علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔۔ قسط اول

    علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔قسط اول         مرتب: سید آصف جلال           
    تمام دنیا میں ایک غل مچ گیا ہے کہ "علوم جدیدہ اور فلسفہ جدیدہ نے مذہب کی بنیادمتزلزل کر دی ہے۔ فلسفہ اور مذہب کے معرکہ میں ہمیشہ اس قسم کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں، اور اس لحاظ سے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ لیکن آج یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلسفہ قدیمہ قیاسات پر مبنی تھا اس لئے مذہب کا استیصال نہ کر سکا۔ بخلاف اس کے فلسفہ جدیدہ تمام تر تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے اس لئے مذہب کسی طرح اس کا مقابلہ میں جان بر نہیں ہو سکتا۔
    علوم جدیدہ اور مذہب
    یہ ایک عام صدا ہے جو پورپ سے اٹھ کر تمام دنیا میں گونج اٹھی ہے لیکن ہم کو غور دیکھنا چاہیئے کہ اس واقعیت میں مغالطہ کا کس قدر حصہ شامل ہو گیا ہے۔ 
    یونان میں فلسفہ ایک مجموعہ کا نام تھا جس میں طبیعات، عنصریات، فلکیات، الہٰیات، مابعد الطبیعات سب کچھ شامل تھا۔ لیکن یورپ نے نہایت صحیح اصول پر اس کے دو حصے کر دیئے۔ جو مسائل مشایدہ اور تجزبہ کی بنا پر قطعی اور یقینی ثابت ہو گئے ان کو سائنس کا لقب دیا جو مسائل تجربہ اور مشاہدہ کی دسترس سے باہر تھے ان کا نام فلسفہ رکھا۔
    مسائل جدیدہ کی نسبت یہ عام خیال جو پھیلا ہوا ہے کہ وہ قطعی اور یقینی ہیں اس میں پہلی غلطی یہ ہے کہ جو چیزیں قطعی اور یقینی ہیں وہ صرف سائنس کے مسائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ان کی نسبت طبقہ علماء  میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ۔ لیکن فلسفہ کی یہ حالت نہیں ہے۔ پورپ میں آج فلسفہ کے بیسوں اسکول ہیں، اور ان میں شدت سے اختلاف ہے کہ اگر ان سب کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ ایک ہی چیز سفید بھی ہو سکتی ہے اور سیاہ بھی۔
    اب دیکھنا چاہیئے کہ سائنس کو مذہب کیا تعلق ہے؟ سائنس جن چیزوں کا اثبات یا ابطال کرتا ہے مذہب کو ان سے مطلق سروکار نہیں ، عناصر کس قدر ہیں؟ پانی کن چیزوں سے مرکب ہے؟ ہوا کا کیا وزن ہے؟نور کی یا رفتار ہے؟ زمین کے کس قدر طبقات ہیں؟ یہ اور اس قسم کے مسائل ، سائنس کے مسائل ہیں، مذہب کو ان سے کچھ سروکار نہیں ، مذہب جن چیزوں سے بحث کرتا ہے وہ یہ ہیں، خدا موجود ہے یا نہیں؟مرنے کے بعد اور کسی قسم کی زندگی ہے یا نہیں؟خیر و شر نیکی و بدی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ ثواب یا عذاب ہے یا نہیں؟۔۔۔۔ ان میں سے کونسی چیز ہے جس کو سائنس ہاتھ لگا سکتا ہے؟ سائنس کے اساتدہ نے جب کہا ہے تو یہ کہا ہے کہ ہم کو ان چیزوں کا علم نہیں یا یہ یہ چیزیں مشاہدہ اور تجربہ کے احاطہ سے باہر ہیں یا یہ کہ ہم ان باتوں کا یقین نہیں کرتے کیونکہ ہم صرف ان باتوں کا یقین کرتے ہیں جو تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو سکتی ہیں کوتاۃ عدم علم سے علم عدم جاتے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم کو یہ چیزیں معلوم نہیں کوتاہ میں کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ہم کو ان چیزوں کا نہ ہوتا معلوم ہے۔ حالانکہ دونوں باتوں میں زمین آسمان فرق ہے۔
    یورپ میں تقسیم عمل کے اصول پر عمل ہے۔ یعنی تمام اہل فن نے اپنے اپنے کام تقسیم کر لئے ہیں اور پر فرقہ اپنے کام میں اس طرح مشغول ہے۔ اس کو دوسری چیزوں سے مطلق عرض نہیں۔ اس میں سے  ایک فرقہ مادیئین (Materialist)ہے جس کا موضوع بحث مادہ ہے اس گروہ نے مادہ کے متعلق عجیب عجیب اسرار معلوم کئے ہیں ۔ یہی فرقہ ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب کا، خدا کا، روح کا منکر ہے۔ لیکن درحقیقت وہ ان باتون کا منکر نہیں بلکہ یہ کہتا ہے کہ ان چیزوں کا ثبوت ہمارے دائرہ تحقیقات سے باہر ہے۔ پروفیسر لیتریہ( Lhttre) جو اس گروہ کا بہت بڑا عالم ہے لکھتا ہے کہ "چونکہ ہم کائینات کے آٖغاز و انجام سے ناواقف ہیں اس لئے ہمارا یہ منصب نہیں کہ کسی ازلی یا ابدی وجود کا انکار کریں جس طرح ہمارا یہ کام بھی نہیں کہ ہم اس کو ثابت کریں۔ مادی مذہب اپنے آپ کو عقل اول کے وجود کی بحچ سے بالکل الگ رکھتا ہے کیونکہ اس کا اس کے متعلق کسی قسم کا علم نہیں ہم حکمت الٰہی کے نہ منکر ہیں نہ مثبت۔ ہمارا کام نفی و اثبات سے بالکل الگ رہنا ہے۔
    فرانس کے ایک طبی رسالہ میں ایک دفعہ ایک  مضمون چھپا تھا کہ "ادراک اور فکر اس فاسفورس سے پیدا ہوتا ہے جو دماغ میں ہے اور فضائل انسانی مثلاً شجاعت، شرافتِ نفس، یہ سب اعضائے انسانی کی کہربائی تموجات ہیں"، اس پر فرانس کے ایک مشہور فاضل کامل فلامربان نے جو طبیعات کا بڑا ماہر ہے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے مضمون نگار سے اس طرح خطاب کیا :-
    " یہ کس نے تم سے کہا؟ لوگوں کو گمان ہو گا کہ تمھارے استادوں نے تم کو یہ سکھایا ہو گا۔ لیکن یہ گمان صحیح نہیں ، میں نہیں جانتا کہ یہ بیہودہ دعویٰ زیادہ تر قابل تعجب ہے آیا مدعیان علم کی جرات؟ نیوٹن جب کوئی مسئلہ بیان کرتا تھا تو کہتا تھا کہ "بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے", کپلر کہا کرتا تھا" تم ان چیزوں کو فرض کر لو"۔۔۔ بخلاف اس کے تم لوگ کہتے ہو کہ"ہم ثابت کرتے ہیں۔۔ ہم باطل کرتے ہیں۔۔ یہ موجود ہے یہ معدوم ہے۔۔ علم نے یہ فیصلہ کر دیا ۔۔ علم نے یہ  ثابت کر دیا ہے۔" حالانکہ تمھارے ان دعووں میں علمی دلائل کی جھلک بھی نہیں ۔ تم اپنی حماقت سے دلیری کر کے علم پر اس قدر بڑا بار ڈال دیتے ہو جو باتیں تم کہتے ہواگر علم کے کان میں پڑ جائیں ( اور پڑنی ہی چاہیئں، تم کہ تم علم کے فرزند ہو) تو تمھاری حماقت پر اس کو بھی ہنسی آجائے گی۔ تم کہتے ہو کہ "علم مثبت ہے۔ نافی ہے۔ عامر ہے۔ناہی ہے" یہ باتیں کہہ کر غریب علم کے ہونٹوں پر ایسے بڑے بڑے بھاری الفاظ رکھ دیتے ہو جس سے ممکن ہے کہ اس کے دل میں غرور آ جائے ۔ عزیزو! علم ان مسائل میں سے نہ کسی کا اثبات کرتا ہے نہ انکار"۔
    یہ ہے ماہرین فن کی رائے لیکن بعض کم درجہ کے مادیین Materialist اپنی حد سے بڑھ کر نفی کا دعویٰ بھی کر بیٹھتے ہیں اور انہی کی طمع کاریاں ہیں جس نے ہمارے ملک کے نوجوانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے ، اس لئے ہم کو زیادہ غور و فکر سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ اپنے دعویٰ کس قسم کے دلائل قائم کرتے ہیں۔

    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment