لٹیرے اور لوٹ سیل

    لٹیرے اور لوٹ سیل۔۔۔۔تحریر: عباس ملک
    حکومت الیکشن کو ملتوی کرنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ حالات کو نامناسب قرار دیکر اور امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر الیکشن کے التواء کی خبریں اندرون خانہ گردش کر رہی ہیں۔ نیٹو اور ناٹوں دونوں کے مفادات کے مشترک ومماثل ہونے کے سبب اس خبر کے درست ہونے کے امکانات بھی ہوسکتے ہیں ۔نیٹو کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے بیساکھیوں کی ضرورت ہے موجودہ ان کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت سے بہرہ مند ہیں ۔امریکی مفادات کی نگہداشت میں سابقہ حکمرانوں سے بہتر کارکردگی کی بنیاد پر موجودہ کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس ٹھیکہ کو جاری رکھنے کی سبیل کی جائے ۔کاغذی کاروائی میں امریکہ کی مخالفت کیے بغیر چونکہ حب الوطنی مشکوک ہو جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ بیانات میں امریکہ مخالفت کے شعلے عوام کی دل کی بھڑاس نکالنے میں ممدد ہوتے ہیں ۔عوام کی حالت زار سے بے نیاز حکمران چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے ہر عمل کیلئے جوابدہی سے براعت حاصل ہو جائے ۔ وہ جوابدہی کے اس عمل سے نجات کیلئے عدلیہ سے آزادی چاہتے ہیں۔ایسے میں جب عوام لوڈشیڈنگ ، مہنگائی اور امن وامان کی تلاش میں ہیں حکمران سپریم کورٹ سے اپنے لئے استثناء حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ جو بھی کیا اور جیسے بھی کیا وہ صرف حکمرانوں کا استحقاق ہے ۔عوام کو کچھ نہ ملے لیکن حکمرانوں کی تجوریاں بھر جائیں اور انہیں اس کیلئے جوابدہ بھی نہ ہونا پڑے ۔پاکستان کی سرحدوں پر جو بیت جائے اس کی جوابدہی کیلئے حکمران نہیں بلکہ عوام ہیں کیونکہ انہوں نے انہیں مینڈیٹ دیا کہ وہ حکومت کریں ۔ حکومت کرنے کا مطلب حکومت کرنا ہے جبکہ بیوقوف لوگ اسے خدمت سے منسلک کرنے پر تل ہوئے ہیں ۔اگر خدمت کرنا ہوتی تو اس کے اور بہت سے طریقے ہیں لیکن مقصود حکمرانی ہے اور اس میں خدمت کا لفظ مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جیسا ہے ۔اس لفظ سے حکمرانوں کو بو آتی ہے ۔ کیا اتنی بڑی سرمایہ کاری خدمت گاڑی کیلئے کی جاتی ہے ۔کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو سرمایہ خدمت گذاری کیلئے لگائے ۔ سرمایہ تو خدمت کرانے کیلئے لگایا جاتا ہے ۔پروٹوکول کیلئے لگایا جاتا ہے ۔حکمرانی کا ذائقہ اس بدبودار لفظ سے خراب نہ کرنے والے حکمرانوں کو اس لفظ سے چڑ نہ ہو تو پھر کیا ہو گی ۔ان سے خدمت کرانے کیلئے دوہری شہریت کا ہونا ضروری ہے ۔ اگر چہ دوہری شہریت ضروری ہے لیکن اگر آپ دوہری شہریت جیسی صفات کے حامل ہیں تو بھی کام چل جائے گا۔ اسلام ، پاکستان ،مشرقی تہذیب و ثقافت کے اگر آپ دشنمن ہیں تو آپ ان کے دوست ہیں ۔ اب یہ خدمت کر کے خود کو سرخرو جانیں گے ۔ان کے نزدیک اسلام کی کوئی قدر نہیں البتہ ان کے لیے اسلامی سوشلزم ،اسلامک کیمونزم جیسی علتیں ان کو عزیز ہیں۔ یہ براہ راست مسلمان کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ قائد اعظم نے آئین کے دیباچہ میں(قرارداد مقاصد) اسلام کو شامل کر کے انہیں مجبور کر رکھا ہے کہ یہ اسلام سے اپنا ناظہ جوڑے بغیر یہ سب کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے ۔قائد اعظم ان کیلئے سیکولر تھے اور کچھ کے نزدیک وہ شیعہ بھی تھے لیکن ان کے تمام کام فقہ حنفیہ کے مطابق ہی سر انجام پائے ۔ہمیں نام اسلامی اور کام غیر اسلامی کر کے شاید یہ یقین ہے کہ ہم بخشے ہوئے ہیں ۔عوام اوراسلام کانام استعمال کر کے اپنے آپ کو عوام اور اسلام کی نمائیندگی کے لیے پیش کرنے والوں کے نامہ اعمال میں سوائے ان دونوں کے استحصال کے کچھ بھی نہیں ۔ایک دوسرے پر الزامات کی جو بارش چہار سو ہو رہی ہے اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کیلئے ہرگز کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آئین کے تحت عوامی نمائیندگی کیلئے امانت دیانت اور شرافت کے معیار پر کون پورا ہے اور کون اس کی زد میں آ کر عوامی نمائیندگی کا اہل نہیں ۔ یہاں جس کی ناجائز اولاد ہے وہ بھی اور جس نے ناجائز ذرائع سے اپنی اولاد کیلئے سوئس بینکوں کی تجوریاں بھر رکھی ہیں سب ہی عوامی نمائیندگی کے اہل ہیں۔ عدلیہ کی توہین کرنے والے اور توہین کرانے والے بھی آئین کے محافظ کا کردار اد ا کرنے کیلئے خود کو پیش کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ یہ سب لوگ اپنی ذات سے باہر دیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ مند نہیں ۔ اداروں میں ایسے افراد کی کثرت ہے جو سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مفادات اور ان کی ضروریات کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ترجیح کیوں نہ دیں کیونکہ ان کی نعیناتی میں ان کا پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے ۔ ان سے قرابت داری رشتہ داری اور مفادات کے رشتے مشترک ہیں۔ اٹارنی جنرل آئین اور قانون کا دفاع کرنے کی بجائے عدلیہ کو ہی روندنے کی کوشش کر تے ہیں ۔بابر اعوان جیسے لوگ عدلیہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی تقلید میں سیاسی اکابرین بھی عدلیہ کو بے نقط سنانے سے ہرگز گریز نہیں کرتے ۔ اس کی وجہ عدلیہ کا آئین کی محافظت کا فریضہ سرانجام دینا اور سیاسی اکابرین کی اجارہ داری اور آمریت کے اگے ڈٹ جانا ہے ۔انصاف کی کرسی پر متمکن شخصیات کو یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ کسی ایک کی بجائے سب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں ۔ اس وقت اکابرین کی صف میں کھڑے اکثریت سیاسی راہنما ایک دوسرے کا اصلی چہرہ سامنے لانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس سے یہ سیاسی گند صاف کرنے میں مدد لی جانی چاہیے ۔کس نے کہاں سے اور کیسے ککس بیکس کے زریعے دولت کمائی اور کس نے زکوۃ و صدقات کی رقوم کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ۔ سیاسی غازیوں کے سیاہ کارناموں کو ان کے اجلے لبادوں سے باہر لائے بغیر سیاست میں اخلاقیات روایات اور اقدار کی ترویج کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن ہے ۔دوہری شہریت کے بغیر بھی کون پاکستان اور پاکستانی عوام سے کولیشن کرنے کی بجائے غیرملکی ایجنڈے کو اولیت دیتا ہے ۔ کیا یہ پاکستان اور عوام کے مینڈیٹ کی توہین نہیں کہ حلف پاکستان اور آئین پاکستان کی وفاداری کا اٹھایا جائے اور اولیت کسی اور کو دی جائے ۔پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے سہولیات کی فراہمی کی بجائے اداروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے اور اداروں میں سیاسی بھرتیاں کر کے انہیں عوامی مقاصد سے دور کیا جائے ۔ایسے تمام افراد جو بڑے قومی اداروں کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ان کے ادوار میں ان اداروں کی ساکھ خراب ہوئی یا ان کو نقصان ہوا کی ذمہ داری ان سربراہان پر عائد کر کے ان کا احتساب کیا جائے ۔جب تک عدلیہ قانون اور آئین کی حکمرانی کو یقینی نہیں بناتی اور اس کیلئے وہ سب کو قانون اندھا ہوتاہے کے مصدق نہیں دیکھتی انقلاب کی باتیں بے معنی ہیں ۔قانون سب کیلئے برابر اور سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔صدر ہو یا گدا گر سب قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ہونے چاہیں ورنہ معاشرے میں عدم مساوات کی گنگا یونہی بہتی رہے گی ۔اس لوٹ سیل میں صدر اور اس کے حواریوں کو استثنا حاصل ہوا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے اس دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ سیاسی اکابرین کو سیاسی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کی دہلیز تک لانے کیلئے انہیں آمرانہ اقدامات ترک کرکے خود کو جمہوریت کا پاسدار دکھانا ہوگا۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی اور اس سے پھیلنے والی ممکنہ انارکی کو مفقود کرنے کیلئے ضرورت ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے معاشرے میں طبقہ اشرافیہ کی تخصیص اور گرفت ختم ہو ۔اس کیلئے عدلیہ کو بے لاگ فیصلے دینے ہونگے اور انتظار کرنے کی بجائے عوام اور جمہوریت کے غاضبوں کو اپنے شکنجے میں لینا ہوگا۔ فیصلے محفوظ کرنے اور مناسب وقت کے انتظار کی بجائے انہیں عام کرنا ضروری ہے ۔یہ لوٹ سیل اور لٹیرے اس وقت تک عوام پر راج کریں گے جب تک عدلیہ فیصلے محفوظ کرتی رہے گی ۔ عوامی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاکر دیکھیں تو محسوس ہوتا کہ پاکستان اور پاکستانی کس کرب سے گذر رہے ہیں۔ انہیں کس طرح ورغلایا جاتا ہے اور کس طرح انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ عدلیہ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ضمنی الیکشن تسلسل سے ہو رہے ہیں تو ایسے میں کوئی غیر آئینی اقدام الیکشن کے التوا کا سبب نہ ہونے پائے ۔ اس کی ذمہ داری عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر آئے گی۔ اس وقت عوام کے مفادات کی باگ ڈور عدلیہ کے ہاتھوں میں ہے اور عدلیہ اس کی حفاظت میں کس طرح کامیاب ہوتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے ۔

    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ


    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ

    0 تبصروں کی تعداد:

    Post a Comment