مغربی خواتین میں اسلام کی مقبولیت۔چندقابل غور پہلووں کا جائزہ

    مغرب کے حکمرانوں، پالیسی سازوں ،اُن کے ہم نوا دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کا ذمہ دار قرار دیے جانے کے زبردست پروپیگنڈے اور عورتوں کے لیے حجاب کی اسلامی تعلیم کے خلاف جارحانہ مہم جوئی کے باوجود۔۔جس میں نائن الیون واقعات کے بعدموجودہ صدی کے پہلے عشرے میں غیرمعمولی شدت رہی۔۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت بیشتر مغربی ملکوں میں قبول اسلام کے واقعات کی حیرت انگیز رفتار اور اس میں عورتوں کے تناسب کا مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہونا، اپنے اندر سوچ بچار کا بڑا سامان رکھتا ہے۔

    طالبان کی قید میں رہ کر اسلام سے متاثر ہونے والی برطانوی صحافی یوآن رِڈلے (Yuonne Ridley) اور افغانستان اور عراق پر حملے میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی خواہر نسبتی لارن بوتھ (Lauren Booth) جیسی نمایاں شخصیات سمیت ہزاروں مغربی عورتیں دس سال کے اسی عرصے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئی ہیں۔ مختلف مغربی ملکوں میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں، بعض رپورٹوں کے مطابق عورتوں کا تناسب مردوں سے چار گنا تک ہے حالانکہ ایک طرف عموماً مسلمان معاشروں


    کے اسلام سے دور ہونے کے سبب اُن میں ایسے رسوم و رواج اور طور طریقے عام ہیں جو عورتوں کے ساتھ ظلم اور بے انصافی پر مبنی ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے مغرب زدہ طبقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ مغربی تہذیب نے عورتوں کو آزادی اور مساوات کی نعمتوں سے ہم کنار کیا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات اُس پر ناروا پابندیاں عائد کرتی، اُس کے استحصال کا سبب بنتی اوریوں مسلمان معاشروں کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں لہٰذا اُن کی جانب سے مسلمان خواتین کو اُس مقام کے حصول کے لیے جدوجہد کی ہر ممکن ترغیب دی جاتی ہے جہاں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کے تحت چلنے والی آزادی نسواں کی تحریک نے مغرب کی عورت کوپہنچا دیا ہے۔
    اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں انتہائی بااثر قوتوں کی جانب سے اہل مغرب خصوصاً مغربی عورتوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی منظم کوششیں عروج پر ہیں ۔ اس کے باوجود مغربی ملکوں میں قبول اسلام کے سلسلے کا حیرت انگیز رفتار سے جاری رہنا جس میں عورتیں مردوں سے کہیں آگے ہیں، یقیناًمغربی دنیا اور عالم اسلام دونوں کے اہل فکر و نظر کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اس بارے میں وقتاً فوقتاًچونکا دینے والی رپورٹیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔مثلاً چارجنوری۲۰۱۱ء کو برطانوی روزنامہ انڈی پنڈنٹ میں’’برطانیہ کی اسلامی صورت گری:غیرمعمولی تعداد کا قبول اسلام‘‘The Islamification of Britain: record numbers embrace Muslim faith کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ’’پچھلے دس سال میں برطانیہ میں مسلمان ہونے والے انگریزوں کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کے باوجود کہ اسلام کو اکثر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، ہزاروں برطانوی ہر سال اسلام قبول کررہے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں بھاری اکثریت عورتوں کی ہے۔
    نائن الیون کے تقریباً ڈھائی سال بعد بائیس فروری۲۰۰۴ء کو سنڈے ٹائمز نے ’’اسلامی برطانیہ ممتاز افراد کو متاثر کررہا ہے‘‘ (Islamic Britain lures top people) کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ’’مغربی اقدار سے غیرمطمئن اور مایوس ہونے کے بعد چودہ ہزارگورے برطانویوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اوربرطانیہ کے کئی چوٹی کے لینڈ لارڈز، سیلی بریٹیز اورحکومت کی ممتاز شخصیتوں کی اولادیں مسلم عقیدے کے سخت اصول اپنا چکی ہیں۔‘‘
    برطانیہ ہی کی طرح امریکہ میں بھی قبول اسلام کا رجحان حیرت انگیز ہے اور تین امریکی اسکالروں کی ایک مشترکہ تحقیقی تصنیف میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں عورتوں کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جبکہ نائن الیون کے بعد ہر سال اوسطاً بیس ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں۔قبول اسلام کے رجحان میں یہ نمایاں اضافہ نائن الیون واقعات کے فوراً بعد رونما ہوا، جب اسلام کے بارے میں عمومی دلچسپی بڑھی ۔یہ عین اس وقت ہوا جب اس کے بالکل متضاد صورت حال زیادہ متوقع تھی۔ ان محققین کے مطابق، امریکیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد اسلام قبول کررہی ہے،جن میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب تقریباً ایک نسبت چار کا ہے۱۔
    کئی مغربی ملکوں میں مسجد کے میناروں اور مسلمان عورتوں کے حجاب ونقاب تک پر پابندی عائد کردیے جانے ، متعدد مغربی پارلیمانوں میں اس مقصد کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہونے اور اس زبردست پروپیگنڈے کے باوجود کہ اسلام عورتوں کو مردوں کا تابع مہمل بناتا اور ان کے حقوق کو پامال کرتا ہے، مغرب کی عورتیں اسلام کی جانب کیوں مائل ہورہی ہیں؟ یہ سوال یقیناًقابل غور ہے۔
    یہ صورت حال اس بناء پر اور بھی حیرت انگیز ہوجاتی ہے کہ خود مسلمان معاشروں کی اسلام سے دوری اور مقامی کلچر اور روایات کے اپنالیے جانے کی وجہ سے ان کے اندر جہیزکے جھگڑوں، غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، وٹہ سٹہ ، عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے، جائیداد کو خاندان سے باہر جانے سے روکنے کے لیے بیٹیوں کی شادی نہ کرنے بلکہ اس مقصد کے لیے قرآن سے شادی جیسے ڈھکوسلوں کے ایجاد کرلیے جانے، سسرالوں میں بہوؤں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے عام ہونے، اور شوہروں کی جانب سے بیویوں کے ساتھ حاکمانہ برتاؤ اور ذہنی و جسمانی تشدد کے روا رکھے جانے جیسے معاملات رواج پاگئے ہیں اور یوں یہاں بھی عورتیں بہت بڑی تعداد میں بے انصافی کا شکار ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس کے باوجود مغربی عورتوں میں اسلام کی مقبولیت مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے؟
    مشرف بہ اسلام ہونے والی مغربی خواتین کے بقول --جن میں سے چند کے بیانات اس کتاب میں مشتے نمونہ از خروارے شامل کیے گئے ہیں--اس صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصل ماخذوں یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کو اور اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے کو براہ راست سمجھ کر مسلمان ہوئی ہیں جبکہ مسلمان معاشروں کی خرابیوں کے بارے میں وہ یہ شعور رکھتی ہیں کہ وہ اسلام پر عمل کرنے کا نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔
    اس تناظر میں اس موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کہ -- مغربی عورتیں اسلام کو اس کے کن اوصاف کی بناء پر اپنا رہی ہیں اور مغربی تہذیب نے انہیں جو مقام دیا ہے ان کے اندر اس سے بیزاری کیوں بڑھ رہی ہے --یہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ اسلام اور مغربی تہذیب میں سے فی الحقیقت کون کرۂ ارض کی تقریباً نصف آبادی کے حقوق کا بہتر محافظ اور اس کے لیے باوقار زندگی کا ضامن ہے۔
    مغرب کے ارباب حل و عقد اور پالیسی ساز اس صورت حال پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں تو انہیں اپنے طرز حیات کے ان نقائص اور اسلام کے اُن اوصاف کا ادراک ہوسکتا ہے جواہل مغرب کو اپنی تہذیب اور نظام زندگی سے غیرمطمئن اور اسلام کی جانب مائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اِن خامیوں کے ازالے کی تدابیر بھی سوچ سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اسلام کا مطالعہ کرکے اس سے استفادہ کرنے پر بھی غور کرسکتے ہیں۔جبکہ اس صورت حال کا جائزہ مسلمانوں کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچانے ،ا ن کے اندر اسلام کی نعمت عظمیٰ کی قدر وقیمت کا حقیقی احساس اُجاگر کرنے اور غیرمسلم دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے بحیثیت خیر امت اپنے فرض منصبی کا شعور پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
    اہل مغرب کے قبول اسلام کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ عیسائیت قبول کرنے اور مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانے والے مسلمان کتنی بڑی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
    بلا شبہ یہ درست ہے کہ عیسائی مشنریوں کے کام کے نتیجے میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں عیسائیت قبول کی ہے ، لیکن شاید ہی کہیں اس کا سبب اسلام کے مقابلے میں موجودہ عیسائیت کی تعلیمات کو زیادہ معقول اور منطقی باور کرنا ہو۔ عیسائی مشنریوں نے عام طور پر دنیا کے مختلف علاقوں میں قدرتی آفات اور دیگر اسباب سے شدید غربت اور افلاس میں مبتلا مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے کی صورت میں روزگار اور دوسرے مفادات کی ترغیب دے کر اسلام ترک کرنے پر آمادہ کیا ہے، جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانا اس لیے کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ مغربی تہذیب دنیاوی اعتبار سے وقت کی غالب تہذیب ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں اس کی بے پناہ ترقی نے ذہنوں پر اس کا رعب و دبدبہ طاری کررکھا ہے اور اسے اپناکر بہت سی دنیاوی آسائشیں اور مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
    حیرت انگیز اور انتہائی قابل غور بات تو یہ ہے کہ ایسی عالمی صورت حال میں جب دنیا میں مسلمان عددی طور پر ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر صدیوں سے بالکل بے وقعت اور بے وزن ہیں، مغربی طاقتوں نے انہیں دنیا کے مختلف حصوں میں کھلی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے، ان کی قیادتیں بالعموم مغربی طاقتوں کی آلہ کار اور کاسہ لیس ہیں، دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلمان انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں، اس کے باوجود ان کا دین مغرب کی انتہاتی ترقی یافتہ اور طاقتور اقوام کے مرد وزن میں تعجب خیز حد تک مقبول ہورہا ہے تو اس کے اصل اسباب کیا ہیں؟ اسلام اپنے کن خصائص کی بناء پر مسلمانوں کی تمام تر پستی اور پسماندگی کے باوجود اہل مغرب کے دل جیت رہاہے؟ اور یہ کہ کیا اسلام انسانیت کے اتحاد و یکجہتی اور پوری انسانی دنیا کی اجتماعی ترقی اور خوش حالی میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوسکتا ہے تو کس طرح؟
    ***ثروت جمال اصعی کی کتاب "عورت،مغرب اور اسلام" سے ایک باب****
    گوگل پلس پر شئیر کریں

    Unknown

      بذریعہ جی میل تبصرہ
      بذریعہ فیس بک تبصرہ