نہیں کی جاتی. (فلسفۂ مذہب -ص-١٦٠)

    **** نتیجہ بحث****
     اگرچہ اس دور سے لیکراب تک کے سفر میں  یورپ نے اپنے لیے بہت ترقی کی ،اور اس کے کچھ  اچھے ثمرات عام لوگوں تک بھی پہنچے مگر مفاسد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو  ایک عام آدمی کے حق میں خصوصی طور پر اورمخالفین کے لیے عمومی طور پر،  فائدہ سے زیادہ ہیں . بائبل میں ربا / سود (یوثری-Usury) ممنوع ہے،مگر سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ریڑھ کی ہڈی ہے .  کاغذی کرنسی پر اجارہ داری ،معنوعی سرمایہ ،تخلیق زر کے مفاسد کو پس پشت ڈال  کر کے ایسے ایسے راستے استعمال میں لائے جا رہے ہیں  جن کی بائبل  انجیل اور اخلاقیات  میں گنجائش ہی نہیں ہے . ان ذرائع  سے طاقتور لوگ مسفید ہو رہے ہیں مگر محروم المعیشت لوگوں کا استحصال ہو رہا ہے . سیاسی میدان میں کمزور ریاستوں میں ظلم و جبر عام ہے اور طاقتور قومیں  نہ صرف قتل عام  میں مصروف ہیں بلکہ انکے وسائل بھی لوٹ رہی ہیں .عالم اسلام کا بہت ضروری حصہ بھی انہی اعمال سے کسی نہ کسی طرح متاثر اور مفلوج  ہے اور مقاصد شریعت پورے کرنے سے قاصر ہے.


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ